بلدیاتی انتخابات اور الزام خان

وٹرز لسٹوں میں بے ضابطگیاں کر نیوالے قومی مجرمان کو معاف کر نیکا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، عوام کے ووٹوں پر ڈاکہ ماراناحکمرانوں کا ’’شوق‘‘بن چکا ہے، ضمنی انتخابات کے حوالے سے ہمارے پاس ووٹر زلسٹوں میں ضابطگیوں کے سینکڑوں نہیں ہزاروں ثبو ت آچکے ہیں۔

قارئین کرام! یہ کوئی نئی خبر نہیں۔ پاکستانی سیاست میں یہ معمول کی باتیں ہیں۔ جیتنے والا الیکشن کے شفافیت کی گیت گاتا نظر آتاہے اور ہارنے والا انتظامیہ، حکومت اور الیکشن کمیشن پر الزام تراشی کرتے ہوئے نہیں تھکتا۔ جب سے سیاست کھیل اور سیاست دان کھلاڑی بن چکے ہیں، تب سے امپائرز کے ہر فیصلے کے خلاف ریویو لیا جاتا ہے جو عموما غلط ہوجاتا ہے۔ مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ سیاست کے کھیل کاکوئی قانون نہیں۔اس میں کھیلنے والے ٹیموں کی تعداد بھی متعین نہیں ۔ کوئی بھی ٹیم کسی بھی سائیڈ سے کھیل سکتی ہے ۔ اس کھیل میں عموما کھلاڑی بھک جاتے ہیں۔

2013ء کے عام انتخابات میں ایک صاحب بہادر اگر چہ قومی سطح پر کامیابی حاصل نہ کر سکے، تاہم دوسرے جماعتوں سے گھٹ جوڑ کے بعد مرکزی حکومت نے اسے حکومت بنانے کا موقع فراہم کردیا۔ اب بیچارہ کھیل کا کھلاڑی سیاست کو کیسے سنبھالتا؟ انہوں نے صوبے میں اپنی ناقص کارکردگی چھپانے کے لیے مخالف جماعت کے خلاف دھاندلی کی اپیل کی۔ جیسے ہی امپائر نے اس کے اپیل کو نذر انداز کیا تو اس نے کھیل روکھ کر تماشائیوں کے سامنے نیا تماشہ شروع کر دیا۔ تقریبا چار مہینے تک پچ پر بیٹھ کر احتجاج کیا۔ گراؤنڈ میں موجود تماشیو ں کے مستقبل کو داؤ پر لگایا۔ جب اس سے بھی کچھ نہ بن پڑا تو امپائر کے خلاف اپیل کی مگر بے سود، بلاخر اسے گراونڈ سے ناکام ہو کر نکلنا پڑا۔

کچھ وقت بعد اس نے مخالف ٹیم کے کھلاڑیوں کے خلاف رپورٹس کرنا شروع کردیا۔ جب ہری پور کے پچ پر اسے کھیلنے کا موقع ملا تو اس نے کھیل کے قوانین کو چلنج کر کے بائیو میٹرک قانون کے تحت میچ کھیلا۔ بد قسمتی سے ہری پور کے زبردست شکست کے بعد گویا وہ بائیو میٹرک سسٹم کا نام ہی بھول گیا۔ بھولنا تو تھا ہی۔ اس میں دھاندلی کا الزام جو نہیں بنتا تھا۔ مخالف ٹیم کے وکٹ کیپر کے خلاف اپیل کر کے اسے کریز سے واپس بھیج دیا لیکن اس سے دوبارہ سامنا کرنے پر دوبارہ ہار گیا۔ تب بھی دھاندلی کا پنڈورہ پیٹنے لگا۔

مختلف میدانوں میں مختلف ٹیموں اور ایمپائرو کے خلاف اپیلیں کرنے کے باوجود اس کھلاڑی کو ایک بار پھر بہت بڑی ایونٹ میں شرکت کا موقع ملا۔ یوں لگ رہا تھا کہ جیسے اس مرتبہ وہ کلین سویپ کر لے گا۔ ایسے اعتماد کے ساتھ پوری تیاری کے بعد وہ میدان میں اتر گیا۔ بڑے جوش و خروش سے گیم کھیلی۔ جب نتیجہ آیا تو ۔۔۔۔۔صفر۔ ایک مرتبہ پھر وہ چند رنز بنا کر اووٹ ہوگیا۔ ایک مرتبہ پھر اسے موقع ملا۔ ایک بار پھر اس نے بازار گرم کر دیا۔ جی ہاں! میچ فیکسنگ کی الزامات، مخالف ٹیموں پر الزامات۔ کھلاڑیوں پر الزامات۔ ایمپائروں پر الزامات۔ ہر طرف الزامات ہی الزامات۔اب کی بار اس نے کسی کو بھی نہ چھوڑا۔ ہاں! اگر چھوڑا ہے تو صرف کھیل کے قوانین کو۔ اب کی بار اس نے بائیومیٹرک طریقہ انتخاب کا مطالبہ نہیں کیا۔ کھیل کے اگلے راونڈ کے لیے بھی اس نے طریقہ کار چینج کرنے کے لیے زور نہیں لگایا۔ اسے پتہ ہے کہ آخر کار وہ جتنا بھی زور لگائے، اسے ہارنا ہے۔ اس نے کبھی جیتنے کے لیے کھیلا ہی نہیں۔ اسے کچھ بھی حاصل نہ ہوسکا۔ مگر ہاں! ایک چیز اسے حاصل ہو گئی۔ خان صاحب سونامی خان کا ٹائٹل تو پہلے ہی جیت چکے ہیں۔ اس بار انہیں ایک اور اعزاز سے نوازا گیا۔ بالکل آپ درست سمجھے ہیں۔۔۔۔الزام خان۔
Abid Ali Yousufzai
About the Author: Abid Ali Yousufzai Read More Articles by Abid Ali Yousufzai: 97 Articles with 76099 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.