عالمی افق پر بہت تیزی سے
تبدیلیاں رو نما ہو رہی ہیں اور روس ایک مرتبہ پھر عالمی معامالات و
سیاسیات میں اپنا کردار ادا کرنے کے لئے کمر کستا نظر آ رہا ہے۔ ایرانی صدر
حسن روحانی اور روسی صدر ولادی میرپیو ٹین کے درمیان تہران میں ہونے والی
حالیہ ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے دو ٹوک موقف اختیار کیا ہے کہ مشرق
وسطیٰ میں امریکی پالیسیوں اور فوجی آپریشن کی وجہ سے تہران اور ماسکو کو
شدید خطرات لاحق ہیں۔ دونوں رہنماؤں نے شامی صدر بشار الاسد کی حمایت جاری
رکھنے کے عز م کا بھی اظہار کیا۔ اس موقع پر روس نے ایران کو ہر ممکن فوجی
وسیاسی تعاون کا یقین دلایا۔ ایران نے اس بات کا بھی عندیہ دیا ہے کہ ماسکو
تہران کو 300اینٹی میزائل راکٹ سسٹم کی فراہمی کا آغاز کر چکا ہے او ر اس
سلسلے میں مزید پیشرفت کا قوی امکان ہے جبکہ روس نے ایرانی قیادت کو یہ بھی
یقین دلایا ہے کہ وہ کسی بھی بیرونی جارحیت کی صورت میں ایران کو تمام تر
عسکری تعاون فراہم کرے گا۔ یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ بیجنگ اور ماسکو کے
درمیان بھی روابط میں نمایاں تبدیلی آ رہی ہے۔ چین نے بھی کسی حد تک اب یہ
طے کر لیا ہے کہ اب اسے ہر معاملے میں امریکی بالا دستی قبول نہیں یہی وجہ
ہے کہ شامی تنازع کے حوالے سے چین نے اب تک اپنا کوئی واضح موقف پیش نہیں
کیا ہے اور اس قسم کی بھی اطلاعات مل رہی ہیں کہ چین بھی اندرون خانہ شامی
صدر بشار الاسد کی حمایت کر رہا ہے۔ روس جسے ابھی اپنا پرانا وقت (یو ایس
ایس آر) مکمل طور پر بھولا نہیں ہے ، ایک مرتبہ پھر اپنے آپ کو اقوام عالم
کے سامنے بادشاہ گر کے طور پر پیش کرنا چاہتا ہے۔ یوایس ایس آر کے خاتمے کے
بعد یونی پولر دنیا میں اس وقت امریکہ اپنے آپ کو دنیا کے سیاہ سفید کا
مالک سمجھتا ہے لیکن اب چین اور روس دونوں امریکہ کی اس خود ساختہ حیثیت کو
تسلیم کرنے کیلیے تیار نظر نہیں آتے۔اس سلسلے میں نئے عالمی بینک برکس
(BRICS) کے قیام کو بھی نمایاں اہمیت حاصل ہے۔حسن روحانی اور پیوٹن کے
درمیان ہونیوالی حالیہ ملاقات اس اعتبار سے بھی امریکہ اور اس کے اتحادیوں
کو واضح پیغام ہے کہ اب سب کچھ وہ نہیں ہو گا جو امریکہ اور اس کے اتحادی
چاہتے ہیں ۔ غیر جانبدار ذرائع سے ان خبروں کی بھی تصدیق ہو رہی ہے کہ شا م
میں داعش کے خلاف روس کو بڑی کامیابیاں حاصل ہو رہی ہیں۔ ان کامیابیوں سے
امریکہ اس لئے بھی پریشان ہے کہ اسے اب دونوں طرف کھیلنے (دو رخی پالیسی
چلانے) کا موقع نہیں مل رہا یعنی داعش (دولت اسلامیہ عراق و شام) جسے خود
امریکہ ، سعودی عرب، قطر ، یو اے ای اور دیگر عرب ممالک نے طاقتور بنایا ہے
تاکہ وہ خطے مٰیں ایران کی پروکسی وار کا مقابلہ کر سکے ، اب امریکہ اور اس
کے مشرق وسطیٰ کے اتحادی اپنی ہی بنائی کٹھ پتلیوں کو ختم ہوتے دیکھ رہے
ہیں جو جو انھیں منظور نہیں۔ اسی وجہ سے ا مریکہ روس کیخلاف شدید رد عمل کا
مظاہرہ کر رہا ہے جبکہ سعودی عرب اور یو اے ای بھی روس کو شدید نکتہ چینی
کا نشانہ بنا رہے ہیں ۔ دوسری طرف امریکہ کے اتحادی مغربی ممالک بھی امریکی
پالیسوں کی وجہ سے امریکہ پر کھلی تنقید پر اتر آئے ہیں۔فرانس ، جرمنی،
پولینڈ، اٹلی اورا سپین سمیت دیگر مغربی ممالک میں اب یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ
آخر کب تک ہم امریکہ کی ہر غلط پالیسیوں کی اندھی تقلید کرتے رہے گے۔ مغرب
میں بڑھتی ہوئی اس بے چینی کا روس بھر پور فائدہ اٹھانا چاہتا ہے اور ہر
امریکی فیصلوں کے خد و خال دنیا کے سامنے پیش کر کے امریکی حکومت سے مغرب
کی نفرت میں اضافہ کرنا چاہتا ہے۔جبکہ دوسری طرف ایران بھی ایک طویل عرصے
دنیا سے الگ تھلگ رہنے کے بعد عالمی سیاسی و عسکری فیصلوں میں اپنے اہم
کردار کا خواہشمند ہے خاص طور پر مشرق وسطی کی سیاست میں ا یران نے اپنی
طاقت کو بڑی حد تک منوا بھی لیا ہے تاہم اب ایران اس سے بھی آگے کا
خواہشمند ہے۔ ایران اور روس کے درمیان ایٹمی معاہدہ بھی امریکہ کو چیلنج
کرنے کے مترادف ہے ۔ مغرب نے ایران کے خلاف اپنی سخت گیر پالیسی کے حوالے
سے گزشتہ ایک سال کے دوران خاصی نرمی کا مظاہرہ کیا ہے جس کے بعد امریکی
حلقوں میں خاصی پریشانی پائی جاتی ہے۔ ایران اور امریکہ کے درمیان مذاکرات
کی بحالی بھی اس صورت حال اور امریکہ پر غیر معمولی دباؤ کی وجہ سے عمل میں
آئی ہے۔ ایران کے حوالے سے اب یہ بات بھی سامنے آ رہی ہے کہ وہ اب دنیا میں
گیس پیدا رکرنے والے ملکوں میں بھی اپنا ایک لیڈنگ کردار ادا کرنا چاہتا
ہے۔اس سلسلے میں جی سی سی ممالک کے فورم پر ایران نے گیس دراآمد کرنے والے
تمام ممالک کو یہ دعوت دی کہ وہ ایران کے گیس پروڈکشن سیکٹر میں سرمایہ
کاری کریں۔ یہ ایران کی طرف سے واضح اعلان ہے کہ اب ایران آئیسو لیشن سے
نکلنا چاہتا ہے اور عالمی برادری کو اپنے ساتھ لے کر چلنا چاہتا ہے۔ ادھر
روس اور چین مسلسل امریکہ کو چیلنج کر تے دیکھائی دے رہیں ہیں اور سیاسی،
اقتصادی اور عسکری میدانوں میں بعض ایسے اقدامات کر رہے ہیں کہ جنھیں دیکھ
کر یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آئندہ چند برسوں میں دنیا ایک نیا سیاسی
رخ اختیار کر جائے گی جس میں مغربی ممالک کے ساتھ ملکر روس ،چین اور ایران
کا بہت اہم کردارادا کرتے دکھائی دیں گے اورنئی صورت حال میں مشرق وسطی کے
ممالک کو بھی اپنا قبلہ درست کرنا پڑے گا۔ |