جنت ارضی جموں و کشمیر 26 اکتوبر 1947 تک اآزادی اور
خودمختاری کے پر لطف احساس سے منور ایک حسین وادی تھی۔پھر اچانک اس کی
خوشیوں کو نظر لگ گئی اور اس کی خودمختاری پرایک ایسی ضرب لگی جس کا مداوآج
تک ممکن نہ ہو سکا ۔27 اکتوبر 1947 کو ہندوستان نے اپنی ظالم فوج کو کشمیر
کی سرزمین پر اتار کر کشمیریوں کی خودمختاری کو تار تار کر دیا اور ان کی
رائے کے بر عکس طاقت کے بل بوتے پر اپنا تسلط جما لیا۔ یہ قبضہ آئینی
،قانونی اور اخلاقی قدروں کے سراسر منافی تھا بلکہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ
بھارت نے اندھی طاقت کے نشے میں یہ قبیح قدم اٹھایااور کشمیریوں کی آزادی
سلب کر کے ان کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑ دیا۔اس سیاہ دن سے لے کر آج تک
کشمیری آزادی کے اجالے کے منتظر ہیں اور اپنے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے
جدوجہد کر رہے ہیں جو تاحال حقیقی معنوں میں ثمر آور نہیں ہو سکی اور لگ
بھگ سوا کروڑ کشمیری غلامی کے دردناک عذاب کے سائے تلے زندگی بسر کرنے پر
مجبور ہیں ۔کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو چھ دہائیاں بیت چکی ہیں لیکن ان کی
کوششیں ابھی تک بارآور نہیں ہوئیں اور نہ ہی ظالم ہندوستان کواس بات کا
احساس ہوا ہے کہ وہ ایک زندہ قوم کو آزادی جیسی نعمت سے محروم کرنے کا
مرتکب ہے اور نہتے کشمیریوں پر ظلم وستم کی داستان رقم کر رہا ہے ۔ بھارت
کی سات لاکھ سے زائد فوج کشمیر کی دھرتی پرکشمیریوں کے حقوق غصب کرنے پر
تعینات ہے اور ان کی تحریک آزادی کو کچلنے کے درپے ہے۔ جبکہ تنازعہ کشمیر
پر گہری نگاہ رکھنے والی بصیرت افروز ہستیوں کا خیال ہےکہ بھارت اگر کشمیر
میں متعین فوج دگنی بھی کر دے تو کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو دبانے میں
ناکام و نامراد ہی ہو گا۔
ان حالات کے پس منظر میں 27 اکتوبر کا دن کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لیے
سیاہ دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن ہندوستان نے اخلاقیات کے مروجہ
اصولوں کی دھجیاں بکھیرتے ہوے کشمیر پر چڑھائی کردی تھی اور کشمیری عوام کے
جذبات سے کھیلتے ہوے ان کی رائے کے بالکل برعکس اپنا غیر قانونی،غیر اخلاقی
اور غیر آئینی تسلط جمانے کی مذموم حرکت کر ڈالی۔ مسلہ کشمیر کے ضمن میں
پاکستان کا موقف بڑا واضح،روشن اور دو ٹوک ہے۔ کشمیر کی طرح پاکستان میں
بھی کشمیری بھائیوں سے یک جہتی کے لیے یوم سیاہ پورے جوش و خروش سے منایا
جاتا ہے۔ علاوہ ازیں پاکستان کے حکمران بھی مسلہ کشمیر کو ہر مناسب پلیٹ
فارم پراجاگر کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں جس کا اعتراف کشمیری بھی گاہے
گاہے کرتے رہتے ہیں اور وہ پاکستان کی پر خلوص اخلاقی حمایت کے معترف بھی
ہیں۔
دوسری جانب اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستانیوں کے دل کی
دھڑکن کشمیری بھائیوں کے دل کی دھڑکن سے منسلک ہے اور پاکستانی ان کے دکھ
درد میں برابر کے شریک ہیں جبکہ کشمیری عوام بھی پاکستان کے محبت بھرے جذبے
سے پوری طرح آگاہ ہےاور یہی وجہ ہے کہ کشمیری پاکستانیوں پر دل و جان سے
فریفتہ ہیں اور ساتھ ساتھ پاکستان کی مسلح افواج کا بھی دل کی اتھاہ
گہرائیوں سے احترام کرتے ہیں جبکہ ہندوستان سے نفرت ان کے انگ انگ میں بسی
ہوئی ہے۔ کشمیری حقیقی معنوں میں داد کے مستحق ہیں کہ ناقابل برداشت نا
مساعد حالات میں بھی ہندوستانی فوج کے مقابل سینہ سپر ہیں اور ہمالیہ پہاڑ
کی مانند ڈٹ کر کھڑے ہیں۔
یوم سیاہ منانے کا مقصد عالمی برادری کی توجہ اس مسلے کی جانب مبذول کروانا
ہےاور کشمیریوں کی حق خودارادیت کا مقدمہ ان کی عدالت میں پیش کرنا ہے کہ
ہندوستان زبرد ستی وادی کشمیر پر مسلط ہےاور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا
کھلم کھلا مرتکب ہے۔یوم سیاہ منانے کا ایک مقصد یہ بھی ہےکہ کشمیریوں کی
آزادی کی جدوجہد کو چشم کشا حقائق کی لڑی میں پرو کر عالمی برادری کے گوش
گزار کیا جائے تا کہ اگر ان کے وجود میں دل نام کا حساس اور نایاب عضو
موجود ہے تو ان کو احسا س ہو کہ ان کھلی حقیقتوں کے تناظر میں کشمیریوں کی
تحریک آزادی کی حمایت کی جائے تاکہ ان کی تحریک کو تقویت ملے۔
کشمیر کا تنازعہ اس لیے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ یہ مسلہ پاکستان اور بھارت
کے لیے سلگتی چنگاری سے کم نہیں۔ کسی بھی وقت اس مسلے کے پس منظر اور پیش
منظر کو بنیاد بنا کر بھارت کے سر پر جنگی جنون سوار ہو سکتا ہے اور دو
ایٹمی ملکوں کے درمیان جنگ چھڑ سکتی ہے۔ حقییقت تو یہ ہے کہ آزادی و
خودمختاری کشمیریوں کا بنیادی حق ہے جبکہ اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر
ہندوستانی قیادت خود اس بات کا وعدہ کر چکی ہے کہ وہ کشمیری عوام کی رائے
کی روشنی میں اس مسلہ کو حل کرے گی جبکہ معاملہ اس کے برعکس دکھائی دیتا ہے
۔ وعدہ کی پاسداری تو درکنار الٹا کشمیر کے باسیوں کی زندگی کے گرد گھیرا
تنگ کر دیا گیا ہے۔ ہندوستان کو یہ بات بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کشمیریوں
کی جنگ آزادی محض زمین کا ٹکرا حاصل کرنے کے لیے نہیں بلکہ کروڑوں انسانوں
کے حقوق کے حصول کا تقاضا ہے ۔
پاکستان کا موقف ہے کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور کشمیریوں کے دل
پاکستانیوں کے دل کے ساتھ دھڑکتے ہیں اور پاکستان کا یہ موقف اس وقت حقیقت
کا لباس زیب تن کیے پوری دنیا کے سامنے آشکار ہوتا ہے جب مختلف تہواروں پر
وادی کشمیر کی فضا پاکستان زندہ باد کے فلک شگاف نعروں سے گونج اٹھتی ہے
اور کشمیری پاکستانی پرچم لہرا لہرا کر ببانگ دہل اعلان کر رہے ہو تے ہیں
کہ کشمیر پاکستان کا اٹوٹ انگ ہے۔ بد قسمتی سے عالمی برادری مسلہ کشمیر کے
حوالے سے دہرے معیار کا شکار ہے۔ جب کشمیر میں پاکستان زندہ باد کے نعرے لگ
رہے ہوتے ہیں تو کیا عالمی برادری کو یہ مناظر دکھائی نہیں دیتے ۔کیا ان کو
ان نعروں کی گونج سنائی نہیں دیتی ۔کیا کشمیریوں کے دل کی آواز ان تک نہیں
پہنچتی ۔ درحقیقت مسلہ کشمیر پر عالمی برادری دانستہ آنکھیں بند کیے ہوے ہے
جس کی وجہ سے کشمیریوں کی تحریک آزادی اس قدر طول پکڑ چکی ہے کہ ہزاروں
کشمیری جان کی بازی ہار چکے ہیں لیکن مسلہ جوں کا توں ہے۔ ہم پاکستانی
ایمان کی حد تک یقین رکھتے ہیں کہ اس مسلہ کا حل جلد یا بدیر کشمیریوں کی
حسب منشا ضرور برآمد ہو گا اور کئی سالوں پر محیط کشمیریوں کی دلیرانہ جدو
جہد آزادی ثمر آورہو گی اور ان کے آنگن میں بھی آزادی کا سورج پوری آب و
تاب سے طلوع ہو گا۔ |