وزیر اعظم صاحب، امن کی آشا بہت بڑا انقلاب برپا کردے گی

وزیر اعظم صاحب برصغیر کی سینکڑوں سالہ ہندو مسلم مشترک ثقافت نے اپنے تجربے سے ثابت کردیا کہ اسلامی اور دیگر تمدن کا فرق کبھی بھی نہیں مٹ سکتا۔ ہماری بہادر افواج چومکھی جہاں میں مصروف ہیں۔ وہ شعلوں میں کنول پال رہے ہیں۔ وہ سرحدوں اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کیلئے کفن بردوش ہیں اور جان ہتھیلی پر رکھے ہوئے بزدل ہندو سے اندرونی اور بیرونی محاذ پر نبرد آزما ہیں۔ عساکر اسلام بلند پرواز ہیں۔ ڈھیلے بیان دے کہ خدارا حوصلوں کو پست مت کیجئے۔ پاکستان کو خدانخواستہ کچھ ہوا تو آپ کیلئے ایشیاء و یورپ میں بہت سی پناہ گاہیں ہیں ہم فقیر کہاں پناہ گزیں ہوں گے۔
 برصغیر کی سینکڑوں سالہ ہندو مسلم مشترک ثقافت نے اپنے تجربے سے ثابت کردیا کہ اسلامی اور دیگر تمدن کا فرق کبھی بھی نہیں مٹ سکتا۔ کیونکہ ہر دو اقوام اپنے فکری و اعتقادانی اثاثے سے دستبردار نہیں ہوسکتی تھیں۔علامہ اقبال اور قائداعظم کے آباد و اجداد عرب سے وارد نہیں ہوتے تھے۔ دونوں یہ کے اجداد ہندی نژاد تھے۔ اور دونوں شخصیات دور جدید کے فکری ماحول میں پروش پاتی تھی۔

نومبر کا مہینہ اپنی تاریخی، فکری اور ٹھہرائو کی نسبت یاد سے معمور ہے کیونکہ یہ شاعر حقیقت اور رازدار درون میخانہ اقبال کا مہینہ ہے۔ نومبر آتا ہے اوراپنے ساتھ امت مسلمہ کے اس بڑے مفکر کی یاد کو ساتھ لاتا ہے۔ جس مفکر نے حق و باطل کے معرکہ جدید میں دوستان حق شناس اور دشمنان باطل پرست کے درمیان فکری و تاریخی حد متارکت قائم کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔

پوری دنیا میں مسلمان کی ذلت کے اسباب کی تیاری اور فراوانی کیلئے جیتنے بھی پاپڑ بیلے جاتے ہیں۔ ان میں تمام تر توانائی ملت اسلامہ کے ان خفیہ دشمنوں کی صرف ہوتی ہے۔ جن کا پورا ہدف حیات مسلمان کو عشق مصطفیؐ سے محروم کرنا ہے توحید خالص کا جوہر تبھی میسر آتا ہے جب دل مرتضیٰؓ اور سوار صدیقؓ کے فیضان روشن کی نعمت میسر آجائے۔ دل کی آزادی اور شعور کی وسعت ہی سے اقوام بلند ہوا کرتی ہیں۔ تقلید افکار اور جھوٹے نگوں کی ضاعی پر فریقہ ہوتا بالآخر قوموں کو اجتماعی شعور سے محروم کر دیتا ہے۔ اسلام کا روحانی و سیاسی غلبہ ہی امت کی حیات کو جاودانی کی نعمت عطا کرتا ہے اور اسی حقیقت امتزاج کی برکات نے غلبہ اسلام کے تمدنی پہلو کو دنیا میں متعارف کروایا تھا۔اسلام کے سیاسی نظام اور تمدنی انداز کا خاصہ ہی یہی ہے کہ اسلام اپنے بنیادی نظریئے لاالہ اللہ محمد رسول اللہ(ﷺ) کو قلوب کی دنیا میں پوری طرح سے راسخ کرتا ہے اور پھر فکر و عمل کی دنیا میں اسکے درست ترین اظہار کا مطالبہ کرتا ہے۔ اسلام ذہن کو متاثر کرتا ہے۔ ذہن سے متاثر نہیں ہوتا۔ اسلام معاشروں کو پرنور کرتا ہے۔ معاشروں سے روشنی کی بھیک نہیں مانگتا۔ حقیقت تمدن کو تسلیم کرتا ہے لیکن تمدن کے جوہر انسانیت نوازی کو کسی بھی حالت میں فراموش نہیں کرتا۔اسلامی تمدن اور دنیا کے مختلف زبانی و مکانی تمدنوں کا ہی بنیادی فرق ہے۔ برصغیر کی سینکڑوں سالہ ہندو مسلم مشترک ثقافت نے اپنے تجربے سے ثابت کردیا کہ اسلامی اور دیگر تمدن کا فرق کبھی بھی نہیں مٹ سکتا۔ کیونکہ ہر دو اقوام اپنے فکری و اعتقادانی اثاثے سے دستبردار نہیں ہوسکتی تھیں۔علامہ اقبال اور قائداعظم کے آباد و اجداد عرب سے وارد نہیں ہوتے تھے۔ دونوں یہ کے اجداد ہندی نژاد تھے۔ اور دونوں شخصیات دور جدید کے فکری ماحول میں پروش پاتی تھی۔

قائداعظم کے مغربی دنیا کے تجربات نے اور پھر کانگرس کی کثیف ہندو ذہنیت نے پوری طرح یہ حقیقت واضح کردی ہے کہ مسلمان ہر جگہ اور ہر زمانے میں ایک علیحدہ قوم ہیں۔ انکے ایمان کی اندرونی روشنی دنیا کے کسی بھی خطے میں اور کسی بھی ثقافت میں اپنی ضیا پاشی سے دستبردار نہیں ہوتی۔ روح محمدؐ ان کو ممتاز ہی رکھتی ہے۔ حالات کا جبر اور نیم پختہ حکمرانوں کی خواہش خام کبھی بھی انکی قوت ایمانی کو ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہوتی پاکستان کے حالات میں دشمنان قدیم نئے حیلوں سے مداخلت کا سلسلہ جاری رکھتے ہیںے ان کا سب سے بڑا ہتھیار دانش اور حاکمانہ قوت کو استعمال کرتا ہے۔

پاکستان محض جغرافیائی تقسیم کا نام نہیں ہے۔ وہ طویل تاریخی تجربے کے بعد برآمد شدہ نتائج پر حقیقی عملدرآمد کی ایک جیتی جاگتی تعبیر ہے۔ حالات کی تبدیلی نے اب پھر ثابت کر دیا ہے کہ ہندو مسلمانوں کو کسی بھی صورت برداشت نہیں کرتے۔ انکا راجہ اور پرجا دونوں ہی مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے کو اپنے دھرم کا تقدس قرار دیتے ہیں۔ انکے نزدیک گائے کا خون انسانی خون کے مقابلے میں بہت ہی زیادہ احترام ہے اور لائق پرستش ہے۔ وہ اس احترام کو برقرار رکھنے کیلئے ہزاروں مسلمانوں کا خون بھی بہا دیں تب بھی انکی آتش غضب سرد نہیں ہوتی۔ مسلمان تو کجا وہ انکی ثقافت کے آثار تک کے دشمن ہیں۔مسجدوں کو مندروں میں تبدیل کرنا، مسلمانوں کے گھر نذر آتش کرنا اور مسلمان کو سر عام قتل کرنا ان کا مشغلہ صبح و مسا ہے دور جدید کی تازہ ترین ہندو کارستانیاں منہ چڑھ بول رہی ہیں۔ کسی بھی نام نہاد متمدن ملک کی جانب سے اسکی لفظی مذمت بھی سننے میں نہیں آرہی ہے۔دوسری جانب ہماری حکومت کا شعور ملی ایک کٹھ پتلی انداز کا نظر آتا ہے۔ کسی بھی لبرل اور مفاد پرست مشیر نے رائے دی کہ مودی کی عصبیت کا جواب یہ مناسب رہے گا کہ آپ اپنی خود ساختہ اور خود فکری روایتی فراخدلی کا مظاہرہ فرماتے اور یہ بیان داغ دیجئے کہ ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی، ایک قوم ہیں، اگر یہی قومیت کا اظہار ہے تو پھر دو قومی نظریہ اور نظریہ پاکستان کی تعمیر کیا ہے؟ اقبال و قائداعظم کے نظریات اور کردار کے قومی و ملی جواز کی جگہ کہاں پر ہے۔آئین و قانون کی من مانی تشریح کا حق کس نے کس کو کب اور کیوں دیا۔

مسلم قومیت کا تصور یہ ہمارے آئین کی بنیاد ہے۔ آئین واضح کرتا ہے کہ کتاب و سنت سے متصادم قانون سازی ممنوع ہے۔ تو کہا مسلم قومیت سے متصادم نظریات قومیت پر بیان بازی جائزہے۔کبھی کسی وقت میں اقتدار کی فکر سیری نے یہ بیان دلوادیا کہ ہماری ثقافت، رسم و رواج تو ایک جیسے ہیں مگر درمیان میں سرحد بندی ہے۔نام نہاد اہل دانش نے کئی سالوں سے یہ شور و غل ایک معاصر روزنامے میں برپا کئے رکھا ہے کہ امن کی آشا بہت بڑا انقلاب برپا کردے گی۔ اب صاحبان اقتدار روزانہ سرحدوں پر مسلمانوں کو شہید ہوتا دیکھتے ہیں۔ اور ہم اہل وطن کا خون کھولتا ہے۔جناب وزیراعظم ہندو آپ کی تمنائوں کو رنگ قبولیت نہ دے گا۔

ہماری بہادر افواج چومکھی جہاں میں مصروف ہیں۔ وہ شعلوں میں کنول پال رہے ہیں۔ وہ سرحدوں اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کیلئے کفن بردوش ہیں اور جان ہتھیلی پر رکھے ہوئے بزدل ہندو سے اندرونی اور بیرونی محاذ پر نبرد آزما ہیں۔ عساکر اسلام بلند پرواز ہیں۔ ڈھیلے بیان دے کہ خدارا حوصلوں کو پست مت کیجئے۔ پاکستان کو خدانخواستہ کچھ ہوا تو آپ کیلئے ایشیاء و یورپ میں بہت سی پناہ گاہیں ہیں ہم فقیر کہاں پناہ گزیں ہوں گے۔
Mian Khalid Jamil {Official}
About the Author: Mian Khalid Jamil {Official} Read More Articles by Mian Khalid Jamil {Official}: 361 Articles with 300104 views Professional columnist/ Political & Defence analyst / Researcher/ Script writer/ Economy expert/ Pak Army & ISI defender/ Electronic, Print, Social me.. View More