انتظامی امور میں اصلاحِ احوال کی ضرورت

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ آئینی ڈھانچے میں تواتر سے کی جانے والی ترامیم کے باوجود گذشتہ حکومتیں عوام کے انسانی ، جمہوری، اور آئینی حقوق کی پائمالی کی مرتکب ہوتی رہیں ہیں۔ مشرف حکومت کے بعد عوام الناس میں اِن توقعات نے جنم لیا تھا کہ ماضی کے تلخ تجربات کی روشنی میں ملک میں حقیقی جمہوریت نافذ کی جائیگی، احتساب اور عدل کے عمل کو شفاف اور عوام و خواص پر یکساں طور پر لاگو کیا جائیگا ، انتظامی امور کی اصلاحِ احوال کی جائیگی اور عام آدمی کو بتدریج اقتدار میں شریک کیا جائیگا لیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا ہے۔ گو کہ ملک میں عام اور ضمنی انتخابات کرانے کی آئینی ذمہ داری الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ہے لیکن الیکشن کمیشن اپنی آئینی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کیلئے نادرا اور صوبائی سیاسی حکومتوں کے زیر اثر سرکاری اہلکاروں کا محتاج بن چکا ہے۔ ووٹوں کی منتقلی اور خرید و فروخت کی شکایات زبان زد عام ہیں، عوامی رائے کو دھونس ، دباؤ اور زبردستی سے تبدیل کرنے کے ریاستی حربے حکمرانوں کے اشاروں پر بخوبی استعمال کئے جا رہے ہیں۔ کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملکی سیاست عوام الناس کے ہاتھوں سے نکل کر خاندانوں کی وراثت میں بن گئی ہے جبکہ حکمرانوں نے سیاست کو کاروبار بنا لیا ہے اور وقت گزرنے کیساتھ بیشتر سرکاری اہلکار بھی حکمران خاندانوں کی وراثت کا حصہ بن چکے ہیں ۔ ملک کی دولت تواتر سے باہر جا رہی ہے اور ملک کو بیرونی قرضوں و اندرونِ ملک نجی بنکوں سے لئے گئے قرضوں پر چلایا جا رہا ہے ۔ حیرت ہے کہ سیاسی جماعتوں کے مابین صلح و صفائی اور مفاہمت کے نام پر کرپشن اور جائز و ناجائز ذرائع سے کمائی جانے والی دولت کو آئین و قانون کے تابع کئے جانے کے بجائے سیاسی ڈیل کے نام پر بندر بانٹ کے نظام میں تبدیل کر دیا گیا ہے ۔ چنانچہ احتساب کا عمل بھی سیاسی ڈیل کی زد میں ہے جسے شفاف بنانے کے بجائے پس پردہ ڈیل کی ٹریک ڈپلومیسی اختیار کرتے ہوئے ایک دوسرے کی پردہ پوشی کرنے کے نئے نظام کو متعارف کرایا جا رہا ہے، جس کی باز گشت احتسابی اداروں سے متعلقہ عدالت عظمیٰ کی متعدد آبزرویشن اور احتساب اداروں کی بہتری کیلئے دیئے جانے والے احکامات سے بھی ہوتی ہے۔ در حقیقت ، اہم سول اداروں کی کارکردگی اِس لئے بھی متاثر ہوئی ہے کیونکہ ایسے سرکاری اہلکار جو آئین اور قانون کی پابندی اور پاسداری کرنے کے بجائے محض کرپشن کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا چاہتے ہیں ، اُن کی نظر میں ارباب اقتدار کی مدح سرائی اور مخصوص مفادات کے حصول میں معاونت ہی ترقی کا زینہ بن جاتی ہے ۔ حیرت ہے کہ جمہوری ممالک کی روایات کے برخلاف ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے ’’اوپر والوں کے زبانی احکامات‘‘ پر نہ صرف قانونی اختیارات سے تجاوز کر جاتے ہیں بلکہ ان کی دلیل قانون پر عمل درآمد کرنے کے بجائے مخالفین کو سبق سکھانے کے حوالے سے ہوتی ہے۔ چنانچہ پاکستان میں تواتر سے یہ بات دیکھنے میں آتی ہے کہ اعلیٰ حیثیت کے لوگ جنہیں عرف عام میں اشرافیہ سے تعبیر کیا جاتا ہے تو اکثر وبیشتر قانون کی گرفت سے نکل جاتے ہیں جبکہ ادنیٰ لوگ اور اہلکار سزا کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ اعلیٰ حیثیت کے لوگوں کو بڑے احترام سے سرکاری گاڑیوں میں فتح کے نشان بناتے ہوئے لے جایا جاتا ہے جبکہ ادنیٰ افراد کو تشدد اورتوہین آمیز سلوک کے ساتھ سڑکوں اور بازاروں میں گھسیٹ کر لے جایا جاتا ہے ۔

درج بالا تناظر میں ملکی انتظامی امور اِس قدر متنازع اور کرپشن کا شکار ہو چکے ہیں کہ حقیقی جمہوری دور میں بھی عوام الناس بتدریج ریاستی اداروں پر اپنا اعتماد کھوتے جا رہے ہیں حتیٰ کہ عو ام کیلئے یہ فرق محسوس کرنامشکل ہو چکا ہے کہ ماضی کی حکومتوں اور حالیہ جمہوریت میں کیا فرق ہے کیونکہ اُن کی نظر میں دونوں ادوار کی حکومتیں اشرافیہ کے مخصوص مفادات کے تحفظ کیلئے کام کر رہی ہیں جبکہ عوام الناس کو غربت کی چکی میں پسنے کیلئے چھوڑ دیا گیا ہے ۔ لہذا عوام کے ذہنوں میں یہ سوالات بڑی سرعت سے جنم لے رہے ہیں کہ کیا ہمارا حال ماضی سے بدتر نہیں ہوگیا ہے ؟ درحقیقت ، پاکستان میں کرپشن ، بدعنوانی و اقربہ پروری کی بڑھتی ہوئی لہر اور ملکی دولت باہر کے ملکوں میں جمع کئے جانے کے باعث پاکستان میں غربت میں بے دریغ اضافہ ہوا ہے چنانچہ پچاس فی صد سے زیادہ آبادی پاکستان میں غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے ۔کہتے ہیں کہ کسی بھی ملک میں اکاون فی صد آبادی کی حکمرانی ہی جمہوریت کہلاتی ہے چنانچہ پاکستانی جمہور کے غربت کی لکیر کے نیچے چلے جانے کے باعث محض دس فی صد اشرافیہ ہی ملک پر حکمرانی کر رہی ہے اور جمہوریت غربت کی لکیر کے نیچے پس رہی ہے ۔ جب یہ حالات دنیا بھر میں منکشف ہوتے ہیں تو پاکستانی دانشور ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے دانشور وں کی رائے میں پاکستان کے جمہوری تشخص پر بھی سوالات اُٹھنے شروع ہو جاتے ہیں جبکہ ہمارے حکمران قول و فعل کے بدترین تضاد میں مبتلا نظر آتے ہیں ۔ وہ جو کچھ کہتے ہیں اُس کی مراد وہ نہیں ہوتا بلکہ کچھ اور ہوتا ہے جسے اقتدار کی غلام گردشوں میں متحرک رہنے والی نوکر شاہی ہی بخوبی سمجھ سکتی ہے۔

اندریں حالات ، عوام الناس اِس اَمر کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ ملک میں دہشت گردی کے عفریت کو قابو میں لانے کیلئے افواج پاکستان نے بے شما قربانیاں دی ہیں ۔ آپریشن ضرب عضب پاکستانی عوام کی جان ہے جسے پاکستان کے طول و ارض میں عوام کی زبردست حمایت حاصل ہے۔ حیرت ہے کہ قومی ایکشن پلان کے تحت ایک ایسے وقت جب بل خصوص فاٹا، بلوچستان اور کراچی میں فوج دہشت گردوں کے خلاف حالت جنگ میں ہے جبکہ ملک بیرونی خطرات اور اندرونی خلفشار میں گھرا ہوا ہے ، حکمران قومی اتفاق رائے ، سیاسی مفاہمت اور گڈ گورننس کی لفاظی تو کر رہے ہیں لیکن عملی طور پر ایسا کچھ ہوتا نظر نہیں آ رہا ہے۔ قومی ایکشن پلان کے تحت فوج کو جو بیک اَپ سپورٹ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے ملکی نظم و نسق میں بہتری لانے کے حوالے سے ملنی چاہیے وہ محض سیاسی موشگافیوں کا شکار ہی رہی چنانچہ جب کور کمانڈر کانفرنس کی جانب سے حکومت کو انتظامی صورتحال کی اصلاح و احوال کے حوالے سے توجہ مبذول کرائی گئی تو اُسے درست انداز سے نہیں لیا گیا بلکہ حکومتی ترجمان دیگر سیاسی قیادت نے اِسے پارلیمنٹ میں بھی وجہ تنقید بنانے سے گریز نہیں کیا حتیٰ کہ نجی اداروں اور حکومتی حمایت یافتہ وکلاء کی جانب سے بھی ملکی امور کی اصلاحِ احوال کرنے کے بجائے اِسے سول و عسکری اداروں کے مابین غلط فہمیوں سے تعبیر کیا گیا۔ بظاہر حکومتی ترجمان کے اِس دعویٰ کے بعد بہتر نظم و نسق ہی حکومت کا طرہ ّامتیاز ہے ، جس کی کوئی ضرورت نہیں تھی، کے بعدتو یہی محسوس ہوتا ہے کہ کوئی خفیہ ہاتھ افواج پاکستان اور سول حکومت کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنے میں مصروف ہے جس کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے اور حقائق سے منافی زبانی کلامی بیانات سے صورت حال کو مذید بگاڑنے کے بجائے حکومت کو اپنی تمام تر صلاحیتیں اور توجہ ملکی نظم و نسق کی بہتری، کرپشن کے خاتمے اور قومی ایکشن پروگرام پر عملدرامد پر رکھنی چاہیے۔ حقیقت یہی ہے کہ ہمسایہ ملک بھارت کی جانب سے کنٹرول لائین اور ملکی سرحدوں پر کشیدگی کی فضا پیدا کرنے کے باوجود آپریشن ضرب عضب کی مکمل کامیابی کیلئے جنرل راحیل شریف نہ صرف ملک کی تقدیر کی جنگ لڑ رہے بلکہ بھارتی انتہا پسند حکمرانوں کی جانب سے کنٹرول لائین اور ورکنگ باؤنڈری پر پیدا کی جانے والی کشیدگی پر بھی نگاہ رکھے ہوئے ہیں چنانچہ حکومت وقت کو اداروں کے درمیان اختلافی موشگافیاں پید اکرنے والے عناصر پر نہ صرف گہری نظر رکھنی چاہیے بلکہ انتظامی اصلاح احوال پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔اﷲ ہمارا حامی و ناصرہو ۔ ختم شد
Rana Abdul Baqi
About the Author: Rana Abdul Baqi Read More Articles by Rana Abdul Baqi: 4 Articles with 2427 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.