شاعرمحترم امرروحانی صاحب

تعارف و کلام-----------!!!!

محترم امرروحانی صاحب جہاں ایک یگانہ صفت شاعر اور ادیب ہیں وہیں ایک اخلاق و ادب کا سراپا بھی ۔ ان کی غزلیں اور ادب سے تعلق اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ عجز ہی انسان کے کمال , خصال کا آئینہ دار ہے حال ہی میں ان کے والد گرامی کا انتقال ہوا تو وہ یو اے ای سے اپنے آبائی شہر ملتان روانہ ہوئے اس سے کچھ دن پہلے فقیر کو شرف ہمکلامی بخشا اور ایسا افصح انسان مکمل و مؤدب و معطر نکلا بات کرکے ان کے لہجی کی شیرینی طمانیت کا باعث بنی ۔ ان کا ادب سے تو چولی دامن کا ساتھ ہے ہی ساتھ میں مطالعہ کا شوق لڑکپن سے ھے اپنا الٹا سیدھا کلام بھی کہتا رھے ( کلام بطور نمونہ چند سطور کے بعد ) جو خود تک محدود رھا - باقاعدہ شعر کہنا جنوری 2014 سے سٹارٹ کیا ایم اے جرنلزم کے بعد ایک انجیرنگ کمپنی میں ملازمت سے وابستہ ہیں احباب کی نظر ان کی کچھ غزلیں اور دعا کا ملتمس ہوں ایسے صاحب فن اشخاص کی قدر آپ کے ظرف و ضمیر کی بلندی و حیاتی کا ثبوت ہے حوصلہ افزائی کیجئے گا تا کہ یہ سلسلہ جاری رہ سکے امر روحانی صاحب کے لیے عزت و مقام فراخی رزق و عمر کی دعا ہے

ایک شعر

مرے خمیر میں فرعونیت کا عنصر ھے
بطور ایک بشر اعتراف کرتا ھوں

غزلیں
انا کے دوزخ میں پل رہا ہوں غرض کے صحرا میں جل رہا ہوں
خودی کی منزل کو ترک کر کے خرد کی راہوں پہ چل رہا ہوں

کوئی تو ہو تھام لے جو بڑھ کر کوئی تو ہو روک لے جو آ کر
میں ذرہ ذرہ بکھر رہا ہوں ، میں قطرہ قطرہ پگھل رہا ہوں

جو خاک جھڑنے لگی ہے میری جو رنگ اترنے لگا بدن سے
یہ ابتدا ہے نئے سفر کی سو کینچلی سی بدل رہا ہوں

وصال یاراں تو مختصر تھا امیدِ یاراں ازل سے قائم
بہک گیا تھا میں جس نشے میں اسی نشے سے سنبھل رہا ہوں

کفالتوں کا نظام بدلا ، لہو کا رنگِ مزاج بدلا
میں اپنے گھر میں ہی اجنبی سا دبے سے پاؤں ٹہل رہا ہوں

نہ فاصلہ ہے نہ تیرگی ہے نہ آرزو میں کوئی کمی ہے
کھڑا ہوا ہوں بہ روئے منزل ، قدم قدم پہ پھسل رہا ہوں

بگڑ رہا ہے مرا سراپا ، الجھ رہے ہیں خرد کے دھاگے
یہ ارتقا ہے بشر کی قسمت سو دھیرے دھیرے بدل رہا ہوں

حرام کیا ہے حلال کیا ہے یہ لطفِ کام و دہن نہ جانے
بہ جبر و اکراہ چکھا جس کو ، رضا و رغبت نگل رہا ہوں

یہ زہد بھی ہے قضائے عمری ، یہ ظرف بھی ہے بس اک لبادہ
سو جس ضرورت نے جیسا چاہا میں ویسے سانچے میں ڈھل رہا ہوں

نزع کے عالم میں نام اس کا زباں پہ جاری ہوا امـؔر کیوں
چھپا کے رکھے تھے عمر بھر جو وہ راز آخر اگل رہا ھوں
-------------******-----------
رھینِ منّتِ یاراں ، عبث عبث نہ لگے
چلی یوں عمرِ گریزاں برس برس نہ لگے

لٹا ھے پہلے پڑاؤ پہ قافلہ دل کا
سفر سفر نہ لگے اب جرس جرس نہ لگے

بہار آئی ھے اس بار صرف کانٹوں پر
چمن چمن نہ رھا اور مگس مگس نہ لگے

پہنچ گیا ھوں خدا کی تلاش میں یہ کہاں
اذاں اذاں نہ جہاں پہ ، کلس کلس نہ لگے

خزاں میں جشنِ بہاراں منا بھی سکتا ھوں
میں وہ گرفتہ ھوں جسکو قفس قفس نہ لگے

مرے شعورِ میں ھے اک ھجومِ وھم و گماں
نفس میں ایسی گھٹن ھے نفس نفس نہ لگے

ھم ایسے دورِکشاکش میں جی رھے ھیں امـؔر
گنہ گنہ نہ لگے اور ھوس ھوس نہ لگے
-------***-------

اے میری خواھشِ پرواز ــــــــــــــــ اب خُدا حافظ
فلک کا رستہ زمیں سے ہی مِل گیا ھے مُجھے
------****--------

شہرِآشوب سے اِک خواب نگر ھونے تک
عشق مشغولِ فنا ، نقشِ اَمَر ھونے تک

وصل کی ایک کِرن محوِ تماشا تھی کہیں
رقصِ بسمل رھا قائم جو سحر ھونے تک

حُسن کی مست نگاہی کے کرشمے توبہ
اِک نظر کافی ھے جگنو کو قمر ھونے تک

عقل کے گبندِ بے دَر میں مقیّد ھوں ابھی
بستِ اسرارِ جنوں ، تیری نظر ھونے تک

دستکیں دیتی ھیں برزخ کی ھوائیں کب سے
حبسِ جاں ، روزنِ دیوار کے دَر ھونے تک

جامِ تجدیدِ وفا روز بنامِ توبہ
حسبِ مہلت ، مرے عِصیاں کو ثمر ھونے تک

کلک و قرطاس پہ پہرے ھیں دُعاؤں کے مری
حرفِ تقدیر کے مسطورِ دگر ھونے تک

کبھی مسجودِ ملائک ، کبھی سردارِ بریں
میں خدا بھی تو رھا ایک بشر ھونے تک

بوجھ ھے زادِ بدن راہِ طریقت میں اَمـؔـر
یہ کثافت ھے لطافت کا سفر ھونے تک
------****-------
مرا خُدا تو ہے سب کی سلامتی کا خُدا
خُدائے کُشت سے میں انحراف کرتا ہوں
-------*****--------

پچھلے برس کے گھاؤ سارے اگلے برس میں سِل جائیں
کھوئی یادیں لَوٹ آئیں ، کچھ بیتے لمحے مِل جائیں

یا ربّ ! تُو اپنی قُدرت سے اَنہونی کو ھونی کر
ہم نے جو کیکر بوئے تھے اُن پہ کلیاں کِھل جائیں
-------*****---------
" الوداع دسمبر "

ناگفتہ بہ، آزردہ دل، برگشتہ دسمبر
بـاروُد سے جلـتـا ھُـوا آلـودہ دسمبر

اِس بـار نیـا رنگ دکھـایـا ھے خـزاں نے
پھولوں کے لہُو سے ھُوا آغشتہ دسمبر

پہلے تو فقط رات کا خُوگـر تھـا یہ آسیب
اب دن بھی نِگل جاتا ھےآشفتہ دسمبر

یہ پاؤں ھے ماضی میں، وہ فردا کےجہاں میں
تقـدیـر کے ھـر مـوڑ سے وابستہ دسمبر

جلتا ہے اَمـؔر یادوں کی تاریک لحد میں
آراستہ پیراستہ ، گـُـم گشتہ دسمبر
---------******--------

فصیلِ جان میں کتنے شِـگاف کـرتا ھـوں
وجودِ عشق پہ جب"شین کاف"کرتا ھوں

مرا خُدا تو ھےسب کی سلامتی کا خُدا
خُدائےکُشت سے میں اِنحراف کرتا ھوں

نِزار فہم کو ھے تـابِ ارتداد کہاں
یہ لَن ترانیاں اپنے خلاف کرتا ھوں

مرےخمیر میں فرعونیت کا عُنصر ھے
بطور ایک بشر اعتراف کرتا ھـوں

میں وہ نہیں ھوں جو جَل جاؤں روشنی سے تری
میں رکھ کے فاصلہ تیرا طواف کرتا ھوں

مرے سُخن میں ھے آیاتِ آگہی کا غُلُو
رُموزِ نَحوِ خودی اِنکشاف کرتا ھـوں

مرے رفیـق مری شفقتوں پہ نازاں ھـیں
میں دشمنوں کو بھی فوراً معاف کرتا ھوں

ترے فراق سے مشروط ھے وصال مرا
سو عمر بھر کے لیے اعتکاف کرتا ھوں

گلی گلی میں تعفُّن ھے نفرتوں کا اَمـؔـر
گلاب بانٹتا ھـوں ، خـار صـاف کـرتا ھـوں

‫#‏امـؔـر‬ رُوحانی

 
 وشمہ خان وشمہ
About the Author: وشمہ خان وشمہ Read More Articles by وشمہ خان وشمہ: 332 Articles with 510043 views I am honest loyal.. View More