ووٹ کی کہانی۔حقائق سے نتائج تک

ہماری قوم کوقیام پاکستان سے لیکرآج تک جن بحر انوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، وو ٹ کا بحران اُن میں سے ایک ہے۔یہ نہیں کہ یہاں ووٹ کاقحظ ہے بلکہ ہماری سادہ لوح عوام تو ۹۴۶ا؁سے ہی ، ایک روشن اورسہانے مستقبل کی تلاش میں، ووٹ دینے کا اپنا آئینی کردار تو بہت دیوانہ وار ادا کرتی چلی آرہی ہے۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ ووٹ کا بیج تو بہت امیدوں اور آرزووں کیساتھ کسی شیریں پھل کیلیئے بویا جاتا ہے مگر قوم کی جھولی میں ہمیشہ کڑوے ،کسیلے پھل ہی گرتے ہیں اور ہر دفعہ ووٹ کے نتائج سے ایک نیا بحران ہی جنم لیتاہے۔ بقول فیضؔؔ ؂
یہ داغ داغ اُجالا ، یہ شب گزیدہ سحر، ہمیں تلاش تھی جس کی ، یہ وہ سحر تو نہیں
یہ وہ سحر تو نہیں ، جس کی آرزو لے کر، چلے تھے یار کہ مل جائی گی کہیں نہ کہیں

یہ بھی ایک نہایت تلخ حقیقت ہے کہ اس سارے گورکھ دھندے میں زیادہ قصور ہمارا اپنا ہے۔کیونکہ ہم لوگوں نے ووٹ دینے کا معیار ہی ذات، برادری،ٹھکیداری ،لائیسنس وپرمٹ کا حصول،گلیوں نالیوں کی تعمیر،بجلی وگیس کے کنکشن اورزکٰوۃ فنڈ کا حصول،تھانے و کچہری تک رسائی اور سرکاری محکموں میں بھرتی جیسے حقیرترین اور قومی واجتماعی تقاضوں سے کوسوں دُور سطحی اور وقتی مفادات کو بنارکھا ہے ؂
میں الزام اُنکو دیتا تھا،قصوراپنا نکل آیا

ماہرینِ سماجیات کا کہنا ہے کہ ووٹر کا معیار یہ ہے کہ وہ باشعورہو اورمعاشی طور پر آزادہو۔صرف ٹوٹے پھوٹے دستخط کر لینے والے،جاگیردار، کارخانہ داراورسرمایہ دارکے خاندانی ، معاشی اورنفسیاتی غلام کی کیارائے ہو گی ؟ وہی جو اُسکے آقا کی ہوگی۔دور جدید کاووٹ دراصل زمانہ قدیم کی سیاسی بیعت کی ترقی یافتہ شکل ہے۔کسی کی سیاسی بیعت کرنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم اس شخص کو اسکے اخلاق وکردار اور نظریات کے حوالے سے ملک وقوم کے لئے دوسرے مد مقابل لوگوں سے قابل ترین اور اہل فرد سمجھتے ہیں اور ہمارا منتخب شدہ نمائندہ کل حکومت میں آکر جو کام بھی کرے گا،ہم اسکی قبل از وقت حمایت کرتے ہیں۔گویایہ نمائندگان عوام جو بھی کام کرتے ہیں اس پر اسکے ووٹروں کی مہر تصدیْق ثبت ہوتی ہے۔بقول مصطفیٰ زیدی مرحوم ؂
ہم نے خود کھیتوں میں انسانوں کے سرَ بوئے ہیں
اب زمیں خون اُگلتی ہے تو شکوہ کیسا ؟

ہمارے ملک میں ہر دو،تین سال بعد انتخاب، انتخاب کا غلغلہ بلند ہوا کرتا ہے۔کبھی عام انتخابات ، کبھی بلدیاتی انتخابات اور کبھی ریفرنڈم کے نام پر ہمارے جاں نثار، ہمدرد، مہربان، قدرشناس سیاسی قائدین اور متاثرینِ ، محرومین ،مجروحین ِ جمہوریت(عوام) کے درمیان پولنگ کے میدانوں میں ــ ـ ’انتخابات کا ’’رَن ‘‘ پڑتاہے ۔ جس میں سرمایہ دار ، جاگیردار ،صنعتکار، وڈیرے، مذہبی و سیاسی بہروپیئے،ریٹائرڈ جرنیل اور انکے چیلے چانٹے، چمچے، کڑچھے (اورڈوئیاں) سب مل کر ’’الیکشن الیکشن‘‘ کھیلتے ہیں جبکہ عوام تماشائی ہوتے ہیں جوکہ بعد میں دنیا کیلئے خود بھی ایک تماشا بن جاتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا ہم ہر باراُنہی لوگوں کو اپنی قیادت سونپتے رہیں گے جوہمیشہ سے اسلام، جمہوریت اورعوامی خدمت کے دلفریب نعروں کی آڑمیں خلاف اسلام ، خلاف انسانیت، اور خلاف جمہوریت وارداتیں کرتے ہیں ،مذہبی راہنمائی کے نام پروحدت انسانیت کی بجائے فرقہ واریت ، رواداری کی جگہ عدم برداشت اور خلوص ومحبت کی بجائے تشدد اور مذہبی انتہا پسندی کا زہر قوم کی رگوں میں اتارتے ہیں،عوام کے نام پرلئے گئے غیر ملکی قرضوں سے اپنی عیاشی کا سامان پیدا کرتے ہیں،حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے نام سے جتھے بنابنا کر اسمبلیوں( اصطبلیوں) میں نوراکشتی کرتے ہیں،سال میں کئی کئی مرتبہ نام نہاد استحقاق،مراعات اور صوابدیدی اختیارات میں اضافہ کیلئے تو متحد ہو جاتے ہیں لیکن عوام کو ’خزانہ خالی ہے‘ کی روائتی ’’بد خبری‘‘ سناکر ہر استحقاق سے محروم کردیتے ہیں،بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے دباؤ میں آکر روپے کی قیمت تو گرادیتے مگر اپنے مفادات کا معیار بلند کر لیتے ہیں،عوام کو توآئین کے احترام اور قانون کی پاسداری کا درس دیتے ہیں،لیکن آئین کی پامالی اورہر قانون سے بغاوت کرنا اپنا وراثتی اورقانونی حق سمجھتے ہیں۔

اپنے تودانت درد کا علاج بھی بیرون ملک سے کرواتے ہیں مگرعوام کے لئے سرکاری ہسپتالوں سے ڈسپرین کا حصول بھی نا ممکن بنا دیاہے ؂
داستانِ شبِ غم قصہِ طولانی ہے مختصر یہ ہے کہ تو نے مجھے برباد کیا

دراصل ہمارے ملک کا بنیادی ڈھانچہ(یعنی نظام)ہی بظاہر اسلامی لیکن درحقیقت سرمایہ پرستی اور غریب دشمنی کے ظالمانہ اصولوں پر قائم ہے۔ یہ نظام اپنی اغراض ومفادات کی بناء پر آئین سازی کرتا ہے ۔ اسی آئین کے تحفظ کیلئے قانون سازی ہوتی ہے اور اسی قانون کے نفاذ کیلئے دیگر معاون اداروں کی تعمیرو تشکیل ہوتی ہے(جسطرح پاکستان کے آئین و قانون کا بنیادی ڈھانچہ ۹۳۵ا؁ کے ایکٹ پر استوار ہے جو برطانوی سامراج نے غلام ہندوستان پر اپنی گرفت قائم رکھنے کیلئے بنایاتھا)۔ایسی صورتحال میں محض ذاتی اہلیت و قابلیت اوروسائل کے بل بوتے پر کوئی شخص قومی اسمبلی تو کیا ایک کونسلر کا الیکشن بھی نہیں لڑ سکتا۔اگر بفرض محال کوئی انسان دوست جماعت (جو مروجہ نظام کی تبدیلی کا نظریہ رکھتی ہو ) واضح اکژیت سے الیکشن جیت بھی جائے تواس بات کی کیا ضمانت ہے کہ ملکی نظام(یعنی پس پردہ قوتیں) اُس جماعت کو اقتدار پلیٹ میں رکھ کر پیش کر دیگا اور اسے ملک دشمن قراردے کر مارشل لاء کے بوٹوں تلے روندانہیں جائیگا۔ ۱۹۷۰؁ کے پاکستانی انتخابات کے نتیجے میں،جمہوریت کے مشہورِزمانہ اصول Majority is Authority کے مطابق شیخ مجیب الرحمان مرحوم کی جماعت عوامی لیگ حکومت بنانے کی حق دارتھی،کیونکہ اُس جماعت نے ملک کے دونوں بازوؤں یعنی مشرقی اورمغربی پاکستان میں سب سے زیادہ سیٹیں حاصل کی تھیں،لیکن اُس عہدکے ’’سیاہ وسفیدکے مالک‘‘جنرل یحیٰ نے عوامی لیگ کوحکومت سازی کی دعوت دینے کی بجائے مفادپرست سیاست دانوں کے ساتھ سازبازکرکے،ایک غیرمنطقی الزام کوبنیادبناکر، عوامی لیگ کوحق ِحکمرانی سے محروم کردیا۔عوامی لیگ پرالزام یہ تھاکہ اُس کے منشور میں شامل مشہورزمانہ ’’چھ نکات‘‘ ملکی سا لمیت کے خلاف تھے۔سوال یہ ہے کہ اگرایساہی تھاتوپھرپاکستان الیکشن کمیشن نے اُسے انتخابات میں حصہ ہی کیوں لینے دیا،اُسے پہلے ہی ’’ خلاف قانون ‘‘قراردے کرانتخابی عمل سے باہرکردیاجاسکتاتھا۔

فرض کریں (اول توایساممکن ہی نہیں )کہ کوئی سیاسی جماعت قانون سازی کیلئے مطلوبہ دوتہائی اکثریت حاصل کربھی لیتی ہے ،جس کی بنیاد پروہ اپنے منشور کے مطابق قانون سازی کربھی لیتی ہے ،تو اس بات کی کیاضمانت ہے کہ عدلیہ اورانتظامیہ جیسے ملک کے دیگرادارے اُسے اپنے منشور پرعمل کرنے بھی دیں گے،یانہیں۔ اور کیا یہ ضروری ہے کہ الیکشن کے ذریعے واضح اکثریت حاصل کرکے بھی کوئی سیاسی جماعت ملک میں اسلامی نظام کا نفاذ کرسکے گی؟1990 کے انتخابات میں اسلامی جمہوری اتحادنے دوتہائی اکثریت حاصل کرلی تو پھر ملک میں اسلامی ں نظام کا نفاذ کیوں نہ ہو سکا؟2002 کے انتخابات کے نتیجے میں صوبہ سرحد (موجودہ خیبر-پختونخواہ )اور بلوچستان میں ،دوتہائی اکثریت رکھنے والی ایم ایم اے (مُلّا-ملٹری الائنس) کی اپنی حکومتیں قائم ہوئیں، لیکن اسکے باوجو د اِن دو صوبوں میں اسلام کا عادلانہ سیاسی اور معاشی نظام نافذ تو نہ ہوسکا ؟اسی طرح ایم ایم اے نے مروجہ جمہوری اصولوں کے مطابق ’’حسبہ بل ‘‘کے نام سے ایک قانون منظورکروایا،لیکن جب اسکے نفاذکامرحلہ آیاتوسپریم کورٹ آف پاکستان نے مذکورہ بل کو دستورِپاکستان کے خلاف قرار دے کراُسے ’’اپنی موت آپ ‘‘مرجانے پرمجبورکردیا۔مروّجہ انتخابی نظام کے ذریعے نفاذِاسلام کے خواب دیکھنے والوں کیلئے لمحہِ فکریہ۔۔
جب نظام ہی سب کچھ ہے اور اس نے اپنی بقاء اور تحفظ کیلئے ہی یہ سار ا کھیل رچایا ہواہے تو پھر یہ اسکی مرضی ہے کہ وہ آئین کی جس شق پر چاہے عمل کرے جس پر چاہے نہ کرے۔ ایسی صورتحال میں بعض مذہبی وسیاسی جماعتوں کی جانب سے آ ئین کی شق نمبر63,62پر عمل درآمد کا شور مچانابے سودہی تو ہے ۔ پھر اِن حالات میں ووٹ جیسی قیمتی امانت کس کے سپرد کی جائے؟ اور اس آ ئینی اور قومی ذمہ داری کو ادا کرنے سے کیا مفید اور دور رس نتائج برآمد ہو سکتے ہیں؟کچھ بھی تو نہیں۔نیزساری آئینی اورقانونی ذمہ داریاں اداکرناعوام پرہی فرض ہے، حکمران اشرافیہ ہرچیزسے بے نیازہے؟جمہوریت تونام ہے ’’جمہور‘‘یعنی حکومتی معاملات اورفیصلوں میں عوام کی شرکت کا۔ہمارے ہاں اِس شرکت کی کیاصورتحال ہے ؟صرف یہی کہ عوام ووٹ کی شکل میں اپنامزعومہ دستوری و قانونی فریضہ اداکریں۔اورپھراسکے بعد۔۔۔۔۔۔۔۔؟

کیاایک غریب کسان کانمائندہ ایک جاگیردارہوسکتاہے؟ایک دیہاڑی دارفیکٹری مزدورکانمائندہ کئی فیکٹریوں کامالک سرمایہ دارہوسکتاہے؟کبھی نہیں۔اُن جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کوکیاپتہ کہ جب مزدوری نہ ملنے پرشام کوفاقہ کرناپڑتاہے ،روٹی کے علاوہ اچانک بیمارہوجانے والے جگرکے ٹکڑے کی دوائی بھی لاناضروری ہوجاتاہے توخالی جیب گھرآنے والے مجبورومقہوراورمحروم وسائل باپ پرکیاگُزرتی ہے؟جب ماہانہ آمدنی سے زیادہ بجلی اورگیس کابل ادانہ ہونے سے بجلی یاگیس کامیٹرکٹ جاتاہے ،توشدیدگرمی کے موسم میں جسم وجاں کارشتہ کیسے قائم رکھاجاتاہے ؟پوش علاقوں اورکئی کئی کنال کے بنگلوں میں رہنے والے عوامی نمائندگی کے یہ نام نہاددعودیداران کیاجانیں کہ جب کرایہ نہ دے سکنے پرمالک مکان گھر کاسامان اُٹھاکرباہرپھینک دیتاہے توپھر اپنی جان ومال اورعزت کومحفوظ رکھناکس قدرمشکل ہوتاہے؟

ہر عقلمندآدمی اپنی زندگی میں مختلف وقفوں کے بعدجائزہ لیتاہے کہ اس مخصوص عرصے میں اپنے کاروبار،ملازمت وغیرہ میں کیاکھویااورکیاپایا؟اگرپاکستان بھی ایک ’’انسان‘‘ ہوتا تو یقیناوہ بھی حساب لگاتاکہ اڑسٹھ سالہ زندگی میں مجھے کیاحاصل ہوا؟سوال یہ ہے کہ آج تک ملک میں ہونے والے انتخابات کے بعدایک عام آدمی کے مسائل میں اضافہ ہوا ہے یا کمی؟ ۱۹۹۳ء کے انتخابات میں بے چاری مقروض ومجبورعوام خون سے ٹیکسوں کی صورت میں نچوڑے ہوئے کروڑوں روپے کے وسائل خرچ کرنے کے بعد بھی اُن انتخابات کی Credibility پرایک بہت بڑاسوالیہ نشان ہے ۔اورپھر انتخابات سے پہلے عوام کوخوبصورت اورسہانے خواب دکھانے کے دعویداروں نے عوام کوکیادیا؟شدیدمہنگائی،گیس اور بجلی کی لوڈشیڈنگ ،لاقانونیت ،عدم تحفظ ،بدامنی ،دہشت گردی جیسے بے شمارعذاب ؟

ایک زمانہ تھا کہ اپنی رائے غالب کرنے کیلئے تلوار اُٹھانا پڑتی تھی لیکن آج کا دَور عدم تشدد،عقلیات اور سیاسی وشعور ی جدوجہد کا دورہے۔ہانگ کانگ کی چین کوواپسی شعور اور دلائل کی بندوق پر فتح کی ایک بہترین مثال ہے ۔اسلئے اگر آج تک ہم اس راہ سے ناواقف تھے تواَب ہی ہوش کے ناخن لیں کیونکہ اَب تو یہی راستہ رہ گیا ہے۔ اگر ہم واقعی حقیقی بنیادوں پر ہمہ گیر تبدیلی کے خواہش مند ہیں تو پھر؛
٭کچھ بنیادی تصورات کو RE-DEFINE کرنا ہوگا
٭اپنے ۶۸سالہ روائتی لیکن مسخ شدہ اور بے نتیجہ طرز عمل کے خلاف U-TURN ٰؒلیناہوگا
٭14۔اگست کو یوم آزادی نہیں۔۔۔۔آقاؤں کی تبدیلی کا دن قرار دینا ہوگا
٭ موجودہ جمہوریت کو چند خاندانوں کی سیاسی آمریت اورلُوٹ مارکرنے کاقانونی راستہ سمجھناہوگانیزمارشل لاء کی تمام شکلوں کوبھی ناخالص قرار دینا ہوگا
٭ مروجہ انتخابی نظام کو عوام کی ناکہ بندی اور انتخابات کوبالا دست طبقات کاکھیل تماشا اورتفریح قرار دینا ہوگا
٭سُنّت نبوی ﷺکے مطابق محض چہروں کی تبدیلی کی بجائے تبدیلیِ نظام کے نظریہ کو اپنی جدوجہد کا مرکز بنانا ہوگا۔
؂ اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی
ہم نے تو دل جلا کے سرِعام رکھ دیا
Dr Muhammad Shahid Shaukat
About the Author: Dr Muhammad Shahid Shaukat Read More Articles by Dr Muhammad Shahid Shaukat: 2 Articles with 5930 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.