بلدیاتی الیکشن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مقدر کا سکندر کون؟

 حقیقی تبدیلی آئے گی یا نہیں

الیکشن کمیشن نے سندھ اور پنجاب کے 20 میں بلدیاتی الیکشن کے پہلے مرحلے کیلئے پولنگ کے وقت میں اضافہ کردیااس طرح پولنگ وقت دس گھنٹے ہوگیا ہے ۔ پنجاب میں بلدیاتی انتخابات قوج کی بجائے پولیس کی نگرانی کرانے کا فیصلہ کیا گیا ہے جبکہ 12 اضلاع میں فوج طلب کرلی گئی ہے ۔ 31 اکتوبر کو انتخابات کیلئے سامان ریٹرنگ آفیسرز کو دے دیا گیا ہے۔پولنگ کے عملے کو وقت سے دو گھنٹے قبل پہنچنے کا حکم دیا گیا ہے ووٹروں کیلئے ہدایت نامہ جاری کیا گیا ہے کہ ان کو پنجاب میں دو سندھ میں تین بیلٹ پیپرز دئیے جائیں گے ووٹ ڈالنے کیلئے اصل شناختی کارڈ خواہ زائد المعیاد ہی ہو قابل قبول ہوگا ،اور کسی دستاویزکو بطور شناخت قبول نہیں کیا جائے گا۔پنجاب میں چیئرمین اور وائس چیئر مین کے پیپرز کا رنگ پیلا جبکہ کونسلر میونسپل کمیٹی کے رکن کا بیلٹ پیپر سفید ہوگا۔ بارہ اضلاع میں 578 یونین کونسلز میں بلدیاتی الیکشن کیلئے 16ہزار 226 پولنگ اسٹیشن بنائے گئے ہیں اور 3 ہزار269پولنگ اسٹیشن میں سے 839 پولنگ اسٹیشن انتہائی حساس قرار دئیے گئے ہیں ۔پہلے مرحلے میں پولنگ 31 اکتوبر کو ہوگی۔

بلدیاتی الیکشن کے پہلے مرحلے کی گہما گہمی جاری وساری ہے سیاسی بازی گروں کی سیاسی چالیں ہر لحاظ طرح سے کھیلی جارہی ہیں سیاسی جماعتیں اپنی اپنی فتح کے دعوے کر رہی ہیں زبانی کلامی دعوے کرکے عوام کو سبز باغ دکھاکر کنوینس کیا جارہا ہے دو تین دن بعد یہ سرگرمیاں ختم ہوجائیں گی اور حقیقت افشاں ہوجائے گی ۔حالیہ بلدیاتی الیکشن پر ضمنی الیکشن کے اثرات بھی مرتب ہورہے ہیں ،لاہور سے پی ٹی آئی کی صوبائی نشست سے کامیابی بھی اپنا رنگ دکھا رہی ہے قومی اسمبلی کی نشست سے ن لیگ کی قلیل ترین لیڈ سے کامیا بی کو کوئی بڑی کامیابی نہیں سمجھا جارہا ۔ن لیگ کے اوسان خطا ہوگئے ہیں لاہور سے پیپلز پارٹی کے امیداور بہت کم دکھائی دے رہے ہیں مقابلہ کیلئے ن لیگ ،پی ٹی آئی اور ن لیگ سے ٹکٹ نہ ملنے والے امیدواروں کے آزاد پینل نمایاں نظر آرہے ہیں،مبصرین کا کہنا ہے کہ ن لیگ نے اپنے نظریاتی ،پرانے کارکنان کو نظر انداز کرکے اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار لی ہے اکثر حلقوں حلقہ میں ن لیگ کیسابق لوگ اب مضبوط آزاد امیدوار کے طور پر نمایاں نظر آرہے ہیں جس سے ن لیگ کے ووٹس میں نمایاں کمی دیکھنے میں آرہی ہے ن لیگ کے آزاد امیدواروں کو الیکشن سے دستبردار کروانے والی کمیٹی اس وقت تک ناکام نظر آرہی ہے ۔یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ن لیگ کے آزادامیدواروں کے جیتنے کی امید بہت زیادہ دکھائی جارہی ہے ووٹوں کی تقسیم سے ن لیگ کی پوزیشن کمزور ہوگئی ہے ہر گھر میں ن لیگ کے ووٹرز تقسیم ہو گئے ہیں ۔اس کا فائدہ پی ٹی آئی کو ہوسکتا ہے مزید خرابی سے بچنے کیلئے لاہور سے ن لیگ نے اپنے دو درجن سے زائد حلقوں کو بااثر لوگوں کے باعث اوپن حلقے قرار دے دیا ہے ۔ لاہور سے یوسی 20 کی مثال دی جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ یہاں سے ن لیگ کے مشتاق مغل چیئر مین،شہباز سلہری وائس چیئرمین،ملک مبارک ،رانا اکرم ،سعید خان،طارق بٹ،نذیر بٹ الیکشن لڑ رہے ہیں ما ضی میں کبھی شکست نہیں ہوئی مگر اس بار اس ناقابل شکست امیدوار کو بھی شکست نظر آرہی ہے وجہ یہ ہے کہ اس یو سی سے ن لیگ کے باغی پینل ملک مقبول حسین،وائس چیئر مین خالد بٹ ،ملک عبدالستارنقشبندی ،محمد رفیع،اشرف ڈوگر ،ارشد نور،راؤ اقبال،سعود بٹ کھڑے ہیں آزاد امیدواروں کا کہنا ہے کہ ہمیں پرانے نظریاتی کارکنان ہونے کے باوجود نظر انداز کیا گیا ہمارے حلقے میں ن لیگ نے ایسے امیدوار کھڑے کئے جن کا تعلق علاقے سے بھی نہیں اور ذاتی کردار بھی تسلی بخش نہیں ،شاہدرہ سے ملک عبدالغفار بھی ن لیگ کے مقابلے میں آزاد حیثیت سے مضبوط امیدوار تصور کئے جارہے ہیں شالیمار ٹاؤن،واہگہ ٹاؤن سمیت تمام ٹاؤننز میں یہ کیفیت دیکھی جا سکتی ہے اس سے ن لیگ اپنے ہی آزاد امیدواروں سے پریشان ہے ن لیگ کو اس کے اپنے ہی ناراض کارکنان سے مقابلے کا سامنا ہے ۔کچھ یو سیز سے پی ٹی آئی کو الیکشن سے کامیابی مل سکتی ہے ۔ ن لیگی کارکنان کے ناراضی ہونے کی وجہ یہ بیان کی جارہی ہے کہ ن لیگ اندرون خانہ دو مرکزی گروپس میں تقسیم ہو گئی ہے ۔ایک حمزہ شہباز شریف اور دوسرا مریم نواز کا۔ اس وقت حمزہ شہباز اپنے قریبی لوگوں کو حمزہ شہباز ترجیحی بنیادوں پر پروموٹ کررہے ہیں جبکہ مریم نواز گروپ کو مسلسل نظر انداز کیا گیا جس کے باعث اراکین ن لیگ سے الگ ہوکر الیکشن لڑنے پر مجبور ہوئے اور اب الیکشن سے ستبردار ہونے سے انکاری ہیں الیکشن جیتنے کے بعد آزاد امیدوار ن لیگ میں جا سکیں گے یا نہیں یہ الگ بات ہے مگر جیتنے کے بعد چند کامیاب امیدواران کے پی ٹی آئی میں شمولیت کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔ آزاد شکست خردہ امیدوار ان کی اکثریت پی ٹی آئی میں ضرور جائے گی ۔ضمنی الیکشن کی طرح بلدیاتی الیکشن میں بھی دینی جمہوریت پسند جماعتوں اور دینی حلقوں کے اسلام پسند لوگوں کا ووٹ کلیدی نہیں تو ضمنی کردار ضرور ادا کریں گے ۔ اگر چند معروف دینی ادارے بھی ن لیگ کو کچھ دیں تو دینی سپورٹ ختم ہوسکے گی ان کی حمایت کیلئے ن لیگ کو ان سب کے نخرے برداشت کرنا ہوتے ہیں ۔اب الیکشن بہت قریب آچکا ہماری تحریر ایسے ماحول میں لکھی جارہی جب ہر طرف زور وشور ہے اور تجزیہ نگار اب درست تجزیہ واندازہ لگا نے کی کوشش میں مصروف ہیں ۔یہی کہا جا رہا ہے کہ ن لیگ کو اپنے قلعہ لاہور کو بچانے کیلئے اقدام کرنا ہوں گے بصورت دیگر لاہور سے قبضہ کمزور سے کمزور ہوسکتا ہے ۔پی ٹی آئی کی کمزور مہم کو دیکھ کر عمران خان نے اس میں تازہ روح پھونکنے کیلئے بذات خود میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا ۔ اس کے بھی اثرات ن لیگ پر ہی پڑے ہیں ۔پی ٹی آئی کے کارکنان کو ضمنی الیکشن لاہور سے صوبائی اسمبلی میں کامیابی کے بعد حوصلہ ضرور ملا ہے اب وہ اس امید سے شب وروز ایک کر رہے ہیں کہ اس بار بھی انھیں بھی بلدیاتی الیکشن مقامی حکومت میں جگہ مل جائے ۔پی پی پی اگر بلدیاتی الیکشن میں اپنے ووٹون میں نصف ہی کرلیتی ہے تو اس کی بڑی کامیابی تصور کیا جائے گا۔

یہ بات درست ہے کہ حالیہ الیکشن کا طرز اسلامی نہیں ہے ہم نے اس سلسلے میں ایک تحریر"شفاف الیکشن مگر کیسے؟" لکھی تھی جسمیں حکومت کو رائے دی تھی جس پر غور نہیں کیا گیا جس کے باعث اس بار بھی ذمہ داری کی بجائے عہدہ سمجھ کرحصول عہدہ کیلئے بے دریغ وسائل،تعلقات کا استعمال کیاجارہا ہے اس الیکشن میں اختیارات تو مقامی لوگوں تک منتقل ہوجائیں گے مگر عوام کو ریلیف ملتا نظر نہیں آرہا ،باشعور لوگوں کا کہنا ہے کہ بلدیاتی الیکشن سے بھی مہنگائی کا طوفان برپا ہوگا،اب دیکھنا یہ ہے کہ مقامی حکومتوں کی کرپشن روکنے کیلئے کیا اقدامات کئے جاتے ہیں؟ اگر اقدام نہ ہوئے تو یہ بلدیاتی الیکشن بھی ماضی کی طرح عوام پر ایک بوجھ ہی ثابت ہوں گے،ایک پیدائشی پرچی،ڈیتھ سرٹیفکیٹ یانکاح نامہ کمپیوٹرازڈ بنانے کیلئے کیا اب بھی ہزار سے دو ہزار دینا پڑیں گے یا کوئی ریلیف ملے گا؟ اس کا علم تو الیکشن کے بعد ہی ہوگا۔
Ghulam Abbas Siddiqui
About the Author: Ghulam Abbas Siddiqui Read More Articles by Ghulam Abbas Siddiqui: 264 Articles with 245642 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.