ارضِ وطن زلزلوں کی زَد میں

 ارضِ وطن ہمیشہ زلزلوں کی زَد میں ،یہ زلزلے کبھی دھرنوں کی شکل میں نمودار ہوتے ہیں تو کبھی دہشت گردی ، ٹارگٹ کلنگ اوربھتہ خوری کی صورت میں۔ آجکل بلدیاتی انتخابات نے ’’تھرتھلی‘‘ مچارکھی ہے اورامیدواروں کی ’’ڈورٹوڈور‘‘ مہم نے جینا دوبھر کردیاجس کاہم نے چاروناچار حل یہ نکالاکہ گھرکے بیرونی گیٹ پرتالا لگاکر اندربیٹھ رہے جس سے اب کچھ سکون ہے۔ یہ زلزلے تو ’’کُرسی‘‘کی ہوس میں آتے ہیں اور آتے ہی رہیں گے لیکن کبھی کبھی رَبّ ِلَم یَزل اپنی مخلوق کی اِس یاد دہانی کے لیے کہ ہمیں پلٹ کراُسی کی طرف جاناہے ،زمین کوجھنجھوڑ کے رکھ دیتاہے۔ یہ حضرتِ انسان بھی عجب شے ہے کہ اِس پرربّ ِ کائینات کی اِس کھلی وارننگ کابس ایک آدھ دِن ہی اثرہوتا ہے اوراُس کے بعد ’’وہی ہے چال بے ڈھنگی ،جوپہلے تھی سو اب بھی ہے‘‘ ۔

پِیر26 اکتوبرکو ایسی ہی ایک’’ وارننگ‘‘ کاسامنا ہوا۔ ہم کھاناکھا رہے تھے کہ اچانک زمین جھولا جھلانے لگی اورہم کلمہ طیبہ کاورد کرتے ہوئے باہرکی طرف بھاگے (حضرتِ انسان کو صرف مصیبت میں ہی یادِ خُدا آتی ہے)۔ باہرنکلے توعجب منظرتھا، سارا محلہ عالمِ خوف میں سڑکوں پر اِس حالت میں کہ کسی کے سَرپہ دوپٹہ نہیں تو کسی کے پاؤں میں جوتاالبتہ دعائیں زوروشور سے مانگی جارہی تھیں۔ تھوڑی دیرتک یہی کیفیت رہی اورپھر زمین کوسکون آگیالیکن کوئی اپنے گھرکے اندر جانے کوکوئی تیارنہ تھا۔ فضاء میں بس خوف ہی کی حکمرانی تھی اوریوں محسوس ہوتاتھا کہ جیسے قیامت بس آنے کو ہے۔ میں نے کوہاٹ میں مقیم اپنی ڈاکٹر بیٹی کی خیریت معلوم کرنے کے لیے موبائل فون سے کال کرناچاہی تومعلوم ہوا کہ زلزلے کے شدید جھٹکوں نے سارامواصلاتی نظام درہم برہم کردیا ہے ۔گھر میں داخل ہوکر ٹی وی آن کرناچاہا تو بجلی ندارد ۔تب میں نے عالمِ کرب میں سوچاکی زمین پراکڑ کرچلنے والاانسان کتنابے بَس ہے۔ لگ بھگ 20 منٹ اسی کَرب میں گزارے کہ بیٹی کی skype پرکال آگئی ، وہ بھی ہماری خیریت معلوم کرنے کے لیے بے چین تھی۔ اﷲ کالاکھ لاکھ شکرادا کیاکہ بیٹی کاگھرانہ محفوظ تھا۔ لوڈشیڈنگ ختم ہوئی تونیوز چینلز پرجا بجا تباہی وبربادی کے ہولناک مناظر۔ ارضی طبیعات کے ماہرین کے مطابق 8.1 شدت سے آنے والایہ زلزلہ مزیدہولناک زلزلے کاپیش خیمہ بھی ہوسکتا ہے اِس لیے عوام کومخدوش عمارتوں سے دورہی رہناچاہیے ۔سوموارکو پاکستان میں آنے والے اِس ہولناک زلزلے کی شدت 8 اکتوبر 2005ء کوآنے والے اُس زلزلے سے زیادہ تھی جس میں سرکاری اعداد وشمار کے مطابق 87 ہزار افرادلقمۂ اجل بنے لیکن غیرسرکاری ذرائع کے مطابق یہ تعداداِس سے کہیں زیادہ تھی ۔اب بھی سرکاری ذرائع لگ بھگ 300 افرادکی ہلاکتوں کی اطلاع دے رہے ہیں، خُداکرے کہ ایساہی ہولیکن خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان جہاں سب سے زیادہ تباہی ہوئی ہے ،وہاں تو پہاڑی علاقوں میں دوردور بکھرے ہوئے گھرہوتے ہیں اوربعض جگہیں ایسی بھی ہیں جہاں چھوٹی چھوٹی پگڈنڈیوں کے سوا کوئی زمینی راستہ بھی نہیں اِس لیے دوردراز جگہوں پر رسائی نہ ہونے کی وجہ سے فی الحال ہلاکتوں کی درست تعدادکااندازہ لگانامشکل ہے البتہ یہ ضرورکہا جاسکتا ہے کہ 2005ء کے زلزلے سے کہیں کم تباہی ہوئی جس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ 2005ء کے زلزلے کی گہرائی زمین کے اندر 10 کلومیٹر تھی جب کہ پِیرکو آنے والے زلزلے کی گہرائی 193 کلومیٹر۔

زلزلے کے بعداین ڈی ایم اے اورپی ڈی ایم اے متحرک ہوئیں ،ہمارے وزیرِاعظم برطانیہ کادورہ مختصرکرکے فوری طورپر پاکستان پہنچ گئے ،سپہ سالارنے فوج کومتحرک کردیا۔ سوال مگریہ ہے کہ ہم زلزلوں اور سیلابوں جیسی قدرتی آفات سے نپٹنے کے لیے کوئی مؤثر نظام تشکیل کیوں نہیں دیتے؟۔ نیشنل ڈیزاسٹرمینجمنٹ اتھارٹی NDMA) )تو اپنے تئیں کوشش کرہی رہی ہوگی لیکن بااثر بلڈرزکے سامنے بے بَس۔ امریکی جیولوجیکل سروے کے مطابق اسلام آباد دُنیاکے اُن 7 شہروں میں شامل ہے جہاں زلزلوں کے شدیدترین خطرات ہیں۔ یہ شہرزلزلوں سے محفوظ تعمیرات کی صورت میں ہی اپناوجود برقرار رکھ سکتے ہیں لیکن یہاں یہ عالم کہ کوئی بااثر بلڈرز کاہاتھ پکڑنے والانہیں۔ 2005ء میں آنے والے تقریباََ اسی شدت کے زلزلے نے مارگلہ ٹاورکو زمیں بوس کردیا اورغیر ملکیوں سمیت 70 افراد لقمۂ اجل بنے ۔ہوناتو یہ چاہیے تھاکہ حکام مارگلہ ٹاورسے سبق سیکھتے اورسی ڈی اے حکام نئے تعمیراتی ضابطوں پر سختی سے عمل کرواتے لیکن اسلام آبادمیں تواب بھی دھڑادھڑ ایسی کثیرالمنزلہ عمارات تعمیرکی جارہی ہیں جو زلزلوں کے جھٹکے برداشت نہیں کر سکتیں۔ ایک سرکاری سروے کے مطابق پیر کو آنے والے زلزلے سے اسلام آبادکی کم ازکم چار کثیرالمنزلہ عمارات کوشدید نقصان پہنچاہے ۔جب سی ڈی اے کے ترجمان سے اِس سلسلے میں سوال کیاگیا تواُس کاجواب تھا ’’جوکوئی بھی غیرمحفوظ اورغیر قانونی تعمیر کامرتکب پایاگیا ،اُس کے خلاف اُس کی سیاسی وابستگی سے قطع نظرقانونی کارروائی کی جائے گی۔ ماضی میں جو کچھ ہوناتھا ،ہوگیا ،آئندہ تحفظ کے ضابطوں پر سختی سے عمل درآمد کروایا جائے گا‘‘۔ اپنی جیبیں بھاری کرنے والے سی ڈی اے حکام سے سوال ہے کہ کیا پہلے وہ سوئے ہوئے تھے اورکیا (خُدانخواستہ ) آئندہ زلزلے کی صورت میں ہونے والے کسی بھی سانحے کا مقدمہ سی ڈی اے حکام کے خلاف درج کروایاجائے؟۔ ہماری بدقسمتی تویہ ہے کہ ہم نے نسلِ آدم کوبھی مختلف کیٹیگریز میں تقسیم کررکھا ہے ،ایک وی وی آئی پیز ہیں جنہیں سارے خون معاف، دوسرے وی آئی پیز جنہیں بیوروکریٹس کی صورت میں جانا اورپہچانا جاتاہے اورملک انہی کے دَم قدم سے ’’شادوآباد‘‘ ۔اِن پرہاتھ ڈالناشیر کے مُنہ میں ہاتھ ڈالنے کے مترادف ہے اورتیسری کیٹیگری اُن حشرات الارض پرمشتمل کہ جن کی جان کی کوئی قیمت ہی نہیں۔ یہ ہرروز مرتے ہیں اورمرتے ہی رہیں گے کہ ’’ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات‘‘۔ البتہ اِن کی اشک شوئی بھی ضروری کہ کل کلاں انہی کے ووٹوں کی بدولت مسندِاقتدار تک پہنچناہے۔ آجکل وی وی آئی پی حضرات زلزلہ متاثرین کی تیمارداری کے لیے دھڑادھڑ ہسپتالوں کارُخ کررہے ہیں جس سے ہسپتالوں کا سارانظام درہم برہم ۔اِن وی وی آئی پی حضرات کی جانیں چونکہ بہت قیمتی ہیں اِس لیے ساری انتظامیہ اُن کی حفاظت پرمامور ہوجاتی ہے اورہسپتالوں کی راہداریاں کمانڈوزسے بھرجاتی ہیں۔ ہسپتالوں کا عملہ بھی اِن کے استقبال کے لیے سَرپَٹ ہوجاتاہے اِس لیے ہم تودست بستہ یہی عرض کریں گے کہ خُدارا اِن حشرات الارض کو اُن کے حال پرچھوڑ دیجئے کہ اسی میں اُن کا بھلاہے۔
 
Prof Riffat Mazhar
About the Author: Prof Riffat Mazhar Read More Articles by Prof Riffat Mazhar: 865 Articles with 559403 views Prof Riffat Mazhar( University of Education Lahore)
Writter & Columnist at
Daily Naibaat/Daily Insaf

" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی ب
.. View More