اشتیاق احمد مرحوم اور داڑھی میں الجھے ”دانشور“
(عابد محمود عزام, Karachi)
جو لوگ اپنی زندگی کو دوسروں کے
لیے وقف کر دیتے ہیں، دنیا بھی انہیں اپنی زندگی کا حصہ بنالیتی ہے اور ان
کے مرنے کے بعد بھی انہیں ہمیشہ اپنی یادوں میں زندہ رکھتی ہے۔ کون جانتا
تھا کہ ایک غریب گھرانے میں آنکھ کھولنے والا ”اشتیاق احمد“ جب ہمیشہ کے
لیے آنکھ بند کرے گا تو اپنے پیچھے لاکھوں مداحوں کو چھوڑ جائے گا۔ اشتیاق
احمد مرحوم نے اس قوم کے بچوں کے لیے آٹھ سو سے زاید تعمیری ناول تحریر
کیے، جو نہ صرف بچوں کی تفریح کا سامان بنے بلکہ بلامبالغہ لاکھوں بچوں کو
مطالعہ کا شیدائی بھی بناگئے۔ ان میں آگے بڑھنے کی جستجو پیدا کی، ان کی
تربیت کی اور غیر شعوری انداز میں آہستہ آہستہ ملک وقوم اور دین اسلام کے
ساتھ محبت ان کے دلوں میں انڈیلتے رہے۔ یہ کہنا تو بہت آسان ہے کہ مرحوم نے
آٹھ سو ناول لکھے ہیں، لیکن یہاں تک پہنچنے کے لیے کتنی محنت درکار ہے، اس
کا اندازہ صرف آٹھ سو تک گنتی گن کر ہی ہوسکتا ہے کہ کتنی دیر لگتی ہے۔
اشتیاق احمد مرحوم کا 1970ءمیں شروع ہونے والا ادبی سفر تسلسل کے ساتھ
2015ءتک جاری رہا۔ اتنا طویل عرصہ مستقل مزاجی سے بچوں اور نوجوانوں کے لیے
ادب تخلیق کرنا، لاکھوں لوگوں کو کتاب سے جوڑنا اور آخر دم تک ان کے دلوں
پر راج کرنا آسان کام نہیں ہے۔ لگ بھگ پانچ دہائیوں تک اس ہنر کو سلامت
رکھنا یقینا ایک عظیم کارنامہ ہے۔ تین نسلیں ان کی تحریریں پڑھتے ہوئے جوان
ہوئیں۔ بچپن میں ان کے ناولوں کو پڑھ کر اردو ادب سے دوستی کرنے والے
ادیبوں، شاعروں، صحافیوں، کالم نگاروں، علماءاور متعدد کتابوں کے مصنفین کی
ایک بڑی تعداد ہے۔ اشتیاق احمد مرحوم ایک عظیم ادیب تھے، انہوں نے اس قوم
کے لیے بہت بڑا ادبی سرمایا چھوڑا ہے۔ اس بنا پر وہ ہمیشہ اپنے لاکھوں
قارئین کے دلوں میں زندہ رہیں گے۔
اشتیاق احمد سے محبت کرنے والوں میں ہر طبقہ فکر کے لوگ موجود ہیں۔ جس نے
بھی اشتیاق صاحب کو بچپن میں پڑھا ہے، وہ بڑا ہوکر بھی ان کی ذات کے حصار
سے نہیں نکل سکا۔ اشتیاق احمد اس دنیا سے چلے گئے لیکن اپنے پیچھے اپنے
چاہنے والوں کی ایک بڑی تعداد چھوڑ گئے۔ مرنے کے بعد جتنا احترام اشتیاق
احمد کا دیکھنے میں آیا ہے، شاید ہی کسی لکھاری کے مرنے کے بعد ایسا ہوا
ہو، ہر فرد نے اپنے تئیں ان سے محبت کا اظہار کیا ہے۔ یوں تو مرنے کے بعد
ہر مسلمان کو اچھے لفظوں سے یاد کیا جانا چاہیے، کیونکہ یہی عقل سلیم کا
تقاضا اور یہی ہمارے دین کی تعلیم ہے، لیکن دنیا میں کچھ ایسے لوگ بھی ہوتے
ہیں، جن کا کام صرف اور صرف تنقید کرنا ہے۔مثبت کام کو بھی منفی نظر سے
دیکھ کر طعن و تشنیع کے تیر سنبھالنا ان کی فطرت ہے۔ ابھی اشتیاق احمد
مرحوم کا کفن میلا بھی نہ ہوا تھا کہ اس قبیل کے بعض ”دانشور“ لکھاری
اشتیاق احمد کی ذات کو صرف داڑھی رکھنے کے ”جرم“ میں متنازعہ بنانے پر تل
گئے اور صر ف ان کی ڈاڑھی کی وجہ سے ان کی 45سالہ ادبی خدمات پر پانی
پھیرنے کی کوشش کرنے لگے، لیکن جہاں ایک طرف ان خودساختہ دانشوورں نے تین
نسلوں کو متاثر کرنے والے عظیم ادیب کو صرف داڑھی رکھنے کے جرم میں سنگ
دشنام اور تیر الزام کا ہدف بنانا اپنا فرض جانا ہے، وہیں دوسری جانب مختلف
چینلز اوراخبارات نے اشتیاق احمد مرحوم کی خدمات کا اعتراف کر کے ان
خودساختہ دانشوروں کی لن ترانیوں کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہوئے یہ ثابت کیا
ہے کہ اشتیاق احمد مرحوم داڑھی کے ساتھ بھی اسی طرح ادیب تھے، جس طرح داڑھی
کے بغیر ادیب تھے، ان کی داڑھی کو ”جرم“ بنادینا تو مرعوبیت کے مارے ہوئے
کچھ سطحی اور بیمار سوچ کے حامل افراد کا کام ہے، جو کسی بڑی شخصیت پر
بھونڈی تنقیدوں کے ذریعے اپنا قد اونچا کرنے کی سعی لاحاصل میں مگن ہیں۔
ان خودساختہ دانشوورں کو صرف اسی بات کی تکلیف ہے کہ ایک داڑھی والے ادیب
کو اتنی عزت کیوں ملی؟حالانکہ اگر داڑھی اورٹوپی کی وجہ سے اشتیاق احمد کے
ناولوں کے معیار میں کمی آئی ہو تو اس صورت میں ان کے فن پر تنقید کی
جاسکتی ہے، لیکن جب داڑھی اور ٹوپی ان کے فن میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے تو اس
کے باوجود ان کو متنازعہ بنانے کی کوشش کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ اشتیاق
احمد کو عزت اپنے کام کی وجہ سے ملی ہے، کوئی داڑھی والا یا بغیر داڑھی
والا اس قدر کام کرے تو اس کو بھی وہی عزت ملے گی جو اشتیاق احمد کو ملی
ہے، جبکہ خودساختہ دانشوروں کا کہنا ہے کہ مذہبی طبقے نے اشتیاق احمد کو
صرف داڑھی کی وجہ سے عزت دی ہے ، ورنہ عبداللہ حسین، سعادت حسن منٹو، عصمت
چغتائی اور قرة العین حیدر کو بھی وہی مقام ملتا جو اشتیاق احمد کو دیا ہے۔
اس کو بے وقت کی راگنی ہی قرار دیا جاسکتا ہے، کیونکہ ہر چیز اپنے موقع پر
ہی اچھی لگتی ہے۔ اب اشتیاق احمد کا انتقال ہوا ہے، اس لیے یاد بھی انہیں
ہی کیا جائے گا، اشتیاق احمد کے انتقال کے موقع پر سعادت حسن منٹو، عصمت
چغتائی اور قرة العین حیدر کی رٹ لگانا جانا عقل سے بالاتر ہے۔ یقینا سب
باکمال ادیب تھے، لیکن اس کا یہ مطلب تو ہر گز نہیں کہ اشتیاق احمد کے
انتقال پر بھی انہیں کے لیے ”فاتحہ خوانی“ کی جائے اور یہ بھی ممکن ہے کہ
مذہبی طبقے کو اشتیاق احمد کا ”ادب“ سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی اور قرة
العین حیدر کے ”ادب“ سے زیادہ پسند ہو،اس لیے زیادہ عزت بھی انہیں ملی ہے۔
ان ”دانشوروں“ کا داڑھی سے بیر دیکھ کر تو یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ اگر ان
کے محبوب ادیب ابن صفی بھی داڑھی رکھ لیتے تو یہ لوگ ان کو بھی ”جاہل“ قرار
دے دیتے۔
آج کل کے خودساختہ فیس بکی دانشوروں کا حال تو یہ ہے کہ ایک اینٹ اٹھاﺅ تو
نیچے سے دس برآمد ہوتے ہیں۔ ان کا کام صرف اور صرف تنقید کرنا ہوتا ہے،
اپنی ریٹنگ بڑھانے کے چکر میں ایک متفقہ چیز میں بھی اختلاف کر ڈالتے ہیں۔
وہ ہر عمل کو صرف اپنی نظر سے دیکھتے ہیں اور پھر اس پر بحث کرتے ہوئے صرف
اپنی ذاتی پسند نا پسند کو ہی حتمی قرار دیتے ہیں۔ جو لوگ 35 سال صحافت میں
رہ کر اپنا کوئی مقام پیدا نہ کرسکے ہوں، فیس بک پر آکر وہی لوگ دانشور بن
بیٹھے ہیں۔ فیس بک پر جو مذہب کو جتنا زیادہ استعمال کرتا ہے وہ اتنا ہی
بڑا دانشور سمجھا جاتا ہے اور بلاوجہ مذہب، داڑھی اور ٹوپی پر طعن و تشنیع
کرنے والا تو ”پہنچا ہوا دانشور“ ہے، اس لیے بہت سے لوگ دانشور بننے کے لیے
بات بے بات داڑھی کو نشانے پر رکھتے ہیں، کیونکہ اسی حربے سے ان کی دکان
چلتی ہے۔ اسی حربے کو استعمال کرتے ہوئے بعض خودساختہ دانشوروں نے اشتیاق
احمد کی داڑھی میں بھی ناحق الجھنے کی کوشش کی ہے۔ انہیں اس سے پہلے آئینے
میں اپنے چہرے پر دھری ہوئی ڈاڑھی کی ”تہمت“ پر بھی کچھ توجہ دینی چاہیے
تھی!! |
|