امیر المومنین حضرت عمر فاروق اعظم ؓیوم شہادت پر خصوصی تحریر

 حقیقت میں کمال و خوبی والا وہ شخص ہے جو دوسروں کو بھی کمال و خوبی والا بنا دے تو ہمارے آقا و مولیٰ جناب احمد مجتبیٰ محمد مصطفیﷺ حقیقت میں کمال و خوبی والے ہیں جنہوں نے بے شمار لوگوں کو کمال و خوبی والا بنا دیا اور ان کا یہ فیض ہمیشہ جاری رہے گا کہ قیامت تک اپنے جاں نثاروں کو کمال و خوبی والا بناتے رہیں گے اور پیارے مصطفی ﷺ نے جن لوگوں کو کمال و خوبی والا بنایا ان میں سے ایک مشہور صحابی رسول خلیفۂ دوم امیر المومنین حضرت سیّدنا عمر فاروق اعظم ؓہیں کہ جو افضل البشر بعد الانبیاء حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے بعد خلیفۂ دوم ہیں۔نام و نسب:آپ کا نام عمر ؓہے۔ کنیت ابوحفص اور لقب فاروق اعظم ہے۔ آپ کے والد کا نام خطاب اور ماں کا نام عئتمہ ہے۔ جو ہشام بن مغیرہ کی بیٹی یعنی ابوجہل کی بہن ہیں۔ آٹھویں پشت میں آپ کا شجرہ نسب سرکار اقدس ﷺکے خاندانی شجرہ سے ملتا ہے۔ آپ واقعۂ فیل کے تیرہ سال بعد پیدا ہوئے۔ نبوت کے چھٹے سال ستائیس برس کی عمر میں مشرف بااسلام ہوئے۔ آپ نے اس وقت اسلام قبول فرمایا جبکہ چالیس مرد اور گیارہ عورتیں ایمان لا چکی تھیں اور بعض علماء کا خیال ہے کہ آپ نے انتالیس مرد اور تئیس عورتوں کے بعد اسلام قبول کیا۔ (تاریخ الخلفاء)ترمذی شریف کی حدیث ہے کہ سرکار اقدس ﷺفرماتے تھے یا الٰہ العالمین عمر بن خطاب اور ابوجہل بن ہشام میں سے جو تجھے پیارا ہو اس سے تو اسلام کو عزت عطا فرما اور حکم کی روایت میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺنے اس طرح دُعا فرمائی۔ یعنی یا اﷲ! خاص طور پر عمر بن خطاب کو مسلمان بنا کر اسلام کو عزت و قوت عطا فرما۔ تو اﷲ کے محبوب ﷺ کی یہ دُعا بارگاہِ الٰہی میں مقبول ہو گئی اور حضرت عمر ؓ اسلام سے مشرف ہو گئے۔ آپ کے قبول اسلام کا واقعہ: دن بدن مسلمانوں کی تعداد بڑھتے ہوئے دیکھ کر ایک روز کفار مکہ جمع ہوئے اور سب نے یہ طے کیا کہ محمد ﷺکو قتل کر دیا جائے۔ معاذ اللّٰہ۔ مگر سوال پیدا ہوا کہ کون قتل کرے مجمع میں اعلان ہوا کہ ہے کوئی بہادر جو محمد ﷺکو قتل کرے۔ اس اعلان پر پورا مجمع تو خاموش رہا مگر حضرت عمر ؓنے کہا کہ میں ان کو قتل کروں گا۔ لوگوں نے کہا بیشک تم ہی ان کو قتل کر سکتے ہو۔ پھر حضرت عمرؓ اُٹھے اور تلوار لٹکائے ہوئے چل دیے۔ اسی خیال میں جا رہے تھے کہ ایک صاحب قبیلہ زہرہ کے جن کا نام حضرت نعیم بن عبد اﷲؓ بتایا جاتا ہے اور بعض لوگوں نے دوسروں کا نام لکھا ہے۔ بہرحال انہوں نے پوچھا کہ اے عمر! کہاں جا رہے ہو؟ کہا کہ محمد ﷺکو قتل کرنے جا رہا ہوں۔ حضرت نعیم ؓنے کہا کہ اس قتل کے بعد تم بنی ہاشم اور بنی زہرہ سے کس طرح بچ سکو گے۔ وہ تمہیں ان کے بدلے میں قتل کر دیں گے۔ اس بات کو سن کر وہ بگڑ گئے اور کہنے لگے۔ معلوم ہوتا ہے کہ تم نے بھی اپنے باپ دادا کا دین چھوڑ دیا ہے۔ تو لاؤ میں پہلے تجھی کو نپٹا دوں۔ یہ کہہ کر تلوار کھینچ لی اور حضرت نعیمؓ نے بھی یہ کہا کہ ہاں میں مسلمان ہو گیا ہوں اپنی تلوار سنبھالی۔ عنقریب دونوں طرف سے تلوار چلنے کو تھی کہ حضرت نعیم ؓ نے کہا تو پہلے اپنے گھر کی خبر لے تیری بہن فاطمہ بنت خطاب اور بہنوئی سعید بن زید دونوں اپنے باپ دادا کا دین چھوڑ کر مسلمان ہو چکے ہیں۔ یہ سن کر حضرت عمر ؓ کو بے انتہا غصہ پیدا ہوا اور وہیں سے پلٹ پڑے اور سیدھے اپنی بہن کے گھر پہنچے۔ وہاں حضرت خباب ؓدروازہ بند کئے ہوئے ان دونوں میاں بیوی کو قرآن پاک پڑھا رہے تھے۔ حضرت عمر ؓنے دروازہ کھولنے کے لئے کہا۔ ان کی آواز سن کر حضرت خباب ؓ گھر کے ایک حصہ میں چھپ گئے بہن نے دروازہ کھولا۔ آپ گھر میں داخل ہوئے اور پوچھا کہ تم لوگ کیا کر رہے تھے؟ اور یہ آواز کس کی تھی؟ آپ کے بہنوئی نے ٹال دیا اور کوئی واضح جواب نہ دیا۔ کہنے لگے کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم لوگوں نے اپنے باپ دادا کا دین چھوڑ کر دوسرا دین اختیار کر لیا ہے بہنوئی نے کہا ماں باپ دادا کا دین باطل ہے اور دوسرا دین حق ہے۔ یہ سننا تھا کہ بے تحاشا ٹوٹ پڑے ان کی داڑھی پکڑ کر کھینچی اور زمین پر پٹک کر خوب مارا۔ ان کی بہن چھڑانے کے لئے دوڑیں تو ان کے منہ پر ایک گھونسا اتنی زور سے مارا کہ وہ خون سے تربتر ہو گئیں۔ آخر وہ بھی حضرت عمرؓ ہی کی بہن تھیں کہنے لگیں کہ عمر ہم کو اس وجہ سے مار رہے ہو کہ ہم مسلمان ہو گئے ہیں۔ کان کھول کر سن لو کہ تم مار مار کر ہمارے خون کا ایک ایک قطرہ نکال لو یہ ہو سکتا ہے لیکن ہمارے دل سے ایمان نکال لو یہ ہرگز نہیں ہو سکتا اور آپ کی بہن نے کہا کہ میں گواہی دیتی ہوں کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اﷲ تعالیٰ کے بندے ہیں اور اس کے رسول ہیں۔ بیشک ہم لوگ مسلمان ہو گئے ہیں تجھ سے جو ہو سکے تو کر لے بہن کے جواب اور ان کو خون سے تربتر دیکھ کر حضرت عمرؓ کا غصہ ٹھنڈا ہو گیا۔ آپ ؓنے فرمایا کہ اچھا مجھے وہ کتاب دو جو تم لوگ پڑھ رہے تھے تاکہ میں بھی اس کو پڑھوں۔ آپ کی بہن نے کہا کہ تم ناپاک ہو اور اس مقدس کتاب کو پاک لوگ ہی ہاتھ لگا سکتے ہیں۔ حضرت عمر ؓنے ہر چند اصرار کیا مگر وہ بغیر غسل کے دینے کو تیار نہ ہوئیں۔ آخرکار حضرت عمر ؓنے غسل کیا پھر کتاب لے کر پڑھی۔ قرآن پاک کی سورۂ طٰہ پڑھنا شروع کیا۔ جس وقت اس آیت کریمہ پر پہنچے۔ یعنی بے شک میں اﷲ ہوں۔ میرے علاوہ کوئی معبود نہیں۔ تو میری عبادت کرو اور میری یاد کے لئے نماز قائم کرو۔ (پ ۱۶ ع ۱۰) تو حضرت عمر ؓکہنے لگے کہ مجھے محمد ﷺ کی خدمت میں لے چلو۔جس وقت حضرت خباب ؓ نے یہ بات سنی تو آپ باہر نکل آئے اور کہا کہ اے عمر! میں تم کو خوشخبری دیتا ہوں کہ کل جمعرات کی شب میں سرکار اقدس ﷺنے دُعا مانگی تھی کہ یا اﷲ العالمین! عمرو اور ابوجہل میں جو تجھے محبوب و پیارا ہو اس سے اسلام کو قوت عطا فرمایا۔ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اﷲ کی دُعا تمہارے حق میں قبول ہو گئی۔رسول اکرم ﷺ اس وقت صفا پہاڑی کے قریب حضرت ارقم ؓ کے مکان میں تشریف فرما تھے۔ حضرت خباب ؓ آپ کو ساتھ لے کر رسول خدا ﷺکی خدمت میں حاضر ہونے کے ارادہ سے چلے۔ حضرت ارقم ؓ کے دروازہ پر حضرت حمزہ، حضرت طلحہ اور کچھ دوسرے صحابۂ کرام رضوان اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین حفاظت اور نگرانی کے لئے بیٹھے ہوئے تھے۔ حضرت حمزہ ؓ نے آپ کو دیکھ کر فرمایا کہ عمر آ رہے ہیں۔اگر اﷲ تعالیٰ کو ان کی بھلائی منظور ہے تب تو یہ میرے ہاتھ سے بچ جائیں گے اور اگر ان کی نیت کچھ اور ہے تو اس وقت ان کا قتل کرنا بہت آسان ہے۔ اسی دوران میں آقائے دو عالم ﷺپر ان حالات کے بارے میں وحی نازل ہو چکی تھی سرکار اقدس ﷺ نے مکان سے باہر تشریف لا کر حضرت عمر h کا دامن اور ان کی تلوار پکڑ لی اور فرمایا اے عمر! کیا یہ فساد تم اس وقت تک برپا کرتے رہو گے جب تک کہ تم پر ذلت و رسوائی مسلط نہ ہو جائے۔ یہ سنتے ہی حضرت عمر ﷺنے کہا اَشْہَدُ اَنْ لَا ٓ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَانَّکَ عَبْدُ اللّٰہِ وَرَسُوْلَہٗ۔ یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اﷲ تعالیٰ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ (تاریخ الخلفاء)

اس طرح اﷲ کے محبوب پیارے مصطفی ﷺ کی دُعا حضرت عمر h کے حق میں مقبول ہوئی۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا علیہ الرحمہ فرماتے ہیں۔
اجابت کا سہرا عنایت کا جوڑا
دلہن بن کے نکلی دُعائے محمدﷺ

اس واقعہ سے یہ بات واضح طور پر معلوم ہوئی کہ اسلام بزور شمشیر نہیں پھیلا۔ دیکھئے اسلام قبول کرنے والے کے ہاتھ میں تلوار ہے اور اسلام پھیلانے والے کا ہاتھ تلوار سے خالی ہے۔فاروق کا لقب:حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں کہ جب میں کلمۂ شہادت پڑھ کر مسلمان ہو گیا تو میرے اسلام قبول کرنے کی خوشی میں اس وقت جتنے مسلمان حضرت ارقم ؓ کے گھر میں موجود تھے انہوں نے اتنی زور سے نعرۂ تکبیر بلند کیا کہ اس کو مکہ کے سب لوگوں نے سنا۔ میں نے رسول خدا ﷺسے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ! کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟ حضور نے فرمایا کیوں نہیں؟ یعنی بیشک ہم حق پر ہیں۔ اس پر میں نے عرض کیا پھر یہ پوشیدگی اور پردہ کیوں ہے؟ اس کے بعد ہم سب مسلمان اس گھر سے دو صفیں بنا کر نکلے۔ ایک صف میں حضرت حمزہ ؓ تھے اور دوسری صف میں تھا اور اسی طرح ہم سب صفوں کی شکل میں مسجد حرام میں داخل ہوئے۔ کفار قریش نے مجھے اور حضرت حمزہ ؓ کو جب مسلمانوں کے گروہ کے ساتھ دیکھا تو ان کو بے انتہا ملال ہوا۔ اس روز سرکار اقدس ﷺ نے حضرت عمر ؓ کو فاروق کا لقب عطا فرمایا۔ اس لئے کہ اسلام ظاہر ہو گیا اور حق و باطل کے درمیان فرق واضح ہو گیا۔ (تاریخ الخلفاء )اظہارِ اسلام:حضرت عمر فاروق اعظم ؓ فرماتے ہیں کہ جب میں مسلمان ہو گیا تو اس کے بعد اپنے ماموں ابوجہل بن ہشام کے پاس پہنچا۔ ابوجہل خاندان قریش میں بہت بااثر سمجھا جاتا تھا اور اس کو بھی رئیس قریش کی حیثیت حاصل تھی میں نے اس کے دروازہ کی کنڈی کھٹکھٹائی۔ اس نے اندر سے پوچھا کون ہے؟ میں نے کہا میں عمر ہوں اور میں تمہارا دین چھوڑ کر مسلمان ہو گیا ہوں۔ اس نے کہا عمر! ایسا کبھی مت کرنا مگر میرے ڈر کے سبب باہر نہیں نکلا بلکہ اندر سے دروازہ بند کر لیا۔ میں نے کہا یہ کیا طریقہ ہے؟ مگر اس نے کوئی جواب نہ دیا اور نہ دروازہ کھولا۔ میں اسی طرح دیر تک باہر کھڑا رہا۔ پھر وہاں سے قریش کے ایک دوسرے سردار اور بااثر شخص کے پاس پہنچا میں نے اس کو پکارا۔ وہ نکلا تو جو بات میں نے اپنے ماموں ابو جہل سے کہی تھی کہ میں مسلمان ہو گیا ہوں۔ وہی بات اسے بھی کہی تو اس نے بھی کہا کہ ایسا مت کرنا۔ پھر میرے خوف سے گھر کے اندر داخل ہو کر دروازہ بند کر لیا میں نے اپنے دل میں کہایہ کیا معاملہ ہے کہ مسلمان مارے جاتے ہیں اور میں نہیں مارا جاتا ہوں کوئی مجھ سے کچھ تعارض نہیں کرتامیری یہ باتیں سن کر ایک شخص نے کہا تم اپنا اسلام اور اپنا دین اس طرح ظاہر کرنا چاہتے ہو۔ میں نے کہا کہ ہاں میں اسی طرح ظاہر کروں گا۔ اس نے کہا وہ دیکھو پتھر کے پاس کچھ لوگ بیٹھے ہوئے ہیں۔ ان میں فلاں شخص ایسا ہے کہ اگر اسے تم کچھ راز کی بات کہو تو وہ فوراً اعلان کر دے گا۔ اس سے اپنے اسلام لانے کا واقعہ بیان کر دو ہر جگہ خبر ہو جائے گی۔ ایک ایک آدمی کے گھر جانے کی ضرورت نہیں۔ میں وہاں پہنچا اور اس سے اپنے اسلام قبول کرنے کو ظاہر کیا۔ اس نے کہا کیا واقعی تم مسلمان ہو چکے ہو۔ میں نے کہا ہاں بیشک میں مسلمان ہو چکا ہوں۔ یہ سنتے ہی اس نے بلند آواز سے اعلان کیا کہ اے لوگو! عمر بن خطاب ہمارے دین سے نکل گیا۔ یہ سنتے ہی اِدھر اُدھر جو مشرکین بیٹھے ہوئے تھے مجھ پر ٹوٹ پڑے۔ پھر دیر تک مار پیٹ ہوتی رہی شوروغل کی آواز میرے ماموں ابوجہل نے سنی۔ اس نے پوچھا کیا معاملہ ہے؟ لوگوں نے کہا کہ عمر مسلمان ہو گیا ہے۔ میرا ماموں ابوجہل ایک پتھر پر چڑھا اور لوگوں سے کہا میں نے اپنے بھانجے کو پناہ دے دی۔ یہ سنتے ہی جو لوگ مجھ پر الجھ رہے تھے الگ ہو گئے مگر یہ بات مجھے بہت ناگوار گزری کہ دوسرے مسلمانوں سے مار پیٹ ہو اور مجھ کو پناہ دے دی جائے میں ابوجہل کے پاس پھر پہنچا اور کہا تیری پناہ میں تجھے واپس کرتا ہوں۔ مجھے تیری پناہ کی ضرورت نہیں پھر کچھ دنوں تک مار پیٹ کا سلسلہ جاری رہایہاں تک کہ خدا تعالیٰ نے اسلام کو غلبہ عطا فرمایا۔

اور حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ جس نے سب سے پہلے اپنا اسلام علی الاعلان ظاہر کیا وہ حضرت عمر فاروق اعظم ؓہیں۔ اور حضرت صہیب ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ جب حضرت عمر ؓ ایمان لائے تب اسلام ظاہر ہوا۔ یعنی اس سے پہلے لوگ اپنا اسلام قبول کرنا ظاہر نہیں کرتے تھے۔ ان کے ایمان لانے کے بعد لوگوں کو اسلام کی طرف کھلم کھلا بلایا جانے لگا اور ہم بیت اﷲ شریف کے پاس مجلسیں قائم کرنے، اس کا علانیہ طواف کرنے، کافروں سے بدلہ لینے اور ان کا جواب دینے کے قابل ہو گئے۔

آپ کی ہجرت:حضرت عمر فاروق اعظم ؓکی ہجرت بھی بے مثال ہے۔ حضرت علی ؓفرماتے ہیں کہ میں حضرت عمر فاروق ؓ کے علاوہ کسی ایسے شخص کو نہیں جانتا جس نے علانیہ ہجرت کی ہو۔ جب حضرت عمر ؓ ہجرت کی نیت سے نکلے تو آپ نے اپنی تلوار گلے میں لٹکائی اور کمان کندھے پر اور ترکش سے تیر نکال کر ہاتھ میں لے لیا پھر بیت اﷲ شریف کے پاس حاضر ہوئے۔ وہاں بہت سے لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ ؓنے اطمینان سے کعبہ شریف کا طواف کیا پھر بہت اطمینان سے مقام ابراہیم کے پاس دو رکعت نماز پڑھی۔ پھر اشراف قریش کی جماعت کے پاس آ کر ایک ایک شخص سے الگ الگ فرمایا۔ تم لوگوں کے چہرے بدشکل ہو جائیں بگڑ جائیں اور تمہارا ناس ہو جائے۔ اس کے بعد فرمایا جو شخص اپنی ماں کو بے اولاد اپنے بچوں کو یتیم اور اپنی بیوی کو بیوہ بنانے کا ارادہ رکھتا ہو تو وہ اس وادی کے اس طرف آ کر میرا مقابلہ کر لے۔ آپ کے اس طرح للکارنے کے باوجود ان اشراف قریش میں سے کسی مائی کے لال کی ہمت نہ ہوئی کہ وہ آپ کا پیچھا کرتا۔
Hafiz Ishaq Jilani
About the Author: Hafiz Ishaq Jilani Read More Articles by Hafiz Ishaq Jilani: 19 Articles with 19327 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.