پاکستان اور اُردو سے محبت کے لافانی کردار جناب جمیل الدین عالیٰؒ
(Mian Muhammad Ashraf Asmi, Lahore)
جمیل الدین عالیٰؒ نے بھر پور
زندگی گزاری اور پاکستان سے محبت کا حق ادا کیا۔پاکستان کے ساتھ محبت کی
زندہ مثالیں اُن کے ملی نغمات جیوئے جیوئے پاکستان، سوہنی دھرتی، ہم مصطفوی
ہیں۔ پاکستان انشااﷲ تا قیامت پاکستان رہے گا اور تا قیامت اردو اور عالیٰ
صاحبؒ کا نام رہے گا۔ جناب جمیل الدین عالیٰؒ کی شاندار خدمات کو خراج
عقیدت پیش کرنے کا سب سے بہترین طریقہ یہ ہی ہے کہ پاکستان اور اُردو سے
محبت کے مشن کو اپنی حیات کا مشن بنا لیا جائے۔ زندگی کے آخری ایام تک وطن
کی محبت سے اُن کا لبریز دل دھڑکتا رہا ۔ یہ کہنے میں کوئی بھی مبالغہ
آرائی نہیں کہ اُن کی خدمات پاکستان کی تاریخ کے ماتھے کا جھومر ہیں۔نواب
زادہ مرزا جمیل الدین احمد خانؒ 90 برس قبل دلی میں پیدا ہوئے اور میٹرک
اور گریجویشن کی منزلیں وہیں طے کیں جبکہ دو دہائی بعد ہند کی تقسیم
دیکھی۔قیام پاکستان کے بعد وزارت تجارت میں اسسٹنٹ رہے اور اسی ملازمت کے
دوران ممتاز بیورو کریٹ قدرت اﷲ شہاب کے ماتحت رہے۔اعلٰی سول سروس کا
امتحان پاس کرنے کے بعد محکمہ ٹیکسیشن کا حصہ بنے اور ترقی کی منازل طے
کرتے رہے۔وزارت تعلیم اور یونیسکو کی فیلوشپ سے ہوتے ہوئے بنکاری کے شعبے
میں آئے اور سرکاری ملازمت میں خوب نام کمانے کے ساتھ ساتھ عالیؒ صاحب نے
علم و ادب کے میدان میں بھی نمایاں خدمات انجام دیں۔عالیؒ صاحب نے پچیس کے
قریب معروف ترین قومی گیت تحریر کیے جن میں جُگ جُگ جیے میرا پیارا وطن،
جیوے جیوے جیوے پاکستان، اے وطن کے سجیلے جوانو، سوہنی دھرتی اﷲ رکھے قدم
قدم آباد و دیگر شامل ہیں۔عالی صاحبؒ نے ادب کے دوسرے شعبوں کے بھی شہسوار
رہے، ڈرامہ نویسی،کالم نویسی، مضمون نویسی غرض ہر شعبہ میں سب سے آگے رہے۔
وہ 1977 میں قومی اسمبلی کے امیدوار بھی بنے جبکہ ایوان بالا میں نمائندگی
کی۔
عالیؒ جس طرح کئی سطحوں پر زندگی گزارتے رہے ویسے ہی ان کی تخلیقی اظہار
کئی سطحوں پر ہوتا رہا ہے۔ تاہم انہوں نے دوہا نگاری میں کچھ ایسا راگ چھیڑ
دیا اور اردو شاعری کے کسی ایسے تار کو چھو دیا کہ دوہا ان سے اور وہ دوہے
سے منسوب ہو کر رہ گئے انہوں نے دوہے کی جو بازیافت کی اور اسے بطور صنف
شعر کے اردو میں جو استحکام بخشا وہ خاص ان کی دین ہو کر رہ گیا ۔ عالیؒ
اگر اور کچھ نہ بھی کرتے تو بھی یہ ان کی مغفرت کے لیے کافی تھا ۔ کیونکہ
شعر گوئی میں کمال توفیق کی بات سہی، لیکن یہ کہیں زیادہ توفیق کی بات ہے
کہ تاریخ کا کوئی موڑ، کوئی رخ، کوئی نئی جہت، کوئی نئی راہ، چھوتی یا بڑی
کسی سے منسوب ہو جائے۔عالیؒ جی کی تصانیف یہ ہیں۔آئس لینڈ۔سفرنامہ ۔کارگاہِ
وطن۔کالموں کا مجموعہ۔بارگاہِ وطن۔کالموں کا مجموعہ دوہے۔ شاعری (دوہے)۔حرف
چندانجمن ترقی اُردو کی کتابوں پر لکھے گئے مقدمے۔انسان شاعری (طویل نظمیہ)
وفا کر چلے کالموں کا مجموعہ۔صدا کر چلے کالموں کا مجموعہ۔دعا کر چلے
کالموں کا مجموعہ۔اے مرے دشت سخن شاعری۔تماشا مرے آگے سفرنامہ۔
دنیا مرے آگے سفرنامہ۔جیوے جیوے پاکستان شاعری (قومی و ملی نغمے)۔غزلیں،
دوہے، گیت شاعری۔ اُن کو مندرجہ ذیل ایوارڈا سے بھی نوازا گیا۔ہلال امتیاز
(2004)تمغہ حسن کارکردگی (1991)۔آدم جی ادبی ایوارڈ (1960)۔داؤد ادبی
ایوارڈ (1963)۔یونائٹڈ بینک ادبی ایوارڈ (1965)۔حبیب بینک ادبی ایوارڈ
(1965)۔کینیڈین اردو اکیڈمی ایوارڈ (1988)۔سنت کبیر ایوارڈ - اردو کانفرنس
دہلی (1989)۔مورخ پاکستان سے محبت کرنے والی شخصیات کا جب تزکرہ کرئے گا تو
جناب عالیٰؒ جی کا مقام بہت اونچا پائے گا۔اﷲ پان نے اُن سے وہ کام لیا جس
طرح کاکام فوج میدانِ جنگ میں کرتی ہے۔ عالیٰ جی ملی نغمے ہمارئے قومی
زندگی کا وہ وقار کو اثاثہ ہیں کہ بجا طور پر اُن پر فخر کیا جاسکتا ہے۔
وطن سے محبت اردو زبان سے محبت نے اُن کی یادوں کو انمٹ بنا دیا ہے۔ ہر محب
وطن پاکستانی اُن کو ہمیشہ اپنے دل میں زندہ پائے گا۔ علم جیسی روشنی
محبتیں بکھیرنے والے عالیٰ جی نبی پاکﷺ کے حکم سے بننے والی یاست پاکستان
سے محبت کرنے والے عالیٰ جی ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ |
|