بھارتی اشتعال انگیزی

بدقمستی کی بات یہ ہے کہ بھارت کے باشعور طبقہ کی آواز ملک میں ہندو انتہا پسند گروہوں کی بڑھتی ہوئی قوت اور مقبولیت کے سامنے نقار خانہ میں طوطی کی آواز بن چکی ہے

بھارت کی طرف سے کی گئی نکیال سیکٹر میں فائرنگ کا منظر ۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کے واقعات ایک بار پھر روزمرہ کا معمول بن چکے ہیں۔ کل نکیال سیکٹر میں بھارتی فائرنگ سے ایک خاتون جاں بحق اور آٹھ افراد زخمی ہو گئے۔ اس سے قبل بھی غیر اشتعال فائرنگ کے نتیجہ میں متعدد لوگوں کی ہلاکت کی خبریں سامنے آتی رہی ہیں۔ اسی قسم کی کارروائی اسلام آباد میں بھی تسلسل سے ہو رہی ہے، جہاں بھارتی مشن کے سربراہ کو وزارت خارجہ میں بلا کر فائرنگ اور ہلاکتوں پر احتجاج کیا جاتا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کی موجودہ صورتحال نریندر مودی کے برسر اقتدار آنے کے بعد سنگین ہو گئی ہے۔ ہر بار بھارت کی طرف سے اشتعال انگیزی کا آغاز ہوتا ہے۔ دونوں ملکوں کو مل کر سرحدوں پر امن قائم رکھنے اور باہمی تنازعات کا پرامن حل تلاش کرنے کے لئے ہوشمندی سے کام لینے کی ضرورت ہے۔

پاکستان کے ہائی کمشنر نے بھارت کی وزارت خارجہ میں شکایت سننے کے بعد اخباری نمائندوں سے بات کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ صرف جولائی سے لے کر اکتوبر کے مہینے تک بھارت کی طرف سے 70 سرحدی خلاف ورزیاں کی گئی ہیں۔ اس قسم کی شکایتوں کو دور کرنے کے لئے سرحدوں پر کنٹرول کا بہتر طریقہ کار اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ تا کہ کسی ناخوشگوار واقعہ کے بعد یہ طے کرنا آسان ہو کہ پہل کس نے کی تھی۔ اس قسم کا میکنزم موجود نہ ہونے کی صورت میں الزام تراشیوں کا سلسلہ جاری رہے گا۔ پاکستان کی طرف سے اس سلسلہ میں متعدد بار تجاویز پیش کی گئی ہیں لیکن بھارت نے اس حوالے سے پیشرفت دکھانے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ اس رویہ سے یہ اخذ کرنا دشوار نہیں ہے کہ بھارت اس خطرناک اور اشتعال انگیز صورتحال کو برقرار رکھنا چاہتا ہے۔

یہ کہنا غلط ہو گا کہ صرف ایک ملک ہی سرحدی خلاف ورزیوں کا مرتکب ہوتا ہے۔ جب بھی ایک طرف سے فائرنگ ہوتی ہے تو پاکستان ہو یا بھارت ........ دوسری طرف سے بھی اس ناجائز حملہ کا جواب دیا جاتا ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ اس قسم کی کراس بارڈر فائرنگ میں عام طور سے شہریوں کا ہی نقصان ہوتا ہے۔ یا تو وہ جان سے جاتے ہیں یا ان کی املاک اور مویشی تباہ اور ہلاک ہوتے ہیں۔ توپوں سے گولے داغنے والے فوجی عام طور سے محفوظ بنکرز میں ہوتے ہیں، اس لئے ان کا نقصان نہیں ہوتا۔ اس طرح یہ اشتعال انگیزی خواہ کسی طرف سے بھی ہو، بے گناہ انسانی جانوں کا ضیاع افسوسناک اور قابل مذمت ہے۔ سیاسی حکومتیں سیاسی مفادات یا پروپیگنڈا کے مقصد کے لئے اس قسم کے ہتھکنڈے اختیار کرتی ہیں۔ پھر گلی میں لڑنے والے بچوں کی طرح ایک دوسرے پر الزام عائد کیا جاتا ہے۔ عقل سلیم اور انسانوں کی حفاظت کے اصول کا تقاضہ ہے کہ یہ سلسلہ اب بند ہونا چاہئے۔

بھارت کی طرف سے گزشتہ برس اکتوبر میں سرحد پار فائرنگ کا سلسلہ اس وقت شروع کیا گیا تھا جب پاکستانی فوج آپریشن ضرب عضب کے ذریعے انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کے خلاف مصروف عمل تھی۔ بھارت بھی یہ جانتا تھا کہ وہ پاکستان کے ساتھ نئی جنگ کا خطرہ مول نہیں لے سکتا لیکن اس کے باوجود سرحدوں پر تین ماہ تک صورتحال کو خراب کر کے پاکستانی افواج کی توجہ سرحدوں کی طرف مبذول کروائی گئی۔ اس حکمت عملی سے بھارت کو تو کوئی خاص فائدہ نہیں ہو سکتا تھا لیکن پاکستانی فوج جن دہشت گرد گروہوں کے خلاف سرگرم عمل تھی، انہوں نے ضرور خوشی کے شادیانے بجائے ہوں گے۔

اس صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لئے مودی سرکار پر اندرون ملک باشعور حلقوں کے علاوہ امریکہ کا بھی دباﺅ ہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مفاہمانہ ماحول پیدا ہو تاکہ افغانستان سے لے کر بھارت تک پھیلے ہوئے دہشت گردوں کے خلاف یکسوئی سے کارروائی ہو سکے۔ بھارت اور پاکستان کے ہوشمند شہری بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں۔ دونوں ملک آپس مں جنگ کر کے سوائے اپنے کسی کا بھی نقصان نہیں کریں گے۔ لیکن اس انتشار میں دہشت گرد گروہوں کو پنپنے اور قوت پکڑنے کا موقع ضرور ملے جائے گا۔ اب وہ وقت گزر چکا ہے کہ دوسرے ملک کو نقصان پہنچانے کے لئے بعض انتہا پسند عناصر کی مدد کی جائے لیکن خود اپنا دامن اس آگ سے محفوظ رہ سکے۔

بھارت اس مقصد کے لئے افغانستان کی سرزمین کو استعمال کر رہا ہے۔ اسی پالیسی کا نتیجہ ہے کہ پاکستان کی مخلصانہ کوششوں کے بعد افغان حکومت اور طالبان کے درمیان شروع ہونے والے مذاکرات اب کھنڈت میں پڑ گئے ہیں۔ اس طرح بھارت پاکستان کو زک پہنچانے میں تو ضرور کامیاب ہو رہا ہے لیکن اس حکمت عملی کے نتیجے میں خطے میں امن اور انتہا پسندی کے خلاف جنگ کے مقاصد بھی متاثر ہو رہے ہیں۔ پاکستان نے بلوچستان کے علاوہ کراچی اور قبائلی علاقوں میں بھارتی ایجنسی ” را “ کی مداخلت کے شواہد فراہم کئے ہیں لیکن بھارت کی طرف سے ان معاملات پر سنجیدگی سے بات کرنے کی بجائے چھوٹے بڑے واقعات میں پاکستان کی مداخلت کا راگ الاپ کر باہمی تعلقات کو بدستور کشیدہ رکھا جا رہا ہے۔

بدقمستی کی بات یہ ہے کہ بھارت کے باشعور طبقہ کی آواز ملک میں ہندو انتہا پسند گروہوں کی بڑھتی ہوئی قوت اور مقبولیت کے سامنے نقار خانہ میں طوطی کی آواز بن چکی ہے۔ پاکستان میں بھی مذہبی گروہ بھارت دشمن ایجنڈے پر لوگوں کو گمراہ کرنے کا کام کرتے رہتے ہیں۔ لیکن حکومت کی مثبت پالیسی اور پاک افواج کی طرف سے انتہا پسندوں کو مسترد کرنے کی حکمت عملی کی وجہ سے یہ انتہا پسند گروہ کمزور ہوئے ہیں۔ اس صورت میں دونوں ملکوں کا بہترین مفاد تو اسی بات میں تھا کہ وہ اس صورتحال میں مستقل امن کے لئے معاملات آگے بڑھاتے لیکن بھارت میں مذہبی انتہا پسندی کے فروغ کی وجہ سے یہ خواب بدستور شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکا۔

نئی دہلی کی حکومت کو اپنی پالیسی کی کمزوری کا احساس ہے۔ اسی لئے چند مہینے پہلے روس کے شہر اوفا UFA میں بھارتی وزیراعظم نے پاکستان کے وزیراعظم سے ملاقات کی اور معاملات بہتر بنانے پر اتفاق بھی کیا۔ لیکن لگتا ہے کہ نریندر مودی نے ہندو انتہا پسندی کی جو آگ خود ہی پورے بھارت میں بھڑکائی ہے ........ وہ خود بھی اس آگ کے سامنے بے بس ہیں۔ اسی لئے سرحدوں پر تنازعہ کھڑا کر کے اس رویہ کے حامل لوگوں کی تشفی کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لیکن اس کے نتیجے میں بداعتمادی کی جو فضا پیدا ہو رہی ہے ، اس کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کے درمیان امن کی کوششیں متاثر ہو رہی ہیں۔

پاکستانی وزیراعظم کے قومی سلامتی کے مشیر نئی دہلی جائیں گے اور بھارتی وزیراعظم کے مشیر برائے نیشنل سکیورٹی سے بات چیت کریں گے۔ اس موقع پر دونوں ملکوں کو ہوشمندی سے کام لیتے ہوئے امن قائم کرنے، سرحدی تنازعات کو کنٹرول کرنے اور کشمیر کے علاوہ پانی کے مسائل کو حل کرنے کے لئے ٹھوس لائحہ عمل پر بات کرنی چاہئیے۔ اب بھی اگر دونوں ملک اس قسم کی ملاقاتوں کو ایک دوسرے پر الزام تراشی کے لئے استعمال کرتے رہے تو برصغیر پاک و ہند کے ڈیڑھ ارب کے لگ بھگ لوگ غربت و احتیاج کے علاوہ انتہا پسندی، مذہبی تعصب اور نفرت سے کبھی نجات حاصل نہیں کر سکیں گے۔

محمّد نواز بشیر
About the Author: محمّد نواز بشیر Read More Articles by محمّد نواز بشیر: 9 Articles with 6327 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.