قانون پسند معاشرے میں
کوئی ادارہ یا شخص قانون سے ماورا نہیں ہوا کر تا، کوئی چاہے جتنا بھی
طاقتور ہووہ ریاست کے بنائے ہوئے قانون کے سامنے بے بس و لاچار ہوتا ہے۔
قوانین بنائے ہی انسانی بھلائی کے لیے جاتے ہیں، جنہیں حرف عام میں زندگی
گزارنے کے اصول بھی کہا جاتا ہے۔مہذب معاشروں میں قانون ساز اداروں کا قیام
اسی سلسلے کی کڑی ہوتی ہے جہاں عوام کے نمائندے براجمان ہوتے ہیں اور گاہے
بہ گاہے ملکی حالات و واقعات کے مطابق قانون سازی کرتے ہیں، ان کو حاصل
لامحدود اختیارات کے باعث ہی عوام ان کی عزت و تکریم کو اپنا فرض سمجھتے
ہیں اور ان کی قیادت پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ آج دنیا کے تمام ترقی یافتہ
ممالک کی ترقی وخوشحالی کا جائزہ لیا جائے اور دوسری جانب ترقی پزیر ممالک
کی پست حالی کا بھی بغور مطالعہ کیا جائے تویہ بات اظہر من الشمس ہے کہ جس
اقوام نے ریاست کے بنائے ہوئے اصولوں کااحترام کیا وہ بام عروج پر پہنچ
گئیں اور جنہوں نے اپنے قوانین کو مذاق سمجھا ،یا تو وہ برباد ہوگئیں یا
تباہی کے دہانے پر جاپہنچیں۔
بدقسمتی سے ہم ایسی ہی صورت حال سے دوچار ہیں۔ نہ توہم اسلامی اصولوں کے
مطابق خود کو ڈھال سکے ہیں اور ناخود میں وہ ولولہ و جوش پیدا کر سکے ہیں
جو ہمیں کم از کم جدید دنیا کے ساتھ ہم آہنگ کر سکتا ہے۔ کسی ریاست کے وجود
کے لیے درکار لازمی شرائط رکھنے کے باوجود پاکستان ایک فلاحی ریاست نہ بن
سکاجس کا سبب سال ہا سال سے ملک میں جاری وہ قانون اور لاقانونیت کا انوکھا
کھیل ہے جو امراء اور غرباء کے درمیان جاری ہے۔ عوام کے لئے سخت ترین
قوانین مگر وڈیروں اور لٹیروں کے لئے کمزور ترین قانونی شکنجہ، جس کا اثر
یہ ہوا کہ زندگی کے ہر شعبے میں موجود سیاست دانوں ، حکمرانوں اور وڈیروں
نے قانون کو اپنی ذاتی جاگیر سمجھا، جب چاہا قانون کو اپنے حق میں استعمال
کرلیا جب جی چاہا اسے ٹھوکر مار دی، اشرافیہ کا جہاں تک زور چلتا ہے وہ نا
صرف قانون شکنی کرتے ہیں بلکہ اسے اپنا حق عین بھی سمجھتے ہیں۔ ایسا ہی زین
قتل کیس میں ہوا، مسلم لیگ ن کے سابق وزیر مملکت برائے خارجہ امور، صدیق
کانجو کے بیٹے و مرکزی ملزم مصطفے کانجو اور اس کے مسلح محافظوں کی جانب سے
لاہور میں فائرنگ کر کے زین نامی ساتویں کے طالبعلم کو قتل کرنے اور ایک
شخص کو زخمی کردیا تھا، ملزمان چونکہ بااثر تھے مقدمہ کی سماعت کے دوران
گواہ منحرف ہوگئے جس پر انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت سے ملزموں کی بری
کردیا۔ کورٹ ٹرائل کے دوران اچانک گواہوں کے منحرف ہونے اور ملزمان کی بریت
پرپاکستان سپریم کورٹ کو از خود نوٹس لینا پڑا۔
از خود نوٹس کیس کی سماعت جسٹس امیر ہانی مسلم کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ
نے کی۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ملزموں کی بریت کے خلاف
صوبائی حکومت لاہور ہائیکورٹ میں اپیل دائر کرے گی۔ جسٹس منظور ملک نے
استفسار کیا کہ کیس کے گواہ منحرف کیوں ہوئے؟ پراسیکیوٹر پنجاب نے جواب
دیتے ہوئے کہا کہ گواہوں میں سے اکثر پراپرٹی ڈیلرز ہیں جو ملزموں سے پیسے
لے کر عدالت میں اپنے بیان سے منحرف ہو گئے، جبکہ مدعی کے مطابق گواہوں سے
سادہ کاغذ پر دستخط بھی کرائے گئے۔ جسٹس سردار طارق مسعود نے استفسار کیا
کہ گواہوں کے آرٹیکل 164 کے تحت بیان کیوں نہیں ریکارڈ کرائے گئے، کیا
گواہوں کے علاوہ اور ایسے شواہد موجود ہیں جن پر ملزموں کو سزا ہو سکتی تھی۔؟
پراسیکیوٹر پنجاب نے جواب دیا کہ ایسے شواہد موجود ہیں جن پر ملزموں کو سزا
ہو سکتی ہے۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا مدعی نے 20 اگست کو پولیس کی جانب
سے اغوا کئے جانے کی عدالت میں درخواست دائر کی جبکہ گواہوں کے بیانات جلد
ریکارڈ کروانے کی درخواست بھی دی گئی، مدعی کی یہ دونوں درخواستیں پولیس کے
علم میں کیوں نہیں تھیں؟ ہم ابھی اس کیس پر کوئی رائے نہیں دے سکتے، تاہم
یہ واضح ہے کہ انسداد دہشت گردی کی عدالت میں کیس پر موثر دلائل نہیں دئیے
گئے۔ انسداد دہشت گردی عدالت کا ریکارڈسپریم کورٹ پیش کیا گیا، عدالت نے
استفسار کیا کہ کیا منحرف ہونے والے گواہوں کے خلاف کوئی مقدمہ درج کیا گیا،
جس پر آئی جی پنجاب کوئی تسلی بخش جواب نہیں دے سکے، تاہم عدالت نے جب یہ
سوال کیا کہ مقتول کی والدہ کے میڈیا پر بیانات کا جائزہ لیا گیا ہے تو آئی
جی پنجاب نے کہاکہ ٹرائل کورٹ میں اس حوالے سے درخواست دی گئی تھی جو مسترد
کر دی گئی ، عدالت نے کہاکہ ہم اس موقع پر ٹرائل پر کوئی کمنٹ نہیں کرنا
چاہتے لیکن بظاہر ایسا لگتا ہے کہ مقدمے کی سماعت بہت کمزور ہوئی ہے۔
کہ 2 ہفتے قبل لاہور کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے زین قتل کیس کے مرکزی
ملزم مصطفی کانجو کو چار ساتھیوں سمیت بری کر دیا تھا۔ آن لان کے مطابق
جسٹس امیر ہانی مسلم نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ گواہوں
کو تحفظ کیوں نہیں دیا گیا اور اس طرح کے حالات میں پولیس نے اپنا کردار
کیوں نہیں ادا کیا۔ گواہ کیسے منحرف ہوئے۔ جسٹس منظور احمد ملک نے کہا کہ
اگر گواہ منحرف ہو گئے تو آپ ملزموں کی بریت کو کیسے چیلنج کریں گے۔ سپریم
کورٹ نے زین قتل ازخود نوٹس کیس میں آئی جی پنجاب کو لواحقین اور استغاثہ
کے گواہوں کو آئندہ سماعت پر مکمل سکیورٹی فراہم کرتے ہوئے عدالت میں پیش
کرنے کی ہدایت کی ہے۔ مزید سماعت 16نومبر تک ملتوی کردی گئی ہے۔ ‘‘
زین قتل کیس میں پاکستان سپریم کورٹ کے از خود نوٹس سے تمام صورتحال واضع
ہوجائے گی اور ممکن ہے کہ بااثر ملزمان ایک بار پھر قانون کے شکنجے میں ہوں،
معاشرے میں پائیدار امن کے لئے بلا امتیاز انصاف کی فراہمی لازمی ہے، جب
نظام تفتیش بہتر نہ ہو اور مظلوم کو عدل کے ایوانوں سے انصاف نہ ملے تو
پھرجنگ و جدل اور خانہ جنگی کا ماحول جنم لیتا ہے جو کہ ملک و ملت کی ترقی
و خوشحالی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ جبکہ قانون کی بالا دستی اور بلا امتیاز
انصاف کی فراہمی پرامن معاشرے کے لئے بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے۔ ریاست میں
قانون کی مساوی و بلا امتیاز عملداری وقت کی اشد ضرورت ہے تاکہ ملزم چاہے
کتنا ہی بااثر کیوں نہ ہو قانون کی گرفت سے بچ نہ پائے۔ |