بیدل ۔بیکس

آپ کا کلام آفاقی والہامی تھا جو سات زبانوں، عربی، فارسی، اردو، سندھی، سرائیکی، پنجابی اور ہندی زبانوں میں موجود ہے۔آپ کی مشہور تصانیف میں ’’ریاض الفقر‘‘، ’’نہرالبحر‘‘(مثنوی)، ’’مصباح الطریقت‘‘، ’’مصباح الحقیقت‘‘(فارسی نظم)، ’’نسخۂ دلکشا‘‘ (فارسی نظم)،’’سندالموحدین‘‘(فارسی نظم)، ’’کرسی نامہ‘‘ (فارسی نظم)، ‘‘رموزِ العارفین‘‘ (فارسی اشعار)، ’’پنج گنج‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔

سرزمین سندھ ہمیشہ سے اولیاء اﷲکی تعلیمات سے منور وشاداب رہی ہے۔ اِن بزرگ صوفیہ وشعرا نے اپنی تعلیم کے ذریعے انسانیت کی پذیرائی اور دین کی خدمت میں پیش پیش رہ کرایسے نقوش چھوڑے ہیں، جو آج ہماری وراثت کا حصّہ ہیں۔ افسوس اس امر کا ہے کہ ہم ان تعلیمات کے قریب توکیا دیکھنے کے بھی روا دار نہیں رہے ہیں۔ بزرگوں کے حوالے دے دے کر بڑے بڑے دعوے تو کرتے ہیں مگرعمل ندارد۔

روہڑی کو یہ شرف حاصل ہے کہ یہاں دوبزرگ شاعرعبدالقادر بخش بیدل اور اُن کے فرزند محمدمحسن بیکس دفن ہیں۔علم وعرفان میں جو کارنامے آپ حضرات نے اس سرزمین پر کیے ہیں، وہ قابلِ تحسین وقابلِ فکرہیں، جہاں آپ کی فکر،انسانی رویوں کو زندگی کے سلیقے سکھاتی ہے، وہیں دین اور دنیا میں توازن برقراررکھنے کاہُنربھی بتاتی ہے۔برصغیر کے ان دونوں نامور صوفیا کا کچھ احوال ملاحظہ فرمائیں۔

برصغیر کی عظیم المرتبت سرتاج الشعرا، شہنشاہ عشق، منصور آخرالزماں،صاحبِ علم وعرفان، شاعر ہفت زباں عبدالقادر بخش بیدل ولادت: ۱۲۳۰ھ ۔ المتوفی ۱۲۸۹ھ (۱۸۷۳ء)میں پیدا ہوئے۔آپ سندھ کے صوفی شاعر اور عالم ہیں۔ آپ کا قیام روہڑی میں رہا،اپنے وقت کے ولی اور کامل بزرگ تھے۔ آپ جب بڑے ہوئے توپیرانِ پیردستگیرغوث الاعظم شیخ محی الدین عبدالقادرجیلانی کے ساتھ روحانی وابستگی کے سبب اپنے آپ کو قادر بخش بیدل کہلواتے تھے۔ مولاناعبدالقادر بخش بیدل کے والد بزرگوار کا اسم گرامی محمدمحسن تھا۔ ریشم کی تجارت کرتے تھے۔آپ کے والد محمدمحسن بلوچستان کے مشہور بزرگ سیدمولانا عبدالوہاب ساکن بھاگ ناڑی کے مرید تھے۔میرجان اﷲ شاہ جھولک والے مشہور صوفی شاہ عنایت اﷲ شاہ شہیدکے ۱۴خلفا میں سے ایک تھے۔آپ کے والد نے میرجان اﷲشاہ ثانی سے بھی بیعت کی جو کہ بڑے میرجان اﷲشاہ کے پوتے تھے۔اپنے والد بزرگوار کے مرشد کے پاس حاضر ہوئے، جنھوں نے بیدل کے لیے خصوصی دعا فرمائی ۔پانچ برس کی عمرمیں آپ کے والد نے مکتب میں داخل کرادیا، مگر آپ کو علوم ظاہریہ کے مقابلے میں علومِ باطنیہ سے رغبت تھی، مگروالدکے حکم کی تعمیل کے لیے بارہ برس تک تعلیم جاری رکھی۔ پھر سیدجان اﷲشاہ ثانی سے بیعت ہوکر علوم باطنیہ کی تربیت حاصل کرتے رہے۔ بیدل فرماتے ہیں کہ ایک دن میں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت خواجہ عثمان مرندی المعروف لعل شہباز قلندر کی درگاہ پر حاضری کا اشارہ ملا۔ آپ اکیلے سیہون شریف کی طرف روانہ ہوگئے۔ حضرت لعل شہبار کی درگاہ سے واپسی پر آپ نے باقاعدہ غزل کہنا شروع کردی اور اصلاح کے لیے جب اشعار اپنے استاد کو دکھائے تو انھیں یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ اشعار بیدل کہہ سکتے ہیں۔ بیدل کی طبیعت میں صوفیت کا گہرا اثر تھا، آپ بلندپایہ مفکر، دانشور اور قابل فخرشخصیت کے مالک تھے۔آپ کا کلام آفاقی والہامی تھا جو سات زبانوں، عربی، فارسی، اردو، سندھی، سرائیکی، پنجابی اور ہندی زبانوں میں موجود ہے۔آپ کی مشہور تصانیف میں ’’ریاض الفقر‘‘، ’’نہرالبحر‘‘(مثنوی)، ’’مصباح الطریقت‘‘، ’’مصباح الحقیقت‘‘(فارسی نظم)، ’’نسخۂ دلکشا‘‘ (فارسی نظم)،’’سندالموحدین‘‘(فارسی نظم)، ’’کرسی نامہ‘‘ (فارسی نظم)، ‘‘رموزِ العارفین‘‘ (فارسی اشعار)، ’’پنج گنج‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔

سکھر سے روہڑی شہر میں داخل ہوتے ہوئے ایک گیٹ ہے۔ جس پر بیدل بیکس لکھا ہوا ہے اور ساتھ ہی چند اشعار درج ہیں،اس سے متصل تھوڑے فاصلے پرمزارموجود ہے۔مزار میں داخل ہوں توتین قبورساتھ ساتھ نظرآتی ہیں۔ دائیں ہاتھ کی پہلی قبر پر ’’حضرت فقیر محمدمحسن قدس سرۂ العزیز عرف ’بیکس‘‘‘ کندہ ہے۔ درمیان والی قبر پر ’’حضرت فقیر قادر بخش قدس سرۂ العزیز عرف ’بیدل‘‘‘ درج ہے۔ جب کہ بائیں طرف ’’حضرت فقیرعبداﷲقدس سرۂ العزیز‘‘ جو کہ محمدمحسن بیکس کے کزن ہیں، اُن کی قبر ہے۔مزار مبارک میں موجود ایک الماری جس میں قرآنِ کریم کے نسخے رکھے ہیں۔ اُس پر دو بورڈ لگ ہوئے ہیں جس پر بیدل سائیں اورمحسن بیکس کی تاریخِ وصال شعر کی صورت میں درج ہیں۔
حضرت قادر بخش بیدل کی غزل ملاحظہ ہو:
آئینہ وہ بنائیں پانی مٹی رَلاکر
جلوہ دیا اسی نوں صیقل عجب لگا کر
دیدار اپنے کی تھی خواہش اُسی کے تائیں
اپنا جمال دیکھیں صورتِ بشر میں آکر
وحدت کے پردے اندر حُسن ازل چُھپا تھا
کِیتا ظہور شہہ نے کثرت کے تائیں بناکر
آدم نہیں یہ اﷲ صُورت کاویس پہنے
آیا اسی جگت میں اپنے تائیں چُھپا کر
ہوشیار رہ تُوں بیدلؔ ہمہ اوست کا ہو قائل
نظارا نُورِ حق کا مظہر میں جا بجاکر
مزید غزل ملاحظہ ہو:
بہرصورت کہ بن آوے وہی ساجن صحیح کرنا
صدق سپتی آگے اُسدے ادب کے حال میں رہنا
وہی سالکِ طریقت ہے وہی ماہرِ حقیقت ہے
وہی صاحبِ شریعت ہے پچھوں تے پیر مَت دھرنا
وہی مارے اَناالحق دم کرے اظہار سر مبہم
وہی باندھے کمرِ محکم جو آپی آپ سُوں لڑنا
وہی رومی و زنگی ہے، وہی ترسا فرنگی ہے
وہی مردانہ جنگی ہے، لباساں دیکھ مت ڈرنا
سمجھ سِرّ عشق کا بیدلؔ نہ رہ اس بات سے غافل
سدا باہمتِ کامل حرف ہمہ اُوست کا پڑھنا

حضرت قادربخش بیدل کے فرزند محمدمحسن بیکس بھی ہفت زبان شاعر تھے۔والدمحترم کی تربیت نے آپ کو بھی صوفی اور کامل بنا دیا۔ آپ کی طبیعت میں بھی بیدل سائیں کا ذوق در آیا تھا، یہی وجہ ہے کہ آپ نے بیدل سائیں کے فلسفے کو آگے بڑھاتے ہوئے اپنی تعلیم و تربیت کا محور بھی علوم ظاہریہ سے ہٹا کر علومِ باطنیہ پر مرکوز کردیا۔ یہ سلسلہ یقینا نسل درنسل منتقلی کا ہی ہے جو آپ کے اسلاف سے آپ کے رگ وپے میں بھی پھیل گیا۔

محمدمحسن بیکس ۲۸جمادی الثانی ۱۲۷۵ھ (۲فروری ۱۸۵۹ء) کوپیدا ہوئے اور ۵رمضان ۱۲۴۸ھ مطابق (۱۸۸۲ء) میں وفات ہوئی۔ سندھی زبان کے پانچ بڑے شعرا میں آپ کا بھی نام آتا ہے۔ فارسی اور اردو میں بھی آپ کا کچھ کلام ملتا ہے۔ محسن بیکس کے کلام میں سوزوگداز کی تصویریں ملتی ہیں۔
نمونہ کلام ملاحظہ ہو:
دیکھے گی جب فراق دل اسی دروازہ دل بر
کرے گی سجدہ اور بولیں گی میں ہوں زخمی پیا تیرا
اگر چاہے سمن میرا کہ انٹھ بیٹھے یہ مردہ عاشق
ہزاروں شکر کر اوٹھوں، دیکھوں بیت اﷲ دیوں پھیرا
روپ گجری انداز میں محسن بیکسؒ کے اشعار ملاحظہ ہوں:
پاشاہ بیدل بیکس بہ مرتا
اس شوخ خود رائی سے ویچارا ڈرتا
سارا دن ساری رین پکارے بچارا
اُسی کیتے کوچے میں دن رین کھڑتا
یک دم وہ مرتا یک دم وہ جیتا
کبھی وہ بے رہا نظر نہیں کرتا
کرنا عرض یہ غرض میں کوں تم سے
وہ بے غرض بولے اپنوین ھُن نہ مرتا
جو دم جو میں جیتا کنہ سے رہ آئے
بیکس کا نھیں وس وہ آپ ہے کرتا
(روپ گجری)
شہنشاہ قلندر تو ہے ھادی میرا
سوا تیرے صاحب نہیں اور کوئی میرا
کرسی عرش افلاک میں جو نقارا
بدھر جاھر ملک نظارا ہے تیرا
مقبول کرنا یہ عرض ہے ہمارا
عشق سے آباد اب کردے دل کا دیرا
ولایت وحدت کا تو ہے ویر والی
تو واقف دلوں کا ہے سو الی ہوں میں تیرا
ملا یار میرا مجھ کو جو ہے خود خیالی
یہ ہردل ہے جاری تھا حکم تیرا
پکارتی میری دل یہ فریاد کرتی
ملا یار بیکس کُوں فضل کا کرو پھیرا
سوا یار میرے کوئی ساعت نہیں سہرتی
کیا ہے میری دل کو جس نے بسیرا بسیرا
(روپ گجری)
آیا بیکس ہو یا بلبل
دیکھو گلشن حسن سارا
تماشا عجب گل پُھل کا
سرخ سوسن ہے زنگارا
ارے ملاں نہ کر بک بک
نہ اتنا مار تو جک جک
وھم کا ورق دھو یک یک
پچھے ھن نینھن کا نعرا
نہ کر قاضی کوڑے مسئلے
لوکاں دے کیوں تکیں وَصلے
رندی ہک رمز تو رَسلے
کیوں کر پندائیں کاغذان کارا
طبیبا چھوڑ اُٹھ جاؤ
اَتھی ھی عشق جو پھاہو
دوایاں دے نہ کر کایو
محبت کا مرض بے چارا
طب۔ میزاں کھول کے ناؤس
میں ہوں بیخود تے بیوس
کیتا میں نوں برھہ بیکس
دوا ہے درد دیدارا
(روپ آسا)

صابر عدنانی
About the Author: صابر عدنانی Read More Articles by صابر عدنانی: 34 Articles with 79015 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.