برصغیرکے منفردشاعرجون ایلیاء کے
13ویں یوم وفات پر ایک تحریر
منفرد لب و لہجے کے شاعر، فلسفی، سوانح نگار اور عالم دانشورجون ایلیاء14
دسمبر، 1931ء کو امروہہ، اتر پردیش کے ایک نامور اور معزز خاندان میں پیدا
ہوئے ۔وہ معروف صحافی رئیس امروہوی اور فلسفی سید محمد تقی کے بھائی، اور
مشہور کالم نگار زاہدہ حنا کے سابق خاوند تھے، ان کے والد، علامہ شفیق حسن
ایلیاء کو فن اور ادب سے گہرا لگاؤ تھا ۔جون ایلیاء اپنے بہن بھائیوں میں
سب سے چھوٹے تھے ۔گھر کا ماحو ل علمی و ادبی تھا ۔اسی ماحو ل کی وجہ انہوں
نے اپنا پہلا اردو شعر محض 8 سال کی عمر میں لکھا۔اپنی کتاب ’’ شاید ‘‘کے
پیش لفظ میں قلم طراز ہیں۔
میری عمر کا آٹھواں سال میری زندگی کا سب سے زیادہ اہم اور ماجرا پرور سال
تھا۔ اس سال میری زندگی کے دو سب سے اہم حادثے ، پیش آئے ۔پہلا حادثہ یہ
تھا کہ میں اپنی نرگسی انا کی پہلی شکست سے دوچار ہوا، یعنی ایک قتالہ لڑکی
کی محبت میں گرفتار ہوا۔ دوسرا حادثہ یہ تھا کہ میں نے پہلا شعر کہا
چاہ میں اس کی طمانچے کھائے ہیں
دیکھ لو سرخی مرے رخسار کی
جون ایلیاء کو عربی، انگریزی، فارسی، سنسکرت اور عبرانی میں اعلی مہارت
حاصل تھی۔اردو میں شاعروں کی کوئی کمی نہیں، بلکہ اردو کے مخالفین اس زبان
پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ یہ صرف شاعری کی زبان ہے، اس میں سائنس و دیگر
جدید علوم کا ذخیرہ کم ہے ،ایسے حالات میں،شاعروں کے اس ہجوم میں کسی شاعر
کا اپنا الگ مقام بنا لینا حیران کن ہے ۔ وہ اپنے انوکھے انداز تحریر جس کے
وہ خود ی موجد خود ہی خاتم ہیں ،کی وجہ سے یہ مقبولیت حاصل کرنے میں کامیاب
ہوئے ۔ شاعری میں درشتی اور کھردراہٹ صرف ان کا خاصہ ہے۔
اپنے لڑکپن میں بہت حساس تھے ۔ خواب وخیا ل میں رہتے تھے ،کہا جا سکتا ہے
کہ انہوں نے خیالوں میں ایک دنیا بسائی تھی، جہاں ان کی کل توجہ کا مرکز
ایک خیالی محبوب کردار صوفیہ تھی۔ان کے بارے میں کہا جاتا ہے ،کہ ان کو ان
باتوں پر بھی غصہ آیا کرتا تھا جن پرکوئی غصہ نہیں کرتا ،ان کے اس غصے کا
سبب متحدہ ہندوستان پر انگریز کاقابض،خود کو بے بس پانا بھی ہے ۔جون ایلیا
ء شیعہ مذہب سے تعلق رکھتے تھے ۔ حضرت علی ؓکی ذات مبارک سے انہیں خصوصی
عقیدت تھی اور انہیں اپنی سیادت پر بھی ناز تھا۔
اپنی جوانی میں کمیونسٹ خیالات کی وجہ سے ہندوستان کی تقسیم کے خلاف تھے
۔جسے بعد میں قبول کر لیا ایلیاء نے 1957ء میں پاکستان ہجرت کی اور کراچی
کو اپنا مسکن بنایا۔ جلد ہی وہ شہر کے ادبی حلقوں میں مقبول ہو گئے ۔جس وجہ
سے پذیرائی نصیب ہوئی۔
جون ایلیاء ایک ادبی رسالے سے بطور مدیر وابستہ تھے، جہاں ان کی ملاقات
مصنفہ زاہدہ حنا سے ہوئی جن سے بعد میں انہوں نے شادی کر لی۔ زاہدہ حنادو
روزناموں، جنگ اور ایکسپریس، میں حالات حاضرہ اور معاشرتی موضوعات پر لکھتی
رہی ہیں
جون کی زاہدہ سے 2 بیٹیاں اور ایک بیٹا پیدا ہوئے ۔ 1980ء کی دہائی کے وسط
میں ان کی طلاق ہو گئی۔
ان کی نجی زندگی یوں تو ناکام اور کرب انگیز تھی مگر وہ پیدا ہی شاعری کے
لیے ہوئے تھے ،لوگ ان سے دیوانہ وار پیار کرتے تھے ۔
جون ایلیاء کا پہلا شعری مجموعہ ’’ شاید‘‘ اس وقت شائع ہوا جب ان کی عمر 60
سال کی تھی۔ اس کتاب کے پیش لفظ میں انہوں نے ان حالات اور ثقافت کا بڑی
گہرائی سے جائزہ لیا ہے، اس کتاب جیسا پیش لفظ نہ پہلے لکھا گیا نہ بعد میں
کسی اور نے لکھا۔ وہ روایت کے رنگ کے رنگ میں نہیں رنگے، ان کا انداز بے حد
نرالا ہے ۔ ان کے چند شعر دیکھیں
مل رہی ہو بڑے تپاک کے ساتھ
مجھ کو یکسر بھلا چکی ہو کیا؟
اک شخص کر رہا ہے ابھی تک وفا کا ذکر
کاش اس زباں دراز کا منہ نوچ لے کوئی
مجھ کو تو کوئی ٹوکتا بھی نہیں
یہی ہوتا ہے خاندان میں کیا؟
نہیں دنیا کو جب پروا ہماری تو
پھر دنیا کی پروا کیوں کریں ہم
ہاں ٹھیک ہے میں اپنی انا کا مریض ہوں
آخر مرے مزاج میں کیوں دخل دے کوئی
میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کرلیا اور ملال بھی نہیں
جون ایلیاء کے لکھے انشائیے ،سسپنس ڈائجسٹ، میں برسوں سے شائع ہو رہے ہیں ،
اورایک وسیع حلقے میں ذوق و شوق سے پڑھے جا رہے ہیں ۔ ان کا ایک شعر تو
کافی عرصے تک میں نے اپنی کتابوں کی الماری پر لکھ کے لگائے رکھا تھا ،شاید
مجھے ان کا یہ شعر سب سے زیاد ہ پسند ہے ،آپ بھی سنیں۔
تم جب آؤگی تو کھویا ہوا پاؤگی مجھے
میری تنہائی میں خوابوں کے سوا کچھ بھی نہیں
میرے کمرے کو سجانے کی تمنا ہے تمہیں
میرے کمرے میں کتابوں کے سوا کچھ بھی نہیں
جون ایلیاء طویل علالت کے بعد 8 نومبر، 2002ء کو کراچی میں انتقال کر گئے
۔آج انھیں رزقِ خاک بنے ہوئے 13برس گزر گئے ،
ان کی تخلیقات ،شعری مجموعے درج ذیل ہیں ’’شاید‘‘ 1991۔’’یعنی‘‘
2003۔’’گمان‘‘ 2004۔’’لیکن‘‘ 2006۔’’گویا‘‘ 2008۔’’فرنود‘‘ 2012۔
|