لودہراں پنجاب کے ان بارہ اضلاع
میں شامل ہے جن میں پہلے مرحلے کے بلدیاتی الیکشن 31اکتوبر کو ہونے جارہے
ہیں۔
بلدیاتی الیکشن امیدواروں کو انتخابی نشان الاٹ حتمی فہرست جاری کردی ہے جس
کے مطابق لودھراں کے جنرل الیکشن میں ضلع بھر میں 1 چیئرمین اور1 وائس
چیئرمین 4میونسپل کمیٹی او 56کونسلرزکو بلامقابلہ کامیاب قرار دے دیا گیا
ہے جبکہ 62میونسپل کمیٹی کے34چئیرمین، 154یونین کونسلز کے ممبران نے کاغذات
نامزدگی واپس لئے ۔جاری کردہ حتمی لسٹ کے مطابق بلدیاتی الیکشن میں70 وارڈ
اور 70یونین کونسلز میں 238چیئرمین ،1119یونین کونسل ممبر ،279 میونسپل
کمیٹی کے امیدوار حصہ لے رہے ہیں۔بلدیاتی الیکشن کے لئے کل 576 پولنگ
اسٹیشن بنائے گئے ہیں جن میں 43مردوں 43خواتین جبکہ 490مشترکہ پولنگ اسٹیشن
بنادیئے گئے ہیں ۔بلدیاتی الیکشن کیلئے 817446 ووٹرز اپنا حق رائے دہی
استعمال کریں گے جن میں 453723مرد اور363723 خواتین شامل ہیں۔ضلع کی 70
یونین کونسل میں 70 چئیرمین 70 وائس چئیرمین کے عہدوں پر 238 امیدوار جبکہ
ان 70 یونین کونسلز میں 420 جنرل ممبر کے عہدوں پر 1119 امیدوار میدان میں
ہیں۔ضلع لودہراں کی تینوں تحصیلوں کے 70وارڈ میں 70 میونسپل کمیٹی کے جنرل
ممبر کے عہدوں پر 279 امیدوار پنجہ آزمائی کریں گے۔الیکشن میں مسلم لیگ ن ،
پاکستان تحریک انصاف،پاکستان پیپلز پارٹی ،پاکستان عوامی تحریک ، جماعت
اسلامی ، اور آزاد امیدوار میدان میں ہیں اور31اکتوبر کو بلدیاتی الیکشن کا
میدان سجے گا اور مقابلہ ہو گا۔ ۔۔۔
ضلع بھر میں 31 اکتوبر کو ہونے والے بلدیاتی الیکشن کے لئے کل 576 پولنگ
اسٹیشن بنائے گئے ہیں جن میں 43 مردوں کے ،43 عورتوں کے اور 490 خواتین اور
مردوں کے لئے مشترکہ پولنگ اسٹیشن ترتیب دئیے گئے ہیں 31 اکتوبر کو 817446
ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے جن میں 453723مرد اور363723 رجسٹرڈ
خواتین شامل ہیں۔ضلع کی 70 یونین کونسل میں 70 چئیرمین 70 وائس چئیرمین کے
عہدوں پر 238 امیدوار جبکہ ان 70 یونین کونسلز میں 420 جنرل ممبر کے عہدوں
پر 1119 امیدوار میدان میں ہیں۔ضلع لودہراں کی تینوں تحصیلوں کے 70وارڈ میں
70 میونسپل کمیٹی کے جنرل ممبر کے عہدوں پر 279 امیدوار پنجہ آزمائی کریں
گے۔
2001ء تک لودہراں کی سیاست صرف اور صرف 2001ء میں کہروڑ پکا میں ایک
انتخابی جلسہ کے دوران قتل ہونے والے سابق وفاقی وزیر صدیق خان کانجو کیی
مٹھی میں بند تھی لیکن ان کے قتل کے بعد لودہراں کی سیاست کی رہنمائی کے
امیدوار وں میں صدیق خان کانجو کے پرانے ساتھی تھے مگر صدیق خان کانجو
گھرانہ اور صدیق بلوچ لودہراں کی سیاست کو کسی کے ہاتھ دینے کی بجائے اپنے
ساتھیوں کی مشاورت سے شہید کانجو گروپ بنایا اور اس کی باگ دوڑ صدیق خان
کانجو کے بیٹے عبدالرحمن کانجو کو سونپی اور عبدالرحمن کانجو نے اپنے والد
کے نقش قدم پر چلتے ہوئے کامیابی سے کئی منزلیں طے کیں اور 2001 سے 2013تک
کے الیکشنز میں واضح برتری حاصل کی خواہ وہ وفاقی،صوبائی یا پھر بلدیاتی
الیکشن ہوں تمام الیکشن میں ضلع لودہراں میں میدان ماراق اور واضح کامیابی
حاصل کی۔اور بعض دفعہ تو آذاد حثیت میں حکومتی امیدواروں اور مضبوط
امیدواروں کو اپنے والد کی طرح بڑی شکست سے دو چار کرتے رہے اور گذشتہ
2013ء کے جنرل الیکشن میں ملک کی دونوں بڑی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ ن اور
پاکستان پیپلز پارٹی کے مضبوط امیدواروں کو شکست دیتے ہوئے دو ایم این اے
اور پانچ ایم این کی سیٹس پر کلین سویپ کیا اور پاکستان مسلم لیگ ن میں
شمولیت اختیار کر لی۔ اورلودہراں کی سیاسی تاریخ اس بات کی گواہی دیتی نظر
آتی ہے کہ لودہراں میں سیاسی کامیابی اسی امیدوار کو واضح ملی ہے جس کو
شہید کانجو گروپ کی حمائت ملی ہو۔ اس حمائت پر کامیاب ہونے والوں میں آج کی
سیاست کے اہم نام اختر خان کانجو اور نواب امان اﷲ خان بھی شامل ہیں۔دوسری
جانب لودہراں میں پیپلز پارٹی بھی کل تک ایک اہم موام رکھتی تھی اور پیپلز
پارٹی کی باگ دوڑ 25سال سابق وفاقی وزیر مرزا ناصر بیگ نے سنبھالے رکھی اور
ضلعی صدر بھی رہے۔مگر پیپلز پارٹی کے ساتھ رفاقت 37سال کی ہے۔2008ء سے
2013ء تک حکمرانی کا تاج پہننے والی جماعت پیپلز پارٹی کو 2013ء کے بعد
اندرونی اختلافات کا شدید سامنا رہا ہے اور جیالوں کو نظر انداز کرنے کی
عادت سے پارٹی کمزور سے کمزور ترین ہوتی نظر آتی ہے اور پنجاب میں اپنا
وجود تقریباََ کھو چکی ہے اور بالکل اسی طرح لودہراں میں بھیپیپلز پارٹی کو
وجود 2015ء کے بلدیاتی الیکشن میں کہیں بھی خاص نظر نہیں آتا اور 37سال سے
پیپلز پارٹٰ کے کارکن، 25سال ضلعی صدر اور بی بی کے بھائی کی حثیت سے رہنے
والے مرزا ناصر بیگ نے بھی پیپلز پارٹی کو خیر باد کہتے ہوئے اقرار کیا کہ
پیپلز پارٹی اب نہ تو نظریاتی پارٹی ہے اور نہ ہی ذوالفقار بھٹو کے منشور
کے مطابق چل رہی ہے اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پارٹی کا
نظریہ روٹی کپڑا اور مکان دفن ہو چکا ہے اور سابق وفاقی وزیر اور ضلعی صدر
مرزا ناصر بیگ نے اپنے ساتھیوں سمیت مقامی مظبوط گروپ شہید کانجوگروپ اور
پاکستان مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کر لی۔ان کے جانے کے بعد پیپلز پارٹی
کی باگ دوڑ رانا ممتاز نون اور عبدالمجید آرائیں نے سنبھالی مگر صرف خانہ
داری پوری ہوتی ہوئی نظر آتی ہے۔اور اب بلدیاتی الیکشن میں ووٹرز اور
رہنماء تقریباََ شہید کانجو گروپ ،مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف میں
شامل ہو چکے ہیں اور پورے ضلع میں صرف چند یونین کونسلز میں پیپلز پارٹی کے
امیدوار میدان میں ہیں۔2013ء سے پہلے رحیم یار خان کی سیاست میں اور ترقی
میں اہم کردار ادا کرنے والے اہم کاروباری شخصیت جہانگیر ترین نے اہم کردار
ادا کیا مگر اس دور میں ان کا ساتھ مخدوم خاندان نے دیا اور سید احمد محمود
نے ان کی کامیابی کے لئے کردار ادا کیا اور پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت
کے بعد2013ء کے جنرل الیکشن میں لودہراں سے حصہ لینے کا فیصلہ کیا اور
لودہراں کے این اے 154سے ایم این اے کا الیکشن لڑا مگر یہ الیکشن ان کے مد
مقابل اور اایک مضبوط سیاسی ماضی رکھنے والے صدیق بلوچ نے جیت لیا جس کے
بعد جہانگیر ترین نے الیکشن کمیشن کے نتائج کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے
دھاندلی کا الزام لگایا اور یاد رہے کہ لودہراں کا یہ حلقہ ان چار حلقوں
میں شامل تھا جن کی خاطر پاکستان تحریک انصاف نیاسلام آباد میں 126دن کا
دھرنا دیا۔ جہانگیر ترین نے قانونی جنگ بھی جاری رکھی جس میں کبھی جہانگیر
ترین کو اور کبھی صدیق بلوچ کو جیت ملتی رہی۔اور یہ قانونی جنگ ابھی جاری
ہے اور سپریم کورٹ کے حکم امتناہی پر صدیق بلوچ کی ایم این اے کی رکنیت بھی
بحال ہے۔یہ حکم امتناہی بلدیاتی الیکشن سے چند دن پہلے جاری کیا گیا ہے اور
اب این اے154میں صدیق بلوچ اپنے گروپ کو جیتوانے کے لئے دن رات کوشاں ہے اس
کے لئے صدیق بلوچ کو حکومتی حمائت بھی حاصل ہے۔صدیق بلوچ اور مسلم لیگ ن کا
مقا بلہ کرنے اور شکست دینے کے لئے پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما
جہانگیر ترین نے مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چند سابق سیاسی
رہنماؤں کی حمائت حاصل کرنے اورپاکستان تحریک انصاف میں شامل کرنے میں
کامیاب ہوئے ہیں اور لودہراں کی سیاست میں ایک نیا موڑ دیا ہے۔مگر حالیہ
بلدیاتی الیکشن میں لودہراں میں پاکستان تحریک انصاف مکمل طور پر اپنے
امیدوار میدان میں لانے میں ناکام رہی ہے۔اور تحصیل لودہراں جہاں جہانگیر
ترین کو 2013ء کے جنرل الیکشن میں 28000سے زیادہ ووٹ ملے وہاں پاکستان
تحریک انصاف اپنے امیدوار میدان میں لانے میں واضح ناکام رہی ہے اور ووٹ
بنک بھی کھو چکی ہے۔لودہراں کی سیاست دلچسپ مگر دھڑوں میں نظر آتی ہے
کیونکہ لودہراں میں قومی سیاسی پارٹیوں کے ساتھ ساتھ آزاد امیدوار بھی ہیں
ا ور مسلم لیگ ن کے سابق ناراض کارکنان تحریک انصاف کے ساتھ اورمسلم لیگ ن
کے ساتھ بھی نظر آتے ہیں اور لودہراں کے مظبوط مقامی گروپ شہید کانجو گروپ
کے کارکنان اپنے گروپ کو اور مسلم لیگ ن کو بھی سنبھال رہے ہیں اور پیپلز
پارٹی کے ووٹررز قائدین کی طرح مختلف پارٹیوں میں شمولیت اختیار کر چکے ہیں
اور زیادہ تر کا رجحان تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن کی طرف ہی ہے۔ اس کے
ساتھ ساتھ پاکستان عوامی تحریک اور جماعت اسلامی کچھ خاص حرکت میں نظر نہیں
آتے ۔لہذا مقابلہ واضح طور پر مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف کے مابین
ہو گا اور دونوں پارٹیز ایک دوسرے کو ٹف ٹائم دینے کے لئے دن رات کوشاں ہیں
اور دعوے وعدے کئے جا رہے ہیں اور حریفوں پر روائتی الزام تراشی بھی نظر
آتی ہے۔اس سے پہلے این اے154 کے ضمنی الیکشن ملتوی ہونے کے بعد صدیق بلوچ
اور جہانگیر ترین کے ووٹ بنک کا پتہ لگانے کے لئے قومی اور مقامی رہنماؤں
کی نظریں بلدیاتی الیکشن پر مرکوز ہیں اور عوامی فیصلہ کا انتظار سب کو
ہے۔لیکن جہانگیر ترین اور ان کے بیٹے علی ترین ابھی بھی این اے154 میں صدیق
بلوچ کو نا اہل کروانے اور ضمنی الیکشن کے لئے پر امید ہیں ۔ضمنی الیکشن
اور بلدیاتی الیکشن کی کمپین جاری رکھے ہوئے ہیں۔مگر صدیق بلوچ اب خود کو
بے گناہ اور ثابت قدم سمجھتے ہوئے سپریم کورٹ میں اسٹے ملنے کو جیت تصور
کرتے ہیں اور بلدیاتی الیکشن میں دن رات کمپین جاری رکھے ہوئے ہیں جن کے
ساتھ لودہراں کے ایم پے ایز اور ایم این اے عبدالرحمن خان کانجو بھی حلقہ
این اے 154میں خصوصی توجہ دے رہے ہیں۔چونکہ این اے 155میں عبدالرحمن کانجو
کی گرفت بظاہر مظبوط ہے اورمسلم لیگ ن کے سابق رہنما اور سابق ایم این اے
اختر کانجو ،ملیزئی اور نون فیملی کی طرف سے کچھ زیادہ مقابلہ نظر نہیں آتا
تا ہم دنیاپور میں مسلم لیگ ن کو وقت کے آذاد مگر تحریک انصاف کے حمائتی
گروپ کے رہنما زوار وڑائچ اور پیپلز پارٹٰی کے سابق رہنما چوہدری شفیق
آرائیں کی طرف سے ٹف مقابلہ متوقع ہے اور زوار وڑائچ 2013کے الیکشن میں ایم
پی اے عامر اقبال شاہ سے چند سو ووٹوں سے ہارے تھے ۔اور یو سی لیول پر جوڑ
توڑ بھی کیا جس جوڑ توڑ میں کامیابی بھی ملی اور جوڑ توڑ تمام گروپس کی طرف
سے عروج پر ہے۔ جہانگیر ترین مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی لودہراں
کے سابق اعلی عہدے داروں ایم این ایز ،ایم پی ایز کی حمائت حاصل کرنے میں
کامیاب ہوئے ہیں اگرچہ اس حمائت کا جہانگیر ترین کو ذاتی طور پر کچھ خاص
فائدہ نظر نہیں آتا کیونکہ زیادہ تر رہنماؤں کا تعلق این اے 154سے نہیں ہے
مگر تحریک انصاف لودہراں کے مستقبل کے لئے یہ حمائت سود مند ہو گی۔اب غور
طلب عوم کا رجحان ہے جو کہ این اے 155کی یو نین کونسلز میں تو مقامی گروپ
شہید کانجو گروپ کو اکثریت کی حمائت نظر آتی ہے مگر این اے 154میں جہانگیر
ترین کی طرف سے اٹھائے جانے والے سوالات نے عوام کو تحریک انصاف کی طرف
خاصی توجہ دلائی ہے اور عوام کا رجحان کم سہی لیکن وقت کے مطابق اچھا رجحان
ملا۔لیکن یہ رجحان بلدیاتی الیکشن میں ٹکٹ کی تقسیم کے وقت خاصہ تقسیم
ہوا۔کچھ رہنما ء تحریک انصاف کے ٹکٹ پر بلدیاتی الیکشن لڑنا چاہتے تھے مگر
سیٹس کم اور امیدوار زیادہ ہونے کی وجہ سے جن امیدواروں کو ٹکٹ ملا وہ
سرخرو ہوئے باقی امیدواروں نے مسلم لیگ ن کے سیاسی مورچوں میں بیٹھ کر اپنی
سیاسی توپوں کو رخ تحریک انصاف کی طرف موڑ لیا ہے۔اور مسلم لیگ ن اور صدیق
بلوچ کی طرف سے بلدیاتی الیکشن میں دئیے گئے ٹکٹس کی وجہ سے کوئی خاص ری
ایکشن نظر نہیں آیا کیونکہ ان کے وہی سدا بہار اور پرانے امیدوار جو کہ ہر
الیکشن میں اکثر امیدواراں کی فہرست میں نظر آتے ہیں اس بلدیاتی الیکشن میں
بھی اکثریت ان ہی کی ہے ۔الیکشن کمپین میں مسلم لیگ ن لودہراں کے رہنماؤں
کی طرف سے پر دہشت گردی سے پاک پر امن خوشحال پاکستان کی ضمانت اور لودہراں
کی تعمیر اور ترقی کے وعدے کئے جارہے ہیں اور جہانگیر ترین کی جانب سے
لودہراں کی ترقی کے لئے ان کے سماجی کاموں کو ضمانت کے طور پر استعمال کیا
جا رہا ہے ۔اس بلدیاتی الیکشن میں اکثر یونین کونسلز میں ٹف مگر دلچسپ
مقابلے بھی متوقع ہیں ان یونین کونسلز میں پاکستان تحریک انصاف کے رہنماء
جہانگیر ترین، نواب امان اﷲ اور آزاد گروپ کے سربراہ اختر کانجو اورزوار
وڑائچ اور مقامی گروپ شہید کانجو گروپ اور مسلم لیگ کے رہنماء عبدالرحمن
کانجو کے ساتھ ساتھ صدیق بلوچ کے گھر کی اور ووٹ بنک سے بھری یونین کونسلز
میں دیکھنے کو ملے گا۔ اس بلدیاتی الیکشن میں جو جیتا وہی سکندر والا
فارمولا بھی استعمال کیا جا رہا ہے جن امیدواروں کو پارٹی ٹکٹ نہیں دلوا
سکے یا نہیں دیا تو وہ امیدوار آزاد حثیت سے الیکشن لڑنے پر بضد رہے تو سر
کردہ پارٹی کے مقامی رہنماؤں کی جانب سے ان کو یقین دلایا جا رہا ہے اور
وعدہ لیا جا رہا ہے کہ اگر وہ جیتے تو وہ ضلعی الیکشن میں اور مستقبل میں
ایک دوسرے کاساتھ دیں گے۔مگر یہ گیارہ اکتوبر کی شام فیصلہ کرے گی کہ عوام
کس کے ساتھ ہیں اور کون بنتے ہیں رہنماء ؟؟اور کون اپنے وعدوں پر پورا
اترتا ہے کون جھوٹے اور محض سیاسی وعدے کرتا ہے یہ گیارہ اکتوبر کے بعد کا
وقت بتائے گا۔۔لیکن یہ بات بھی کہنا قبل از وقت تو ہو گا مگر حقیقت یہ ہے
کہ جو بھی ضلعی باگ دوڑ میں آئے گا ترقیاتی کام اورخوشحالی کے لئے اقدامات
ضرور کرے گا کیونکہ لودہراں کے سیاست دان جان چکے ہیں کہ پاکستان تحریک
انصاف کے آنے کے بعد آئندہ الیکشن میں عوام صرف ان امیدواروں کو ووٹ دے گی
جو عوام کے مسائل کو اپنے ذاتی مفادات پر ترجیح دے گا۔ |