حضرت سیداحمد کبیر رفاعی رضی اﷲ عنہ کی چندناصحانہ باتیں

عملی زندگی کی کامرانی اوردنیوی واخروی ارتقاکی ضامن

ہر زمانے میں خالق کائنات نے کچھ ایسے نفوس قدسیہ پیدافرمائے جنھوں نے مردہ قوموں کو جلا بخشی اور برسہا برس کے خوابیدہ لوگوں کو غفلت سے بیدار کرکے انھیں منزل مقصود کا صحیح پتہ دیا، جنہوں نے دین اسلام کی نصرت وحمایت کو اپنا جزوِ زندگی بنایا اور ہمیشہ دشمنان اسلام کے مقابل صف آرا رہے۔ یہ وہ مقدس ہستیاں تھیں جنہیں اﷲ تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے گمراہوں کی ہدایت، سرکشوں کی اصلاح اور حق وباطل کے درمیان امتیاز پیدا کرنے کے لئے پیدا فرمایا ۔جنہوں نے اعلائے کلمۃ الحق کے لئے اپنا سب کچھ راہ خدا میں قربان کردیا ،حق گوئی وراست بازی جن کا شعار تھا، دنیا کی کوئی طاقت انہیں اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی سے باز نہ رکھ سکی، بڑی سے بڑی جابر وظالم حکومتیں بھی ان حضرات کے پائے استقامت کو ذرہ برابر بھی جنبش نہ دے سکیں ۔عشق مصطفےٰﷺ سے سرشار اﷲ تعالیٰ کے یہ برگزیدہ بندے جس طرح اپنی حیات ظاہری میں بھٹکے ہوئے انسانوں کی رہنمائی فرماتے اور نا مرادوں کی مرادیں پوری کرتے ہیں اسی طرح اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد بھی حاجت مندوں کی حاجت روائی کرتے ہیں اور شکستہ دلوں کی د ل بستگی کا سامان مہیا کرتے ہیں اسی لئے بعد وفات بھی ان کی بارگاہوں میں یي دنیابھرکے دیار وامصار سے لوگ نیاز مندانہ حاضری دیتے ہیں اور گوہر مراد سے اپنی اپنی جھولیاں بھرتے ہیں ۔

ولاد ت باسعادت
اس مقدس گروہ کے وہ حضرات جو آسمان ِ ہدایت کے آفتاب وماہتاب بن کر چمکے اور جن کی روشنی سے پوری دنیا کے لوگ مستفیدومستفیض ہوئے،ان میں سے ایک ذات گرامی رفاعیہ سلسلہ کے بانی سیدالاولیاء محی الدین ابوالعباس حضرت سیداحمد کبیر رفاعی رحمۃ اﷲ علیہ کی بھی ہے۔آپ کا مبارک نام سیداحمدکبیرہے،ابوالعباس کنیت ہے اور محی الدین لقب ہے،آپ کے اجدادمیں ایک صاحب کا نام رفاعہ تھا،ان کی طرف نسبت کے سبب ’’رفاعی‘‘مشہورہیں اور حضرت امام شافعی رضی اﷲ عنہ کی تقلید کے سبب شافعی کہے جاتے ہیں۔آپ 15؍رجب المرجب 512؍ھ کو مقام’’ حسن‘‘ میں پیداہوئے جو عراق میں ام عبیدہ کے قریب شہر واسط کے علاقہ میں ہے۔آپ کے زمانۂ ولادت میں خلفائے عباسیہ میں سے خلیفۃ المسلمین مسترشدباﷲ سریرآرائے خلافت تھے۔(سیدالاولیاء،از:فقیہ ملت مفتی جلال الدین احمد امجدی ، ص8)
خدمت خلق
آپ انتہائی اعلیٰ اخلاق کے مالک تھے۔امیر وغریب،ادنیٰ واعلیٰ،ذات پات اور چھوٹوں بڑوں سب سے آپ یکساں سلوک کرتے تھے۔اکثرآپ مجذوبوں، اپاہجوں، نابیناؤں اور کوڑھیوں کے پاس جاتے، انھیں نہلاتے، ان کے کپڑے دھوتے،سراور داڑھیوں میں کنگھی کرتے،ان کے لیے کھانالے جاتے اور خود ساتھ تناول فرماتے،ان سے دعاؤں کی گزارش کرتے اور فرماتے ایسے لوگوں کی زیارت مستحب بلکہ واجب ہے۔(معدن الاسرار،ص 95)
ام عبیدہ کے دوردراز دیہاتوں میں کوئی علیل ہوتاتو اس کی تیمارداری کے لیے آپ ضرور تشریف لے جاتے،بوقت ضرورت کچھ دن ان کے پاس قیام کرتے،واپسی میں جنگل سے لکڑیاں اٹھا لاتے اوربیواؤں،یتیموں،مسکینوں،اپاہجوں،نابیناؤں اور کبھی مشائخ وعلماء کے گھروں میں تقسیم کرتے۔آپ کو ایساکرتے دیکھ کر آپ کی اتباع میں کثیر افراد نے اس فعل پر عمل شروع کردیاتھا۔آپ کی ایک عادت یہ بھی تھی کہ آپ سڑک پر نابیناؤں کا انتظار فرماتے تاکہ وہ اپنی منزل تک بخیروعافیت پہنچ جائیں۔آپ جب کسی ضعیف کودیکھتے تو اس کے محلہ میں تشریف لے جاتے اور اہل محلہ سے اس کی سفارش کرتے اور فرماتے کہ شاہکار دست قدرت مصطفی جان رحمتﷺنے فرمایاہے کہ جوسفید بالوں والے یعنی بوڑھے آدمی کی تعظیم کرتاہے اﷲ تعالیٰ اس کیلئے ایسے شخص کوپیداکردے گاجو اس کی ضعیفی میں اس کی تعظیم کرے گا۔(معدن الاسرار،ص 96)
تربیت کااندازیہ بھی ہے
ایک دن آپ وضو کے لیے کھجور کے باغ میں تشریف لے گئے ،جو دریاکے کنارے تھا،آپ نے دیکھاکہ ایک کشتی جارہی ہے جس میں کوتوال اور دیوان کے ملازم سوارتھے،ان کے ہمراہ بیگاریوں کی ایک جماعت تھی ۔سپاہی نے آپ کو دیکھ کر ساتھ چلنے کو کہا،آپ ساتھ ہوگئے،سپاہی نے آپ کو بھی بیگار میں داخل کردیا،گاؤں پہنچنے پر کام کرتے ہوئے ایک فقیر نے آپ کو دیکھ لیا،فقیر کے کہنے پر بہت سے فقراء وہاں جمع ہوگئے اور شوروغل مچانے لگے۔جب کشتی والوں کومعلوم ہواکہ آپ سید احمد کبیر رفاعی ہیں تو اپنے کئے پر بہت نادم ہوئے اور معذرت کرنے لگے۔آپ نے فرمایا:صاحبو!جوکچھ ہوا، اچھا ہوا، تمھاری حاجت پوری ہوئی اور ہمیں نیکی ملی اور نقصان بھی نہیں ہوا،تم بیکار ضعیفوں یاکاروباری لوگوں کوپکڑتے ہو، ان کے کاموں سے ان بے چاروں کو روک کر گنہگار بنتے ہو۔اگر آئندہ تمہیں ضرورت ہوتومجھے خبر کرنا،میں تمہاراکام کردوں گا۔(معدن الاسرار،ص 96)اثرورسوخ اور شان وشوکت کے مالک ہونے کے باوجودآپ نے جس طرح سے ان کی تربیت فرمائی اس اندازکریمانہ سے متاثرہوکر اس فعل سے نہ صرف سپاہیوں نے توبہ کی بلکہ ان کاسردار بھی اس عمل سے تائب ہوا۔
آپ نے مختلف طریقوں سے مسلمانوں کی تربیت واصلاح فرمائی۔اپنے خطبات و ارشادات اور مواعظ حسنہ کے ذریعے آپ نے ہر طرح کے لوگوں کی اصلاح کافریضہ انجام دیااور دلوں کی دنیا میں انقلاب برپا کیا۔اس سلسلے میں ہم آپ کے مواعظ وارشادات و نصائح سے اقتباسات پیش کرتے ہیں تا کہ موضوع سے متعلق مواد مہیا ہو اور دیکھیں کہ کیسے البیلے اور سادہ سادہ انداز میں حضرت رفاعی نے اصلاح وتربیت کا مبارک فریضہ انجام دیا۔
سعادت کی کنجی:
حضرت رفاعی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:میں تم سے کہہ دینا چاہتاہوں کہ دائمی سعادت کی کنجی رسول اﷲﷺ کی پیروی ہے۔تمام افعال میں جو آپ نے کئے ہیں اورجن سے آپ رکے ہیں،اسی طرح آپ کی وضع کاکھانے پینے ،اٹھنے بیٹھنے،سونے بولنے میں بھی اتباع کیا جائے،تاکہ تم کو اتباع کامل نصیب ہوجائے۔ہم کوایک بزرگ کے متعلق معلوم ہواکہ انہوں نے (عمربھر)خربوزہ نہیں کھایاکیوں کہ ان کوکسی حدیث سے یہ معلوم نہ ہواتھاکہ رسول اﷲ ﷺنے خربوزہ کس طرح کھایاہے۔اسی طرح ایک بزرگ نے موزہ بھولے سے بائیں پیر میں پہلے پہنناشروع کردیا تواس (خلاف سنت عمل)کے کفارہ میں کسی قدر گیہوں خیرات کیا۔(البنیان المشید،ص153)
اس اقتباس میں حضرت رفاعی علیہ الرحمہ نے اتباع سنت کی تعلیم بڑے عمدہ انداز میں دی ہے۔ جس میں اپنی زندگی کے ہر عمل کو رسول کائنات ﷺ کے طریقے پر ڈھالنے کا درس ہے۔
ناصح میں عمل کومت دیکھو:
ہمیں ہر حال میں اپنے دامن کو برائی سے روکنا چاہئے اور قوم کو برائی سے رکنے کی دعوت دینا چاہئے ،نیکی کا حکم دیتے رہنا چاہئے اور برائی سے روکتے رہنا چاہئے اس لئے کہ جب نیکی کا حکم دیتے رہیں گے تو ایک نہ ایک دن ضرور نیکی کا خیال بھی پیدا ہوگا اور برائی سے روکتے رہیں گے تو دل ضرور برائی سے رکنے کو کہے گا۔ اس ضمن میں حضرت رفاعی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
’’بزرگو!میں تم سے کہنا چاہتاہوں کہ اﷲ تعالیٰ کا مجھ پر احسان ہے کہ جن باتوں کا میں تم کو حکم کرتاہوں،یاترغیب دیتا ہوں،پہلے ان سے خود آراستہ ہوچکاہوں لیکن تمہاری بھلائی اس میں ہے کہ تم کسی واعظ یا ناصح سے اس شرط کا مطالبہ نہ کرواور اس بات سے شیطان کواپنے اوپرکا میاب نہ کرو کہ ہم تو اس وقت تک امربالمعروف نہ کریں گے جب تک خود پوری طرح عمل نہ کرلیں اور بری باتوں سے اس وقت تک دوسروں کو منع نہ کریں گے جب تک خود سب برائیوں سے نہ بچ جائیں،اس کا انجام یہ ہوگا کہ احتساب کا دروازہ بند ہوجائے گاکیوں کہ گناہوں سے معصوم کون ہے؟تم اچھی باتوں کا حکم کرواگرچہ تم نے سب پر عمل نہ کیاہو،بری باتوں سے روکو،اگرچہ تم سب برائیوں سے نہ بچے ہو،ہمارے نبی کریمﷺنے ہم کو یہی حکم دیاہے‘‘۔ (البنیان المشیدالبرہان المؤید،ص152)
علماء کو نصیحت:
ہمیں چاہئے کہ حق باتوں کا لوگوں کو حکم دیں اور اس کے مطابق خود بھی عمل کریں، عوام کو نصیحت کرنے سے پہلے خود کو نصیحت کریں، عوام کی آخرت کا فائدہ سوچنے کے ساتھ اپنے انجام پربھی غور کرنا چاہئے۔ عام طور پر ہمارا حال یہ ہے کہ ہم لوگوں کو نصیحت کرتے وقت خود کو بھول جاتے ہیں۔اس بد عملی کے سدّ باب کے لیے حضرت رفاعی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
’’اے علماء!تم ایسا مت کروکہ علم کی حلاوت(مٹھاس) لے لواور عمل کی تلخی ومشقت کو چھوڑ بیٹھو۔اس لیے کہ یہ حلاوت بغیر اس تلخی کے فائدہ مند نہیں اور اس تلخی کا ثمرہ ہمیشہ ہمیشہ کی حلاوت ہے۔(یعنی جنت کی راحت جو کبھی ختم ہونے والی نہیں)۔انالانضیع اجر․․․․․․․․․الخ۔ترجمہ:بے شک جو ایمان لائے اور نیک کام کیے ہم ان کے نیک ضائع نہیں کرتے جن کے کام اچھے ہو۔(سورہ کہف،پارہ 15،آیت 30)نص قرآنی ہے،اس کا مطلب یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ اس شخص کا ثواب ضائع نہیں کرتاجن کے کام اچھے ہوں اور اچھی طرح عمل کا مطلب یہ ہے کہ اخلاص کے ساتھ کیاجائے۔یہ آیت تم کو بتلاتی ہے کہ اعمال کابدلہ ضرور ملے گا(جب کہ ان میں اخلاص ہو)اور اخلاص یہ ہے کہ عمل خالص اﷲ کے لیے ہو،نہ دنیاکے لیے ہو نہ آخرت کے لیے ہو اور اس کے ساتھ ہر حالت میں اور ہر عمل میں اور ہربات میں اﷲ پرایمان رکھتے ہوئے اس کے ساتھ حسن ظن بھی ہو۔اس کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے‘‘۔(البرہان الموید،ص73،بحوالہ:سیدالاولیاء،از:فقیہ ملت مفتی جلال الدین احمد امجدی،ص43)
علم پر عمل کرو:
وہ شخص بہت کم عقل ہے جو دنیا کے گوشہ گوشہ میں لوگوں کو دعوت دین دیتا پھرے لیکن خود اپنی اصلاح کی جانب توجہ نہ دے۔چنانچہ ارشاد ربانی ہے:ترجمہ:اور لوگوں کو بھلائی کا حکم دیتے ہو اور اپنی جانوں کو بھولتے ہو حالانکہ تم کتاب پڑھتے ہو تو کیا تمہیں عقل نہیں۔(پ۱؍رکوع۵،کنزالایمان)چنانچہ حضرت رفاعی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
’’عزیز من!جب تم کوئی علم حاصل کرویااچھی حکایت سنوتو اس پر عمل کرواور ان لوگوں میں داخل نہ ہوجوجانتے ہیں اور عمل نہیں کرتے ہیں۔عزیزمن!عالم کی نجات اسی میں ہے کہ اپنے علم پر عمل کرے،عمل نہ کرنااس کی تباہی ہے۔اس لیے کہ حدیث شریف میں ہے کہ قیامت کے دن اس عالم پرسب سے زیادہ عذاب ہوگا جس نے اپنے علم سے فائدہ نہیں حاصل کیا۔لہٰذااپنے وقت کو کھیل کود،گانے بجانے اور ہنسانے والوں کی باتیں سننے میں برباد نہ کرو‘‘۔(البرہان الموید ، ص 107، بحوالہ:سیدالاولیاء،از:فقیہ ملت مفتی جلال الدین احمد امجدی،ص55)
ایک جگہ مزید ارشاد فرماتے ہیں:
’’تیراساراحصہ زبان ہی (میں)نہ ہوناچاہئے کہ علم حاصل کرکے صرف باتیں بنانا،وعظ وتقریر کرناہی سیکھ لے اور دل میں علم کااثرنہ ہو۔اﷲ سے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں۔(پس علم حاصل کرکے اﷲ کے خوف سے دل کو رنگنا چاہئے)۔تیری انتہاایسی نہ ہوناچاہئے کہ اپنی حالت سے خود اپنے آپ ہی کو جھٹلائے (کہ زبان سے تو علم کی باتیں بیان کرے اور حالت وعمل سے یہ ظاہر ہوکہ تیرے دل میں خوف خدااصلاً نہیں ،یہ علم کی شان نہیں بلکہ جہالت کی علامت ہے)‘‘۔(البنیان المشیدالبرہان المؤید،ص175)
سامعین کو نصیحت:
جب تم کسی واعظ یاقصہ گویامدرس کو(وعظ کہتے ہوئے یا درس دیتے ہوئے)دیکھوتواس سے اﷲ کی باتیں لے لو،رسول اﷲﷺکی باتیں لے لو،اور ان ائمہ کی باتیں لے لوجوعدل وانصاف سء فیصلہ کرتے اور حق بات کہاکرتے تھے،اس کے علاوہ جو کچھ ہواس کو پھینک دواور اگر وہ ایسی نئی بات نکالے جو رسول اﷲ ﷺنے نہیں بتلائی تو اس کو اس کے منہ پر ماردو،ڈرتے رہو،بچتے رہواس عظیم الشان نبی کی مخالفت سے۔ صلوات اﷲ وسلام علیہ۔(البنیان المشیدالبرہان المؤید،ص58)
صوفیا کونصیحت:
دورِ رفاعی میں مسلمان عمل کے میدان سے دور ہوکر بحث ومباحثے میں الجھتے جا رہے تھے،بحث کررہے تھے قضاوقدر کے مسئلے پر،مناظرے ہورہے تھے سفید رنگ زیادہ محبوب ہے یا سبز،عملی زندگی سے کوسوں دور سلف وصالحین کے اقوال وارشادات کو موضوع بحث بنایاجارہاتھا،گویا کہ ؂
زندہ قوت تھی جہاں میں یہی توحید کبھی آج کیاہے فقط اک مسئلہ علم کلام
ایسے پس منظر میں حضور شیخ احمد کبیر رفاعی علیہ الرحمہ علم وعمل کے پیغام دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:
’’بزرگو!تم یہ کہتے ہوکہ حارث نے یہ کہا،بایزیدبسطامی نے یہ کہا اورابن منصورحلاّج نے یہ کہا،یہ تمہاری کیا حالت ہے؟ان باتوں سے پہلے یہ کہوکہ امام شافعی نے یوں فرمایا،امام مالک نے یوں فرمایا،امام احمد نے یوں فرمایااور امام ابوحنیفہ نے یہ فرمایا۔حارث اور بایزید بسطامی کا قول نہ تم کوگھٹاسکتاہے ،نہ بڑھاسکتاہے کیونکہ وہ محض اسرار واحوال اور مواجید وکیفیات ہیں،جوہر شخص کوجداجداپیش آتی ہیں ۔ان کے حاصل کرنے میں کسی کے ارادہ واختیار کودخل نہیں اور امام شافعی وامام مالک (وغیرہ ائمہ شریعت)کے اقوال کامیاب طریقے اور نزدیک راستے ہیں۔پہلے علم وعمل سے شریعت کے ستونوں کومضبوط کرلو،اس کے بعد علم وعمل کی باریکیوں اور اسرار معلوم کرنے کے لیے بلند ہمت کرنا،علم کی ایک مجلس ستّربرس کی عبادت سے افضل ہے۔مراد وہ نفل عبادات ہیں جوفرائض سے زیادہ ہوں اور بغیر علم کی اداکی جائیں۔(البرہان الموید،74ص،بحوالہ:سیدالاولیاء،از:فقیہ ملت مفتی جلال الدین احمد امجدی،ص44)
مریدین کو نصیحت:
اپنے مریدین ،متوسلین اور قریبی احباب کو خطاب کرتے ہوئے آپ نے فرمایا:
’’میرے دوستو!مجھے کل کو اﷲ سبحانہ کے سامنے شرمندہ نہ کرنا(کہ تم نیک اعمال میں پیچھے رہ جاؤ)اور دوسرے اچھے اعمال والے تم سے سبقت لے جائیں۔درویش کی زندگی کاہر سانس کبریت احمر(سرخ گندھک جو بہت کم دستیاب ہوتی ہے)سے زیادہ قیمتی ہے۔وقت کو برباد کرنے سے بچو،وقت ایک تلوار ہے اگر درویش اس کو ضائع کرتا ہے تو وہ اس کو کاٹ ڈالتاہے۔(یعنی قرب الٰہی کے درجے سے دور کر دیتاہے)اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے:جو رحمن کی یاد سے اندھاہوجائے اس پر ایک شیطان مسلط ہوجاتاہے‘‘۔(البنیان المشیدالبرہان المؤید،ص59)
طریقت میراث نہیں:
میرے پیارے تیرایہ گمان ہے کہ یہ طریقت تیرے باپ کی میراث ہے،تیرے دادا سے سلسلہ بسلسلہ چلی آرہی ہے،تیرے پاس حضرت ابوبکررضی اﷲ عنہ وحضرت عمر رضی اﷲ عنہ کے نام سے آجائے گی ، تیرے شجرۂ نسب میں داخل ہوجائے گی،تیرے خرقہ کے گریبان پر ،تیرے کلاہ پر منقش ہوجائے گی،تو نے اس سرمایہ کو(طریقت)سمجھ لیاہے کہ اونی لباس ہو،ایک کلاہ ہو،ایک لاٹھی ہو،ایک گدڑی اور بڑاساعمامہ ہو،بزرگوں کی سی شان وصورت ہو،نہیں خداکی قسم!اﷲ تعالیٰ ان چیزوں کو نہیں دیکھتابلکہ وہ تو تیرے دل کو دیکھتاہے،تیرے دل میں خداکے اسرار اور اس کے قرب کی برکت کیونکرڈالی جائے کہ وہ تو کلاہ اور خرقہ اور تسبیح اور عصااور ٹاٹ(پالان)کے حجابوں میں (گرفتارہوکر)اﷲ تعالیٰ سے غافل ہورہاہے،یہ عقل کس کام کی جو نورمعرفت سے کوری ہے؟یہ سَر کس کام کاجو جوہرِعقل سے خالی ہے؟اے مسکین!تو نے اس جماعت جیسے کام تو کئے نہیں اوران کالباس پہن لیا؟
عزیزمن!اگر تو اپنے دل کومار کرخوف کالباس پہنتااور ظاہر کولباس ادب سے آرستہ کرتااورنفس کو ذلت کا لباس پہناتااور انانیت کو مٹنے کولباس پہناتااور زبان کو ذکر کے لباس سے آراستہ کرتااوران سب حجابوں سے (جن میں پھنساہواہے)چھوٹ جاتا،اس کے بعد یہ لباس پہنتاتوتیرے لیے اچھاہوتا،بہت بہتر ہوتا،مگر تجھ سے یہ بات کیونکرکہی جائے(یہ تیری سمجھ میں نہیں آئے گی)تو نے تو یہ سمجھ لیاکہ میراکلاہ اس جماعت جیساکلاہ ہے،میرالباس ان کے لباس جیساہے،سب کی صورتیں ملی ہوئی ہیں(مجھ میں اوران میں کیافرق ہے)،حالانکہ دل مختلف ہیں(اور سب سے زیادہ ضرورت دل ہی کے ملنے کی ہے)اگر تجھ کو اپنی حقیقت معلوم ہوتی توماں،باپ،دادا،چچا اور کرتااور کلاہ اور تخت وزینہ سب سے الگ ہوجاتااور خداکی قسم خدا(کوڈھونڈنے )کے لیے ہمارے پاس آتا۔پھر اچھی طرح ادب حاصل کرکے یہ لباس پہنتااور میراگمان تو یہ ہے کہ حسن ادب حاصل ہوجانے کے بعدتو اپنے نفس کواس لباس اورتمام فضولیات سے جو(اﷲ سے)غافل کرنے والی ہیں خود ہی الگ کرلے گا،اے مسکین!تو(اس وقت)اپنے وہم پرچل رہاہے،اپنے خیال پر راستہ طے کررہاہے،اپنے جھوٹ اور عجب وغرور کے ساتھ چل رہاہے،انانیت (اور تکبر)کی ناپاکی لادے ہوئے ہے اور سمجھتا ہے کہ میں بھی کچھ ہوں،بھلایہ کیوں کر ہوسکتاہے؟(تکبر کے ساتھ یہ راستہ ایک قدم بھی طے نہیں ہوسکتا)،تواضع کا علم سیکھ،حیرت کا سبق پڑھ،مسکنت اور انکسار کا علم حاصل کر۔(البنیان المشیدالبرہان المؤید،ص79)
غفلت اور گناہوں سے بچو:
آج اسلامی تعلیمات کو چند چیزوں کا مجموعہ بنا دیاگیاہے،حقوق العباد سے صرفِ نظر کرتے ہوئے پوراتبلیغی زور نماز اور روزے پر لگایاجارہاہے،جب کہ اسلام زندگی کے ہر شعبے کے لیے رہنما اصول فراہم کرتا ہے،اسلام میں سر جھکانا بھی عبادت ہے اور حلال رزق کا حصول بھی۔شیخ احمد کبیر رفاعی علیہ الرحمہ کامل اسلام کی ترجمانی کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’میرے عزیز!میں یہ نہیں کہتا کہ تم تجارت اور صنعت وحرفت وغیرہ جملہ اسباب سے الگ ہوجاؤ بلکہ میں یہ کہتاہوں کہ ان کاموں میں غفلت اور ارتکاب حرام سے بچتے رہو۔میں یہ نہیں کہتاکہ تم بیویوں کو چھوڑ دو اور اچھے کپڑے نہ پہنوبلکہ میں کہتاہوں کہ خبردار!بیوی بچوں میں ایسے مشغول نہ ہوکہ خداکوبھول جاؤ اور قیمتی کپڑے پہن کر غریبوں کے سامنے نہ اتراؤ۔اور میں کہتا ہوں کہ ضرورت سے زیادہ اس طرح زینت وآرائش کا اظہار نہ کروکہ غریبوں کادل ٹوٹ جائیں۔مجھے اندیشہ ہیکہ ایسی زینت سے تمہارے دلوں میں تکبراور غفلت پیوستہ ہوجائے گی۔البتہ میں کہتاہوں کہ اپنالباس صاف ستھرارکھومگر میں اس کے ساتھ یہ بھی کہتاہوں کہ اپنے دلوں کوبھی پاک وصاف رکھو،اس لیے کہ یہ کپڑوں کی صفائی سے مقدم ہے۔اﷲ تعالیٰ تمہارے کپڑوں کو نہیں دیکھتابلکہ تمہارے دلوں کو دیکھتاہے‘‘۔(البرہان الموید ، ص81 ، بحوالہ : سید الا و لیاء ،از:فقیہ ملت مفتی جلال الدین احمد امجدی،ص46)
اخلاق رذیلہ سے بچنے کی تاکید:
مال ودولت ،جاہ وحشمت اورشان وشوکت کا ہونابڑی بات نہیں بلکہ اعلیٰ اخلاق کا مالک ہونا بڑی بات ہے۔بلند اخلاق انسان ہر محاذ پر سرخ رو ہوتاہے،زمانہ اس کی قدر کرتاہے،اور تاریخ کے سنہری پنّوں میں اس کا نام ہمیشہ کے لیے درج ہوجاتاہے،اس کے برعکس اخلاق رذیلہ کا حامل انسان ہر جگہ ذلیل وخوار ہوتاہے،سماج میں اس کی کوئی عزت نہیں ہوتی بلکہ وہ اپنے گھر والوں کی نظرمیں بھی اہمیت کاحق دار نہیں ہوتا۔حضور اکرمﷺمعلم اخلاق ہیں،اس لیے امت محمدیہ میں اخلاق کی اعلیٰ قدروں کا ہونااسلامی تقاضاہے۔لہٰذا حضرت سیداحمد کبیر رفاعی رحمۃ اﷲ علیہ امت مسلمہ کو بری خصلتوں کے نقصانات سے آگاہ کرتے ہوئے ان سے بچنے کی تلقین فرماتے ہیں کہ :
’’میں تم کو چند باتوں سے ڈراتاہوں،خبردار!ان میں سے کسی کو اپنے اندرجگہ نہ دیناکیوں کہ یہ زہرقاتل ہیں۔میں تم کو اﷲ سے ڈرنے کی اور ان عادتوں سے دور رہنے کی سخت تاکیدکرتاہوں جن میں سے ایک حسد ہے۔اس کی حقیقت یہ ہیکہ انسان دوسرے کی نعمت کازوال چاہے ۔دوسرے کِبر ہے جس کی حقیقت یہ ہے کہ آدمی اپنے کو دوسروں سے اچھاسمجھے۔تیسرے جھوٹ ہے جس کی حقیقت خلاف واقعہ گھڑنااور ایسی فضول بیہودہ بات کہناہے جس میں کسی قسم کافائدہ نہ ہو۔چوتھے غیبت ہے جس کی حقیقت یہ ہے کہ کسی کاایساعیب پیٹھ پیچھے بیان کیاجائے جو بشریت کی بنا پر اس میں ہے۔پانچویں حرص ہے جس کی حقیقت یہ ہے کہ دنیاسے جی نہ بھرے۔چھٹے غضب ہے جس کی حقیقت بدلہ لینے کے ارادہ سے خون کا جوش میں ا ٓناہے۔ساتویں ریاء ہے جس کی حقیقت یہ ہے کہ آدمی اس بات سے خوشی حاصل کرناچاہے کہ دوسرے اس کے اعمال کو دیکھ رہے ہیں۔اور آٹھویں ظلم ہے کہ آدمی اپنے نفس کی پیروی کرے اور اس کی ہر خواہش جو دل میں آئے کرگزرے چاہے اپنے کویا کسی کو تکلیف پہونچے‘‘۔(البرہان الموید،ص83 ، بحوالہ: سیدالاولیاء،از:فقیہ ملت مفتی جلال الدین احمد امجدی،ص47)
خود سید احمد کبیر رفاعی علیہ الرحمہ کا اخلاق کس قدر بلندتھا اس روایت سے اندازہ لگائیں:’’ایک مرتبہ ایک بلی آپ کے دامن پر سوگئی،نماز کا وقت ہوگیا،آپ نے ایک بلی کی نیند کی خاطر اپنا باقی کادامن کترلیااور بلی کو اسی طرح سونے دیا،نماز سے فراغت کے بعد جب بلی کپڑے سے اٹھ کرچلی گئی تو آپ نے اس کپڑے کو دامن سے دوبارہ سی لیا۔(معدن الاسرار،ص104)ایک مرتبہ آپ کو خارشی کتاملا،جس کو ام عبیدہ والے دور چھوڑآئے تھے،آپ اس کتے کے لیے بیابا ن میں گئے،اس کے لئے سائبان بنایا،اس کو تیل لگایا،اس کے کھانے کا انتظام کیا،اس کی خارش کو کپڑے سے صاف کرتے رہے اور جب وہ بالکل اچھاہوگیاتو اس کوگرم پانی سے غسل دیا۔(معدن الاسرار،ص104)ہمیں چاہئے کہ اسلاف کرام کی حیات مبارکہ سے درس حاصل کرتے ہوئے اپنی زندگی کو سنوارنے ونکھارنے کی ہر ممکن کوشش کریں۔
عام مسلمانوں کو نصیحت:
عزیزمن!شریعت کی پابندی اختیار کرو۔ظاہری احکام میں بھی اور باطنی احکام میں بھی۔اپنے دل کو اﷲ کی یاد بھلادینے سے بچاؤ۔درویشوں اور غریبوں کی خدمت کولازم پکڑواور نیک کاموں میں ہمیشہ جلدی کرو،سستی اور کاہلی کوراہ نہ دو۔اﷲ تعالیٰ کی مرضی پر جمے رہو،خدائے تعالیٰ کے دروازہ پر کھڑے رہو،اپنے نفس کو رات میں عبادت کاعادی بناؤ،اعمال میں ریاکاری سے اپنے آپ کو بچاؤ،تنہائی اور مجلسوں میں بھی اپنے گناہوں پررؤو۔صاحبزادے!دنیاوالوں کو اپنی دنیاکی فکرہے اور آخرت والوں کو آخرت کی۔خبردارجھوٹے وعدے نہ کرنااور توحید کے دریاؤں میں غوطہ لگانے کا قصدنہ کرنا۔(البرہان الموید ، ص 103، بحوالہ:سیدالاولیاء،از:فقیہ ملت مفتی جلال الدین احمد امجدی،ص54)
وقت اور قلب کی حفاظت:
وقت کی قدروقیمت کاموازنہ دنیاکی کسی بھی دوسری چیز سے نہیں ہوسکتا،جو لوگ وقت کی قدرنہیں کرتے ناکامیاں اور مایوسیاں ان کامقدر بن جاتی ہیں۔قوموں کی ترقی کاراز بھی یہی ہے کہ جو قومیں وقت کی رفتار کا ساتھ دیتے ہوئے آگے ہی آگے بڑھتے رہنے کی اہلیت حاصل کرچکی ہیں ان پر کامیابیوں اور ترقیوں کے نت نئے دَور آتے ہی چلے جاتے ہیں۔ترقی یافتہ کہلانے والی ان قوموں کاہرفرد خوش حال دنیا کی ہرآسائش اور سہولت کاحامل اور مالامال ہوتاہے جبکہ وقت کی قدروقیمت کااحساس نہ کرتے ہوئے اسے بربادکرنے والی قومیں خود برباد ہوجاتی ہیں ان کاتقریباً ہرفرد بدحال دنیا کی ہرتکلیف و پریشانی میں مبتلا اور کنگال دکھائی دیتاہے۔حکایت مشہور ہے کہ کسی دانشور نے لوگوں سے پوچھابتاؤ!اس کارخانۂ قدرت میں مہنگی ترین چیز کیاہے؟کسی نے سونے کومہنگی ترین چیز قرار دیاتوکسی نے ہیرے کو،کسی نے اولادکوتوکسی نے وطن کو،الغرض جتنے منہ اتنی باتیں تھیں لیکن دانشور کسی کے جواب سے مطمئن نہیں ہوا،بالآخر خود ہی جواب دیاکہ دنیامیں قیمتی ترین شئے ’’وقت‘‘ہے۔
وقت کی اہمیت وافادیت کو پیش کرتے ہوئے سید احمد کبیر رفاعی علیہ الرحمہ اپنے ملفوظات میں فرماتے ہیں:
’’اپنے قلوب اور اوقات کی نگہداشت کروکیوں کہ تمام چیزوں سے زیادہ قیمتی یہی دوچیزیں ہیں،وقت اور قلب۔اگر تم نے وقت کو فضول ضائع کیااور دل( کی جمعیت)کو برباد کیاتو تم فوائد سے محروم رہ گئے ،اور (وقت اور قلب کا برباد کرنایہ ہے کہ انسان گناہ اورغفلت میں مبتلاہوجائے ،اﷲ کی یاد اور اطاعت وعبادت سے کسی وقت خالی ہوجائے)خوب سمجھ لو کہ گناہ دل کواندھااور سیاہ کردیتے ہیں،اس کو بیمار اور خراب کردیتے ہیں۔تورات میں لکھاہے کہ ہر مومن کے دل میں ایک نوحہ کرنے والارہتاہے جو اس کی حالت پر نالہ وفریاد کرتارہتاہے اور منافق کے دل میں ایک گانے والارہتاہے جو ہروقت گاتابجاتارہتاہے،عارف کے دل میں ایک جگہ ہے جوکسی وقت اس کو خو ش نہیں ہونے دیتی اور منافق کے دل میں ایک جگہ ہے جو اس کوکسی وقت غمگین نہیں ہونے دیتی۔(البنیان المشیدالبرہان المؤید،ص112)
مرضی مولیٰ پر راضی:
بزرگو!غیب سے جوکچھ آئے اورآسمان سے جوحادثہ بھی نازل ہو،اس کو خوشی اور فراخ دلی سے لے لواور تم سے جہاں تک ہوسکے مخلوق خدا کی حاجتیں پوری کرنے میں لگے رہو کیونکہ جو شخص دنیامیں اپنے بھائی مسلمان کی ایک حاجت پوری کرے گااﷲ تعالیٰ آخرت میں اس کی ستر حاجتیں پوری فرمائے گا۔کسی قوم کا معززآدمی ذلیل ہوگیاہویامالدار آدمی محتاج بن گیاہوتو اس پر رحم کیاکرو،کثرت سے صدقہ کیاکرو،کیوں کہ اﷲ تعالیٰ اس کے سبب سے بلاؤں کودورکردیتاہے۔ (البنیان المشیدالبرہان المؤید،ص157)
لوگوں کے ساتھ اخلاق سے پیش آؤ:
کارخانۂ قدرت میں حضور ﷺ سب سے زیادہ بااخلاق آج تک کوئی پیدانہیں ہوا، باوجود اس کہ آپ دعا فرماتے ’’اے اﷲ ! جیسے تونے میری تخلیق کو بہترین کیا ہے ویسے ہی میری خلق کوبہترین فرما۔ فرمان نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم ہے کہ قیامت کے دن مجھے سب سے زیادہ محبوب اور مجھ سے قریب تر وہ لوگ ہوں گے جو تم میں سے بہترین خلق رکھتے ہیں۔ سنت نبوی پر عمل کرتے ہوئے حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما بارگاہِ صمدیت میں یوں دعا گو ہیں: ائے اﷲ ! میں تجھ سے صحت، سلامتی اور حسن خلق کا سوال کرتاہوں۔ اسی لئے حدیث پاک میں فرمایا گیا کہ جب بھی آئینہ دیکھو دعا ضرور پڑھاکرو۔ ’’اے اﷲ ! جس طرح تونے میری صورت اچھی بنائی اسی طرح میری سیرت بھی اچھی بنادے‘‘۔
حضرت رفاعی علیہ الرحمہ اخلاق حسنہ کی دعوت دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:
’’لوگوں سے اچھے اخلاق سے پیش آؤکیوں کہ خلق حسن تمام اعمال (نافلہ)سے افضل ہے۔مثل مشہور ہے:اگر تم اپنے مال سے لوگوں کو آرام نہ دے سکوتواپنے اخلاق ہی سے آرام پہنچاؤ،سب سے بہتر حسن اچھے اخلاق ہیں،اچھے اخلاق والابستر پر پڑاپڑارازہ داراورتہجدگزار کے مرتبے پر پہنچ جاتاہے،کیوں کہ فرائض کے بعد اﷲ تعالیٰ کے قرب کا بہتریں ذریعہ یہی ہے،جب (لوگوں سے ملنے کے وقت)تیرادل گھٹاہوارہے تو عبادت سے تجھ کو کیانفع؟ کیوں کہ تم اپنے کو دوسروں سے افضل سمجھتے ہو،جب ہی تو ہر شخص سے دل کھول کر نہیں ملتے‘‘۔(البنیان المشیدالبرہان المؤید،ص157)
زبان کی حفاظت کرو:
زبان عجائبات صفات الٰہی سے ہے۔اگرچہ وہ گوشت کا ایک ٹکڑا ہے لیکن حقیقت میں جو کچھ موجود ہے وہ سب کچھ اس کے تصرف میں ہے۔کیوں کہ زبان موجود ومعدوم دونوں کو بیان کرتی ہے ۔ہر عضو کی حکومت وجود کے کسی ایک خطے میں ہوتی ہے مگر زبان کی حکومت ساری مملکت وجود پرجاری و ساری ہے۔انسان جب نیند سے بیدار ہوتا ہے تو تمام اعضاء انسانی زبان سے مؤدبانہ عرض کرتے ہیں’’تیری سلامتی میں ہماری سلامتی ہے اور تیرے شر سے ہماری خیر نہیں۔‘‘زبان سے جب بری بات نکلتی ہے تو دل تاریک وسیاہ ہوتا ہے جب کہ زبان سے حق کے صدور پردل روشن وتابندہ ہوجاتا ہے۔زبان کے محتاط استعمال پر روشنی ڈالتے ہوئے حضرت رفاعی فرماتے ہیں:
’’اپنی زبان کو بے فائدہ باتوں میں ملوث کرنے سے پاک رکھ،تاکہ تیرا کلام اﷲ تعالیٰ کے مقدس دربار میں یعنی آسمانی عرش کے دربار میں جس کو اﷲ تعالیٰ نے طلب کی جہت بنایاہے جیساکعبہ کو عبادت کی جہت بنایاہے،پہنچایاجاسکے۔․․․․․․․․پس اپنے کلام کوایسابنانے کی کوشش کروکہ اس دربار میں پیش ہونے کے قابل ہو۔تاکہ تم پر اﷲ تعالیٰ کاحکم اور لطف وکرم اوپرسے آوے‘‘۔(البنیان المشیدالبرہان المؤید،ص159)
حرص سے بچو:
عزیزمن!کیاتم نہیں دیکھتے کہ بچہ جب دنیامیں آتاہے تو حرص کے مارے مٹھی بند کئے ہوئے ہوتاہے اور جب یہاں سے جاتاہے ،ہاتھ پھیلائے ہوئے نکلتااور(گویازبانِ حال سے)اقرارکرتاہے کہ جس عارضی سامان پر اس نے حرص کی تھی اس سے خالی ہاتھ (جارہا)ہے،نصیحت کے لیے موت بہت کافی ہے،عبرت حاصل کرنے کو موت بہت ہے۔(البنیان المشیدالبرہان المؤید،ص169)
فضول باتیں اور فضول کام چھوڑدو:
ایسی بات نہ کہو جس کے کہنے کی ضرورت نہ ہوا ور اس کے کہنے سے کسی قسم کا نقصان یا مضرتِ دینی یا دنیوی نہ ہو۔اگر فضول اور بے ضرورت بات کہی تو حسن اسلام سے نکل جانے کاخدشہ ہے کیوں کہ پیغمبر اسلام مصطفی کریم ﷺ نے فرمایا:آدمی کے اسلام کی خوبی اس میں ہے کہ لا یعنی بات ترک کر دے۔لایعنی کلام کی مثال یہ ہے کہ دوستوں کے ساتھ بیٹھ کراپنے سفر کے احوال،باغ،بوستاں کی کیفیت اور جو کچھ رودادہو اس کو بے کم وکاست بیان کرنا،یہ سب یاوہ گوئی اور زیادہ گوئی ہے۔اس کی چنداں حاجت نہیں اور نہ کہنے سے ضرر کا کچھ اندیشہ بھی نہیں۔اس امر کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضرت سید رفاعی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
’’برخوردارمن!فضول باتوں اور فضول کاموں میں مشغول ہونے سے بچو،اپنے نفس کو غفلت کے راستے سے ہٹاؤاور بیداری کے دروازے سے پہنچو،ذلت وانکسار کے میدان میں جمع ہوجاؤ،بڑائی اورتکبر کے میدان سے نکل آؤ کیوں کہ تمہاری ابتداء خون کی ایک بوٹی اور انجام ایک بے جان لاشہ ہے۔پس اپنی ابتداء اورانجام کے درمیانی زمانہ میں اس طرح رہوکہ جیساان کے درجہ کے مناسب ہے‘‘۔(البنیان المشیدالبرہان المؤید،ص192)
حسد وتکبر کی مذمت:
ارشاد ربانی ہے،ترجمہ:’’حسد والے کے شر سے جب وہ مجھ سے جلے‘‘۔(سورہ ٔناس) اﷲ عزوجل اپنے محبوب صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو پناہ مانگنے کا حکم دے رہا ہے کہ میری پناہ مانگو حسد والے کی شر سے جب وہ جلے۔ حسد کرنے والا حسد کی وجہ سے جتنانقصان بھی ممکن ہو پہونچانا چاہتا ہے اور اس میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتا، اپنی ساری طاقت صرف کردیتا ہے۔ اس لئے اﷲ کی پناہ مانگنے کا حکم دیا گیا تاکہ اس کی پناہ میں آنے کے بعد کوئی شر قریب نہ آسکے، حسد کسے کہتے ہیں۔حسد کی وجہ سے انسان کی نیکیاں بربا دہوجاتی ہیں۔اس فعل قبیح سے بچنے کی تلقین کرتے ہوئے حضرت رفاعی علیہ الرحمہ فر ماتے ہیں:
’’برخوردارمن!حسد سے بچو،کیوں کہ حسد تمام گناہوں کی جڑ ہے،شیطان نے جب آدم علیہ السلام سے حسد کیاتو ان کے مقابلے میں تکبر اختیار کیا،ان کو سجدہ کرنے سے انکار کیا اور ان کو نقصان پہنچانے کے لیے جھوٹ بولاکہ میں تم دونوں کا پوراخیرخواہ ہوں۔آخر کار اﷲ کی رحمت سے دور کیاگیا۔پس جھوٹ ، تکبرا ورحسدبندے کو اﷲ کے دروازے سے دور کرنے کے اسبا ب ہیں۔تم اپنے نفس کو ان خصلتوں کا ہرگز عادی نہ بنانا،اپنے کو سب سے الگ کرکے اﷲ کی طرف متوجہ ہوجاؤ،اور خوب جان لو کہ رزق مقدر ہوچکاہے،جب اس کو اچھی طرح ذہن نشین کرلے گے تو کسی سے حسد نہ کروگے۔خوب جان لو کہ تم مرنے والے ہو،جب اس بات کو پیش نظر رکھو گے تو کسی پر تکبرنہ کروگے۔اور خوب سمجھ لو کہ تم سے حساب لیاجائے گا،جب اس مضمون کو دل میں جمالوگے تو جھوٹ کبھی نہ بولوگے‘‘۔(البنیان المشیدالبرہان المؤید،ص192)
عفوودرگزر:
حضرت رفاعی علیہ الرحمہ کا مزاج انتہائی حلیم تھا،دوست ودشمن سے ملنے والی ہر تکلیف برداشت کرتے،یعنی صرف قولاًاخلاق کی تعلیم نہیں دیتے بلکہ عمل سے اپنی تعلیمات کو مزین فرماتے۔اچھائی کے جواب میں اچھائی اور برائی کے جواب میں بھی اچھائی سے پیش آتے اور یہی حقیقی صلہ رحمی ہے۔جیساکہ حضرت عبد اﷲ ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: بدلہ چکانے والا صلہ رحمی کرنے والا نہیں ہے۔ صلہ رحمی کرنے والاوہ ہے کہ جب اس سے رشتہ داری توڑی جائے تب بھی وہ صلہ رحمی کرے۔ (بخار ی شریف جلد دوم ص886)مذکورہ حدیث سے یہ بات سمجھ میں آئی کہ اگرکوئی ہم سے اچھا سلوک نہ بھی کرے تب بھی ہم اس سے اچھا سلوک کریں۔ایک بار حضرت سیداحمد کبیر رفاعی رحمۃ اﷲ علیہ کی فقراء کے ایک گروہ سے ملاقات ہوئی،ان سب نے آپ کی شان میں نازیبا کلمات استعمال کیے،اخلاق حسنہ کامظاہرہ کرتے ہوئے آپ نے زمین بوسی کی اور کہا:’’اے میرے سردارو!مجھ سے راضی ہوجاؤمجھے تمھارے حلم سے یہی امیدہے‘‘۔اور ان سب کی دست بوسی کی،اس عاجزی کودیکھنے کے بعد انہوں نے کہاکہ ہم نے آپ سے زیادہ کسی فقیر کومتحمل نہیں دیکھا،اتنا سب کچھ سن لینے کے بعد بھی آپ نے ہماری باتیں برداشت کیں اور برہم نہیں ہوئے۔(معدن الاسرار،ص101)
ایک مرتبہ شیخ ابراہیم بستی نے آپ کو ایک خط بھیجا،قاصد نے خط پڑھ کرسنایاجس میں آپ پر لعن طعن،بہت سی مغلظ اور سخت طیش دلانے والی باتیں لکھی تھی،خط کا مضمون سننے بعد آپ نے فرمایاکہ جوکچھ سچ کہا،اﷲ تعالیٰ اس کو میری طرف سے جزائے خیردے اور ایک شعر پڑھا:
فلست ابالی من زمانی بریبۃ اذاکنت عنداﷲ غیرمری
زمانہ مجھ پراگرتہمتیں دھرے صدا خداکے پاس جومیں صاف ہوں تو کیاپرواہ
پھر قاصد سے کہہ کر اس خط کا جواب لکھوایا:’’از جانب ایں ناچیز!بخدمت سیدی ابراہیم بستی!آپ نے جوکچھ تحریر فرمایااس کی نسبت یہ عرض ہیکہ اﷲ تعالیٰ نے جیساچاہامجھے پیداکیااور جو باتیں چاہی مجھ میں رکھیں،میں چاہتاہوں کہ آپ اپنی نیکوکاری سے میرے لیے دعاکریں اوراپنے عفووحلم سے مجھے محروم نہ رکھیں‘‘۔(معدن الاسرار،ص102)
آپ سراپاخاکسار بنتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:
’’بزرگو!میں شیخ نہیں ہوں،نہ اس جماعت سے کچھ پڑھاہواہوں،نہ میں واعظ ہوں،نہ معلم ہوں،میراحشر فرعون وہامان کے ساتھ ہواگرمجھے اس کاوسوسہ بھی آئے کہ میں اﷲ کی مخلوق میں سے کسی کا بھی شیخ ہوں۔ہاں!اﷲ تعالیٰ مجھے اپنی رحمت سے ڈھانپ لیں تومسلمانوں سے ایک مسلمان میں بھی ہوں گا۔(البنیان المشیدالبرہان المؤید،ص48)
حاصل کلام
مشتے نمونے ازخروارے کے تحت یہاں حضرت موصوف کی چندنصیحتوں کاذکرکیاگیا۔یہ نصائح عملی زندگی کی کلیدہیں اوردنیوی واخروی زندگی کے ارتقاکی ضامن۔یہ ہمارابھولاہواسبق ہیں جوہمیں یادکرناہیں اورصرف یادنہیں کرنابلکہ ان پرعمل کرکے دکھاناہیں۔بزرگوں سے عقیدت ومحبت کاسب سے اچھاطریقہ یہ ہوتاہے کہ ان کی باتوں پرعمل کیاجائے اوران کی حیات کوخضرراہ بنایاجائے۔صرف کرامات اورشخصی فضائل کے تذکرے اوربات بات پرنعرے بازی سے ہم اپنی عقیدت کوتسکین توپہنچاسکتے ہیں مگراپنی عملی زندگی کی اصلاح نہیں کرسکتے ۔ہماری کم نصیبی کہ ہم اپنے اسلاف کاتذکرہ توبڑے اہتمام کے ساتھ کرتے ہیں مگران کی تعلیمات پرعمل کی توفیق چندہی خوش نصیبوں کوہوتی ہے ۔ہمیں یہ بات گرہ باندھ لینی چاہیے کہ اگرہم اپنے بزرگوں کی نصیحتوں پرعمل کرتے ہیں توواقعتاہم سچے ہیں اوران سے سچی محبت کرتے ہیں ورنہ یقین کرلیجیے کہ ہماری محبت جھوٹی ہے ،ہماری عقیدت بے جاہے اورہماری وابستگی کمزور۔آئیے ہم سب تنہائی میں اپنے ضمیرسے ملاقات کرکے پوچھیں کہ ہماراتعلق کس زمرے سے ہے۔
Ataurrahman Noori
About the Author: Ataurrahman Noori Read More Articles by Ataurrahman Noori: 535 Articles with 731666 views M.A.,B.Ed.,MH-SET,Journalist & Pharmacist .. View More