ساٹھ سالہ عبدالحّی نے ہندوستان کی فلم انڈسٹری میں تیس سال تک
ساحرؔلدھیانوی کے نام سے راج کیا، جس کی مثال آج تک تاریخ میں نہیں ملتی ،کون
جاتنا تھا کہ زمانے کے تلخ ترین حالا ت میں آنکھ کھولنے ولا یہ بچہ برصغیر
پاک وہند کا فلمی مفکر اور روشن ستارہ بن کر اُبھر ے گا۔ ساحرؔ کی قابلیت
کے بارے میں بات کرنے سے قبل ان کی ابتدائی زندگی پر اک نگاہ ڈالتے ہیں۔
8مارچ 1921ء کو بھارتی پنجاب کے ضلع لد ھیانہ میں فضل دین کے ہاں ایک بچہ
پیدا ہواجس کا نام عبدالحّی رکھا گیا۔ اسکی وجہ اُن کے والد فضل دین کی
اپنے پڑوسی عبدالحی سے لڑائی اور مقدمہ بازی تھی۔ساحرؔکے والد صاحب اونچی
آواز میں ساحرؔ کو برُابھلا کہا کرتے تھے اور وہ اس طرح اپنے پڑوسی عبدالحی
سے انتقام کی لگی ہوئی آگ کو ٹھنڈا کرتے ۔ساحرؔکے والد کی زمیندارانہ سوچ
کا اندازہ انکی تیرہ شادیوں سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے ،ساحرؔ ابھی چند ہی
برس کے تھے کہ اُن کے والد اور والدہ میں علیحدگی ہو گئی۔ساحرؔ کی پرورش کا
سارا بوجھ اُن کی والدہ پہ آن پڑااورانہوں نے لدھیانہ کے غریب علاقے میں
چھوٹے سے مکان کو اپنا مسکن بنا لیا تھا اور ساحرؔ کی پرورش کو اپنی ز ندگی
کا مقصد۔ایک حساس بچے کی حیثیت سے ساحرؔاپنی ماں کی محرومی کو بچپن سے ہی
محسوس کرنے لگا تھا،تبھی تکلیف دہ حالا ت نے ساحرؔ کوخوف زدہ کر رکھا تھا ۔
شائد یہی وجہ تھی کہ وہ خود کو دوستوں ،مداحوں اور پرستاروں کی بھیڑ میں
تنہا محسوس کرتے تھے۔
ساحرؔ نے کوئی شادی نہیں کی مگر یہ بھی سچ ہے کہ ساحرؔعاشق مزاج آدمی تھے
مگر نجانے کیوں کوئی بھی عورت اُن کے عشق میں مبتلاہوتی تو وہ فرار ہو جاتے
۔ ساحرؔ نے پہلا عشق سیاسی کارکن کی بیٹی پریم چوہدری سے کیامگروہ تپ دق کا
شکار ہو کر مرگئی۔پھر اُس کے بعد ساحرؔؔصاحب کا عشق کالج کی ایک لڑکی سے
ہوا تو کالج انتظامیہ کو پتہ چلنے پر دونوں کو کالج سے نکال دیا
گیا۔ساحرؔکو شادی کے بہت سے مواقع بھی ملے، یہاں تک کہ ایک مشہور افسانہ
نگار حاجرہ سے اُن کی منگنی بھی ہوئی اور اچانک ایک دن ساحرؔنے شاری کرنے
سے انکار کر دیا ۔بہت سی ایسی عورتیں تھی جو ساحرؔکی خاظر تن من دھن لٹانے
کو تیار تھیں،ان میں سے امرتا پریتم ایسی خاتون تھی جس نے نہ صرف ساحرؔسے
محبت کی بلکہ اُس کی ایک دیوتا کی طرح پوجا بھی کی اور اس محبت کا ذکر
امرتا پریتم نے اپنی بہت سی کتابوں میں بھی کیا مگرساحرؔنے اُس کو بھی اپنا
رفیقِ حیات نہ بنایا۔
لوگ عورت کو فقط جسم سمجھ لیتے ہیں
روح بھی ہوتی ہے اس میں کہاں سوچتے ہیں
بیٹی کی رخصتی کے وقت والدین کے جو جذبات ہوتے ہیں ان کو بھی ساحر ؔ
لدھیانوی نے اچھے انداز میں بیان کیا
بابل کی دعائیں لیتی جا ، جا تجھ کو سکھی سنسار ملے
میکے کی کبھی نہ یاد آئے ، سسرال میں اتنا پیار ملے
ایک فن کار کی حیثیت سے ساحرؔ لدھیانوی نے جب باقاعدہ شاعری کا آغاز کیا تو
فلمی گیت کے حوالے سے ساحرؔنے یہ بھی کہا
میں نے جو گیت ترے پیار کی خاطر لکھے
آج ان گیتوں کو بازار میں لے آیا ہوں
آج چاندی کے ترازو میں تلے گی ہر چیز
میرے افکار ، مری شاعری میرا احساس
ساحر ؔ ہمیشہ جنگ و جدل کے خلاف آواز اٹھاتے رہے۔ جس کی مثال ان کے ان
مصرعوں میں واضح طور دیکھی جا سکتی ہے۔
خون اپنا ہو یا پرایا ہو
نسل ِ آدم کا خون ہے آخر
جنگ مشرق میں ہو کہ مغرب میں
امن ِ عالم کا خون ہے آخر
ساحرؔنے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا تھا کہ وہ اچھا شاعر ہے ۔البتہ اُس کی ایک
ہی خواہش تھی جس کا اظہار وہ اکثراپنے دوستوں میں بھی کرتا تھاوہ کہتا تھا
کہ وہ ایک نہ ایک دن ایسا فلمی نغمہ نگاربنوں گا جس کی مثال تاریخ میں نہیں
ملے گی۔پھر ایسا ہی ہوا کہ ہندوستان کی فلم انڈسٹری میں ایسا دور آیا کہ ہر
فلم ساز اپنی فلم کے گانے ساحرؔسے لکھوانا چاہتا تھامگر ساحرؔاپنی مرضی سے
کا م کرتا تھا۔ اب ساحرؔکا عروج شروع ہو گیاتھا،بنگلہ ،کار ،بینک ،بیلنس
اور بہت کچھ ساحرؔنے باآسانی صاصل کر لیا تھا، اب پروڈیوسر ساحرؔ کا تعاقب
کرتے تھے مگر وہ صرف من پسند کام کو اپنایا کرتا تھا ۔
فاتح شاعر مگر تنہا آدمی ساحرؔ لدھیانوی کو فلم کی دنیا میں شہرت حاصل تو
تھی ہی، مگر ساتھ ہی ساتھ مسائل اور تلخ تجربات نے ساحرؔکے اندر سے ایسے
دانشوراورذی شعور شاعر کو نکالا،جس نے تغافل کی نیند سے بہت سے لوگوں کو
بیدار کیا۔ گورنمنٹ کالج لدھیانہ کی گولڈن جوبلی کے موقع پر ساحرؔ نے نئی
نسل کے لیے ایک نظم لکھی جس کا عنوان تھا اے نئی نسل ۔۔۱
میرے اجداد کا وطن یہ شہر
میری تعلیم کا جہاں یہ مقام
میرے بچپن کی دوست یہ گلیاں
جن میں رسوا ہوا شباب کا نام
ساحرؔلدھیانوی کے فلمی گیتوں کے علاوہ اُن کے غیر مطبوعہ فلمی نغمے بھی
تقریبا ً سو کے قریب تھے اس کے علاوہ بہت سے غزلیں اور نظمیں بھی لکھی تھی
اُن کی سب سے بڑی اور پہلی نظم کا نام ’’پرچھائیاں ‘‘تھا۔ اور اس نظم کا
ذکر انہوں نے اپنی کتاب ’’کلیاتِ ساحر‘‘ؔ میں بھی کیا تھا۔
ساحرؔ لدھیانوی نے جو چاہا اُس کو حاصل تو کر لیامگروہ سب کچھ پانے کے بعد
بھی تنہا تھا۔بڑی بات تو یہ تھی کہ وہ اچھے وقتوں میں بھی اُن لوگوں سے جڑا
رہا جو اُس کی ناکامی اور محرومی میں بھی اس کے ساتھ رہے ۔اُس نے کبھی اپنے
دکھوں کو عیاں نہیں کیا،ہمیشہ دوسروں کے مسائل کے بارے میں ہی لکھا۔ بلا
آخر لفظوں کا یہ ساحر 25اکتوبر 1980 ء کو اپنے خالق ِ حقیقی سے جا ملا،وفات
سے قبل آخری غزل میں بھی ساحرؔ نے اپنی ذات کی نفی کرتے ہوئے کہا تھا ۔ میں
پل دو پل کا شاعر ہوں اور مجھ سے بہتر اور بھی شاعر آئیں گے۔ لیکن وقت نے
ثابت کیا کہ وہ پل دو پل شاعر نہیں بلکہ ہر ایک پل کا شاعر تھا ہے اور رہے
گا۔
|