واہ ..واہ الیاس بلور واہ ایبٹ آباد فسادات میں 4......مر گئے تو کیا قیامت آگئی...؟

ق لیگ نے صوبہ سرحد کے لئے نیا نام”ہزارہ پختونخواہ“ پیش کردیا ....کیوں...؟

یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ صوبہ سرحد کا نام تبدیل کر کے خیبر پختونخواہ رکھے جانے کے خلاف ملک کی کچھ سیاسی جماعتیں جن میں پاکستان مسلم لیگ (ق) سرِ فہرست ہے وہ پوری طرح سے سرگرم ِ عمل ہے اور یہ جماعت اَب اِس نام کی مخالفت کر کے اپنی سیاست کو چمکانے اور عوام میں اپنی کھوئی ہوئی قدر کو دوبارہ تلاش کرنے کے چکر میں لگی پڑی ہے اور یہ چاہ رہی ہے کہ کسی نہ کسی بہانے اِسے عوام میں پھر پزیرائی حاصل ہوجائے جس کے لئے یہ ہر حربہ آزمانے اور وہ سب کچھ کر گزرنے کو بھی تیار ہے جس کی اجازت نہ تو کوئی قانون ہی دیتا ہے اور نہ ہی کوئی بھی معاشرہ برداشت کرسکتا ہے۔

اور اِس کے ساتھ ہی ایک حیرت انگیز خبر یہ ہے کہ ایبٹ آباد میں خیبر پختونخواہ کے نام کے خلاف ہونے والے پرتشدد مظاہروں کے بعد سینٹ میں پاکستان مسلم لیگ (ق) کی پارلیمانی پارٹی نے کوئی لمحہ ضیاع کئے بغیر ہی صوبہ سرحد کے لئے”ہزارہ پختونخوا“ نام کا مطالبہ کردیا اور اِس نے فوری طور پر حکومت سے یہ بھی کہا ہے کہ وہ نام کی تبدیلی کے حوالے سے شق پر نظرثانی کرے اور اِسی پارٹی کے چوہدری شجاعت حسین نے تو یہ تک بھی کہہ دیا ہے کہ عوام صبر و تحمل کا مظاہرہ کرے اگر ہزارہ کے لوگوں نے الگ صوبے کے نام پر ریفرنڈم کے لئے جو لائحہ عمل تجویز کیا توحمایت کریں گے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر (ق) لیگ کو یہ ہی اکٹکھیلیاں ہی کرنی تھیں تو اِس نے پہلے صوبہ سرحد کا نام خیبر پختونخواہ تجویز کئے جانے کی حمایت کیوں کی تھی جو اَب ایبٹ آباد میں فسادات برپا ہوجانے کے بعد اِس نام کی مخالفت کررہی ہے۔

اُدھر ہی ایک اور افسوسناک امر یہ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ایک سینیٹر ظفر علی شاہ نے ایک نجی ٹی وی کے پروگرام میں ایبٹ آباد کے پرتشدد مظاہروں کے حوالوں سے یہ دعویٰ کیا ہے کہ ایبٹ آباد میں فائرنگ سے 14افراد جان بحق کئے گئے ہیں اُنہوں نے اِس سارے واقعے کا الزام پاکستان پیلپز پارٹی، صدر زرداری وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور اے این پی کے سر مارتے ہوئے کہا ہے کہ ایبٹ آباد میں جو کچھ بھی ہوا ہے اِس کے یہ سب ہی ذمہ دار ہیں اِن کا کہنا ہے کہ اِن سب نے ہی اپنی اپنی سیاست چمکانے کے لئے ایبٹ آباد کو جلا دیا ہے جبکہ اِسی پروگرام میں اے این پی کے رہنما الیاس بلور نے اِن کا الزام مسترد کرتے ہوئے بڑے زوردار انداز میں کہا کہ ایبٹ آباد میں تمام گڑبڑ کی ذمہ دار پاکستان مسلم لیگ (ق) ہے اور اِس سمیت لوگوں کو خیبر پختونخواہ کے نام سے کیوں چڑہ ہے اِن کا کہنا تھا اگر ایبٹ آباد میں 4آدمی تھانے پر حملے کے دوران مارے گئے تو کیا قیامت آگئی ہے۔ یہاں قابلِ افسوس بات تو یہ ہے کہ کسی بھی حکومت میں چار تو کیا اگر ایک بھی آدمی مرے تو اِس کی ہلاکت بھی قابل مذمت ہوتی ہے اور الیاس بلور صاحب !آپ نے یہ کیسے ....؟کہہ دیا کہ 4آدمی مرے تو کیا قیامت آگئی “جی یہ قیامت آپ کے لئے ہو یا نہ ہو مگر اِس خاندان کے لئے تو ایک فرد کی ہلاکت یقیناََ کسی قیامت سے کم نہیں ہے اور ہوگی کہ جس کے گھر کا واحد کفیل آپ لوگوں کی سیاست کی نظر ہو کر یوں مر گیا جیسے کوئی چیونٹی مرتی ہے اور واہ .....واہ آپ نے تو مرنے والے انسان کی ہلاکت پر اپنی زبان سے ایک لفظ افسوس کا بھی کہنا شائد گوارہ نہیں کیا اور اُلٹا یہ کہہ دیا کہ 4آدمی مرنے سے کون سی قیامت آگئی کیا یہی آپ کا اور آپ کی پارٹی کا عوامی خدمت کا جذبہ ہے کہ کوئی مرے تو مرے اِس کے مرنے پر افسوس کا اظہار بھی نہ کیا جائے تو اِیسی پارٹی کا بھلا کیا اعتبار کہ یہ پارٹی عوام اور ملک کے لئے بھی مخلص ہوگی۔

اور اِدھر ملک میں اِن دنوں ایک طرف سیاستدانوں میں ایک دوسرے پر الزام تراشیوں کا سلسلہ زوروں پر جاری ہے تو وہیں دوسری طرف عوامی سطح پر بھی پورا پاکستان ہی احتجاجوں کی زد میں بُری طرح سے جکڑا ہوا ہے مگر اِن احتجاجوں میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کے ستائے ہوئے عوام سب سے زیادہ احتجاجی متاثرین میں شامل ہیں جو بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ سے بدحال ہوکر سڑکوں پر نکل کر اپنے غم و غصے کا اظہار حکومت کے خلاف نعرے بازی اور نجی اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچا کر کر رہے ہیں اور یوں یہ احتجاجی اپنے اپنے جذبات کو ٹھنڈا کر کے چلے جاتے ہیں اور بعض مرتبہ حکومتی ایما پر پولیس اِن بجلی کے ستائے ہوئے متاثرین پر ٹوٹ پڑتی ہے جس سے حالات اور بگاڑ جاتے ہیں مگر بجلی ہے کہ پھر بھی نہیں آتی اور نہ ہی لوڈشیڈنگ کے دورانئے میں کوئی کمی آپائی ہے ایک اندازے کے مطابق اَب تک ملک بھر میں بجلی کے بحران اور طویل لوڈشیڈنگ کے حوالے سے ہونے والے مظاہروں کے دوران بے شمار افراد جان بحق اور متعدد زخمی ہوچکے ہیں۔

اور اِس کے ساتھ ہی ابھی حکومت ملک میں بجلی کے بحران کے مارے ہوئے احتجاجی مظاہرین سے ہی کچھ کیا کم ہی پریشان تھی کہ وہ اپنے لاکھ حیلے بہانے کر کے بھی اِن سے اَبھی اپنی جان بھی نہ چھڑا پائی تھی کہ اِس کے سامنے ملک میں ایک اور پرتشدد احتجاجوں کا سلسلہ اُس وقت آدھمکا (شروع ہوگیا)کہ جب اِس(حکومت)نے صوبہ سرحد کا نام تبدیل کر کے اِس کا نام خیبر پختونخواہ رکھ دیا تو آج ایک طرف اِس نام کے حامی ایک جشن بنانے میں مصروف ہیں تو دوسری طرف اِس نام کے مخالف عناصر پورے ملک میں خیبر پختونخواہ نام کے خلاف احتجاجوں کا سلسلہ جاری رکھ کر اپنے شدید غم و غصے اور منفی جذبات کا اظہار پُرتشدد مظاہروں سے یوں کررہے ہیں کہ اِن مشتعل مظاہرین نے گزشتہ پیر اور منگل کے روز ایبٹ آباد جیسے پرسکون علاقے میں پرتشدد مظاہرے کر کے اِس کا بھی امن و سکون تباہ و برباد کر کے رکھ دیا اور آج بھی یعنی کہ اِن سطور کے رقم کرنے تک اِس علاقے میں معمولاتِ زندگی بری طرح سے مفلوج ہے۔

جبکہ میرا یہاں خیال یہ ہے کہ ابھی خیبر پختونخواہ کے حوالے سے پرتشدد مظاہروں کا کیا جواز ہے جبکہ اٹھارویں ترمیم کا اطلاق تو تین سال بعد ہوگا مگر دوسری طرف یہ بھی سوچنے کا مقام ہے کہ ابھی اِس حوالے سے بل پاس ہوا بھی نہیں ہے کہ پختونخواہ کا پروپیگنڈہ اقوام متحدہ سے لیکر ساری دنیا میں یوں پھیلا دیا گیا کہ جیسے یہ حکومت اپنی نوعیت کا کوئی بہت ہی انوکھا کام کررہی ہے یا کرنے جارہی ہے۔ اگرچہ یہ بھی قبل از وقت ہے کہ ملک بھر میں خیبر پختونخواہ کے خلاف یوں پُرتشدد مظاہرے کیوں کئے جارہے ہیں ...؟اور ایسے پرتشدد مظاہرے کہ سارانظام زندگی الٹ پلٹ کر رہ جائے۔

اِس حوالے سے گزشتہ دنوں صوبہ سرحد کا نام خیبر پختونخواہ رکھے جانے کے خلاف ہزارہ ڈویژن سراپا احتجاج بن گیا اور ایبٹ آباد میں پرتشدد مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا جو خبروں کے مطابق دو روز تک جاری رہا اور اِس دوران ایسا محسوس ہوتا رہا کہ ایبٹ آباد جیسے پُرسکون اور خوبصورت علاقے میں یہ پُرتشدد مظاہرے پہلے سے تیاردہ کسی منظم اور مربوط منصوبہ بندی اور حکمتِ عملی کا نتیجہ ہیں اور اِن کے پیچھے یقیناََ کسی سیاسی جماعت کا ہاتھ ہے جس نے ایبٹ آباد کے امن پسند عوام کو باہر نکلنے پر اُکسایا اور اِنہیں اپنے جذبات کا اظہار پرتشدد مظاہرے کے انداز میں کرنے پر مجبور کیا۔

اِس صورت حال میں جہاں تک میں سمجھتا ہوں اِس سارے معاملے میں اُس سیاسی جماعت کا بھی کردار ہے جو ایک طرف تو فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کر رہی ہے تو دوسری طرف یہی جماعت اپنی سیاسی کدورت اور کینہ پروری کا اظہار ملک بھر میں ہنگامے کروا کر کرنا چاہ رہی ہے اور اِس ہی بہانے اِس نے اپنی صاف و شفاف سیاست کو چمکانے کا بھی موقع تلاش کرلیا ہے یہ سیاسی جماعتیں کوئی اور نہیں بلکہ پاکستان مسلم لیگ (ن)اور اِس کا دوسرا دھڑا پاکستان مسلم لیگ (ق) ہے جس نے حکومت کو کمزور کرنے اور اِسے بدنام کرنے کے لئے اپنی ایسی کارستانی کا سہارا لیا کہ کوئی اِس کا اندازہ بھی نہیں کرسکتا کہ یہ کام یہ دونوں جماعتیں یوں باہم متحد ہوکر بھی کرسکتی ہیں اور ایبٹ آباد جیسے اُس پُرسکون علاقے میں جہاں کے امن اور سکون کی ملک بھر میں مثالیں دی جاتی تھی اِس علاقے میں بھی پی ایم ایل (ن)اور (ق) والوں نے پُر تشدد مظاہرے شروع کروا دیئے۔ اِس سے یہ اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ ایبٹ آباد کے ہنگاموں کے پسِ پردہ اِن دونوں جماعتوں کا ہی ہاتھ ہے کیونکہ اِن دونوں جماعتوں کے سربراہان نے پہلے ہی حکومت کو دبے دبے الفاظ میں متنبہ کردیا تھا کہ اگر عوام کی مرضی کے برخلاف سرحد کا کوئی نام حکومت نے تجویز کیا تو اِس کے خلاف زبردست عوامی ردِعمل سامنے آئے گا۔

اِس حوالے سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف کا یہ حالیہ بیان اِس کا بین ثبوت ہے کہ اُنہوں نے ایبٹ آباد میں خیبر پختونخواہ نام کے خلاف ہونے والے مظاہرین پر پولیس فائرنگ اور شیلنگ سے8افراد کے جان بحق اور 200سے زائدزخمی ہونے کے واقعات پر اپنے خیالات کا اظہار صوبہ سرحد کے وزیر اعلیٰ امیر حیدر خان ہوتی کے نام ایک پیغام میں کچھ اِس طرح سے کیا کہ صوبے کی نام کی تبدیلی نہایت ہی نازک اور پیچید ہ معاملہ ہے اور اِس کے ساتھ ہی نوازشریف نے یہ بھی کہا کہ ہم نے پہلے ہی خبردار کیا تھا کہ اِسے سترہویں ترمیم کے ساتھ نتھی کرنا مناسب نہ ہوگا اِن کا کہنا تھا کہ میں نے بار بار حکومت سے گزارش کی تھی کہ اِس معاملے کو خوش اسلوبی سے حل کرنے اور حتمی نتیجے تک پہنچنے کے لئے تمام فریقین کو اعتماد میں لیا جائے مگر شائد حکومت کو بہت ہی جلدی تھی اور اِس نے اِس حوالے سے اپنی جلدبازی کا مظاہر کچھ اِس طرح سے کیا کہ اِس نے صوبہ سرحد کا نام بغیر کسی مشاورت کے خود ہی خیبر پختونخواہ تو رکھ دیا مگر اَب اِس حکومتی غلطی کا خمیازہ پوری قوم کو احتجاجوں، مظاہروں اور ہنگاموں کی صورت میں قیمتی انسانی جانوں کی ضائع کے عوض بھگتنا پڑے گا۔

اور اِس حوالے سے نواز شریف کے خدشات گزشتہ دنوں سچ ثابت ہوگئے جب کہ ایبٹ آباد میں صوبہ سرحد کا نام خیبر پختونخواہ رکھے جانے کے خلاف اور ہزارہ صوبے کے قیام کے لئے پُرتشدد مظاہرہ کرنے والوں پر پولیس کی فائرنگ اور شیلنگ سمیت لاٹھی چارج سے8 افرادجان بحق جبکہ سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی سردار محمد یعقوب سمیت 200سے زائدزخمی ہوگئے اور پھر اِس کے ساتھ ہی اِن مشتعل مظاہرین نے اپنے حملوں میں تیزی لاتے ہوئے پولیس پر بھی حملوں کا سلسلہ جاری رکھا اور تھانہ کینٹ کو آگ لگا دی اور پولیس ٹرک، موبائل سمیت متعدد گاڑیاں بھی نذر آتش کردیںاور اِس دوران زخمی ہونے والوں میں سے 14افراد کی حالت نازک بتائی جاتی ہے۔ اِس مظاہروں کی شدت کا اندازہ اِس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اِن مظاہروں میں شامل افراد نے تحریک صوبہ ہزارہ کو سول نافرمانی میں بدلنے کا بھی اعلان کردیا ہے جس سے اَب حکومتی حلقے بھی اِس جانب سنجیدگی سے غور وفکر میں مصروف ہوچکے ہیں کہ وہ کیا عوامل ہیں کہ جس نے صوبہ سرحد کو نیا نام خیبر پختونخواہ ملنے پر اِس علاقوں کی عوام کو سول نافرمانی کی جانب دھکیلنے پر مجبور کردیا۔

جب کہ اگر یہ دیکھا جائے تو ایسا لگتاہے کہ جس طرح یوم عاشور پر کراچی میں ہونے والے ہنگاموں کے نتیجے میں مشتعل مظاہرین نے ایم اے جناح روڈ پر واقع ملک کی سب سے بڑی پلاسٹک کی ہول سیل مارکیٹ سمیت تین ہزار کے لگ بھگ دکانوں کو منٹوں اور سیکنڈوں میں جلا کر راکھ کر دیا تھا بالکل اِسی طرح ایبٹ آباد میں مظاہرین کی شکل میں شرپسند عناصر نے اپنا کام اُسی طرح منٹوں اور سیکنڈوں میں کر دکھایا کہ اور اِن تشدد پسند عناصر نے پورے ایبٹ آباد کا امن و سکون تباہ و برباد کر کے رکھ دیا یوں کراچی کے یوم عاشور کے ہنگامے اور 12تا13اپریل کو ایبٹ آباد میں ہونے والے ہنگامے اور کراچی میں یوم عاشور کے ہنگاموں میں ایک بات قدرے مماثلت رکھتی ہے کہ اِن دونوں جگہوں کے مظاہرین کا واردات کرنے کا انداز ایک جیسا تھا کیونکہ ایبٹ آباد میں ہونے والے ہنگاموں کے مشتعل افراد نے بھی اپنے ہاتھوں میں ڈنڈے اٹھائے ہوئے تھے اور اپنے راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو اِن ڈنڈوں سے تباہ کرتے اور آگ لگاتے جاتے تھے۔ اِن مشتعل مظاہرین نے اِس دوران پاکستان مسلم لیگ (ن) اور اے این پی کے دفاتر کو بھی نذرِ آتش کردیا۔

اگرچہ یہ بھی حقیقت ہے کہ من حیث القوم احتجاج کرنا ہمارا حق ہے مگر احتجاج کو پُرشدد بنانے اور نجی و سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کی اجازت دنیا کا کوئی بھی قانون نہیں دیتا گزشتہ دنوں صوبہ سرحد کا نام خیبر پختونخواہ رکھے جانے کے خلاف ایبٹ آباد جیسے پرسکون اور پرامن علاقے میں آگ و خون کا جو کھیل کھیلا گیا اور اِس دوران جو آٹھ قیمتی انسانی جانیں لقمہ اجل بنی اور دو سو سے زائد افراد اِن پرتشدد مظاہروں میں زخمی ہوئے وہ پورے پاکستان کے لئے لمحہ فکریہ ہے اور اِس سانحہ پر جو ایبٹ آباد میں پیش آیا پوری پاکستانی قوم کو سوچنے پر مجبور کر رہا ہے کہ کیا ہم اَب بھی آج سے چودہ سو سال پہلے کے دورے جہالت کے زمانے میںپڑے ہوئے ہیں کہ جب ظہور اسلام سے قبل پانی پینے، گھوڑا آگے بڑھانے ،ہنسنے اور رونے گانے پر بھی جھگڑے ہوا کرتے تھے اور ہم چودہ سو سال بعدبھی ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے وہیں کھڑے ہیں کہ ہم آج بھی جاہلوں کی طرح صوبہ کا نام اپنی پسند کے مطابق نہ رکھنے پر آپس ہی میں لڑ جھگڑ رہے ہیں اور ایک دوسرے مسلمان اور اپنے ہی پاکستانی بھائی کے خون کے پیاسے بنے ہوئے ہیں اور بڑے فخر سے یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر ایبٹ آباد کے فسادات میں چار آدمی مر گئے تو کیا قیامت آگئی۔ اور ادھر ہی یہ صوبے کا نام خیبر پختونخواہ رکھے جانے کے مخالفین نے اِسے اپنی انا کا مسئلہ بنا لیا ہے اور اِن کا یہ کہنا کسی بھی لحا ظ سے درست نہیں کہ اگر صوبے کا نام اِن کی مرضی سے نہ رکھا گیا تو پھر اِن کا یہ احتجاج اُس وقت تک جاری رہے گا کہ جب تک صوبہ ہزارہ کا قیام نہیں ہوجاتا اِن لوگوں کی یہ ضد اور انا کسی بھی طور پر پاکستان کے لئے ٹھیک نہیں ہے ۔
Muhammad Azam Azim Azam
About the Author: Muhammad Azam Azim Azam Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.