مزارِمبارک:
شہر بریلی محلّہ سودگراں میں دارالعلوم منظر الاسلام کے شمال جانب ایک پر
شکوہ عمارت میں آپ کا مزارِمبارک ہے۔آپ کا عرس ہر سال 24 ،25 صفر کو ہوتا
ہے اور اصناف ہند کے علماء مشائخ اس میں شریک ہوتے ہیں۔
آثاروباقیات:
فاضل بریلوی کی باقیات صالحات میں ان کی لا تعداد تصانیف و تعلیقات پچاس
مختلف علوم و فنون پر ہزار کے قریب ہیں۔ مولونا رحمٰن علی نے اپنی تالیف
تذکرہ علمائے ہند میں جو( 13025 ہجری 1887 ء میں لکھنی شروع کی فاضل بریلوی
کی پچاس تصانیف کا ذکر فرمایا ہے اور اس کے بعد لکھا ہے۔۔۔ اس وقت فاضل
بریلوی کی عمر مبارک تقریباّ 31 سال ہوگی۔اور 14 سال کی عمر میں فتوٰی
نویسی کا آغاز فرما کر دن علمی دنیا میں قدم رکھا اس طرح یہ 75 تصانیف
تقریباّ18 کی کاوش کا نتیجہ ہیں۔ اس کے بعد 35 سال حیات رہے جب ابتداء کا
یہ عالم تو انتہا کیسی شاندار ہو گی 1323ھ میں جب آپ دوسری بار زیارت حرمین
شریفین حج کے لئے تشریف لے گئے اپنی تصنیفات کی تعداد 200 تحریر فرمائی ہے۔
اس وقت آپ کی عمر 41 سال ہو گی ۔ اس قدر تصانیف کے علاوہ فاضل بریلوی نے
مختلف علوم و فنون کی تقریباّ 80 کتابوں پر تعلیقات و حواشی تحریر فرمائے
ہیں۔اس سارے علمی سرمایہ کے علاوہ آپ کا فقہی شاہکار فتاویٰ رضویہ ہے جس کا
پورا نام ۔۔۔۔ العطایا النبو یہ فی الفتاویٰ الرضویہ۔۔۔ 1324ھ تک فاضل
بریلوی نے اس کی سات مجلدات کا ذکر فرمایا ہے جو بعد میں 12 مجلدات تک پہنچ
گئیں اور جن میں 5 شائع بھی ہو گئیں ہر ایک جلد جہازی سائز کے ہزار صفحات
سے زیادہ پر مشتمل ہے تاریخ الفتاویٰ میں یہ مجموعہ امتیازی حثیت رکھتا ہے۔
دوسرا علمی شاہکار قرآن کریم کا اردو ترجمہ ہے جو کنزالایمان فی ترجمۃ
القرآن کے نام سے 1330ھ میں منصئہ شہود آیا۔فاضل بریلوی کے خلیفہ اور جلیل
القدر عالم مولانا نعیم الدین مراد آبادی نے خزائن العرفان کے نام سے اس پر
تفسیر حواشی تحریر فرمائے ہیں۔ ٰیوں تو دنیا میں بے شمار ترجمے ہیں ، لیکن
فاضل بریلوی کے ترجمے کی شان ہی یہ ہے کہ اس میں عشق ہے، مستی ہے، دردہے،
تڑپ ہے اور ادب ہے سچ تو یہ ہے کہ اپنی مثال آپ ہے۔ |