آئی ایس پی آر پاک فوج اور
پاکستان کا ایک معتبر اطلاع رسانی کا قابل اعتماد ادارہ ہے ۔ جس پر پاک فوج
سمیت پاکستان کی عوام مکمل اعتماد کا اظہار کرتی ہے۔تاہم گزشتہ دنوں جبگڈ
گورنس کے حوالے سے آئی ایس پی آر کا اعلامیہ جاری ہوا تو اس نے ملکی سیاست
میں ایک ہلچل مچا دی اور طرح طرح کی قیاس آرائیوں نے جنم لیا۔حالاں کہ
کورکمانڈر کانفرنس کے بعد آئی ایس پی آر کی جانب سے پریس ریلیز کا جاری
کرناایک معمول کی کاروائی ہوتی ہے۔ پاک فوج کا ادارہ حکومت کا ماتحت تو
کہلایا جاتا ہے لیکن ماضی کی تاریخ گواہ ہے کہ سیاست دانوں نے فوج کو اس کے
کردار سے بڑھ کر اختیارات دینے کی روش اختیار کی یہاں تک کہ اقتدار کے حصول
کے خاطر فوج کو بھی سیاسی معاملات میں دخل اندازی پر مجبور کرنے والے ہمارے
جمہوری نظام کے داعی سیاست دان ہی ہیں جنھیں جمہوریت کے کھوکھلے نظام میں
صرف اپنے اقتدارکی کرسی اور تھرڈ ایمپائر ہی نظر آتا ہے ۔
نیشنل ایکشن پلان کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کی گول میز کانفرنس سمیت قومی
اسمبلی میں فوجی عدالتوں کے قیام اور خصوصی اختیارات کی تقویض فوج نے بزور
طاقت حاصل نہیں کی بلکہ جمہوریت کے نام پر منتخب ہونے والے کٹھ پتلی سیاست
دانوں نے ہی اس کی توثیق کی اور اسمبلی میں روتے ہوئے یہ بھی کہا کہ تلخ
فیصلے جمہوری ادارے کر رہے ہیں جس پر وہ شرمندہ ہیں۔یہاں واقعی ڈوب مرنے کا
مقام تھا کہ اگر سیاست دانوں کی نااہل حکومت اس قابل ہوتی کہ اپنے سیاسی
معاملات کو ٹیبل پر بیٹھ کر خود حل کرنے کے قابل ہوتی تو آج پاکستان کی
لاکھوں فوجی جوانوں کو مغربی اور مشرقی سرحدوں پر دشمن سے محاذ آرائی اور
سرزمین پاکستان کی حفاظت کیلئے مسلسل مصروف عمل نہیں رہنا پڑتا ، داخلہ
پالیسی ہوں یا خارجہ پالیسی ہماری مملکتوں کو بیرونی طاقتوں سے ڈکٹیشن لینے
اور ڈومور کے مطالبے کرنے کی عادت اس لئے پڑ گئی ہے کیونکہ ان کواپنے
شاہانہ اخراجات پورے کرنے کیلئے سود کے تباہ کن نظام سے اپنی تجوریوں کے
پیٹ بھرنے ضروری ہیں۔ان کی شاہانہ طرز زندگی اور ناقابل برداشت شاہانہ
اخراجات نے ملک کے بچے بچے کو بیرونی طاقتوں کا غلام بنا کر رکھ دیا ہے۔
پاک فوج پاکستان کا یک آئینی ادارہ ہے جس کاکام ملک کے نظریاتی اور زمینی
سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے۔اس کی جانب سے اگر حکومت کوکسی کورکمانڈر کانفرنس
میں کئے گئے فیصلے معمول کے مطابق پریس میں لائے گئے ہیں تو یہ عوام کیلئے
ایک خوش آئند بات ہے ۔مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے آئی ایس پی آر کے
بیان کو خلاف آئین کہنا عوام میں پاک فوج کے کردار کو متنازعہ بنانے کی
کوشش قرار دی جاسکتی ہے۔ کئی عشروں تک سندھ میں حکومت کرنے والی اتحادی
جماعتوں کی جانب سے امن کا قیام عمل میں لانے میں ناکامی اور ان ہی سیاسی
جماعتوں کی جانب سے امن کے لئے فوج کی طلبی کی اپیلیں و مطالبے کس طور غیر
آئینی کہلائے جاسکتے ہیں۔
بلوچستان میں فراری اور علیحدگی پسندوں کی جانب سے گریٹر بلوچستان کے
منصوبے میں بھارت اور پاکستان دشمن عناصر کی مداخلت کو روکنے میں ناکامی کی
ذمے داری سیاست دانوں پر ہی عائد ہوتی ہے جو اپنے سیاسی مفاد کے خاطر بلوچ
علیحدگی پسندوں کو قومی دھارے میں لانے میں مسلسل ناکامی کا شکار ہیں۔ اگر
سیاست دانوں میں استعداد کار ہوتی تو پاک فوج کو بلوچستان میں آپریشن کی
ضرورت نہیں پڑتی اور سفارتی طور پر بھارت ، ایران اور افغانستان سے
بلوچستان میں امن کیلئے اور علیحدگی پسندوں کے جائز مطالبات کے حل کیلئے
کوشش کرسکتے تھے لیکن خود کوبے دست وپا بنا کر تمام تر ذمے داری فوج پر ڈال
کر بلوچستان کے حل کیلئے اپنی ذمے داریوں سے فرارہونا کیا گڈگورنس کہلاتی
ہے۔
خیبر پختونخوا میں جب سوات پر قبضہ ہوا اور سیاسی جماعتوں نے کالعدم اسلامی
پسند جماعتوں سے معائدات کئے تو کیا اس کے کوئی دیرپا اثرات نظر آئے؟ بلکہ
ملا فضل اﷲ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا گیا ، جماعت اسلامی کی حکومت نے
اسلام پسندوں کو مراعات دیں اور تحریک نفاز شریعت کے رہنماؤں کی پیٹھ
ٹھونکتے رہے اور سوات ملاکنڈڈویژن میں عسکری قوت اس قدر مضبوط ہوگئی کہ
سیکولر جماعت اے این پی کو ان سے نظام عدل کے نام پر معایدے کرنے پڑے لیکن
اس کے بھی مثبت نتائج اس لئے نہیں آسکے کیونکہ مصلحتوں اور سیاسی مفادات نے
معاہدات پر سنجیدگی سے عمل درآمد نہیں ہونے دیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ
سوات ملاکنڈڈویژن پاکستان کے ہاتھ سے نکل گیا اور بالاآخر ان سیاسی جماعتوں
نے فوج کے آگے ہاتھ جوڑے کہ ہم جمہوری نظام کے خانوادے ناکام ہوگئے ہیں
لاکھوں انسانوں کی جان بچانے اور سوات ملاکنڈ کا علاقہ واپس لانے کیلئے
ہماری مدد کریں ۔
پھر یہی فوج تھی جس نے سوات ملاکنڈڈویژن میں آپریشن راہ راست اور وزیر ستان
میں آپریشن راہ نجات کے ذریعے پاکستان کا پرچم سر بلند کیا اور حکومتی رٹ
قائم کی ، سیاسی دانوں کی کم معاملہ فہمی سے مشرقی پاکستان ، بنگلہ دیشن تو
بن چکا ہے لیکن انھوں نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور اپنی ریشہ دانیوں
اور کرپشن ، مفاد پرستیوں کی روش پر گامزن رہتے ہوئیسوائے اپنی تجوریوں کو
بھرنے کے علاوہ کوئی کارنامہ سر انجام نہیں دیا۔ بلکہ الٹا جماعت اسلامی کے
امیر منور حسن کی جانب سے انتہا پسند حکیم اﷲ محسود کو شہید اور آئی ایس پی
آر کے بیان کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا، یہاں تک کہ معروف سیاست دان
مولانا فضل الرحمن نے کتوں کو بھی شہادت کا درجہ دے دیا ، جن سیاست دانوں
کے نزدیک نجس جانور کتا اور بیگناہوں کے خون سے ہاتھ رنگنے والے شہید
کہلائے جائیں اور پاک فوج کو ایک کٹھ پتلی ادارہ سمجھ کر تنبہہ کی جائے کہ
خاموش رہو اور جو نام نہاد سیاست دان کہہ رہے وہی کرو تو کیا اس کو گڈ
گورنس کہا جا سکتا ہے۔
آپریشن ضرب عضب میں پاک فوج نے اپنا پورا مورال داؤ پر لگا دیا یہی سیاسی
جماعتیں تھیں جنھوں آئی ڈی پیز کی خدمت کرنے انھیں سہارا دینے کے بجائے ان
پر سیاست شروع کردی ، کسی نیصوبہ بند کردیا تو کسی نے ایسے وفاق کا مسئلہ
قرار دے دیا۔ کیا پاکستان کی بنقا کیلئے اپنی جان و مال کی قربانی دینے
والے عوام اور پاک فوج کی حیثیت اس قدر سیاست دانوں کے نزدیک گئی گذری
ہوگئی ہے کہ ان کے نزدیک کتا اور دہشت گرد شہید لیکن جان و مال کی قربانی
دینے والے محض رسمی پیرائے میں کہلائے جانے کے قبل رہ جاتے ہیں کیا یہی گڈ
گورنس کہلائی جاتی ہے۔شمالی وجنوبی ویرستان میں پاکستانی فوج نے جس بھرپور
کاروائیمیں کامیابی کے جھنڈے گاڑے تو یہ ان کی کسی جنگی مشقوں کا سلسلہ
نہیں ہے بلکہ پاکستان کی سرحدوں سے ایسے عناصر کے سرکوبی ہے جن کی وجہ سے
پاکستان میں آئے روز بم دھماکے اور کود کش دہماکے ہوتے رہے اور عام انسان
کی جان و کاروبار محفوظ نہیں رہا ، سیاسی دانوں کی یہ جمہوری حکومتیں ہی
ہیں جو انھیں تحفظ دینے میں ناکام رہیں ، مزاکرات کے نام پر حکومتی بے
اختیار کمیٹی کی جانب سے تحریک طالبان پاکستان (کالعدم) سے نمائشی فوٹو
سیشن اور میڈیا ٹرائل نے پوری قوم کو شش و پنج میں رکھا ، پنجاب میں تو
وزیر اعلی پنجاب نے طالبان سے معاہدات کرلئے تھے کہ پنجاب میں انھیں کچھ نہ
کہا جائے جس پر پورے پاکستان میں ایک انتشار پھیل گیا گیا تھا کہ شہباز
شریف نے ایسا کو نسا معاہدہ کرلیا ہے کہ پنجابی طالبان اور دیگر کالعدم شدت
پسند جماعتوں کو پنجاب کے علاوہ دوسروں صوبوں میں تحریک چلانے کی ترغیبات
دیں جا رہی ہیں، کیا ہم ایسیگڈ گورنس کہیں گے۔
سندھ میں جس طرح کئی عشروں سے ہزاروں کی تعداد میں بیگناہ عوام کا خون
بہایا جاتا رہا اور نامعلوم افراد ، گنگ وار مافیا نے کراچی کی عوام کی
سانسوں تک لینے کی فیس مقرر کردی اور سائیں سرکار سب اچھا کی رپورٹ دیتی
رہی کیا ایسے گڈ گورنس قرار دیا جاسکتا ہے۔
یقینی طور پر صوبائی حکومتوں سمیت وفاق حکومت امن و امان کے حوالے سے
بدترین ناکامی کا شکار ہوچکی ہیں ، تحریک انصاف کے چیئرمین تو طالبان محبت
میں اتنے آگے بڑھ گئے تھے کہ پشاور میں طالبان کو باقاعدہ دفتر کھولنے کی
دعوت و اجازت دینے کی پیش کش کردی تھی ،کئی عرصے تک تو شدت پسندوں کی
کاروئیوں پر مذمت کرنے پر بھی تامل برتتے رہے شدت پسندوں کو دہشت گرد کہنے
سے کتراتے رہے یہاں تک کہ عوام خون میں نہا رہے تھے اور یہ اپنے وزراء کے
ساتھ اسلام آباد کے دھرنوں میں رقص و سرور کی محفلوں میں مصروف تھے جب خٹک
صاحب سے پوچھا گیا تو تیکھا سا جواب آیا کہ اگر میں پشاور میں ہوتا تو کیا
تباہی نہیں آتی ، اور میں ڈاکٹر نہیں ہوں ، کراچی ائیر پورٹ اورپھرارمی
پبلک اسکول کے ہولناک واقعات نے تمام سیاسی جماعتوں کی آنکھیں کھول دیں اور
ان کی نظریں اور جوڑے ہاتھ فوج کی جانب ہی اٹھے کہ خدارا مدد کو آؤ۔
کیا امن و امان کی ذمے داری صوبائی حکومتوں کی نہیں ہے کہ وہ اپنے قانون
نافذ کرنے والے اداروں کو سیاسی آلودگی سے پاک کرتے اور پولیس کی نوکریاں
لاکھوں روپوں میں فروخت کرنے اور پولیس فنڈز میں اربوں روپوں کے غبن کرنے
کیبجائے عوام کے تحفظ کو ترجیح دیتے۔ہمیں پاک فوج کو متبازعہ بنانے سے گریز
کی راہ اپنانے ہوگی اپنی سیاسی معاملات کو خود حل کرنا ہوگا۔ |