اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
(Nadeem Ahmed Ansari, India)
’یومِ عاشورا‘ اسلام اور قبلِ
اسلام سے ہی ایک متبرک دن ہے، اسی دن رسول اللہﷺ کے لاڈلے نواسے سیدنا حضرت
حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک ایسا اندوہ ناک اور امت کے لیے عبرت ناک
واقعہ پیش آیاتھا، جو کہ آج تک امت کے ذہنوں سے محو نہیں ہو سکااور نہ
کبھی ہو سکے گا۔۔اسی کی یاد میں مختلف طریق سے جگہ جگہ کربلا کے واقعات پر
مبنی بیانات ہوتے ہیں، مجالس منعقد کی جاتی ہیں، اخبارات میں باقاعدہ اس
موضوع پر خصوصی ضمیمے اور مضامین شایع ہوتے ہیں اور عام مسلمانوں تک واقعۂ
کربلا کا پیغام پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے، گو کہ ان سب میں بعض باتیں
ایسی بھی در آئی ہیں، جن کے متعلق محقق علماء سے رہنمائی حاصل کر عمل کرنے
کی ضرورت ہےلیکن اسی کے ساتھ جو سب سے اہم بات ہے، وہ یہ کہ۔۔اس پورے واقعہ
سے اپنی زندگی میں صحیح سبق اور عبرت حاصل کرنا۔۔ جس کا ہمارے معاشرے میں
فقدان ہے۔
یہ ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ سیدنا حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے عمل سے
یہ ثابت کرکے دکھا دیا کہ کس طرح باطل کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہوا جاتا ہے،
برائی کے سامنے گھٹنے ٹیک دینا اہل ایمان کو زیب نہیں دیتا، راہِ حق میں
جان کا نذرانہ پیش کر دینے سے انسان مٹتا نہیں بلکہ حیاتِ جاویداں پاتا ہے۔۔
لیکن یہ ایک المیہ ہے کہ آج بعض مسلمان، مقررہ تاریخوں میں، اسلام کے بعض
ہیروز کو تو یادکر لیتے ہیں، لیکن ان کے سکھائے ہوئے سبق کو فراموش کر دیتے
ہیں،انھیں وہ باتیں یاد نہیں رہتیں،جن باتوں نے ان شخصیات کو اس درجے پر
فائز کیا۔ تاریخ کے اوراق کی ورق گردانی کریںتو آپ کو معلوم ہوگا کہ اسلام
میں ایسے سیکڑوں واقعات پیش آئے ہیں، جس میں اسلام کے مجاہدین نے اپنی جان
کی ذرا پرواہ کیے بغیر باطل کے سامنے بشوق جامِ شہادت نوش کیا اوربعض تو
ایسے بھی ہیں، جو اس واقعۂ کربلا سے بھی زیادہ دل دہلا دینے والی(بظاہر)
مصیبتوں سے دوچار ہوئے۔ مثال کے طور پر اسلام کی پہلی شہیدسیدتنا حضرت سمیہ
رضی اللہ عنہا کا واقعہ کہ کس طرح ناہنجار ابوجہل نے اس ستر سالہ بوڑھی
عورت کے دونوںپائوں کو الگ الگ اونٹوں کے پائوں میں رسی سے باندھ کر، انھیں
مخالف سمت میں دوڑادیااوراس ضعیفہ کے جسم کے ٹکڑے کر ڈالے۔ رسول اللہ ﷺ کے
دودھ شریک بھائی اور جاں نثار چچا سید الشہداء سیدناحضرت حمزہ رضی اللہ عنہ
کی شہادت اور بعدہٗ ان کے جسمِ مبارک کی اہانت کو بھی کیسے کوئی مسلمان
بھول سکتا ہے؟ کس طرح ہندہ( جو کے بعد میں ایمان لے آئیں۔۔ رضی اللہ عنہا
)اور وحشی ( یہ بھی آگے چل کر ایمان لائے اور صحابیت کے شرف سے مشرف
ہوئے۔۔رضی اللہ عنہ) نے اسلام کے دامن میں آنے سے قبل غزوۂ احد میں ان کے
ناک ،کان کاٹے اور ان کا مثلہ کیا تھا اور رحمتِ عالم ﷺ نےاشک بار آنکھوں
کے سات ارشاد فرمایا تھا کہ اگر مجھے اپنی پھوپھی کا خیال نہ ہوتا تو میں
حضرت حمزہؓ کے جسمِ مبارک کو چیل کووں کی غذا بننے کے لیے چھوڑ دیتا ، تاکہ
قیامت میں جب اللہ تعالیٰ حضرت حمزہؓ کے متعلق پوچھتے، تو ان کے جسم کے
ٹکڑے پرندوں کی چونچوں سے ٹپک پڑتے۔اسی سلسلۃ الذہب کی ایک کڑی، شرم وحیا
کے پیکر، دامادِ رسو ل سیدنا حضرت عثمان ذی النورین رضی اللہ عنہ کی شہادت
کا روح فرسا واقعہ ہے، جو آج بھی قاری کے رونگٹے کھڑے کر دیتا ہےکہ کس طرح
باوجود پوری استطاعت اور قدرت کے اس کبر سن خلیفۂ راشد نے محض اس لیے اپنی
جان جانِ آفریں کے سپرد کردی کہ وہ اپنی جان پر دوسروں کی جانوں کو فوقیت
دیتے تھے اور انھیں یہ گوارہ نہیں تھا کہ صحابہ کرامؓ اور بلوائیوں میں جنگ
اور مدینہ منورہ میںخون خرابہ ہو۔پھر ان سب سے بڑھ کرخلاصۂ کائنات، فخرِ
موجودات حضرت محمد مصطفی، احمد مجتبیٰﷺ کا طائف میں پتھر کھانا اور احد
وغیرہ میں دندانِ مبارک شہید کروانا۔۔۔ یہ وہ سارے واقعات ہیں، جو کہیں نہ
کہیں آج مسلمانوں کے علم میں تو ہیں، لیکن ان سے عبرت حاصل کرنا اور اپنی
زندگی میں انقلاب برپا کرنا اب ہمارا حصہ نہیں رہا۔اللہ تعالیٰ کی قسم!
خاتم الانبیاء کے مبارک لہو کا ایک قطرہ تمام انسانیت کے خون سے کہیں زیادہ
وزنی ہے۔
اس وقت ان تمام باتوں کی یاد دہانی کا مقصد صرف یہ ہے کہ آج ہم مسلمان ،
جوکہ اپنی دنیا و آخرت ہر دو سے بے پرواہ ہیں،کاش ان تمام واقعات سے سبق
حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ یہاں جتنے شہداء کا ذکر کیا گیا، بشمول حضرت
حسینؓ۔۔یہ سب اللہ کے نزدیک نہایت اعلیٰ مقام کے حامل تھے، ان کی زندگی کا
اوڑھنا بچھونا اسلام تھا، ان سب نے اسلام اور اہل اسلام کی خاطر اپنی جانوں
کو قربان کر دیا لیکن کبھی ایسا کوئی اقدام کرنے کے لیے راضی نہیں ہوئے، جو
کہ اسلام یا اہل اسلام کے لیے ادنیٰ خطرےیا شرمندگی کا باعث ہو۔ ان سب نے
اپنی زندگی اور موت سے امت کو یہ سبق دیا کہ موت تو ہر ایک کو آنی ہے،
بہترین موت وہ ہے، جو اسلام کی بجھتی شمع کی حفاظت کرتے ہوئے آئے۔ آج وہ
لوگ، جو کہ اسلام کے دعوے دار ہیں، انھیں اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنے
کی ضرورت ہے کہ ہم آزمائش کے کتنے موقعوں پر کھرے اترتے ہیں، زندگی میں
کتنی دفعہ ہم خود پر دوسروں کی جانوں کو ترجیح دیتے ہیں، اسلام کے فروغ و
بقا کے لیے کیا کچھ برداشت کرتے ہیں اور آنے والی نسلوں تک ان سب کے ذریعے
کیا پیغام منتقل کرتے ہیں! ایسا تونہیں کہ یہ شہادت کے واقعات بھی ہمارے
یہاں محض تہوار کے طور پر منائے جاتے ہیں!
خدارا اپنے حال پر رحم اور نئی نسلوں کی تربیت کیجیے ورنہ دنیا و آخرت
دونوں میں یہ نسلیں ہمارے لیے وبالِ جان ہوں گی اور ہم ان سے نظریں ملانے
کی ہمت نہیں جٹا پائیں گے۔ہمیں اپنے معاشرے میں پھیلی ہوئی برائیوں،
زیادتیوںاور ناہمواریوںسے پھر سے کربلا کی سی رزم آرائی کرنی ہوگی، کیوں
کہ
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد |
|