نوبت دکھ بھری طلاق تک نہ پہنچ سکی

جوں جوں رات کا سناٹا گہرا ہوتا گیا میری مایوسی میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔رات بھر جاگتا رہا ٹیلی ویژن پر ساکت میری نظریں کچھ تلاش کر رہی تھیں۔نظریں ایسی خبر کے انتظار میں تھیں جو میری طرح بے شمار لوگو ںکی دلچسپی کا بھی باعث تھی ۔رات بھر کا سناٹا میرے لیے مایوسی کے سوا کچھ نہیں لایا ۔اذان فجر کے بعد میں مکمل مایوس ہو چکا تھا۔ اسی دوران سکاٹش نیشنل پارٹی کے سربراہ نیکولاسٹرجن اسی دوران ٹیلی ویژن پر آئے اور کہا ؛سکارٹ لینڈ کے دوسرے لوگوں کی طرح میں نے بھی سکارٹ لینڈ کی آزادی کی مہم میں پورے صمیم قلب کے ساتھ حصہ لیا تھا۔ہمیں کامیابی نہیں ہو سکی مجھے مایوسی ہوئی ہے۔میری طرح بے شمار لوگ سکارٹ لینڈ کے شہری تو نہیں ہیں لیکن سکارٹ لینڈ کے شہریوں کو ریفرنڈم کے ذریعے حق خود اختیاری ملنے پر بے حد خوش تھے۔میری دلچسپی سات سمندر پار اس خطے کے لوگوں کے ساتھ اس لیے بھی تھی کہ وہاں ہونے والے ریفرنڈم کے اثرات کشمیر پر بھی مرتب ہونے کی امید تھی ۔ اور یہ کہ سکاٹش پارلیمنٹ کے طرح شاید پاکستان اور بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی اسمبلیاں بھی اس طرح کے ریفرنڈم کے حق کوئی قرارداد پاس کر دیں ۔سکارٹ لینڈ تین سو سال سے برطانیہ کا حصہ ہے۔ان تین سو سالوں میں سکاٹش عوام نے آزادی کے حق میں بادشاہ برطانیہ کے خلاف جنگیں کیں۔14ویں صدی میں سکارٹ لینڈ ایک آزاد اور خود مختار ریاست تھی 1707ء میں انگلینڈ اور سکارٹ لینڈ کی حکومتوں کے دوران ایک معاہدہ طے پایا اس معاہدے کے تحت سکارٹ لینڈ برطانیہ میں ضم ہو گیاتھا۔ 1934ء میں سکاٹش نیشنل پارٹی کا قیام عمل میں آیا۔یہ پارٹی سکارٹ لینڈ کی آزادی کی علمبردارتھی۔11ستمبر 1997 کو 17برس قبل سکاٹ لینڈ کے عوام نے اختیارات کی تقسیم کے حق میں ووٹ دیا تھا جس کے نتیجے میں تین سو سال کے طویل عرصے کے بعد سکاٹش پارلیمنٹ کا قیام عمل میں آیا تھا۔ مئی 2013ء میں سکارٹش اسمبلی نے سکاٹش پارٹی کی قرارداد کثریتی رائے سے منظور کی۔اس قرارداد میں سکارٹ لینڈ کے برطانیہ کے ساتھ رہنے یا نہ رہنے کے بارے میں ریفرنڈم کرانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔سکاٹش پارلیمنٹ کے فیصلے کے تحت 18 ستمبر 2014ء کو سکارٹ لینڈ میں ایک ریفرنڈم کا انعقاد کیا گیا جس میں سکاٹش عوام سے پوچھا گیا تھا کہ وہ برطانیہ کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا آزاد۔18ستمبر کو ہونے والے ریفرنڈم میں 42 لاکھ ووٹرز نے اپنے حق رائے دہی کا بھرپور استعمال کیا۔55 فیصد ووٹرز نے برطانیہ کے ساتھ رہنے اور 45 فیصدنے سکارٹ لینڈ کی آزادی کے حق میں ووٹ دیا۔ یوں سکاٹش نیشنل پارٹی کی آزادسکارٹ لینڈ کی خواہش پوری نہ ہو سکی۔ اگرچہ سکارٹ لینڈ کو اندرونی خود مختاری حاصل ہے تاہم سکاٹش عوام کی ایک بڑی اکثریت آزاد اور خود مختار سکارٹ لینڈ کی حامی ہے۔تین سو سال کے دوران سکارٹ لینڈ کے شہریوں نے کئی بار تاج برطانیہ کے خلاف بغاوت کی۔جنگیں لڑیں تاہم جنگوں کے ذریعے سکاٹش عوام کو آزادی یا حق خود اختیاری کا موقع نہ مل سکا۔سکاٹش عوام کو حق خود اختیاری کا موقع سکاٹش پارلیمنٹ نے 2013 ء میں دیا۔ ریفرنڈم سے قبل برطانیہ کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے اسکاٹ لینڈ کے عوام سے اپیل کی تھی کہ وہ متحد رہنے اور برطانیہ کو بچانے کے حق میں ووٹ دیں۔ڈیوڈ کیمرون نے یہ بھی کہا تھا کہ اسکاٹ لینڈ اگر علیحدہ ہو گیا تو یہ تنہائی اور دکھ بھری طلاق کی مانند ہوگا۔ برطانیہ سے یہ اچھی خبر ہے کہ نوبت دکھ بھری طلاق تک نہ پہنچ سکی۔قابل ذکر امر یہ ہے کہ سکارٹ لینڈ کی آزادی کے حق میں اقوام متحدہ میں کوئی آواز بلند نہیں ہوئی نہ ہی کوئی قرارداد پیش کی گئی نہ کسی نے سکاٹش عوام کے حق آزادی کے حق میں بات کی۔ادھر جنوبی ایشیاء میں ایک ریاست ایسی ہے جو پاکستان ،بھارت اور چین میں منقسم ہے۔اس ریاست کا تنازعہ اقوام متحدہ کے فورم پر بحث کا حصہ بنا۔پاکستان اور بھارت نے اس فورم پر کشمیر کا مقدمہ لڑا ۔اقوام متحدہ نے پاکستان اور بھارت کے دعوی کے جواب میں یہ فیصلہ کیا کہ کشمیری عوام کو رائے شماری (ریفرنڈم)کے ذ ریعے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق دیا جائے ۔اقوام متحدہ کے اس فیصلے میں کشمیریوں کے لیے پاکستان یا بھارت کے ساتھ رہنے کا اختیار دیا گیا ہے ۔قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کے میکانزم میں کشمیریوں کے لیے تیسرا آپشن کیا وہ آزاد رہنا چاہتے ہیں بھی موجود ہے۔پاکستان اور بھارت نے تقریبا 70 سال پہلے اقوام متحدہ کے اس فیصلے کو تسلیم کیا اور عملدرآمد کا وعدہ بھی کیا۔خود بھارت کے اس وقت کے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے کہا تھا کہ حالات معمول پر آتے ہی رائے شماری کے ذریعے کشمیریوں کو مستقبل کا فیصلہ کرنے کا موقع دیا جائے گا۔کشمیری انتظار کرتے رہے۔بھارت اور پاکستان نے اپنا وعدہ پورا کیا اور نہ ہی اقوام متحدہ کو اپنے فیصلے پر عملدرآمد کی ضرورت محسوس ہوئی۔دوسری طرف 1945ء کے بعد 30 ممالک رائے شماری(ریفرنڈم) کے ذریعے ناصرف آزاد و خود مختار ملک بن گئے بلکہ اقوام متحدہ کی رکنیت بھی حاصل کر لی۔صرف 90 کی دہائی میں کئی ممالک میں ریفرنڈم ہوئے ماضی قریب کی طرف جھانکا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ روس کے وطن سے سات آزاد ریاستوں نے جنم لیا۔یوگوسلاویہ سے بوسنیا کو آزادی حاصل ہوئی اور پھر ریفرنڈم کے ذریعے مشرقی تیمور کی سوڈان سے علیحدگی ہوئی ۔کشمیر کی ریاست مشرقی تیمور سے رقبے اور آبادی کے تناسب سے کئی گنا بڑی ریاست ہے تاہم ریاست کشمیر کے عوام کو اپنے خواب کی تعبیرملنے کا بھی کوئی ٹائم فریم طے نہیں ہوا۔سکارٹ لینڈ کا ریفرنڈم آزادی کے خواہاں یورپ کے سات علاقوں کے علاوہ جموں کشمیر کے لوگوں کے لیے امید کی ایک کرن تھی ۔سکارٹ لینڈ کے ریفرنڈم کی ناکامی کے نتیجہ میں یہ کرن اب بجھ چکی ہے۔آزادی کی خواہش کرنے والے مایوس ہیں ان کی امیدوں کے چراغ بجھ چکے ہیں۔مایوسی کی اس کیفیت میں کینیڈا کے کیوبیک علاقے کے عوام بھی گزشتہ 34سال سے ہیں ۔کیوبیک عوام مایوس ضرور ہیں مگر انہوں نے امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ 1980ء کے بعد اس علاقے میں کینیڈا سے علیحدگی کے لیے تین بار ریفرنڈم ہو چکے ہیں ۔تین بار ریفرنڈم ہونے کے باوجود آزادی کے حامی نہ جیت سکے پھر بھی ان کی جدوجہد جاری ہے۔ برف سے ڈھکے اس علاقے میں آزادی کے حامی اب بھی ہر گھر میں دستک دیتے ہیں اپنی آزادی اور خود مختاری کے حق میں دلائل دیتے ہیں۔ہو سکتا ہے کہ مستقبل قریب میں ان کی اس جدوجہد کے نتیجہ میں کیوبیک عوام کینیڈا سے علیحدگی کے لیے چوتھے ریفرنڈم میں حصہ لیں۔ایک ہی سوال پر تین بار ناکامی سے دوچار رائے شماری کا نام اب ریفرنڈم نہیں ''نیورنڈم ''ہو گا۔ مایوسی اور بے چارگی کا شکار کشمیری عوام ہی نہیں بلکہ مغربی سہارا کے عوام بھی ہیں جو آزاد و خود مختار ملک چاہتے ہیں۔مجھے یقین ہے کہ 18ستمبر 2014ء کے فیصلے کے بعد بھی سکاٹش نیشنل پارٹی اپنی جدوجہد ختم نہیں کرے گی اور نہ ہی امید کا دامن ہاتھ سے چھوڑے گی۔سکاٹش عوام کی تین سو سالہ جدوجہد کشمیریوں کے لیے بھی رہنمائی کا باعث بن سکتی ہے ۔اگر 34 سالوں کے دوران کیوبیک کے عوام مایوس نہیں ہوئے تو کشمیری عوام کو بھی جذبے اور حوصلے سے کام لینا ہو گا۔
Sardar Ashiq Hussain
About the Author: Sardar Ashiq Hussain Read More Articles by Sardar Ashiq Hussain: 58 Articles with 50629 views
The writer is a Journalist based in Islamabad. Email : [email protected]
سردار عاشق حسین اسلام آباد میں مقیم صحافی ہیں..
.. View More