دو سال گزر گئے ایک سال بھی گزر ہی جائے گا؟

 کئی دہائیوں کے بعد پاکستان کی سیاسی بساط پر ایسے مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی اپنی سیاست کا بوجھ ایک فرد کے کاندھوں پر ڈال کر عوام کی نگاہوں میں سرخرو ہونے کی سرتوڑ کوششیں کر رہی ہیں․ پاکستان میں بلاواسطہ یا بالواسطہ حکمرانی کرتے ہوئے گروہ بھی فرد واحد کے نام کے سہارے اقتدار کو طول دینے کی کوششیں کر رہے ہیں تو اقتدار کے حصول میں سرگرداں جماعتیں بھی ایک فرد کی حرکات و سکنات کو پیمانہ بنا کر سیاسی چالیں چل رہی ہیں․ ایسے مناظر پہلی بار ملکی سیاست کے کینوس پر ابھر رہے ہیں کہ جمہوریت کی دعوے دار حکمران جماعتوں کے بینرز پر بھی مسلح فواج کے سربراہ کی قد آور تصاویر نظر آ رہی ہیں تو دوسری جانب حکمرانوں کی بد ترین ناقد اور حزب مخالف کی جماعتیں بھی جنرل راحیل شریف کے قد آدم پوسٹرز کے سائے میں سیاسی بقا کی جنگ لڑنے میں مصروف ہیں․ بظاہر ایسا دکھائی دے رہا ہے کہ جنرل راحیل شریف پاکستانی قوم کے تمام مسائل کا واحد حل ہیں اور فقط وہ ہی پاکستان کو ایک مثالی اسلامی ریاست بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں․ لیکن ایک عام شہری حیران ہے کہ جنرل راحیل شریف کے پاس ایسی کونسی جادوئی چھڑی ہے کہ وہ اپنے ایک سال اور چند دنوں کے باقی ماندہ وقت میں اٹھارہ کروڑ سے زائد پاکستانیوں کے تمام مسائل حل کرڈالیں گے․ 29 نومبر 2013 کو شروع ہونے والا سفر ابھی تھما نہیں مرد مومن مرد حق کی صدائیں بدستور سماعتوں سے ٹکرا رہی ہیں․ تاریخ کے عظیم جرنیل کی اگلے مورچوں پر جوانوں کی ساتھ تصاویر بھی تواتر کے ساتھ سوشل میڈیا پر چھائی ہوئی ہیں جبکہ سیاسی حکمرانوں کی طرح فوجی حکمرانوں کی دیس دیس یاترا کا سلسلہ بھی تھمنے کا نام نہیں لے رہا ․ میاں محمد نواز شریف پاکستان کا رخ کرتے ہیں تو جنرل راحیل شرف بیرون ملک جا رہے ہوتے ہیں مشرق میں منتخب وزیر اعظم کو گارڈ آف آنر دیا جا رہا ہوتا ہے تو مغرب میں سپہ سالا ر کے لئے سرخ قالین بچھائے جا رہے ہوتے ہیں غیر ملکی دوروں کی ایک دوڑ جاری ہے جس کا اختتام اب ایک سال چند دن کی دوری پر ہے لیکن ملک و قوم کو تابناک مستقبل اور سنہرے خوابوں کے ہیجان میں مبتلا کرنے والی قوتوں کے پاس اس بات کا کوئی جواب ہے کہ کیا جنرل راحیل شریف قوم کو وہ سب دے پائے جس کے لئے انہیں تاریخ کا ماورائی کردار بنا یا گیا؟ آصف علی زرداری اور جنرل اشفاق پرویز کیانی کے اقتدار کے خاتمے پر قوم کو ایسا تاثر دیا گیا جیسے دنیا کے ناکام ترین حکمرانوں سے عوام کی جان چھوٹ گئی اور آنے والے دنوں میں پاکستان میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنا شروع ہو جائینگی․ ملکی حالات اور روز مرہ کے واقعات عوام کی امنگوں کے برعکس مایوسیوں میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں․ ملک میں تاحال ایسی کوئی تبدیلیاں نہیں آسکیں جو قوموں کی منزل کا رخ متعین کر تی ہیں․ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے واضح ارشادات کے باوجود پاکستان کی شمال مغربی سرحدوں پر مسلح افواج کی تعیناتی یقینا جنرل راحیل شریف اور ان کے رفقا کار کی بہترین عسکری تربیت کا نچوڑ ہو سکتی ہے لیکن کیا شمال مشرق میں آپریشن سے مطلوبہ نتایج حاصل کئے جا سکے ہیں ؟ کیا ملک کے شمالی حصوں سے جنم لینے والی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قوم کو وہ تمام کامیابیوں مل سکی ہیں جس کے لئے ہر پاکستانی کی امیدیں جنرل راحیل شرف کے ساتھ وابستہ ہو رہی تھیں؟ کیا دہشت گردی کا عفریت آخری سانسیں لے رہا ہے؟ کراچی میں بسنے والاعام پاکستانی یقینا امن و امان کی بہتر صورتحال پر سکھ کا سانس لے رہا ہے لیکن بلوچستان، سندھ اور خیبر پختونخوا میں جاری دہشت گردی کے واقعات بہت سارے سوال کھڑے کرتے جا رہے ہیں․ کیا بلوچستان میں مکمل امن بحال ہو چکا؟ کیا اب وہاں دھماکے نہیں ہو رہے؟ کیا اب بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں سندھ ، پنجاب اور خیبر پختونخوا کے شہریوں کی آزدانہ اور محفوظ آمدورفت ممکن ہوچکی ؟ کیا بلوچستان کی آزادی کے نام پر شروع کی گئی تحریکیں ختم ہو چکیں؟غیر مقامی افراد کے کاروبار اور جانیں محفوظ ہو چکیں ؟ کیا کراچی اور اندرون سندھ رینجرز کے اقدامات سے کوئی تبدیلی آئی؟ کیا ایف آئی او ر نیب کے ذمہ داران کے بڑے بڑے بیانات کسی چھوٹی موٹی مثبت تبدیلی کا پیغام لائے؟ کیا شہر میں لاشیں گرنے کے سلسلے بند ہو گئے؟ کیا ملک کے سب سے اہم معاشی و اقتصادی اہمیت کے حامل شہر کے بینک لٹیروں کی کاروائیوں سے محفوظ ہو چکے ؟ ماضی قریب میں عدالت عظمی کے معزز جج صاحبان ایک لفظ" بادی انظر" کا بہت استعمال کرتے رہے ہیں عدالت عظمی کے معزز جج صاحبان کے زیر استعمال لفظ کو اپنے معنی پہنانے پر معذرت کے ساتھ جنرل راحیل شریف کے دو سال دور کا احاطہ کیا جائے تو عام پاکستانی کے حصے میں صرف خوف آیا ہے․ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی کامیابیاں اس حد تو تسلیم کی جا سکتی ہیں کہ وطن عزیز میں روز روز کے خوفناک خود کش حملوں ، بم دھماکوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے لیکن دہشت گردی سے جڑے دیگر معاملات پر مسلح افواج کی طرف سے وقتا فوقتا جاری کئے گئے بیانات اب صرف اخبارات کے گزشتہ شماروں کی زینت بن کر رہ گئے ہیں․ کاش جنرل اور وزیر اعظم شریف کبھی کبھار محافظوں کے بغیر کراچی کے ان علاقوں کا دورہ کرلیں جہاں پاکستانی بستے ہیں کبھی سندھ کے ان شہروں کا دورہ کرلیں جہاں قبرستانوں کے مکین بھی قبروں پر قبضے کے خلاف درخواستیں کتبوں پر رکھے ان کے منتظر ہیں․کاش ہر روز نئے بیانات اور ذومعنی ٹویٹ جاری کرنے والے دور حاضر کے مسیحا پاکستان کی سب سے اہم درسگاہ جامعہ کراچی کے وائس چانسلر سے پوچھ لیتے کہ لاکھوں پاکستانیوں کی مادر علمی کے آنچل کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے کون قابض ہو رہا ہے؟ بادی االنظر میں ایسا دکھائی دے رہا ہے کہ وزیر اعظم شریف 2018 کے مئی تک پہنچنے کی تگ و دو میں مصرف ہیں تو جنرل شریف2016 کے نومبرکی دہلیز کو چھو کر عسکری تاریخ کا نیا باب رقم کرنے کی سعی کر رہے ہیں لیکن دونوں رہنما تند و تیز بیانات کے علاوہ قوم کو کیا دے کر جائیں گے یہ ایسا سوال ہے جس کا جواب شائد بدنصیب پاکستانی قوم کو کبھی نہ مل سکے․ زمینی حقائق اور حکومتی معاملات قوم کو کڑے امتحان کی طرف دھکیل رہے ہیں جب تنگ آمد بجنگ آمد کی عملی صورت ملک کی شاہراہوں، گلی کوچوں میں رقص کرتی دکھائی دے گی کہ اب تک سیاسی و عسکری شریف اپنے اپنے ادھورے ایجنڈے سامنے رکھ کر اپنے اپنے مطلوبہ اہداف کی طرف قدم بڑھا رہے ہیں دونوں ہی جب ملتے ہیں تو ایک ہی جملہ زبان پر ہوتا ہے " دو سال گذر گئے ایک سال بھی گذر ہی جائے گا"․
Akhtar Butkhari
About the Author: Akhtar Butkhari Read More Articles by Akhtar Butkhari: 6 Articles with 3907 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.