دو باتیں - اشتیاق احمد کے لیے

از قلم : متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ
1944ء کے وسط کی بات ہے، 4 جون اپنی آخری سانسیں گن رہا تھا، شام ساڑھے سات بجے جب سورج اپنی کرنیں سمیٹ کر جانبِ غروب روبہ سفر تھا عین اسی وقت چند فتنہ پرور لوگ سچےاور آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بھولی بھالی امت کو مرتدبنانے کے منصوبے…… تعلیم الاسلام کالج قادیان کے باقاعدہ افتتاح کرنے…… پر عمل پیرا تھےاور اہل اسلام کے اساسی عقیدہ ختم نبوت پر شب خون مارنےکےلیے پَر تول رہے تھے کہ دوسرے ہی دن 5 جون 1944ء کو خدائے حکیم و خبیر نے عقیدہ ختم نبوت کا ایک مجاہد پیدا فرمادیا۔

بھارت کی ریاست پانی پت……جس کی زمین شہدائے اسلام کے مبارک لہو سے سیراب ہو چکی تھی ……کے ضلع کرنال )مشرقی پنجاب (میں مشتاق احمد ولد گل محمد کے ہاں ایک بچہ پیدا ہوا، جسے دنیا ”اشتیاق احمد“ کے نام سے یاد کرتی ہے ۔ظالم برطانوی سامراج سے آزادی اور تقسیم برصغیر کے وقت قیامِ پاکستان کے دوران ان کا خاندان ہجرت کر کےپاکستان کے شہر جھنگ میں سکونت پذیر ہوا۔

اشتیاق احمد نے ابتدائی تعلیم شیخ لاہوری اسکول جھنگ صدر میں حاصل کی جبکہ میٹرک تک اسلامیہ ہائی اسکول جھنگ زیر تعلیم رہے ۔آپ کےعلاوہ آپ کے چار بہن بھائی اور بھی تھے ۔اشفاق احمد ، اخلاق احمد اور آفتاب احمد اور ایک بہن مسماۃ نسیم صاحبہ ۔1967ء میں آپ نے شادی کی ۔ آپ کی اولاد میں4 بیٹیاں اور 5 بیٹے ہیں ۔

اشتیاق احمد کو اکثر لوگ محض ایک ”ناول نگار“ کی حیثیت سے جانتے ہیں ۔وہ ابن صفی ، امین نواز )مینا ناز(، عبداللہ حسین، شوکت صدیقی ، ڈپٹی نذیر احمد ، خالد اختر ، منشی پریم چند ، مرزا ہادی رسوا اور قرۃ العین حیدر جیسے محض ناول نگار نہیں تھے کہ جن کے ناولوں میں الفاظ کی مینا کاری اور خیالات وتصورات کا ہجوم ہی ہجوم ہو ۔

بالکل بجا کہ وہ عالمی شہرت یافتہ معروف و مقبول ناول نگار تھے ۔800 سے زائد ناول ان کے تخلیقی شاہکار ہیں۔ ہزارہا مضامین نے ان کی نوکِ قلم سے جنم لیا ۔ان کی تحریر کے ڈھانچے میں اصلاحِ معاشرہ کا” انسان“ جاگتا رہتا تھا ۔ بَلا کی سلاست ، سسپنس ، جاسوسی کردار، معاشرتی جرائم کے خاتمے کے منصوبوں کی جھلک ان کی تحریروں میں نمایاں نظر آتی ہے ۔ وہ گھنٹوں گھنٹوں بے تکان لکھتے رہتے ۔ وہ الفاظ و معانی اور ان کے ترکیب استعمال کے خوب ماہر تھے ۔ ادب کی صنف ناول سے ان کو خاص شغف تھا ۔ اردو نثر کے شناور تھے ۔ان کی تحریر ان کی شخصی وضع قطع کی طرح ”سادگی“ کے نقطے کے گرد دائرے کو مکمل کرتی ہے ۔

لیکن ان کی زندگی ….جسے وہ بذات خود شعور والی زندگی کہتے تھے ….سے خود ان کے قارئین کا بہت بڑا حلقہ بہت کم واقف ہے ۔اشتیاق احمد کی زندگی کا رخ جب اسلامی عقائد و نظریات ، حقانیت مسلک اہل السنت والجماعت اور اخلاقی تہذیب و تمدن کی طرف ہوا تو ان کے قلم نے ان کے تحفظ کا فریضہ بھی بخوبی انجام دیا ہے ۔ خصوصا ً عقیدہ ختم نبوت اور حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے انہوں نے دلائل ،حقائق اور اپنے دِلی جذبات کو الفاظ کا عمدہ لباس پہنایا جس کے بدلے یقیناً خدا انہیں جنت کا لباس پہنائیں گے ۔

جھوٹے مدعی نبوت مرزا قادیانی کا جو نقشہ انہوں نے اپنے ناول " تھالی کا بینگن " میں کھینچا ہے بطور خاص پڑھنے کے قابل ہے ۔

”وادئ مرجان“ میں مرزائی ذریت کو جس طرح چاروں شانے چت کیا ہے ،قابل دید ہے ۔
”انشارجہ کا جاسوس“ میں جہاں عقیدہ ختم نبوت کا پرچار کیا ہے وہاں مرزائیت کو بے نقط سنائی ہیں ۔
”قیامت کے باغی “اور ”قاتل کا قاتل“ نامی اپنے ناولوں میں عیسائیت کی خوب خبر لی ہے ۔
”حسین رضی اللہ عنہ کی باتیں“ نامی اپنے شاہکار ناول میں جہاں نواسہ رسول کی منقبت اور فرمودات سے آشنائی کرائی ہے وہاں پر جھوٹے مدعی حب آل نبی سے آگاہی بھی کرائی ہے ۔
”سفر نامہ عمرے کا “میں عقیدہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مسئلہ توسل پر روشنی ڈالتے ہوئے رقمطراز ہیں :

میری نظر مفتی صاحب )مفتی عبدالرحیم المعروف بہ ”استاد صاحب“… جامعۃ الرشید کراچی (پر پڑی وہ کچھ فاصلے پر آگے جا کر رک گئے تھے اور میری طرف دیکھ رہے تھے……اس وقت وہ بولے : اشتیاق صاحب آپ گنبد خضریٰ دیکھ رہے ہیں ؟
”جی ۔۔۔ جی ہاں“۔ یہ کہہ کر میں نے گنبد خضریٰ کی طرف سر اٹھا دیا ۔آنکھیں اس پر جم گئیں۔
آپ کو اس میں ایک سوراخ نظر آ رہا ہے ؟
”جی۔۔ سوراخ ؟“ میں نے حیران ہو کر کہا ۔ کیونکہ میرے خیال میں گنبد خضریٰ میں سوراخ کا بھلا کیا کام تھا؟
وہ دیکھیے انہوں نے انگلی کے اشارے سے مجھے سوراخ دکھایا
اب مجھے سوراخ نظر آ گیا ۔
جی ہاں سوراخ نظر آگیا ۔ لیکن یہاں یہ سوراخ کیسا؟
اس سوراخ کی بھی ایک کہانی ہے۔ یہ کہتے وقت مفتی صاحب مسکرا دیے ۔
”کہانی ؟“ میرے منہ سے نکلا۔

مفتی صاحب فرمانے لگے : بہت مدت پہلے کی بات ہے ایک بار بارشیں بالکل نہ ہوئیں خشک سالی ہو گئی لوگ علماء کے پاس آئے ان سے درخواست کی انہوں نے بھی بارش کے لیے دعائیں کی لیکن بارش پھر بھی نہ ہوئی اب تو علماء سر جوڑ کر بیٹھ گئے کہ کیا کیا جائے؟ آخر کسی نے مشورہ دیا گنبد خضریٰ میں سوراخ کر دیا جائے… یہ بات بہت عجیب تھی لیکن اس پر عمل کیا گیا جونہی سوراخ کیا گیا ایک چھوٹا سا بادل اٹھااور سوراخ کے اوپر آ کر رک گیا پھر اس سے بارش شروع ہوگئی بارش کے قطرات اس سوراخ سے اندر جانے لگے اس کے بعد بادل بڑھا اور چاروں طرف بارش ہونے لگی ۔۔ خوب بارش ہوئی ۔مفتی صاحب یہاں تک کہہ کر خاموش ہو گئے تو میں بے ساختہ بول اٹھا: سبحان اللہ !میں یہ واقعہ عمرے کے سفر نامے میں ضرور شائع کروں گا ۔
اسی لیے تو آپ کو سنایا ہے وہ مسکرا دیے ۔
……اب دوسرا واقعہ سنیے ۔ یہ بھی کافی مدت پہلے کا واقعہ ہے مدینہ منورہ کے گورنر )نام یاد نہیں رہا (نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا آپ ان سے فرما رہے تھے : ”میں بد بو محسوس کر رہا ہوں ۔“
ان کی آنکھ کھلی بہت پریشان ہوئے علماء کرام کو بلا کر اپنا خواب بیان کیاوہ بھی سوچ میں پڑ گئے ۔۔آخر ایک عالم نے مشورہ دیا : گنبد خضریٰ کی تلاشی لی جائے۔
اس میں راستہ نکالا گیا اندر کا جائزہ لیا گیا وہاں ایک کبوتر مرا پڑا تھا اور اس میں سے بدبو اٹھ رہی تھی…کبوتر کو نکال کر ایسے کسی پرندے کے اندر جانے کے تمام راستے بند کر دیے گئے۔
مفتی صاحب یہاں تک سنا کر خاموش نہیں ہوئے فوراً ہی بولے :
اس واقعے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر مبارک میں حیات ہیں ۔۔ ویسے تو اس میں اہل السنت والجماعت میں سے کسی کو اختلاف نہیں کہ حضرات انبیاء علیہم السلام اپنی قبور میں زندہ ہیں اور نمازیں پڑھتے ہیں ۔ میں نے فوراً مفتی صاحب سے پوچھا:کیا میں یہ واقعہ بھی سفر نامہ عمرہ میں شامل کر سکتا ہوں ؟
مفتی صاحب مسکرائے اور فرمانے لگے : ہاں کیوں نہیں !یہ تو اجماعی عقیدہ ہے ۔
سفرنامہ عمرے کا ص 45 ، 46
اشتیاق احمدنے کئی قلمی نام بھی استعمال کئے جن میں سب سے زیادہ معروف "عبد اللہ فارانی"ہے۔اس قلمی نام سےبھی آپ نے 8 تصنیفات پر مشتمل مقبولِ عام سلسلہ "قدم بقدم" لکھا۔ جس میں اسلامی معلومات کا کافی زیادہ ذخیرہ موجود ہے ۔
1۔ سیرت النبی ﷺ قدم بقدم
2۔ اسلامی جنگیں قدم بقدم
3۔ واقعات صحابہ کے قدم بقدم
4۔ ائمہ اربعہ قدم بقدم
5۔ امہات المؤمنین قدم بقدم
6۔ سیرت الانبیاء قدم بقدم
7۔ عمرِ ثانی قدم بقدم
8۔ خلافتِ راشدہ قدم بقدم
”ژاپ کے جلاد “نامی اپنے ناول کے مقدمے میں ”دو باتیں“ کے عنوان سے رقمطراز ہیں :
”پہلے ناول صرف ناول ہوتے تھے بعد میں میرے ناولوں میں اسلامی رنگ شامل ہونے لگا اور ہوتے ہوتے بات بہت آگے بڑھ گئی۔ اسلامی رنگ کیا آیا۔ مرزائیت کے خلاف، شرک اور بدعت کے خلاف، دہریت کے خلاف ، شیعت کے خلاف، اسلام دُشمن عناصر کے خلاف، عیسائیت کے خلاف قلم چلنے لگا تو ناولوں کی اشاعت میں فرق آگیا اور تعداد فروخت کم ہونے لگی ۔۔۔۔۔مجھے کچھ دوستوں نے مشورہ دیا کہ میں یہ روش چھوڑ دوں اور صرف ناول لکھوں ۔ لیکن میں نے اس مشورے کو رد کر دیا کیونکہ میرے ذہن میں یہ بات رچ بس گئی تھی کہ اس سے پہلے کی زندگی تو میں ضائع کر چکا ہوں میری اصل زندگی تو اسی دن سے شروع ہوئی تھی جب میں نے وادی مرجان لکھا تھا ۔۔۔ یہاں تک کہ ناولوں کے آخر میں مسئلہ ختم نبوت شائع ہونے لگا ۔ پھر انجمن دعوت فکر وعمل کے اسباق شائع ہونے لگے ۔عیسائیت سے چند سوال شائع ہونے لگے…… تعداد اشاعت کم ہوتے ہوتے کافی حد تک کم ہو گئی لیکن پھر ایک جگہ رک گئی اس کا گرنا بند نہ ہوتا اور یہ نہ رکتی تب بھی میرا فیصلہ یہی تھا کہ اس کام سے باز نہیں آؤں گا کیونکہ دین کی تبلیغ کا ایک طریقہ یہ بھیہے….بے شمار خطوط اس قسم کے موصول ہوتے ہیں کہ آپ کے فلاں ناول نے ہماری آنکھیں کھول دیں ہم تو اب تک گمراہی کے اندھیروں میں بھٹک رہے تھے……سو میں نے خیال کر لیا کہ آخرت کی تجارت اس دنیا کی تجارت سے دس گنا بہتر ہے ۔“
مشکلات کی گرداب میں پھنسے رہنے کے باوجود مذہبِ اسلام اور احکامِ اسلام پر جس ثابت قدمی سے انہوں نے زندگی گزاری ہے ۔ وہ بہت کم خوش نصیبوں کے حصے میں آتی ہے ۔
میری ان سے ایک بار ملاقات ہوئی ۔ چھوٹے قد کے باوجود بڑےہمت و حوصلے کے مالک تھے ۔ علم دوست ، مہمان نواز ، ملنسار اور خوش اخلاق انسان تھے ۔
راقم کا تذکرہ انہوں نےدو بار کیا ہے ۔ پہلی بار ان کلمات سے نوازا :
”پروگرام کی آخری تقریر حضرت مولانا محمد الیاس گھمن صاحب کی تھی …مولانا الیاس گھمن صاحب کی تقریر کا ایک امتیاز ہے جو آج تک کسی اور مقرر کے حصے میں نہیں آیا رکے بغیر اتنی رفتار سے تقریر کرتے ہیں کہ سننے والوں کو بہت پیچھے چھوڑ جاتے ہیں ۔ سننے والے بھاگ دوڑ کر ان کی تقریر کا پیچھا کرتے ہیں لیکن انہیں پکڑا نہیں جا سکتا ……ان کی تقریر کے دوران میں نے کئی بار اپنے سر کو زور دار جھٹکے دیے کہ کسی طرح میرا دماغ ان کی تقریر کا ساتھ دے سکے ……لیکن یہ ممکن نہیں ہو سکا وہ آگے ہی آگے نکلتے چلے گئے اور میں کہیں بہت پیچھے ان کی تقریر کے نکات سمیٹتا رہ گیا …اللہ اور زور زبان عطا فرمائے ۔ آمین“
بچوں کا اسلام شمارہ نمبر 544
دوسری اور آخری بار وفات سے کچھ دن پہلے ان الفاظ سے اپنی محبت کا ثبوت دیا :
”مولانا محمد الیاس گھمن صاحب کی برق رفتار تقریر ایک سماں باندھ دیتی ہے اور ہم سب کی عقلوں کو بہت پیچھے چھوڑتی ہوئی آگے نکل جاتی ہے لیکن آپ کو ان کا آگے نکل جانا بھی پسند آئے گا اور اپنا پیچھے رہ جانا بھی ۔ “
بچوں کا اسلام 18 اکتوبر 2015ء

اس سے قارئین اندازہ کر سکتے ہیں کہ میرا اور اشتیاق احمد رحمہ اللہ کا کتنا گہرا اور پیار والا تعلق تھا۔
چند روز پہلے وہ اپنے ناولز کے حوالے سے ایک ادبی تقریب میں شرکت کے لئے کراچی روانہ ہوئے ۔ ایکسپو سینٹر میں ہونے والے عالمی کتب میلے میں بھی انہوں نے شرکت کی تھی۔ شرکت کے بعد واپس اپنے آبائی شہر جھنگ جانے کے لئے ایئرپورٹ پر موجود تھے کہ اچانک انہیں دل کا دورہ پڑا جس کے باعث وہ جانبر نہ ہوسکے۔ اور جان جان آفریں کے سپرد کر دی ۔

اشتیاق احمد کے جانے سے نوجوانوں کے اذہان پر اسلامی رنگ کہیں مدھم نہ پڑ جائے آئیے اشتیاق احمد کے جذبات اور فن کو زندہ رکھنے کے لیے عزم بھی کریں اور اس کے لیے خوب محنت بھی ۔

muhammad kaleem ullah
About the Author: muhammad kaleem ullah Read More Articles by muhammad kaleem ullah: 107 Articles with 122180 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.