کرشن چندر (مقالہ)

معروف اردو افسانہ نگار کرشن چندر کے فن و شخصیت سے متعلق ایک جامع مضمون جو پروفیسرڈاکترمجیب ظفرانوارحمیدی نے برطانیہ کے ایک سیمینار میں پڑھا

کرشن چندر (ایک مطالعہ)

تحریر:پروفیسرڈاکٹرمجیب ظفرانوار حمیدی (پاکستان)
(برطانیہ ’’اردو‘‘ میں شایع ہونے والا ایک قدیم مضمون )
کرشن چندر اردو کے مشہور و معروف افسانہ نگار ہیں۔ ان کی پیدائش 23 نومبر 1914 کو وزیر آباد، ضلع گجرانوالہ، پنجاب (پاکستان) میں ہوئی تھی۔ ان کے والد گوری شنکر چوپڑا میڈیکل افسر تھے جنہوں نے کرشن چندر کی تعلیم کا خاص خیال رکھا۔ کرشن چندر نے چونکہ تعلیم کا آغاز اردو اور فارسی سے کیا تھا اس لئے اردو پر ان کی گرفت کافی اچھی تھی۔ انہوں نے 1929 میں ہائی اسکول کی تعلیم مکمل کی اور 1935 میں انگریزی سے ایم اے کی سند حاصل کی۔

چونکہ کرشن چندر نے پنجاب اور کشمیر کی آب و ہوا میں ہوش سنبھالا اس لئے ان کے اکثر افسانوں اور ناولوں میں رومانیت کا عنصر زیادہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ ان کے شروعاتی افسانے اس وقت کے سماجی پہلوﺅں کو بہتر انداز میں پیش نہیں کر پاتے ہیں۔ لیکن دھیرے دھیرے جب ان کے ذہن نے پختگی اختیار کی اور سماجی معاملات سے ان کا سابقہ پڑا تو تحریری لہجے میں بھی تبدیلی دیکھنے کو ملی اور اس میں حقیقت پسندی کے ساتھ ساتھ طنز کا عنصر بھی شامل ہوتا چلا گیا۔

انہوں نے اپنے افسانوں میں اس دور کے معاشی، سیاسی اور سماجی صورت حال کی خامیوں، مثلاً بیجا رسم و روایات، مذہبی تعصبات، آمرانہ نظام اور تیزی سے اُبھرتے ہوئے دولت مند طبقہ کے منفی اثرات وغیرہ جیسے موضوعات کو شامل کیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ آخر میں تحریر کئے گئے ان کے زیادہ تر افسانوں میں زندگی کے اعلیٰ معیار اور اس کے اقدار پر بحث کی گئی ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ انہیں پڑھنے اور پسند کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ان کی کئی تصنیفات، مثلاً ’کالو بھنگی‘، ’مہالکشمی‘ اور ’ایک گدھے کی سرگزشت‘ وغیرہ قارئین کے ذہن میں اچھی خاصی جگہ بنا لیتی ہیں اور بار بار پڑھے جانے کے باوجود انہیں دوبارہ پڑھنے کے لئے مجبور کرتی ہیں۔ دوسرے الفاظ میں کہا جائے تو ان تصنیفات نے لازوال شکل اختیار کر لی ہے۔ کرشن چندر اپنے ہمعصر افسانہ نگاروں میں کافی مختلف تھے۔ کرشن چندر کو زبان اردو پر جو عبور حاصل تھا وہ شاید دوسروں کا مقدر نہیں۔ ان کی خوبصورت زبان قاری کو آغاز میں ہی اپنے قبضے میں لے لیتی ہے اور افسانہ کے آخر تک اس سے باہر نکلنے کا موقع نہیں دیتی۔

کرشن چندر کی خوبیوں کے معترف اردو کے معروف ناقد گوپی چند نارنگ بھی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ– ”کرشن چندر اردو افسانے کی روایت کا ایک ایسا لائق احترام نام ہے جو ذہنوں میں برابر سوال اٹھاتا رہے گا۔ ان کے معاصرین میں سعادت حسن منٹو اور راجندر سنگھ بیدی بے حد اہم نام ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ کرشن چندر 1955-60 تک اپنا بہترین ادب تخلیق کر چکے تھے۔ ان کا نام پریم چند کے بعد تین بڑے افسانہ نگاروں میں آئے گا“۔

کرشن چندر کے افسانوں کو مدنظر رکھتے ہوئے بلامبالغہ اس بات کا اعتراف کیا جا سکتا ہے کہ وہ نہ صرف محبت کے جذبہ اور احساس کو پورے انہماک اور حساسیت کے ساتھ اپنی کہانیوں میں پیش کرتے تھے بلکہ سماجی برائیوں کو بھی انتہائی کامیابی کے ساتھ قارئین کے سامنے رکھتے تھے۔ وہ ترقی پسند تحریک سے وابستہ تھے اور اسی لئے عام انسان کے حقوق کی بات کرتے تھے۔ ان کے دل میں امیروں کے تئیں بغاوت اور بدلے کا جذبہ تھا۔

’زندگی کے موڑ پر‘ اور ’بالکونی‘ جیسے رومانی افسانے نہ صرف جذباتی ہیں بلکہ قاری کو سوچنے پر بھی مجبور کرتے ہیں۔ جہاں ایک طرف ’زندگی کے موڑ پر‘ افسانہ پنجاب کی قصباتی زندگی کی انتہائی رومانی شبیہ پیش کرتا ہے، وہیں ’بالکونی‘ کشمیر کی خوبصورتی اور آب و ہوا کو مرکز نگاہ میں رکھ کر لکھی گئی۔ کرشن چندر کے یہ رومانی افسانے دوسرے افسانہ نگاروں کے ذریعہ لکھے گئے افسانوں سے انتہائی مختلف ہیں کیونکہ وہ ان افسانوں میں بھی روز مرہ کے عمل کے اندر سماجی عنصر کی تلاش کر لیتے ہیں۔ گویا کہ کرشن چندر کے رومانی افسانوں کی دنیا وہ دنیا نہیں ہے جیسا کہ محمد حسن عسکری نے تحریر کیا ہے کہ– ”اب رہی وہ رومانیت جسے عام طور پر کرشن چندر سے منسوب کیا جاتا ہے اور اس کے وہ افسانے جنہیں رومانی کہا جاتا ہے۔ تھوڑی دیر کے لئے اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ یہ افسانے رومانی ہیں، تب بھی کرشن چندر کی رومانیت دوسروں سے کافی مختلف ہے۔ وہ رومان کی تلاش میں ہجرت کر کے مالدیپ نہیں جاتا بلکہ یہ کوشش کرتا ہے کہ روز مرہ کی زندگی میں رومان کے امکانات ہیں یا نہیں۔ درحقیقت یہ افسانے رومانی نہیں ہیں بلکہ رومان کے چہرے سے نقاب اٹھاتے ہیں“۔کرشن چندر نے ہندوستان کی تقسیم کے موقع پر ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کو بنیاد بنا کر بھی کئی افسانے لکھے جن میں ’اندھے‘، ’لال باغ‘، ’جیکسن‘، ’امرتسر‘ اور ’پیشاور ایکسپریس‘ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ان افسانوں میں کرشن چندر نے اس وقت کی سیاست کے عوام مخالف کرداروں پر بلاجھجک اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے سیاسی برائیوں سے پیدا شدہ ماحول پر ضرب کرتے ہوئے انسانی رشتوں اور جذبات کو اہمیت دی ہے۔ وہ ان افسانوں میں فرقہ واریت کی اصل ذہنیت اور صورت حال کا باریک بینی سے جائزہ لیتے ہیں اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لئے انسانیت پر مبنی سماجی نظام کی تعمیر پر زور دیتے ہیں۔ ان کے یہ افسانے ہندوستانی ادب میں انسانیت کی حق میں آواز اٹھانے کا کام انجام دیتے ہیں اور قارئین کو غور و فکر کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔وہ اپنے ان خےالات کو اس خوبصورتی سے پیش کرتے ہیں کہ بات دل میں اترتی چلی جاتی ہے۔
کرشن چندر کے نادار افسانوں میں ’کالو بھنگی‘ کافی اہمیت رکھتا ہے۔ اس کہانی میں انہوں نے چھوٹی ذات سے تعلق رکھنے والے کالو بھنگی کے ذریعہ پسماندہ طبقات کی پریشان حال زندگی اور ان کے مسائل سے روشناس کرانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ اس کہانی میں صرف کالو بھنگی کی پریشانیوں اور جدوجہد کو ہی پیش نہیں کیا گیا ہے بلکہ پورے سماج کی پست ذہنیت کو بھی ظاہر کیا گیا ہے اور انہونے یہ سب اتنے بے باک انداز میں کیا ہے کہ بات دل کو چھو جاتی ہے۔

ایسی بات نہیں ہے کہ کرشن چندر صرف افسانہ نگاری کے لئے ہی معروف ہیں بلکہ انہوں نے ڈیڑھ درجن سے بھی زائد ناول لکھے ہیں۔ ان ناولوں میں سے ہی ان کی ایک شاہکار تصنیف ہے ’ایک گدھے کی سرگزشت‘۔ یہ تصنیف ہندوستانی ادب میں انہیں ایک علیحدہ شناخت فراہم کرتی ہے۔ انہوں نے ’ایک گدھے کی سرگزشت‘ میں ملک کی سیاست، حکومت اور سرکاری دفاتر کے کردار سے ہمیں انتہائی دلچسپ انداز میں روبرو کرایا ہے۔ اس مزاحیہ تصنیف کا اہم کردار ایک گدھا ہے جسے کرشن چندر نے ایک محنت کش اور مزدور طبقہ کے طور پر پیش کیا ہے۔ اس گدھے کے ذریعہ انہوں نے عام آدمی کی موجودہ صورت حال کو عیاں کرتے ہوئے ملک کے نظام میں پوشیدہ خامیوں کو انتہائی چالاکی اور بے باکی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ کرشن چندر نے ایک گدھے کا سہارا لے کر اس وقت کے حکمراں اور لیڈران کو کچھ اس انداز میں نشانہ بنایا ہے کہ وہ زخمی تو ہوتے ہیں لیکن مصنف پر کسی طرح کا الزام عائد نہیں کر پاتے۔

ان کا یہ مزاحیہ ناول رسالہ ’شمع‘ میں قسط وار شائع ہوا تھا اور لوگوں نے اسے کافی پسند کیا تھا۔ یہی سبب ہے کہ جب ’ایک گدھے کی سرگزشت‘ ختم ہو گئی تو لوگوں کا اصرار ہوا کہ اس کو مزید آگے بڑھایا جائے۔ لوگوں کی گزارش کو دھیان میں رکھتے ہوئے کرشن چندر نے ’گدھے کی واپسی‘ کے عنوان سے ایک نیا ناول تحریر کیا۔ بعد ازاں انہوں نے تیسراناول ’ایک گدھا نیفا میں‘ بھی تحریر کیا۔ ان تینوں ہی ناولوں نے بے انتہا مقبولیت حاصل کی اور اردو، ہندی کے علاوہ متعدد زبانوں میں اس کے کئی ایڈیشن شائع ہوئے۔
یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ صرف کرشن چندر نے ہی اردو کی خدمت نہیں کی تھی، بلکہ ان کے پورے خاندان نے دل و جان سے اردو کی ترویج و ترقی میں اپنا اہم کردار نبھایا۔ ان کے چھوٹے بھائی مہندر ناتھ نے بھی اردو افسانہ نگاری میں ایک نئے اسلوب کے ساتھ قدم رکھا تھا لیکن انہیں کرشن چندر جیسی شہرت و مقبولیت حاصل نہیں ہو سکی۔ ان کی بہن سرلا دیوی کے بارے میں بھی بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے کئی بہترین اردو افسانے تحریر کئے۔ لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ انہوں نے اپنا ذہنی توازن کھو دیا جس کے سبب پڑھنا لکھنا سب کچھ ختم ہو گیا۔ سرلا دیوی کے شوہر ریوتی شرن شرما بھی ایک شہرت یافتہ شخصیت رہ چکے ہیں اور انہوں اردو ڈرامہ اور اسٹیج کو زندہ کیا تھا۔ گویا کہ اردو ادب پر صرف کرشن چندر کے ہی احسانات نہیں ہیں بلکہ ان کے خاندان کے کئی افراد نے بھی اردو کی ترقی میں اپنا اہم تعاون پیش کیا ہے۔
قانون کی تعلیم حاصل کرنے والے کرشن چندر کی بالی ووڈ میں بھی شناخت تھی اور یہاں بھی وہ کافی مقبول ہوئے۔ انہوں نے کئی فلموں کی کہانیاں، منظرنامے اور مکالمے تحریر کئے۔ ’دھرتی کے لال‘، ’دل کی آواز‘، ’دو چور‘، ’دو پھول‘، ’من چلی‘، ’شرافت‘ وغیرہ ایسی فلمیں ہیں جنہوں نے کرشن چندر کی صلاحیتوں کو فلم ناظرین کے سامنے پیش کیا۔

کرشن چندر نے ادبِ اطفال کی اہمیت کو بھی تسلیم کرتے ہوئے ’’خرگوش کے کارنامے‘‘ اور ’’چڑیوں کی الف لیلہ‘‘ بیان کردی۔وہ بچوں کے ماہنامہ رسائل میں لکھا کرتے۔’’ایک گدھے کی کہانی اُسی کی زبانی ‘‘ تحریر کی۔حال ہی میں بچوں کے پاکستانی سائنٹفک مُجلّہ ’’نونہال‘‘(ہمدرد فاؤنڈیشن) نے کرشن چندر کے ناول ’’خرگوش کے کارنامے‘‘ ، ’’چالاک خرگوش کی واپسی‘‘ کے عنوان سے ریاضی کے ایک پروفیسر خواجہ عارف صدیقی المعروف ’’معراج‘‘ سے لکھوانا شروع کی ہے، معراج کراچی کے سرکاری کالج میں لیکچرر ہیں۔اُمید ہے بچّے اس کہانی نے حظّ حاصل کریں گے۔

کرشن چندر نے اپنی تحریری صلاحیتوں کو مختلف ذرائع سے لوگوں کے سامنے رکھا اور داد و تحسین حاصل کی۔ یہی سبب ہے کہ 8 مارچ 1977 میں جب ان کا انتقال ہوا تو محب اردو نے اسے اردو ادب کے لئے ایک ناقابل تلافی نقصان تصور کیا تھا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ وہ مسلسل لکھتے رہے اور جب ان کا انتقال ہوا تو بھی وہ ایک مضمون بعنوان ’ادب برائے بطخ‘ لکھ رہے تھے۔ افسوس کی بات ہے کہ انہوں نے اپنے اس مضمون کا آغاز تو کر دیا لیکن اسے ختم کرنے سے قبل خود ہی اس دارِ فانی کو الوداع کہہ دیا۔

آج کرشن چندر اس دنیا میں نہیں ہیں لیکن ان کے افسانے، ان کے ناول اور ان کے تحریر کردہ مضامین موجود ہیں۔ کرشن چند کے محبان اس کا مطالعہ کر رہے ہیں اور استفادہ بھی حاصل کر رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے طویل ادبی سفر کے دوران جو کچھ محسوس کیا اسے اپنی تحریروں کے ذریعہ لوگوں کے سامنے رکھ دیا اور اب وہی شاہکار کی شکل میں لوگوں کی زندگی میں رومانیت کا عنصر پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ سماجی بیداری کا کام بھی انجام دے رہی ہیں۔انہوںنے اپنے قلم کے ذریعہ نہ صرف اردو کی خدمت کی ہے بلکہ سماج کی برائیوں کو بھی اجاگر کیا ہے۔

کرشن چندر کی تصنیفات ہندوستانی ادب کے لئے ایک خاص اہمیت رکھتی ہے ، نئے دور میں بھی ان کی کہانیاں قاری کو ترغیب دینے کا کام انجام دیتی رہیں گی۔اردو ادب سے کرشن چندرکا تعلق دیکھئے ، 8 مارچ 1977 کو اپنے ڈیسک پر انہوں نے ’ادب برائے بطخ‘ کے عنوان سے ایک طنزیہ مضمون لکھنا شروع کیا۔ ابھی اس مضمون کا ایک لائن ’نورانی کو بچپن سے ہی پالتو جانوروں کا شوق تھا، کبوتر، بندر، رنگ برنگی چڑیاں‘بھی مکمل نہ کیا تھا کہ حرکت قلب بند ہوا اور وہ مالک حقیقی سے جا ملے۔
۔۔۔۔۔ مجیب ظفرانوارحمیدی
لیکچرر اُردو : کیڈٹ کالج پٹارو
BS 17
Dated: March 15 , 1983
 
Imran Ghori
About the Author: Imran Ghori Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.