بہار اسمبلی انتخابات :مثبت نتائج کی امید
(Shams Tabraiz Qasmi, India)
بہار اسمبلی انتخابات اب
اپنے آخری مرحلے میں ہے ۔ پانچ مرحلے میں ہونے والے انتخابات کا دومرحلہ
مکمل ہوچکا ہے اور تیسرے کا آج جاری ہے ۔ کل جب آپ کے ہاتھوں میں اخبار
ہوگا تو تیسرا مرحلہ بھی اختتام پذیر رہے گا ۔ آگے ہونے والے دومرحلے کا
انتخاب اپنے آپ میں انتہائی اہم ثابت ہوگا ۔ ان دومرحلوں میں متھلانچل اور
سیمانچل شامل ہے جس سے عظیم اتحاد کی پوری امید یں وابستہ ہے اور یہاں کے
ووٹروں کافیصلہ حتمی ہوگا۔بی جے پی کو بھی ان علاقوں سے کم توقع نہیں ہے ۔ہر
چند کہ گذشتہ تین مرحلوں میں سے پہلے دومیں خود بی جے پی یہ اعتراف کرچکی
ہے ہماری پوزیش زیادہ اچھی نہیں رہی ہے ۔ بی جے پی کے ممبر پارلیمنٹ شاکسی
مہاراج نے بھی این ڈی اے کی شکست کا اعتراف کرلیاتھا اور پارٹی صدر امت شاہ
بھی ایک پریس کانفرنس کے دوران مایوسی کا اظہا ر کرچکے ہیں ۔ پارٹی کی خراب
ہوتی صورت حال کو دیکھتے ہوئے وزیر اعظم نریندرمودی نے اپنی تمام ریلیاں
بھی منسوخ کردی تھیں لیکن پھر نہ جانے کیا ہواکہ انہوں نے اپنا فیصلہ واپس
لے کر ریلیاں شروع کردی ۔ نریندر مودی پھر سے زور شور کے ساتھ ریلیاں کررہے
ہیں اور انٹی مسلم موضوعات کو انتخابات کا ایشوبنارہے ہیں۔ کل بھی جب میں
پٹنہ ایئر پورٹ پر اترا تو دیکھا کہ وزیر اعظم کی فلائٹ ایئر پورٹ پر ان کا
انتظا ر کررہی ہے ۔ ایک افسر نے معلوم کرنے کے بعد بتایاکہ مودی جی کا ہیلی
کاپٹرسیتامڑھی کے علاقے سے کچھ ہی دیر میں یہاں لینڈ کرے گاجس کے بعد وزیر
اعظم دہلی کے لئے روانہ ہوں گے۔
بہار اسمبلی انتخابات میں سیمانچل علاقے کا کافی تذکرہ رہا ہے ۔ خاص طور پر
اسدالدین اویسی صاحب کی انٹری کے بعد یوں لگنے لگاکہ بہار کی سیاست سیمانچل
میں ہی محدود ہوکر رہ گئی ہے ۔ ہر طرف سیمانچل کی پسماندگی کا تذکرہ چھایا
رہا ۔ اس دواران مجھ سے بھی بہت سے لوگوں نے سیمانچل کے حالات پر لکھنے کو
کہاکہ لیکن میری خواہش تھی کہ سیمانچل پر کچھ لکھنے سے قبل پہلے وہاں کے
حالات کا جائزہ لیا جائے ۔ اس علاقے کو جانا جائے کہ وہاں کی صورت حال کیا
ہے اور وہ واقعی بہار کا سب سے پسماندہ علاقہ ہے! ۔
سیمانچل بہار کا مشرقی علاقہ کہلاتا ہے جہاں کشمیر کے بعد سب سے زیادہ
مسلمان آباد ہیں لیکن تعلیمی ،سیاسی اور اقتصادی سطح پر یہ علاقہ کافی
پسماندہ ہے ۔ اس علاقے میں کئی بلاک ایسے ہیں جہاں ہائی اسکول اور انٹر
کالج تک نہیں ہے ۔ بجلی اور سڑک کی صورت حال بھی زیادہ بہتر نہیں ہے ۔دور
دورتک پختہ مکانات نظر نہیں آتے ہیں ۔ لیکن اس طرح کی صورت حال صرف یہیں کے
ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ متھلانچل کے بھی کچھ علاقے سڑک اور بجلی جیسی بنیادی
سہولتوں سے اب بھی محروم ہیں۔ دوسے علاقوں کی صحیح صورت حال کا مجھے علم
نہیں ۔ انہیں امور کو ایم آئی ایم نے اپنا انتخابی ایجنڈا بناتے ہوئے بہار
کی سیاست میں حصہ لینا ضروری سمجھا اورچھ امیدوار میدان میں اتار کر قسمت
آزمائی کررہے ہیں ۔جن حلقوں میں اویسی کے نمائندے انتخاب لڑرہے ہیں وہاں
تادم تحریر میر ا جانا نہیں ہوسکا ہے تاہم سیمانچل کے دوسرے علاقے کے لوگوں
کا کہنا کہ اویسی صاحب کے تین امیدوار انتخاب جیتنے کی پوزیشن میں ہے اور
رفتہ رفتہ انہیں مسلمانوں کی حمایت مل رہی ہے ۔ ان حضرات نے بھی کہاکہ جہاں
اویسی کے نمائندے ہیں وہاں مسلمانوں کو خاموشی کے ساتھ اتحاد کا مظاہرہ
کرتے ہوئے لازمی طور پر ووٹ دینا چاہئے تاکہ اسمبلی میں ایک ایسی مسلم
پارٹی کی نمائندگی ہوجائے جو مسلمانوں کے حقوق کی بات کرنے کے حوالے سے
دنیا بھر میں جانی جاتی ہے۔
مجموعی طور پر پورے بہار میں عظیم اتحاد کی برتری نظر آرہی ہے ۔ مسلمانوں
کی بات کی جائے تو وہ اپنے علاقائی نمائندے کو دیکھے بغیر کہ کون ہے ، کیسا
ہے اور کہاں کا ہے ،صرف مہاگٹھ بندھن کے نام پر اس کی حمایت کررہے ہیں ۔ان
علاقوں سے جو دوسرے مسلمان تھرڈفرنٹ ،آزاد امیدوار کے طور پر یا دوسری
پارٹیوں سے جارہے ہیں انہیں وہ تسلی کے دوالفاظ کہنے کے بجائے صاف لفظوں
میں کہ رہے ہیں کہ اس مرتبہ کا الیکشن گذشتہ انتخابات سے قدرے مختلف ہے اس
لئے ہم عظیم اتحاد کے نمائندے کو ووٹ کریں گے آپ سے گذارش ہے کہ بیٹھ جائیں
۔ قوم کی ہمدری آپ سے یہی چاہتی کہ آپ اس مرتبہ خود انتخاب نہ لڑکر عظیم
اتحاد کے لئے کام کریں،بعض جگہ کے بارے میں تو یہ بھی خبر ہے کہ وہاں لوگوں
نے کچھ سنے بغیر ہی واپس کرکے کہ دیا کہ آئنداس گاؤں میں مسلمان کے نام پر
کبھی بھی ووٹ مانگنے مت آنا ۔کیوں کہ ہمارا مقابلہ براہ راست بی جے پی سے
ہے جس کی شکست اشد ضروری ہے ۔
بہار کے ہر گاؤں اور ہرمحلہ میں جہاں کوئی دوآدمی ایک ساتھ ہوتا ہے اس کی
زبان پر سیاسی گفتگو شروع ہوجاتی ہے ۔ خواہ وہ تعلیم یافتہ لوگ ہوں کھیتوں
میں کام کرنے والے مزدور ہوں ،یا پھر دینی و عصری ادارے میں زیر تعلیم طلبہ
۔ ہر ایک کی زبان پر سیاست ہے ۔ ہرکسی کا مشن بی جے پی کو ہرانا ہے،
نوجوانوں میں سب سے زیادہ جوش و خروش دیکھا جارہا ہے اوریہ طبقہ مہاگٹھ
بندھن کے لئے رضاکارانہ طور پر کام کررہا ہے ۔ گھر گھر جاکر مردوعورت کو
سمجھارہا ہے، ایک صاحب فلائٹ پر ہمارے بغل والی سیٹ پر تھے انہوں نے سلام و
کلام کے بعد براہ راست بہار کی سیاست پر گفتگو شروع کردی اور کہنے لگے کہ
بہار میں دہلی کی تاریخ رقم ہوگی ہے ، عظیم اتحاد دوتہائی اکثریت سے جیت
رہی ہے ۔ میں نے کہاکہ یہ کیسے ممکن ہے کہنے لگے یہی ہوکر رہے گامیں کافی
دنوں سے یہ جائز ہ لے رہاہوں ابھی دہلی آیاتھا لیکن کل 28 اکتوبر کو پٹنہ
میں الیکشن ہے اس لئے ووٹ دینے جارہاہوں ۔
ہم نے کچھ ہندوؤں سے بھی یہ جاننے کی کوشش کی کہ بہار میں کس کی حکومت بننی
چاہئے تو ان لوگوں نے برجستہ کہاکہ نتیش بابوبہت اچھا کام کئے ہیں ۔ ان کو
ہی وزیر اعلی بننا چاہئے ۔ نرنیدرمودی صر ف بھاشن دیتے ہیں کام کچھ نہیں
کرتے ہیں ۔مہنگائی بہت بڑھ گئی ہے ،ہم جیسے غریبوں کی آمدنی بڑھ نہیں رہی
ہے اور اخراجات میں مسلسل اضافہ ہے ۔ سپول میں اے بی پی نیوز کے نمائندے
اجے سنگھ نے بتایاکہ نتیش کی دور میں علاقے کی کافی ترقی ہوئی ہے ،یہاں کے
ہندو مسلم سبھی عظیم اتحاد کو ہی ووٹ دے رہے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہم نے یہ
بھی محسوس کیا ہے کہ ہندوؤں کا نواجوان طبقہ بی جے پی کی مسلم مخالف سیاست
میں کافی دل چسپی رکھتا ہے ۔ میں نے اپنے چھوٹے بھائی محمد قیصر سے معلوم
کیاکہ تمہارے ہم عمر ہندو دوست و احباب کا کیا نظریہ ہے تو اس نے بتایاکہ
سب سے بی جے پی کے ساتھ ہے ۔ اس کی والدبتاتے ہیں کہ ہم نتیش کو ووٹ دیں گے
لیکن وہ خود مودی کا اپنا رہنمامانتا ہے۔
مجموعی طور بر بہار میں عظیم اتحاد کی لہر دیکھنے کو مل رہی ہے ،ہندو اور
یادو برادری کا مکمل ووٹ مل رہا ہے ،مثبت نتائج کی مکمل توقع ہے۔لیکن اس کے
باوجود حتمی طور پر ابھی کچھ نہیں کہاجاسکتا ہے ، نتیجہ ہی بتائے گا کہ
بہار نے فرقہ پرستی کو ترجیح دی ہے یا ترقیاتی ایجنڈے کو- |
|