پاکستان میں اب سیاسی صورت حال
بار بار غیر یقینی حالات سے دوچار ہو جاتی ہے اس میں سب سے اہم کردار خود
سیاست دان ہی ادا کرتے ہیں۔ گزشتہ دنوں آئی ایس پی آر کی طرف سے ایک ایسا
پریس ریلیز جاری کیا گیا کہ جس پر حکومت کو بحالت مجبوری اپنی پوزیشن واضح
کرنی پڑی اور حکومت کو فوجی قیادت کو بتانا پڑا کہ وہ غیر آئینی اقدامات کے
مرتکب ہو رہے ہیں اور اپنی حدود و اختیارات سے تجاوز کر رہے ہیں۔ حکومت اگر
اس پر ایک نرم رد عمل ظاہر کرتی اور پریس ریلز کے جواب میں پریس ریلیز ہی
کے ذریعے اپنا موقف پیش نہ کرتی تو مجموعی طور پر اس کے لئے یہ زیادہ بہتر
ہوتا۔ اس نئی اور دلچسپ صورت حال کی بنیاد پر سیاسی پنڈتوں نے اپنے اپنے
مورچے سنبھال لئے اور میڈیا نے بھی کمر کس لی لہذا نئی سیاسی پیشنگوئیوں کا
سلسلہ شروع ہو گیا ۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں سول ملٹری ریلیشن شپ کو
بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے اور زیادہ تر یہ کشیدگی کا ہی شکا ر رہے ہیں تاہم
موجوہ حکومت کسی حد تک یہ تاثر قائم کرنے میں کامیاب ہو گئی تھی کہ سول
ملٹری تعلقات مناسب حد تک بہتر ہیں ۔ فوج نے گزشتہ 68سال میں اپنی ایک
پوزیشن بنائی ہے کہ جس سے پیچھے ہٹا شاید اب فوجی قیادت کے بھی اختیار میں
نہیں۔ہمیں اب اس حقیقت کو تسلیم کر لیا چاہیے کہ فوج اب ملک کے ہر سیاسی،
اقتصادی اور انتظامی معاملے میں کسی نہ کسی حد تک دخیل ہے۔ معاملہ اب آئینی
اور غیر آئینی ہونے سے کہیں زیادہ آگے نکل چکا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ فوج
کا رویہ غیر آئینی ہے کہ اس کو پریس ریلیز کے ذریعے حکومت کو ڈکٹیشن نہیں
دینا چاہیے تو فوجی حلقے یہ سوال لے کر سامنے آتے ہیں کہ حکومت خود آئینی
احکامات پر کتنا عملدآمد کرتی ہے ؟۔ وزیراعظم صاحب خود جمہوریت کا کتنا
احترام کرتے ہیں؟ ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتیں آئین کا کتنا احترام کرتی
ہیں؟جب بات بلدیاتی الیکشن کی ہو تو سپریم کورٹ کو بلدیاتی انتخابات کے
انعقاد کے حوالے سے احکامات جاری کرنے پڑے ہیں ورنہ 7سال تک سندھ اور پنجاب
میں بلدیاتی انتخابات التوا کا شکار ہی رہتے ہیں دونوں صوبوں کا یہ رویہ
غیر جمہوری اور غیر آئینی تھا۔ اسی طرح فوج بھی جہاں ضروری سمجھتی ہے آئین
سے انحراف کر کے اپنی ضرورت اور مرضی کے اقدامات کرتی ہے۔اس صورت حال میں
قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کا یہ کہنا کہ وہ دن گئے کہ فوج
مارشل لاء لگا دیا کرتی تھی، جلتی پر تیل چھڑکنے کے مترادف ہے۔ اگر خورشید
شاہ کے اس جملے کو فوجی قیادت چیلج سمجھ کر قبول کر لے تو ملک کا کیا سیاسی
نقشہ بنے گا اس کا اندازہ ہر سیاسی شعور رکھنے والا با آسانی لگا سکتا
ہے۔جمہوری قوتوں کو صورت حال بہتر بنانے کے لئے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
وفاقی وزیر لفٹیننٹ جنرل عبدالقادر بلوچ کا یہ بیان بھی سندھ کی سیاسی
قیادت پر بم برسانے کے مترادف ہے کہ آئی ایس پی آر نے بیڈ گورنینس کے حوالے
سے جوبات کی ہے وہ سندھ کی حکومت کے حوالے سے ہے انھوں نے کہا کہ اس پریس
ریلز کا وفاقی حکومت سے کوئی تعلق نہیں۔ ظاہر ہے کہ سندھ حکومت پر اب یہ
لازم ہو گیا کہ وہ عبدالقادر بلوچ کے بیان پر اپنا رد عمل دے اور عین
توقعات کے مطابق ایسا ہی ہوا اور سندھ حکومت کے ترجمان نثار کھوڑو نے جوابی
پیغام دیا۔ آئی ایس پی آر کے پریس ریلیزکے حوالے سے سینٹ میں جوگفتگوہوئی
وہ بھی قابل ذکر ہے۔ ارکان سینٹ اعتزاز احسن سمیت دیگر نے کہا کہ حکومت کی
نا اہلی اپنی جگہ لیکن کوئی ریاستی ادارہ حکومت کا سپروائزر بننے کی کوشش
نہ کرے۔انھوں نے فوجی قیادت کو یہ پیغام دیا کہ اگرجمہوریت اور جمہوری
اداروں پر کوئی برا وقت آیا تو وہ حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں۔ان ارکان نے
حکومت سے یہ بھی مطالبہ کیا کہ حکومت ان کیمرہ پارلیمنٹ کامشترکہ اجلاس طلب
کرے۔سوال یہ ہے کہ وہ جن جو بوتل کے سائز سے ہزاروں گنا زیادہ بڑا ہو گیا
ہے اسے بوتل میں کیسے بند کیا جائے۔ایک طرف جمہوریت کے نام پر قومی و
صوبائی اسمبلی و سینٹ کے ارکان ہیں تو دوسری طرف فوج، جو اپنے آپ کو ملکی
داخلی، خارجی اورمعاشی امور میں برابر کا حصہ دار سمجھتی ہے۔ ظاہر ہے کہ
طاقت کے اعتبار سے وہ سیاست دانوں سے کئی درجے آگے ہیں۔یہاں یہ بات بھی
نہایت اہمیت کی حامل ہے کہ آرمی چیف دورہ امریکہ پر جانے والے ہیں اور عین
اسی وقت یہ مسئلہ کھڑا ہواہے۔ اس اعتبار سے فوجی ترجمان کی طرف سے جاری
ہونے والا پریس ریلز بہت زیادہ اہم ہے۔ اگر اس تناظر میں صور ت حال کا
جائزہ لیا جائے تو بھی ان حالات کے پیغامات کہیں اور جاتے دکھائی دے رہے
ہیں لہذا اس موقع پر سیاست دانوں کوسخت گیر رویہ اختیار کرنے کے بجائے
معتدل مزاج ہو کر نئے چیلج سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔ جمہوریت کی فتح اسی میں
ہے کہ ملک میں جمہوری عمل چلتا رہے۔ اگر جمہوری عمل چلتا رہے گا اور میڈیا
اس صورت حال میں جمہورت پسند قوتوں کے ساتھ کھڑا رہے گا تو پھر غیر جمہوری
نظام کو چیلنج کرنے والی قوتیں خود بخود کمزور پڑیں گے۔چھ دھائیوں سے بھی
زیادہ عرصے میں ایک مخصوص بیانیہ اپنانے والی فوج آہستہ آہستہ ہی اپنی سوچ
تبدیل کرے گی لیکن اس کے لئے جمہوری عمل کا چلتے رہنا ضروری ہے۔
|