قیامت

اے این پی کے سینیٹر الیاس بلور نے ہزارہ میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں پولیس کی فائرنگ سے مرنے والے لوگوں کے بارے میں کہا ہے کہ ”اگر چار لوگ مر گئے تو کیا قیامت آگئی؟“ الیاس بلور ابھی زندہ ہیں لیکن صوبہ سرحد (ابھی تک سینٹ سے 18ویں ترمیم کی منظوری نہیں ہوئی اس لئے ابھی سرحد کا نام آئینی طور پر تبدیل نہیں ہوا) میں تو ہر روز لوگ مرتے ہیں اور جب کسی گھرانے کا کوئی فرد کسی جعلی قسم کی تنظیم کے نام پر بیرونی ایجنسیوں یا امن و امان کے نام پر فوج اور پولیس کی جانب سے ”دہشت گردی“ کی بھینٹ چڑھتا ہے تو اس گھرانے سے پوچھئے کہ ان کے ہاں قیامت برپا ہوتی ہے یا نہیں؟ بلور صاحب نے تو بڑے آرام سے ٹی وی ٹاک شو میں بیان جاری کردیا لیکن کیا انہیں معلوم ہے کہ ہزارہ میں بھی پاکستانی اور محب وطن پاکستانی بستے ہیں....! ان کی حب الوطنی میں کسی طرح بھی اے این پی سے وابستہ لوگوں کی نسبت کوئی کمی نہیں ہے بلکہ وہ کسی بھی پاکستانی سے کم محب وطن نہیں ہیں۔ اگر اے این پی پوری 18 ویں ترمیم کے مسئلہ کو صوبے کے نام سے مشروط کرسکتی ہے اور باقاعدہ بلیک میلنگ کرسکتی ہے تو کیا اسی صوبے میں رہنے ولے دوسرے عوام کا صوبے اور ملک پر کوئی حق نہیں؟ بقول اے این پی تحریک کے پیچھے ”پوشیدہ“ہاتھ کسی کا بھی ہو، جان سے جانے والے تو معصوم لوگ ہی تھے، کیا اے این پی اور پیپلز پارٹی کے کسی لیڈر نے نہتے مظاہرین کی پولیس فائرنگ سے اموات کو اپنا نقصان سمجھا ہے؟ یہاں تو صرف ”پوائنٹ سکورنگ“ ہو رہی ہے، ایک دوسرے پر الزام تراشی ہو رہی ہے اور بس!

وہ جو بے نام ہیں، جو اپنے حق کی بات کرتے ہوئے جام شہادت نوش کر گئے، ان میں سے شائد ایک نوجوان اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا ہو، اس کے کندھوں پر بہنوں کی رخصتی کی ذمہ داریاں بھی ہوں اور اس کے گھر والوں کو اس کے سر پر سہرا سجانے کی آرزو بھی، وہ جو دن بھر محنت مشقت کر کے اپنے بچوں کا پیٹ پالتا تھا، جس کے چھوٹے چھوٹے معصوم بچے اس کی راہ تکتے تھے، جو رات کو اپنی والدہ کے پاﺅں دبائے بغیر سوتا نہیں تھا وہ بھی اس ”جمہوری“ دہشت گردی کی بھینٹ چڑھا دیا گیا، وہ جو اپنی پڑھائی کے ساتھ ساتھ محنت کو بھی اپنا شعار بنائے ہوئے تھا، پہلے کالج جاتا تھا اور پھر نوکری کرتا تھا تاکہ بوڑھے ماں باپ کی زندگی کے آخری ایام اچھے گزر جائیں، وہ چاہتا تھا کہ اس کے والدین کو دو وقت روٹی بھی مل جائے اور دوائی بھی، وہ بھی پولیس کی جانب سے فائرنگ کے نتیجہ میں جان سے چلا گیا۔ کس کس کی بات کریں، کس کس کا نوحہ پڑھیں، وہ عام لوگ جنہیں اے این پی کے رہنماﺅں کی دیکھا دیکھی اپنے حقوق کے لئے باہر نکلنا پڑا کہ اگر صوبہ کا نام تبدیل ہونا ہی ہے تو ہزارہ کا ذکر بھی آنا چاہئے، ان کی کسی نے کیوں نہ سنی؟ اگر مسلم لیگ ن عین وقت پر جوڈیشل کمیشن کی وجہ سے حکومت کو 18ترمیم پیش کرنے سے روک سکتی ہے تو اس معاملہ پر کیوں بحث و مباحثہ نہ کرایا گیا یہاں تک کہ ہزارہ سے تعلق رکھنے والے ان کے اپنے رہنماﺅں تک کو بھی اعتماد میں نہ لیا گیا۔ وہ پیپلز پارٹی جو آمروں کی ترامیم کو ختم کرنے اور آئین کی بحالی کا کریڈٹ لیتے نہیں تھکتی، اس نے اس معاملہ پر توجہ کیوں نہ دی، دونوں بڑی جماعتوں کو تو اپنے اراکین کی جعلی ڈگریوں کی وجہ سے استعفوں اور دوبارہ انہیں ہی ٹکٹ دینے کے معاملات سے ہی فرصت نہیں لیکن اے این پی کو تو لازماً سوچنا چاہئے تھا، غور کرنا چاہئے تھا کہ اگر ہزارہ کو تین وزرائے اعلیٰ دئے گئے تو وہاں کے عوام کی آواز کو بھی سننا ان پر فرض تھا، اس مسئلہ نے ثابت کردیا کہ اے این پی کا ذہن ابھی تک ایک محدود ”پختون“ دائرے میں پھنسا ہوا ہے وہ اپنے آپ کو علاقائی سطح پر رکھنا چاہتے ہیں، صوبہ سرحد میں اے این پی موجودہ حکومتی سیٹ اپ کا ایک بڑا حصہ ہے اور یقیناً پولیس بھی اسی کے ماتحت ہے تو پولیس نے کیا فائرنگ کا فیصلہ اپنے طور پر ہی کیا تھا؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ باقاعدہ ایک سازش کے تحت سارا خونی ڈرامہ ”سٹیج“ کیا گیا ہو۔ انسانی جانوں کے نقصان کے علاوہ شاہراہ ریشم کی بندش کی وجہ سے پاکستان کو اربوں روپے کے نقصان کا بھی سامنا ہے، امن و امان کا مسئلہ بہرحال اپنی جگہ ہے۔ مرکزی حکومت اور بالخصوص اے این پی کو فوری طور پر ایسی بیان بازی بند کر کے ہزارہ کے لوگوں کی بات سننی چاہئے، ان کے دکھوں کا مداوا کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں ان کے حقوق کے تحفظ کا یقین دلانا چاہئے اور اگر صوبے کے نام میں دوبارہ بھی تبدیلی کرنا پڑے تو اپنی طبیعت اور مزاج پر بوجھ محسوس کر کے بھی انہیں مطمئن کرنا چاہئے، وہ دیکھیں گے کہ کس طرح ان کا گراف پورے پاکستان میں اوپر جاتا ہے، ورنہ قیامت کی گھڑی تو اس وقت آجاتی ہے جب کسی کا عزیز اس دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے، وہ بھی بے گناہی کے جرم کی وجہ سے، اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کرنے کی پاداش میں.... !
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 209501 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.