بھارت میں گائے کا گوشت فریج میں
رکھنے کے الزام میں ہندوؤں نے ایک مسلمان کے گھر حملہ کر کے اس کو ہلاک اور
اس کے بیٹے کو شدید زخمی کر دیا۔گائے کا گوشت کھانے،گائے لیجانے،گائے کا
گوشت رکھنے کے الزامات میں بھارت میں ایسے ہی دیگر کئی واقعات میں ہندوؤں
نے بڑی تعداد میں جمع ہو کر متعدد مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا،کئی
جگہوں پر کسی مسلمان کو پکڑ کر سخت تشدد سے اسے سرعام لیو لہان کرنے کے
متعدد واقعات میڈیا کی زینت بنے۔ اسی دوران ہندو’’ جتھوں‘‘ نے متعددلتوں (اچھوت،شودر)
کو مختلف الزامات میں بیدردی سے ہلاک کیا ،انہیں غیر انسانی سلوک کا نشانہ
بنایا گیا۔ایک دلت خاندان کے دو مردوں اور دو خواتین کو ایسے ہی ایک ہندو
جتھے کے ہاتھوں سرعام عریاں کرنے کی تصاویر بھی میڈیا میں دیکھی گئیں۔ ایک
نوجوان کشمیری ٹرک ڈرائیور کو اودھمپور میں ہندو بلوائیوں نے ٹرک کے اندر
ہی جلا کر ہلاک کر دیا۔ہندوستان میں تو اقلیتیں چپ کر کے قتل و غارت گری ،ظلم
و جبر سہنے پر مجبور ہیں لیکن ٹرک میں زندہ جلا کر قتل کیا جانے والے
کشمیری نوجوان کے پیچھے تمام کشمیر کے عوام ہیں۔انتہا پسند ہندوؤں کے
ہاتھوں اس بہیمانہ قتل کے خلاف مقبوضہ کشمیر میں مکمل ہڑتال رہی اور ہر جگہ
کشمیری نوجوان سخت احتجاج کرتے ہوئے بھارتی فورسز پر پتھراؤ اور نہتے
بھارتی فورسز کا مقابلہ کرتے رہے۔کشمیریوں کی جدوجہد آزادی نے کشمیریوں کو
ایک ایسے اجتماعی سانچے میں ڈھال دیا ہے جو کسی بھی کشمیری پر بھارت کے ظلم
و جبر کے خلاف سراپا احتجاج بن جاتا ہے۔مقبوضہ کشمیر اسمبلی کے آزاد رکن
انجینئر رشید نئی دہلی میں مقتول کشمیری ٹرک ڈرائیور کے اہل خانہ کے ساتھ
پریس کانفرنس کرنے نکلے ہی تھے کہ چند ہندو جنونیوں نے ان کے چہرے پر بڑی
مقدار میں کالی سیاہی انڈیل دی۔اس واقعہ کا کشمیریوں پر گہرا اثر ہوا ہے
اور شیخ عبداﷲ کے فرزند فاروق عبداﷲ بھی یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ کشمیر
میں یہ سوچ مضبوط ہو رہی ہے کہ جناح کا فیصلہ درست تھا۔ انجینئر رشید نے
بھی اس واقعہ پر کہا کہ ’’ میں پاکستان کے قیام کادرست فیصلہ کرنے پر جناح
کو سلوٹ پیش کرتا ہوں‘‘۔اسی دوران بھارتی پنجاب( عملا اب بھارتی پنجاب نام
کا کوئی علاقہ موجود نہیں ہے،سابق بھارتی پنجاب کو مرکز کے زیر انتظام
علاقوں سمیت مختلف ناموں والی ریاستوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے ،سکھوں میں
اس بات کا گہرا احساس پایا جاتا ہے ) میں سکھوں کی مقدس کتاب گرنتھ صاحب کے
اوراق کی سرعام بے حرمتی کا واقعہ پیش آیا جس پر بھارت کے مختلف علاقوں
سمیت،مقبوضہ کشمیر،پاکستان اور دنیا بھر میں مقیم سکھوں کی طرف سے احتجاجی
مظاہرے جاری ہیں۔بے حرمتی کانشانہ بننے والی سکھوں کی مقدس کتاب گرنتھ صاحب
کو سکھوں کے مقدس مقام گولڈن ٹیمپل سے چرایا گیا تھا۔
یوں بی جے پی حکومت کی طرف سے اقتدار میں آتے ہی اکثریتی انتہا پسند ہندوؤں
کے اقلیتوں کے خلاف پرتشدد اور ظالمانہ کاروائیوں کا ایک نیاسلسلہ چل نکلا
ہے۔بھارت کے پروفیسر ابی کمار دوبے کے مطابق ’بی جے پی ‘ اپنے بنیادی عقیدے
کو پورے ملک میں یکساں طور پر نافذ کرنے کے بجائے صرف انہی ریاستوں میں
آزما رہی ہے جہاں دوسری جماعتوں کی حکومت ہے، اپنی ریاستوں میں نہیں۔بھارت
میں چند حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر’ بی جے پی ‘اور اس کی حامی تنظیموں،
جیسے بجرنگ دل، گا رشا دل اور ہندو جاگرن منچ، شیو سینانے اپنے قدم واپس
نہیں کھینچے تو یہ ثقافتی سیاست انھیں بہت مہنگی پڑنے والی ہے۔ میرے خیا ل
میں بھارتی حلقو ں نے یہ کہتے ہوئے بہت کسر نفسی سے کام لیا ہے کہ’’ یہ
انتہا پسندی انہیں بہت مہنگی پڑنے والی ہے‘‘،حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان میں
اقلیتوں کے خلاف اکثریتی ہندوؤں کے اس مسلسل غیر انسانی طرز عمل سے
ہندوستان میں نئی آزاد ریاستوں کے قیام کی ضرورت اور جواز کو تقویت مل رہی
ہے۔
ہائے یہ ہندو انتہا پسندوں کی بے تابیاں کہ جو کانگریس کے میٹھے زہر او’ر
سلو پائیزنگ‘ کے فلسفے پر عمل کے ذر یعے دشمن ،مخالف کو ختم کر کے اسی کی
لاش پہ روتے ہوئے شور مچانا کہ میرے بھائی کو کون مار گیا ہے،کی جگہ دشمن
کو ایک دم ہی ختم کرنے کی سوچ اور عمل کو اختیار کرنے کے درپے ہے۔کانگریس
کا یہ فلسفہ کوٹیلہ چانکیہ کی کتاب ’’ارتھ شاستر‘‘ میں بیان ہے جس کتاب میں
مخصوص اصول حکمرانی وضع کئے گئے ہیں۔قدیم ہندوستان کے ایک بادشاہ نے ویرانے
میں ایک سادھو نما شخص کو ایک عجیب حرکت کرتے دیکھا،وہ سادھوں میٹھا شیرا
بنا کر سرسبز گھاس میں ڈال رہا تھا۔بادشاہ نے اس سے پوچھا کہ یہ کیا کر رہے
ہو ؟سادھو نے جواب دیا کہ میں یہاں سے گزر رہا تھا،اس گھاس نے میرے پاؤں
زخمی کر دیئے ہیں ،لہذا گھاس کو سزا دے ر ہا ہوں۔بادشاہ اور بھی حیران ہوا
،اور کہنے لگا کہ گھاس کو سزا دینی ہے تو اس کو اکھاڑ دو،جلا دو،یہ کیا کہ
گھاس میں شیرا ڈال رہے ہو۔سادھو نے جواب دیا کہ گھاس کو اکھاڑنے،جلانے سے
اگلے سال اور بھی اچھی گھاس اگ آئے گی،میں نے گھاس کی جڑوں میں شیرا ڈالا
ہے،چیونٹیاں اس گھاس کو جڑوں سے اکھاڑ لیں گی اور اگلے سال یہاں گھاس کے
میدان کی جگہ ایک چٹیل میدان ہو گا۔بادشاہ اس سادھو کی حکمت سے بہت متاثر
ہوا اور کوٹیلہ چانکیہ نامی اس شخص کو اپنا مشیر بنا لیا،جس نے بعد میں
بادشاہ کے لئے اصول حکمرانی تیار کئے۔کانگریس نے اسی فلسفے کی حکمت عملی سے
ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں ،سکھوں،عیسائیوں اور نصف کروڑ سے زائد
آبادی والے شودروں کو نچلی ترین مخلوق بنا کر انہیں مسلسل سزایاب کرنے کا
انداز جاری رکھا۔ہندوستان میں حکومت ملی تو ہندو سوچ و فکراور عمل کی
جنونیت اور وحشت کو مزید تقویت ملی اور ہندوؤں میں دوسرے فرقوں کو برداشت
نہ کرنے اور ان کی جان و مال اور عزت و آبرو سے مختلف حیلے بہانوں سے
کھیلتے رہنے کے سلسلے کو تیز کر نے کے رجحان کو تقویت ملی۔جس ہندو مت میں
انسان کی پیدائش سے پہلے ہی معاشرے میں اس کا اعلی تر مقام طے ہو جانا اور
کسی کا پیدا ہونے سے پہلے ہی انسانیت کے نچلے ترین درجے پر ہی رہنا حتمی
طور پر قرار پا چکا ہے،اس معاشرے کو جمہوری تو دور انسانی معاشرہ بھی قرار
دینا بہت مشکل ہو جاتاہے کہ ہندو اکثریت ہندوستان میں رہنے والی تمام
اقلیتوں کو شودر کی سطح پر رکھنے اور مزاحمت پر انہیں ختم کر ددینے کے
روایات کو مزید فروغ دینا چاہتی ہے۔اس انتہا پسندانہ اور غیر انسانی سوچ کے
پیرو کار ہندو اپنی جنونیت سے ہندوستان میں مزید آزاد ریاستوں کے قیام کے
جواز کو تقویت پہنچارہے ہیں۔’بی جے پی’ کے گزشتہ عرصہ حکومت میں علمی
قابلیت کے حامل افراد کا غلبہ نظر آتا تھا لیکن کچھ عرصہ پہلے’ بی جے پی‘
اوسط سطح کے جنونی کردار کے مکمل غلبے میں مغلوب ہو چکی ہے۔ہندوستان میں
سیکولر ازم کا مطلب اکثریتی ہندو طبقے کی ایسی حکمرانی ہے جو عملا اقلیتوں
کے حقوق ہی نہیں ان کے وجود کی بھی نفی کرتی ہے۔
ریاست کشمیر کے معروف دانشور،انسانی حقوق اور قانون کی بالادستی کے لئے
عالمی سطح پہ متحرک اور کشمیر کے تمام موضوعات پر گہری نظر رکھنے والے
ڈاکٹر سید نزیر گیلانی نے ہندستان میں اس نئی صورتحال کے حوالے سے کہا ہے
کہ بھارت کے مختلف علاقوں میں مسلمانوں کے خلاف پرتشدد حملوں کا ایک سلسلہ
چل نکلا ہے،ایک دلت بھم راؤ امبیڈکرہندوستان کا آئین بنانے والوں میں شامل
تھا۔دینڈی ڈونیگر اپنی کتاب ’’ دی ہندوستان،متبادل تاریخ ‘‘ میں ا
مبیڈکر،جو بابا صاحب کے نام سے بھی جانا جاتا تھا،کے حوالے سے لکھا کہ
ہندوستان میں دلتوں کو ہندو روایات کا حصہ قرار دیا جاتا ہے لیکن ان سے نا
انصافی کی جاتی ہے، انہیں چھونے سے ناپاک ہو جاتے ہیں،چناچہ یہ ناممکن ہے
کہ وہ ہندوؤں کا حصہ بنیں۔امبیڈ کر نے کہا ،گاندھی جی،میرے پاس کوئی وطن
نہیں ہے ،میں اس سرزمین کو اپنی سرزمین اور اس مذہب ( ہندو مت)کوکیسے اپنا
مذہب (فرقہ)کہہ سکتا ہوں،جہاں ہم سے بلیوں اور کتوں سے بھی بدتر سلوک کیا
جاتا ہے،ہمیں پینے کے لئے پانی نہیں مل سکتا۔دینڈیڈونیگرنے ہاروڈ اور
آکسورڈ سے سنسکرت اور انڈین سٹیڈیز میں ڈاکٹریٹ کی ،لکھتی ہیں کہ آخر
ہندوستانی آئین کا معمار ا مبیڈکر بدھ مت میں شامل ہو گیا،اس نے اپنا سماجی
فعالیت کا نظرئیہ دیا،1956ء میں ا مبیڈکر پانچ ملین(پچاس لاکھ) دلتوں کے
ساتھ ہندو مت چھوڑ کر بدھ مت میں شامل ہو گیا۔ا مبیڈکر کو خطرہ تھا کہ بدھ
مت اختیار کرنے کے باوجود ہندو معاشرے میں بدستور ناقابل قبول رہیں گے۔ سید
نزیر گیلانی کا کہنا ہے کہ مودی ایک ناراض ہندوستان ہے،جو اس طرز سیاست کی
طرف لوٹ آیا ہے ،جو ’ہندو آؤٹ لک‘ کے ایڈیٹر،سیکرٹری جنرل ہندو مہا سبھاجی
دیش پانڈے نے 9ستمبر 1947 کو شائع ہونے والے اپنے مضمون ،اس وقت اقوام
متحدہ میں کشمیر زیر بحث تھا،میں ہندوؤں اور سکھوں سے مطالبہ کیا کہ(1)
موجود ہ فضول حکومت کو ہٹایا جائے اور سخت گیر ہندوان کی جگہ لیں (2)انڈین
یونین کو ہندو ریاست قرار دیا جائے(3)ملک کو پاکستان کے ساتھ جنگ کے لئے
تیار کیا جائے(4)لازمی بھرتی نافذ کرتے ہوئے تمام ہندو جوانوں کو فوج میں
بھرتی کیاجائے(5)مسلمانوں کے ساتھ دشمن کے آلہ کار کے طور پر سلوک کیا جائے
(6)اسلام،مسلمان کہلانے کو غیر قانونی قرار دیا جائے۔اسی طرح شیو سینا کا
کہنا ہے کہ ہندوستان کبھی سیکولر ریاست نہیں تھی بلکہ ہندو ریاست
ہے۔28جنوری2015کو شیو سینا نے مطالبہ کیا کہ ’سیکولر‘ اور ’سوشلسٹ‘ کے
الفاظ آئین کے ابتدائیے سے ہمیشہ کے لئے ختم کر دیئے جائیں کیونکہ ہندستان
ہندو ریاست ہے۔1931میں ’آر ایس ایس‘ نے وادی کشمیر میں مسلمانوں کی تحریک
کے خلاف ڈوگرہ فوج کی مدد کے لئے رضاکار بھیجے۔15جنوری1948کوُ ’آر ایس ایس‘
کے ایک ادارئیے میں کہا گیا کہ’’ کشمیر ہندوؤں کا روحانی گھر ہے اور رہے
گا،مہاراجہ کے خلاف بغاوت ایک گناہ ہے ،ہندو بادشاہت دنیا کی قدیم ترین ہے
،اب کشمیر میں ہندو راج کا احیاء ہو گا‘‘۔انہوں نے کہا کہ .حقیقت میں مئی
2012کو اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل میں بھارتی خیالات ،اور
2014-15میں بھارت اور جموں و کشمیر میں بی جے پی کا غلبہ بھارت میں رہنے
والے مسلمانوں کی نسبت ریاست کشمیر کے مسلمانوں(خصوصا وادی کشمیر) میں بہت
زیادہ تشویشناک ہے ۔کشمیر کے وہ لوگ جو بھارت اور پاکستان کے درمیان
مزاکرات سے مسئلہ کشمیر کے حل کے خواہاں ہیں،’بی جے پی‘ کو عالمی سرحد کے
پار سے متعلق غلیظ باتیں کرتے دیکھ کر خود کو ایک سخت پوزیشن میں پاتے
ہیں۔اقوام متحدہ کی ’آفکائیو‘ میں ثبوت محفوظ ہے کہ الوار،بھارت
پور،پٹیالہ،نابھا،جند،فرید کوٹ،کپورتھلا اور گوالیار میں مسلم آبادیوں کو
قتل عام اور جبری انخلاء کے ذریعے ختم کر دیا گیا۔اس ریکارڈ کے مطابق مسلم
اکثریت والے کپورتھلا میں جہاں دو لاکھ پینتیس ہزار مسلمان
تھے،وہاں16جنوری1948ء کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو رپورٹ کے وقت فقط
دو مسلمان باقی بچے تھے۔ |