اقبال روح اور دین کا شناسا

تحریر: علینہ ملک کراچی
اسلام اور مسلمانوں پر اغیار کی نوازشوں اور عنایتوں کی داستان پرانی بھی ہے اور طویل بھی ،یہ عنایتیں اور نوازشیں کسی نہ کسی شکل میں کسی نہ کسی جگہ پر ہوتی رہی ہیں کبھی دین اسلام کو مسخ کرنے کی کوشش کی گئی ،تو کبھی نبی پاکﷺ کی شان میں گستاخی کی گئی تو کبھی مسلمانوں کو امن دشمن قرار دے کر ناروا سلوک کیا گیا ،مگر قدرت کی مدد شامل حال رہی اورباری تعالیٰ نے ہم ہی میں سے کوئی نہ کوئی ایسا فرد ضرور پیدا کیا جس نے ہوا کا رخ بدل دیا اور اسی کاروان کا ایک سپاہی بلا شبہ اقبال بھی تھا ،جس نے مسلمانوں کی سوئی ہوئی روح کو بیدار کیا اور اس کے مردہ تن میں جان ڈال دی۔
تو راز کن فکان ہے،اپنی آنکھوں پر عیاں ہو جا ، خودی کا راز داں ہو جا ،خدا کا تر جمان ہو جا۔

جس طرح ایک درخت کو پھلنے اور پھولنے کے لئے ایک مخصوص آب وہوا اور مٹی کی ضرورت ہوتی ہے ،اسی طرح ایک نظم یا تصویر کو معرض وجود میں آنے کے لئے مخصوص سماجی اور معاشرتی فضاء کا ہونا ضروری ہے ۔ایک فن کار کی تخلیقات اسکے ماحول کی پیداوار ہوتی ہے۔چنانچہ اقبال بھی ایک ایسے معاشرے کے فرد تھے جس کی سماجی زندگی روبہ زوال تھی ،اور ان کا ادب ایسے معاشرے کا ادب تھا جو اپنے دور کے انحطاط سے ابھر رہا تھا۔اقبال نے دیکھا کہ مشرق بے روح تصویر بنا ہوا ہے،اس میں ذوق ،جستجو اور سوز و تپش نام کو نہیں رہی ہے ۔وہی قوم جس نے تاریک دور میں بھٹکی ہوئی انسانیت کو راہ دکھائی اب خود بھٹک چکی ہے۔

اقبال نے اسے وقت میں اسلام کا حال دیکھا کہ جب انسانیت زبوں حال تھی اور آدمیت اپنے مر تبے اور استحکام کے مطابق زندگی بسر کرنے کے لئے تڑپ رہی تھی تو اس وقت یہ حساس اور اعلیٰ مرتبت کا شاعر انسانیت کا علمبر دار کس طرح خاموش رہ سکتا تھا ۔اقبال نے مشاہدہ کیا کہ جب تک مسلمان قرآن کے پلڑے میں حسن و قبیح کو تولتا رہا اسی آسمان پر تنہا درخشاں ستارہ تھا۔اور قرآن سے حاصل کی ہوئی خودی سے وہ آسمان کی بلندکو چھوتا رہا ،مگر جب اس نے قرآن سے حاصل کی گئی خودی کا دامن چھوڑ دیا تو وہ ذلت کی پستیوں کے راستے میں گامزن ہو گیا ،اقبال کی نظر ایسے مرد مجاہد پر تھی جس کی رگ و پے میں قرآن کا نشہ دوڑ رہا ہو ،جو محمود غز نوی ،ٹیپو سلطان یا محمد بن قاسم کی طرح غیور ،اور باعمل مسلمان ہو،
وہ مرد مجاہد نظر آتا نہیں مجھ کو، ہو جس کے رگ و پے میں فقظ مستی و کردار ،

حقیقت میں اقبال قرآن کا شاعر ہے ،گویا جس طرح ایک مسلمان کے لئے قرآن کا مطالعہ ضروری ہے اسی طرح اقبال کی قرآنی فکر کا بھی مطالعہ ضروری ہے ،کیو نکہ اقبال کی فکر کی پختگی کو قرآن نے ہی ابدی و آفاقی بنیادیں فراہم کی ہیں ۔اقبال کا دور بلا شبہ ایک مشکل دور تھا اور سوئی ہوئی مسلمان قوم کو جگانا آسان نہیں تھا مگر اقبال نے اپنی شاعری سے مسلمانوں کے اندر سوئے ہوئے مجاہد کو بیدار کیا اور انہیں بتایا کے حقیقت میں ایک مسلمان کی زندگی کیا ہے ۔
یقین محکم ،عمل پیہم ،محبت فاتح عالم جہاد زندگانی میں ہیں یہی مردوں کی شمشیریں۔

اقبال جانتے تھے کہ مسلمان جب جب اﷲ اور دین سے دور ہوئے اور انھوں نے نبی پاک ﷺ کی سنت پر عمل پیرا ہونے سے انکار کیا تباہی و بربادی ان کا مقدر ٹھہری۔چنانچہ ان کی شاعری نے صور اسرافیل کا کام کیا اور مسلمانوں کی سوئی ہوئی روحوں کو بیدار کیا ۔اقبال جانتے تھے کہ ملت اسلامیہ کے بکھرے ہوئے شیرازے کو سمیٹنا بہت ضروری ہے چنانچہ انھوں نے اپنی ساری کوشش امت محمدیہ کو یکجا کرنے میں صرف کردی۔اقبال چاہتے تھے کہ اگر اسلام کا بکھرا ہوا شیرازہ محبت اور یکجحتی کی مضبو ط رسی سے بندھ جائے اور اپنے مذہب کے احکامات اور ارکان کے دل سے پابند ہوجائیں اور یہ خیال دل سے ترک کر دیں کے وہ ہندی ،ترک،مصری یا افغانی ہیں تو یقینا وہ ایک مضبوط کڑی بن سکتے ہیں ،چنانچہ وہ مسلمانوں کواپنی نظموں کے ذریعہ ان کے اسلاف کے کارناموں اور ان کی شان و شوکت اور عظمت سے بھی روشناس کرواتے رہے ۔
صفحہء دہر سے باطل کو مٹایا کس نے ؟ نوع انساں کو غلامی سے چھڑایا کس نے ؟
میرے کعبے کو جبینوں سے بسایا کس نے؟ میرے قرآن کو سینوں سے لگایا کس نے؟
تھے تو آبا وہ تمھارے ہی مگر تم کیا ہو ؟ ہاتھ پر ہاتھ رکھے منتظر فردا ہو ۔
۔ زلز لے جن سے شہنشاہوں کے درباروں میں تھے، بجلیوں کے آشیانے جن کی تلواروں میں تھے۔
اقبال نے انسانیت کی زبوں حالی سے بے تاب ہوکر ایک والہانہ انداز میں تمنا کی تھی اور اس تمنا کا کچھ حصہ ان کی زندگی میں پورا ہوگیا تھا ،اور انہوں نے اپنے آخری ایام میں افغانستان ،ایران اور ترکی کو آزاد ہو تے دیکھ لیا ،یہ حقیقت ہے کہ پاکستان بننے کا جو خواب سب سے پہلے انہوں نے اپنی آنکھوں میں سجایا تھا اور پھر وہی خواب بر صغیر کے ایک ایک مسلما ن کی آنکھوں میں بھی بس گیا۔اگرچہ وہ اس کی تعبیر اپنی زندگی میں نہ دیکھ سکے مگر ایک نئی صبح کے طلوع ہونے کا مثردہ ضرور سنائی دینے لگا اور ملت اسلامیہ کے مردہ تن میں جو روح انہوں نے اپنی سوچ اور فکر کی گہرائی سے پھونکی ،وہ انھیں مسلمانوں میں پیدا ہونے والے ولو لہ اور دینی ،علمی اور فکری انقلاب کی صورت میں نظر آنے لگی تھی ۔
کھول آنکھ زمیں دیکھ فلک دیکھ فضا دیکھ ، مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ۔

اقبال کی زندگی کے خدوخال ،اسلام کے ساتھ ان کی ذہنی اور قلبی وابستگی ،روح دین سے ان کی شناسائی ،آزادی کا صحیح مفہوم اور حقیقی تصور جو انھوں نے اپنے کلام میں واضع کیا ہے ،نہ صرف اس دور کی اہم ضرورت تھا بلکہ آج کے دور کی بھی اہم ترین ضرورت ہے ،اقبال کبھی بھی اپنے دور کے حالات سے مایوس نہیں ہوئے تھے ،کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ملت کے شعور کو جگانے یا بیدار کرنے کی اشد ضرورت ہے اور یہ کام انہوں نے خود اپنے ذمہ لیا ،اور امید کا جو دیا اقبال نے روشن کیا اس کی لو آج بھی اسی آب و تاب کے ساتھ روشن ہے اور رہے گی ۔انشاء اﷲ۔
نہ ہو نو امید ،نو امیدی زوال علم و عرفاں ہے ، امید مرد مومن ہے خدا کے راز دانوں میں ۔(بال جبریل)
Farha shah
About the Author: Farha shah Read More Articles by Farha shah: 6 Articles with 9462 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.