خیبر پختونخواہ کیخلاف ہزارہ کے عوام کا
احتجاج تسلسل کے ساتھ جاری ہے، ڈویژنل صدر مقام ایبٹ آباد سمیت ڈویژن کے
دیگر اضلاع مانسہرہ، ہری پور اور اس سے ملحقہ علاقوں حویلیاں، گلیات،
شیروان، شنکیاری، قلندرآباد، میں احتجاجی مظاہرے سڑکوں پر ٹائر جلانا گویا
اب ان شہروں کی زندگی کے معمول کا حصہ بن چکا ہے۔
گزشتہ دس روز سے جاری احتجاج کا دائرہ کار پھیل کر سیاسی ورکروں کے بعد
طلبا، اساتذہ، وکلا، تاجروں سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی کے افراد کے دل کی
آواز بن گیا ہے۔ قومی اسمبلی سے اٹھارویں ترمیم کے حصہ کے طور پر منظور
ہونے والے نئے نام نے ڈویژن میں جو جذبات پیدا کئے ہیں یہ انہی کا نتیجہ ہے
کہ ن لیگ کے ارکان کی جانب سے بھی اب مرکزی قیادت سے بغاوت کرتے ہوئے نئے
صوبہ یا نام کی تبدیلی نامنظور تحریک میں شملویت اختیار کرنے کا عندیہ دے
دیا گیا ہے۔
اسی رپورٹ کے پہلے حصہ میں ہم یہ لکھ چکے تھے کہ میاں نواز شریف کی جانب سے
اپنا گڑھ سمجھے جانے والے علاقوں ایبٹ آباد، مانسرہ اور ہری پور کے عوام کا
مطالبہ رد کر کے وقتی مصالح کی خاطر جس بات کو قبول کیا گیا ہے وہ ہزارہ
ڈویژن سے ن لیگ کے خاتمے کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے، اس دوران نواز لیگ
سے وابستہ ارکان اسمبلی اپنی ابتدائی پریس کانفرنسوں میں پیش کئے گئے عذر
کو عوامی سطح پر قبول نہ کئے جانے کے بعد علاقے سے فرار اختیار کئے ہوئے
تھے۔ لیکن گزشتہ دو ہفتوں سے جاری احتجاج نے انہیں یہ نوشتہ دیوار پڑھا دیا
ہے کہ وہاں کے عوام اب صوبہ ہزارہ یا نئے نام کی منسوخی سے کم کسی چیز پر
بات کرنے کو تیار نہیں ہوں گے۔
قومی اسمبلی سے بخیر وخوبی اٹھارہویں ترمیم کی منظوری کے بعد اب یہ امکان
کم ہی ہے کہ سینیٹ میں اس پر کوئی خاص بات کی جا سکے تاہم اسمبلی سیشن کے
بعد سابق وزیر اعلیٰ سرحد اور ن لیگ کے رکن قومی اسمبلی سردار مہتاب احمد
خان اور کیپٹن (ر)صفدر کی جانب سے گفتگو میں یہ عندیہ دینا کہ وہ اس عوامی
مطالبے کی حمایت کرتے ہیں یہ ظاہر کر رہا ہے کہ معاملہ اتنا سادہ نہیں جتنا
اب تک اسے سمجھا جارہا تھا۔
ن لیگ سے وابستہ ذرائع کا کہنا ہے کہ دونوں ارکان اسمبلی اور ن لیگ کی
مرکزی و صوبائی قیادت کا حصہ کہے جانے والے رہنماﺅں کی گفتگو کو ایک ہارے
ہوئے سیاستدان کے مؤقف سے تعبیر کرتے ہوئے ہزارہ کی عوام نے سیاسی چال قرار
دیا ہے۔ جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ صوبہ ہزارہ کی تحریک اپنے منطقی
نتیجہ تک پہنچے بغیر ختم ہونے یا اپنی شدت میں کمی لانے کو تیار نہیں ہے۔
ابتداء میں محض مطالبہ تک محدود رہنے والے احتجاجی جلسوں نے آگے بڑھ کر
مخالفانہ روش بھی اپنا لی ہے جس کا ثبوت ایبٹ آباد میں عوامی نیشنل پارٹی
کے دفتر کو جلایا جانا اور ریلیوں میں شرکاء کا پختونخواہ کے خلاف نعرے
لگانا ہے۔ مختلف سیاسی جماعتوں و سماجی حلقوں کی جانب سے تشکیل دی گئی
ہزارہ ایکشن کمیٹی نے جمعہ کو یوم سیاہ منانے کا اعلان کیا تھا۔ قبل ازیں
جمعرات اور بدھ کو بھی ایبٹ آباد، مانسہرہ، ہری پور، قلندرآباد، حویلیاں،
گلیات، شیروان سمیت متعدد علاقوں میں ریلیاں نکالی گئی تھیں۔ جب کہ مرکزی
احتجاجی جلوس ایبٹ آباد شاہراہ ریشم پر نکالا گیا جس سے خطاب کرتے ہوئے
مقررین کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخواہ پاکستان کو توڑنے کی گھناﺅنی سازش ہے
جس میں اندرون اور بیرون ملک دونوں قوتیں شامل ہیں لیکن ہزارہ بھر کے طلبا،
وکلا، سیاستدان، تاجر اور دیگر مکتبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد
و گروہ اس سازش کو کسی صورت کامیاب نہیں ہونے دیں گے، اس دوران ایکشن کمیٹی
کے رہنماﺅں سمیت دیگر مقررین نے اے این پی اور ن لیگ کی قیادت کو سخت ہدف
تنقید بناتے ہوئے کہا کہ ملکی سطح پر مفاہمت کی بات کرنے والوں کو اپنے
اصولوں سے روگردانی کرنا اور ووٹروں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچا کر من مانے
فیصلے کرنا کیونکر زیب دیتا ہے۔ ریلی کے شرکاء نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ
صوبہ سرحد کے نام کے لیے فوری طور پر ریفرنڈم کا اعلان اور ہزارہ کو صوبہ
سرحد کے بجائے اسلام آباد کے ساتھ منسلک کیا جائے۔ عوامی احتجاج اور مسلسل
جلاﺅ گھیراﺅ کا نتیجہ ہے کہ اب وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو کہنا پڑا کہ
ہزارہ ڈویژن میں صوبہ سرحد کے نام کی تبدیلی کے حوالے سے ہونے والے احتجاج
کا مسلم لیگ(ن) کے قائد میاں نواز شریف نے نوٹس لے لیا ہے اور ہم نے ہزارہ
ڈویژن کے ارکان قومی اسمبلی کو احتجاج میں حصہ لینے کی اجازت دے دی ہے۔ ن
لیگ کے رہنما مہتاب عباسی نے ہزارہ صوبہ ہزارہ کے قیام کا مطالبہ کرتے ہوئے
پارلیمنٹ ہاﺅس کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہزارہ ڈویژن کو
علیحدہ صوبہ بنانے کا مطالبہ اب شدت اختیار کر گیا ہے اور اسے زیادہ دیر تک
نہیں روک پائیں گے۔ سردار مہتاب احمد خان کی اس گفتگو سے یہ بات تو ثابت ہو
رہی ہے کہ وہ مطالبے کی حمایت میں نہیں بلکہ اسے روکے نہ جا سکنے کی وجہ سے
احتجاج کا حصہ بن رہے ہیں۔ جب کہ یہی کام وزیر اعلیٰ پنجاب ن لیگ کے صدر
ہونے کے ناطے دئے گئے بیان میں کر رہے ہیں۔ گویا دوسرے لفظوں میں وہ مقتدر
قوتوں کو جنہوں نے انہیں اٹھارہویں ترمیم کی منظوری کے عمل کا حصہ بننے پر
مجبور کیا ہے کو یہ یقین دلا رہے ہیں کہ وہ تو ایسا نہیں چاہتے تھے تاہم
چونکہ عوام کی یہی مرضی ہے اسلئے انہیں ایسا کرنا پڑے گا۔
مہتاب احمد خان نے قبل ازیں پارلیمنٹ ہاﺅس کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے
ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ ن لیگ کا رکن ہونے کے ناطے انہوں نے18 ویں ترمیم کے
بل کی حمایت کی ہے لیکن صوبہ سرحد کے نئے نام پر ان کی جماعت کے تحفظات
برقرار ہیں کیونکہ لسانی بنیادوں پر صوبوں کے نام رکھنے سے ملک کے مختلف
علاقوں میں تحریکیں شروع ہوجائیں گی۔ مسلم لیگ ن کے رکن قومی اسمبلی کیپٹن
(ر) صفدر نے کہا کہ علاقہ کے عوام کی خواہشات کا احترام کرنا ہمارا فرض ہے
اور ہم سمجھتے ہیں کہ صوبے کے نام کا مسئلہ ریفرنڈم کے ذریعے ہی حل ہوگا۔
ن لیگ رہنماﺅں کے ان بیانات کا فائدہ کیا ہوتا ان کا الٹا اثر لیتے ہوئے
خیبر پختونخوا کے خلاف اور صوبہ ہزارہ کے حق میں تاجر بھی سڑکوں پر نکل آئے۔
حالانکہ مذکورہ تینوں اضلاع کے تاجروں کے متعلق یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ ن
لیگ کے سپورٹر ہیں جس کا سبب لیگی دور حکومتوں میں ان کو بھرپور طریقوں سے
پرمٹوں اور کوٹوں سے نوازا جانا تھا۔تاجروں کی جانب سے احتجاجی تحریک میں
شمولیت کے بعد ہزارہ ڈویژن کے مختلف علاقوں میں مکمل شٹر ڈاؤن ہڑتال رہی جس
کے دوران بازار و مارکیٹیں بند رہیں۔ خیبر پختونخوا کے خلاف ہری پور میں
شٹر ڈاؤن ہڑتال رہی جس کے نتیجے میں مرکزی بازار سمیت تمام مارکیٹیں بند
رہیں اور تاجروں نے تحریک صوبہ ہزارہ میں عملی طور پر شرکت کی۔ مقامی افراد
اور عینی شاہدین کا اس احتجاجی تحریک کے بارے میں یہ کہنا ہے کہ اس سے قبل
اتنی بڑی تعداد میں عوام اور سیاسی و سماجی رہنماﺅں کو کسی ایک ایشو پر
اتنا زیادہ اکٹھا نہیں دیکھا گیا۔ شٹر ڈاﺅن ہڑتال کے موقع پر تاجرز تحفظ
گروپ کے جنرل سیکرٹری عبدالباسط و دیگر نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا
کہ تحریک صوبہ ہزارہ میں عوام اور تاجر برادری کی تاریخی شرکت اس بات کا
عملی ثبوت ہے کہ انہوں نے خیبر پختونخوا کو یکسر مسترد کر کے اس متنازع نام
کی حمایت کرنے والے ممبران اسمبلی اور وزراء پر بھی مکمل عدم اعتماد کا
اظہار کر دیا ہے اور اب ایسے ممبران اسمبلی و وزراء جو عوامی اعتماد پر
پورا نہیں اتر سکے انہیں چاہیے کہ وہ اسمبلیوں سے مستعفی ہو کر تحریک صوبہ
ہزارہ میں شریک ہو کر عوامی نمائندگی کا حق ادا کریں بصورت دیگر عوام اور
تاجر آئندہ الیکشن میں ان ممبران اسمبلی اور وزراء کو مسترد کر دیں گے۔
احتجاجی افراد کا یہ بھی کہنا تھا کہا کہ خیبر پختونخوا کو دفن کر کے صوبہ
ہزارہ بنا کر دم لیں گے۔ ایبٹ آباد اور مانسہرہ میں بھی اس موقع پر شٹر
ڈاؤن ہڑتال کی گئی اور احتجاجی ریلی میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی۔ احتجاج
کے بڑھتے ہوئے دائرہ نے بین الاقوامی میڈیا کو بھی اس میں دلچسپی لینے پر
مجبور کر دیا ہے بی بی سی کے مطابق خیبر پختونخوا نامنظور تحریک کے سربراہ
اور سابق ناظم ایبٹ آباد سردار حیدر زمان کی قیادت میں سب سے بڑی احتجاجی
ریلی ایبٹ آباد میں منعقد ہوئی۔ ایبٹ آباد میں احتجاجی ریلی کے دوران خیبر
پختونخوا کے نام کے خلاف نعرے بازی کی گئی۔ احتجاجی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے
سردار حیدر زمان نے کہا کہ پختونخواہ کو کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا
اور اس مقصد کے لیے ان کی تحریک جاری رہے گی۔ سابق صوبائی وزیر سردار محمد
ادریس کا کہنا تھا کہ پختونخوا کے نام کو پختونوں کی بھی حمایت حاصل نہیں
ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہزارہ صوبہ بن کر رہے گا۔
مسلسل احتجاج اور عوام کی جانب سے نئے صوبہ کے قیام کے بغیر کسی بات پر
رضامند نہ ہونے نے یہ طے کر دیاہے کہ وفاقی حکومت کو عوامی مطالبے کو مدنظر
رکھ کر آئندہ کام کرنا ہوگا۔ ہزارہ ایکشن کمیٹی کی جانب سے صوبے کے نام پر
ریفرنڈم کروانے کے مطالبے سمیت، نئے صوبے کے قیام اور موجودہ نام کی
نامنظوری کے حوالے سے کی جانے والی کوششیں کتنا نتیجہ خیز ثابت ہوتی ہیں یہ
آنے والا وقت ہی طے کرے گا لیکن یہ طے ہے کہ اب اس مطالبہ کو بغیر عملی
کوششوں کے زیادہ دیر روکا نہیں جا سکتا۔ |