علامہ اقبالؒ مسلمانوں کے لئے
ایک ایسی شخصیت ہیں کو ہمیشہ قابل عزت اور قابل احترام تھی، ہے اور ہمیشہ
رہے گی ،ان کی شاعری گوناں گو پہلو اور ہمہ گیریت مسلمان معاشرے کے ہر شعبہ
زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کو ان کے ذوق کے مطابق متوجہ کرتی ہے،
علامہ اقبالؒ کی شاعری کے سب سے اہم مقاصد مسلماناں برصغیر کو خواب غفلت سے
جگا کر مذہبی اور سیاسی شعور بیداری اور ان میں جذبہ اخوت محبت ویگانگت
پیدا کرنا تھا، جس کے متعلق خود علامہ اقبال نے فرمایا!
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں بیرون دریا کچھ نہیں
علامہ اقبالؒ خوابیدہ قوم کو خواب گراں سے جھنجھوڑ کر جگانا چاہتے تھے اور
مسلمانوں میں یک رنگی و یگانگت کے خواہاں تھے ، ان کی یہ دلی خواہش تھی کہ
مسلمان اخوت کے استوار رشتہ میں منسلک ہو کر ایک لڑی کی صورت میں یکجا ہو
جائیں اور یہ آپ کی روح کی پکار تھی !
پرونا ایک ہی تسبیح میں ان کے بکھرے دانوں کو
جو مشکل ہے تو اس مشکل کو آساں کر کے چھوڑوں گا
علامہ ا قبالؒ ایک عظیم لیڈر اور شاعر تھے ،آپ اپنی شاعری کے ذریعے
مسلمانوں میں آزادی کی تڑپ پیدا کرنے میں کوشاں رہے، آپ ہی نے 1930ء میں
آلہ آباد کے مقام پر ہونے والے آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں پہلی
مرتبہ مسلمانان برصغیر کے سامنے الگ ریاست"پاکستان" کا تصور پیش کیا اور
اپنے نظریے کے حق میں دلائل دیتے ہوئے فرمایا کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات
ہے ، یہ دین انسانوں کے سیاسی، معاشرتی، معاشی، ثقافتی، اور دیگر مسائل کا
مکمل حل فراہم کرتا ہے، برصغیر کے شمال مغرب میں اسلامی مملکت کا قیام عمل
میں آئے گا تو اسلام کو بطور ایک مکمل نظام رائج کرنے کا موقع ملے گا، اس
مملکت میں مسلمان اپنے مذہت، روایات، مخصوص تمدن اور ضابطہ ہائے قوانین کے
تحت اپنی زندگی بسر کر سکیں گے، انہوں نے کہا کہ ہندوستان ایک ملک نہیں
بلکہ برصغیر ہے اور اس برصغیر کے مختلف علاقوں میں رہنے والے عوام کے اپنی
پسند کے مطابق سیاسی نظام بنانے کا پورا پورا حق حاصل ہے ، برصغیر کے
مسلمان ایک علیحدہ قوم ہیں جس میں دو قومیں بستی ہیں، ایک مکمل قوم ہونے کے
ناطے مسلمانون کو مکمل حق حاصل ہے کہ ان علاقوں میں وہ اپنا نظام قائم کر
سکیں جہاں پر ان کی کثریت ہے۔ یوں علامہ اقبال نے دو قومی نظریہ کو مسلم
ریاست کے قیام کی بنیاد قرار دیا، آپ کے اسی نظریہ سے متاثر ہو کر برصغیر
کے مسلمانوں نے جدوجہد کی اور 1940ء میں ایک تاریخی جلسہ میں قرار داد
پاکستان منظور ہوئی، علامہ اقبال نے اپنے خطبہ آلہ آباد میں مسلمانون کے
نصب العین کے واضح الفاظ میں وضاحت کر دی تھی، اپنی شاعری کے ذریعے بھی
علامہ اقبال نے مسلمانوں کو اپنی شاعری کے ذریعے بھی آزدی کی دولت، نعمت ،اذیت
اور دکھ سے روشناس کروادیا تھا، آپ نے اپنی ایک نظم "پرندے کی فریاد" میں
آپ نے ایک غلام ملک کے باشندے کی پکار بیان کی ہے،
آزاد مجھ کو کر دے او قید کرنے والے
میں بے زبان ہوں قیدی تو چھوڑ کر دعا لے
اقبالؒ نے اپنی شاعری کے ذریعے مسلمانوں کو راہ عمل دکھائی اور انہیں یہ
بات باور کرائی کہ صرف خواب دیکھنے اور زور دار تقریریں کرنے سے قوموں کا
مقدر نہیں بدلتا بلکہ صرف عمل کی قوت سے کوئی بھی قوم اپنی تقدیر خود بدل
سکتی ہے اور کہتے ہیں کہ
تر آنکھیں تو ہو جاتی ہیں پر کیا لذت اس رونے سے
جب خون جگر کی آمیزش سے اشک پیازی بن نہ سکا
علامہ اقبالؒ سیاست کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں
تو اگر کوئی مدیر ہے تو سن میری صدا
ہے دلیری بست ارباب سیاست کا عصا
علامہ اقبالؒ مسلمانوں کو مرد مومن کے روپ میں دیکھنا چاہتے تھے، اور اپنی
اس خواہش کو انہوں نے اپنی شاعری میں کچھ اس طرح سے بیان کیا اور مرد مومن
کی شان بتائی،
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زور بازو کا
نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
علامہ اقبالؒ کی شاعری نے مسلمانوں میں نئی روح پھونک دی ،آپ نے مسلمانوں
میں یہ شعور بیدار کیا کہ وہ ایک الگ قوم ہیں اور الگ وطن ہی ان کے مسائل
کا حل ہے،
دیں ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہو مفت
ہے ایسی تجارت میں مسلمانوں کا خسارہ
علامہ اقبالؒ نے پاکستان کا تصور پیش کرنے کے ساتھ ساتھ اسے عملی جامع
پہنانے میں بھی اہم کردار ادا کیا اس لئے آپ کو مفکر ِ پاکستان بھی کہا
جاتا ہے،آپ نے مسلمانان برصغیر میں سیاسی اور مذہبی بیداری پیدا کی جو آگے
چل کر قیام پاکستان کی وجہ بنی اور مسلمانان برصغیر نے الگ وطن پاکستان
حاصل کر لیا۔ |