بے سود تبدیلی

دو دنوں پہلے سوشل میڈیا پر مجھے ایک دوست نے خیبر پختونخواہ میں پاکستان تحریکِ انصاف کی کارکردگی اور عمران خان کی کامیابیوں پر مشتمل ۱۴ نقاط ایک صفحے کی صورت میں بھیجی۔ایک بات جو ہم سب میں مشترک ہے۔وہ یہ کہ اعلانات اور بیانات میں کوئی ہمارا ثانی نہیں ہوتا۔لیڈر ہو تو اسٹیج پر بلند و بانگ اعلانات اور بیانات کھوستے ہیں ۔پرِنٹ اور الیکٹرانک میڈیاپر دو، تین دنوں تک وہی بیانات زیرِ بحث آتے ہیں۔لیکن اصل میں وہ بیانات صرف سیاسی سکورِنگ اور مارکیٹینگ سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔عالم ،واعظ،داعی اور کالم نگار بہت سنہری الفاظ بولتے اور لکھتے ہیں۔لیکن عمل کی جھولیاں سب کی خالی پڑی ہوتی ہیں۔

پچھلے سال میرے ایک بھتیجے کو جو کہ چھ ماہ کا تھا۔سردی کی وجہ سے نمونیا ہو گیا۔چار، پانچ دنوں تک تو ہسپتالوں اور پرائیویٹ کلینکس میں ڈاکٹرز دوائیوں کے بنڈل دیتے رہیں۔تقریباَ پانچویں دن ہمیں ایمرجنسی میں پشاور لے جانے کیلئے کہا گیا۔ اب بچے کو آکسیجن کی اشد ضرورت تھی۔ ہسپتال میں ڈاکٹر زتھے نہ آکسیجن ۔ چونکہ زندگی کا مسئلہ تھا۔ کسی نے قریبی کلینک جانے کا مشورہ دیا۔وہاں پہنچے توپہلے ڈاکٹر نے آکسیجن کِٹ دینے سے انکار کیا۔ بعد میں پیسوں کی آفر دے کر رضامندی ظاہر کردی۔لیکن اس وقت بچہ اپنی زندگی کی آخری سانسیں لے رہاتھا۔بعد میں وہ بے چارہ موت کے سامنے ہمت ہار گیا۔ مجھ، میرے بھائی اور امی جان کو بچے کی اُس وقت کی حالت یاد آتی ہے۔تو بے اختیار رونا آتا ہے۔میں اُسی وقت سے اس جمہوریت اور دھوکہ و فریب کی سیاست سے دل شکستہ بیٹھا ہوں۔اپنی ماں کی آنسوں اس فریب کی حقیقت کے مختلف اشکال میرے سامنے پیش کر گئے۔اپنے نونہال کا اُس وقت تکلیف سے منہ اور چھوٹے چھوٹے دانتوں کا آپس میں کپکپانا مجھے یہ احساس دے گیا کہ تبدیلی کا واویلا کرنے والے اور میرے باپ دادا کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے میرے اصل مجرم ہیں۔

سیاسی لوگوں اور پارٹیوں سے کوئی مثبت توقع رکھنا عبث ہے۔خواہ وہ قومیت کی بنیاد پر نعرے لگا رہے ہو۔خواہ وہ مذہب کی بنیاد پر عقائد کو بچانے کے فتوے دے رہے ہو۔یا وہ تبدیلی کے نام پر عوام کو سبز باغ دکھا کر بیوقوف بنا رہے ہو۔پنجاب کے چوہدری آپس میں ملکر شیر کے سایے تلے اپنے لوٹے ہوئے سرمایوں اور اپنے جرموں کو تحفظ دے رہے ہو۔ سب عوامی نمائندوں کے نام پر قومی خزانے کے ڈبل شاہ ثابت ہوئے ہیں۔کسی نے یا تو لوٹا۔یا پھر ابھی لوٹنے میں لگے ہیں۔قانون تو ان لوگوں کو تحفظ دینے کیلئے بنا ہے۔حکومت میں جو بھی آیا۔کسی نے مذہبی پارٹی کے سربراہ ہوتے ہوئے اپنے نام اور خاندان کیلئے سرکاری املاک سے پلاٹس الاٹ کیے۔کسی نے جمہوریت اور شہید کے نام پر باہر کے ممالک میں کارخانے اور جائیدادیں بنوائیں ۔کسی نے دھرنوں کے میدان سجا کر بہروپیہ سے شادی کرلی۔

اب تبدیلی کی طرف آتاہوں۔مجھے نفرت ہوتی ہے ایسی تبدیلی سے۔جب میں ناظم اور کونسلرز کے ٹکٹ پیسوں میں بیچتے یا عزیزو اقارب میں تقسیم ہوتے دیکھتا ہوں۔جب ناظم اور کونسلرز کو حمایت کے عِوض پیسوں کا دِلاسہ دے کرجیت پرمٹھائی تقسیم کرتے دیکھتا ہوں۔یا جب میرٹ کے نعرے لگ رہے ہو۔ این ٹی ایس کے نام پر بیروزگار نوجوانوں کولوٹا جا رہا ہو۔ اور دوسری طرف انٹرویو کے بعد اپنے عزیزو اقارب کی شارٹ لِسٹنگ ہو رہا ہو۔تعجب کی بات ہے کہ ہمارے %۹۰ تو ایسے غریب بے روزگار نوجوانوں پر مشتمل ہے۔جو این ٹی ایس کی فیس کیلئے اپنا جیب خرچ قربان کر دیتے ہیں۔تو وہ ایسی شارٹ لسٹنگ پر عدالت کیسے جائیں گے؟ سِول محکموں اورہسپتالوں میں اگر خوش قسمتی سے کوئی خالی پوسٹ مشتہر بھی ہو جائے۔تو ایک غریب تعلیم یافتہ نوجوان یہ سوچ کر کہ کیوں پیسے ضائع کر رہے ہو۔اپلائی کرنا چھوڑ دیتے ہیں ۔اب تو حال یہ ہے۔کہ ایک ایم ایس سی اور ایم فِل کا غریب بندہ صرف وفاقی یا صوبائی کمیشن کے امتحانات کیلئے کاغذات اورڈیپازٹ سلِپ جمع کرتے ہیں۔وہ بھی ۵ یا ۶ ماہ بعد اشتہار لگتے ہیں۔صحت میں بہتری بھی آئی ہے۔لیکن صرف ہسپتالوں کے فرضی دورے کرنا ، صفائی چیک کرنااور اخبارات میں تصاویر لگوانا بہتری نہیں ۔صوبائی حکومت اپنی کامیابی میں اس نقطہ کا اضافہ کرتے ہیں۔کہ ہر بچہ جننے والی ماں کو ۲۷۰۰ روپیہ انعام ملتا ہے۔میرے حلقہ میں تو کسی بھی ماں کو بچے کی پیدائش پر کوئی انعام نہیں ملا۔ساتھ ہی یہ بات کہ اگر موبائل ہیلتھ سروسز ہوتے۔تو بنوں اور لکی مروت کے زیادہ تر بیمار پاؤں رگڑ رگڑ کر پشاور کیوں بھیجتے؟دور دراز کے دیہاتوں میں صحت کے مراکز نہ ہونے سے اکثر زچہ و بچہ تکلیف دہ راستوں اور کچے سڑکوں پر گاڑی کے بے دھڑک ہلنے سے بھی موت کے آغوش میں چلے جاتے ہیں ۔بوڑھے پنشنرز کی اگر بات ہو جائے۔ وہ تو اب بھی صبح سے لیکر عصر تک قطاروں میں پنشن کیلئے کھڑے ہوتے ہیں۔قطار میں کھڑے ہونے کے بعد تو بے چارے اتنے تھکے ہوتے ہیں۔کہ عید کے دنوں میں تو اکثر کے جیب بھی کٹ جاتے ہیں۔اشیائے خوردو نوش کے ریٹ بھی وہی ہیں۔جو کہ پچھلی حکومتوں میں تھی۔ناقص امتحانی نظام اپنے مسیحا کا تا حال منتظر ہے۔

عمران خان تبدیلی کیلئے مخلصانہ نعرے لگا رہے ہیں ۔اس میں کوئی شک نہیں۔ فلاحی تنظیمیں بھی عمران خان کی شخصیت اور منشور پر اعتماد کرتے ہیں۔لیکن پی ٹی آئی کی نچلی سطح کی ٹیم اعتماد کے قابل نہیں۔ خان صاحب کو تو یہ صاف تصویر پیش کر رہے ہیں۔لیکن انصاف اور عمران کے سایے تلے سب کچھ ہورہا ہے۔گویا عمران وہ ایک ہے۔ جس کے جمع ہونے سے ـ ڈبل زیروبھی ۱۰۰ بن جاتی ہے۔لیکن اُن کے بغیر بے قدر زیرو ہی رہتی ہے۔عمران اور اس کی پارٹی کو اگر تنزلی آتی ہے۔ جو کہ دیکھائی دیتی ہے ۔تو اس کے ذمہ دار ان کی بیشتر ٹیم ممبر زہونگے۔

تبدیلی کیلئے پہلی شرط یہ ہے۔کہ قابل لوگوں میں ٹکٹ میرٹ پر تقسیم ہو۔ پھرہر وزارت کیلئے اس کی اہلیت کے مطابق اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کا انتخاب کیا جائے۔ٹھیکیداروں ،چولے بیچنے والوں اور حلقے کے مسترد شدہ لوگوں کے آنے سے جو تبدیلی آئے گی۔وہ معاشرے پر منفی اثر ڈالے گا۔اور پارٹی منشور پر بھی دھبہ بنے گا۔

دوسری شرط یہ ہے۔ کہ تبدیلی وہ جن کے اثرات معاشرے کے ہر طبقے تک پہنچے۔اب سوال کرتے ہیں۔کہ کیا ایک عام شہری کیلئے اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں کوئی کمی آئی؟کیا دیہات میں رہنے والے والدین کیلئے اپنے بچوں کا صحیح اور بر وقت علاج ممکن ہے؟اگر ایک ماں کے پاس اپنے بچے کیلئے لیکٹوجن خریدنے کے پیسے نہیں۔اور بچے کی بھوک مٹانے کیلئے پانی ابالتا ہے۔تو وہ اس تبدیلی کا کیا کرے گی؟امتحانی نظام ایسا ہو جس میں ایک ذہین اور ایک نالائق بچے کے نمبرات یکساں آتے جائے تو یہ کونسی تبدیلی ہے؟ناظم اعلیٰ کیلئے صوبائی اسمبلی کے وزاراء کے رشتہ داروں کو ٹکٹ ملیں تو یہ کونسی تبدیلی ہے؟اکیسویں صدی میں دیہاتوں میں دن رات میں صرف ۲ گھنٹوں کی بجلی ہو۔طلباء ،ٹیوب ویل آپریٹرز اور چھوٹے کاروباری لوگوں کواس تبدیلی سے کیا سروکار؟

پہلے دو سال تو حکومتیں بنانے، وزارتوں کی تقسیم اور دھرنوں میں گُزر گئے۔تیسرا سال بلدیاتی سیٹ اپ میں گزر رہاہے۔وفاق سے تو ہمیں کوئی شکایت نہیں وہاں تو عادتی چور بیٹھے ہیں۔ شکایت ہمیں نئی پارٹی اور نئے لوگوں سے ہے۔جن سے تبدیلی کی توقع لگائے بیٹھے تھے۔
Hafiz Abdur Rahim
About the Author: Hafiz Abdur Rahim Read More Articles by Hafiz Abdur Rahim: 31 Articles with 19830 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.