حضرت سیدعلی ہجویریؒ المعروف داتا گنج بخش
(Mian Muhammad Ashraf Asmi, Lahore)
سرز مین لاہور کے باسی کتنے خوش
قسمت ہیں کہ اُن کے شہر کو داتاؒ کی نگری کہا جاتا ہے۔اﷲ پاک کے بندوں کی
خانقائیں ایسی جگہیں ہیں جہاں اﷲ پاک کی رحمتوں کا نزول ہر ساعت جاری رہتا
ہے۔اﷲ کے بندئے ظاہری حیات اور ظاہری وفات ہر صورت میں اﷲ کے بندوں کے لیے
رہنمائی کا ذریعہ ہوتے ہیں۔حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری ؒ اﷲ پاک کے وہ
عظیم انسان ہیں جو لاہور کی مٹی سے ایک ہزار سال سے تعلق رکھے ہوئے ہیں۔
بادشاہ مہاراجے لاہور پر حکومتیں کرکے چلے گئے لیکن حضور داتا علیٰ ہجویری
ؒ کی حکومت قائم دائم ہے۔کشف الااسرار میں ایک مقام پر آپ نے اﷲ کے حضور
اپنے لیے التجا کرتے ہوئے یوں دعا کی ہے کہ:یا اﷲ میرے دل کو روشن چراغ
بنا،اپنی یاد کا شو ق بخش،دل کو غیر سے خالی کر پیرو مرشد کو مجھ پر مہربان
کر۔پہلے میرے دل کو شکر بخش،پھر مجھے دولت دے۔پہلے دل کو کدوت سے پاک
کر،پھر اپنے راز سے نواز،پہلے صبر دے اور پھر بیماری،یا اﷲ مجھے وہ دے جو
بہتر ہے۔پسندیدہ کی توفیق دے۔خداتعالیٰ حکیم و علیم و عزیز و شفیق ہے اس کا
لطف عام ہے وہ کریم ہے رحیم ہے رحما ن،غفار،قہار،جبار،وہاب،سلطان،منان
ہے۔اﷲ گنہگار وں کا فریاد رس ہے میری دعا ہے کہ میری زبان شہادت کے وقت نہ
رُکے اور مجھے آٹھ جنتیں عطا کر اور میرامعشوق میرے پہلو میں ہو۔مجھے عذاب
میں گرفتا ر نہ کر۔میں بیمار بے حال ہوں تو شافی و کا فی ہے میرے واسطے۔یا
اﷲ!علی کی عاجزی پر رحم کر اور بہ طفیل نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اسے بخش
دے اس پر رحم کر۔وہ عاجز بے کس ہے۔اس کا کوئی یا رو مدد گا ر نہیں ہے۔وہ
تیرے سوا کسی کو نہیں چاہتا اور تیرے نام کو جپتا ہے۔عربت کے سوا اس کے
ہاتھو ں میں کچھ نہیں ہے خدایا بے کس پر رحم کر۔تورحیم ہے، حلیم ہے،شفیق
ہے۔میں گناہ کے سمندر میں ڈوبا ہوں تو بخشش کر۔اے انسان!طالب حق بن۔تکلیف
سے نہ ڈر،فقیری مشکل ہے،علم سیکھ، عمل کر،والدین کی خدمت کر تا کہ منزل پر
پہنچے۔انشائاﷲ!صدر نشین ہوگا۔خداکا کرم تیرے شامل حال ہوگا۔خداکی تعریف ہر
دم کرو۔وہ علیم و حکیم ہے۔بار خدایا میرے گنا ہ ڈھانپ۔مجھے خداری دے۔میں
حقیر پر تقصیر عاجز ہوں،اے بصیر!مجھ پر رحم کر کمزور ہوں اور تو قادر
توانا۔اے دوست!خدا جو عنایت کرتا ہے ا س پر راضی رہ۔اگرویرانہ دے اس میں
رہ،شہر دے تووہاں رہ،وطن یا بے وطن سب پر راضی ہو وہ گدڑی دے یا قاقم شکر
بجا لا گھوڑا ہو یا گدھا سوار ہو۔وہ اﷲ کی نعمت ہے اور اس نعمت پر اﷲ
تعالیٰ کا احسان مند رہ ۔حضرت داتا گنج بخش کی جلا لت شان اور مرتبہ کی
عظمت کا اندازہ اس امر سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ خواجہ خواجگان سلطان
الہند حضرت سید معین الدین چشتی ؒ اور حضرت بابا فرید الدین گنج شکر ؒ جیسے
جلیل القدر بزرگوں کے علاوہ حضرت میا ں میر قادری اور محدث کبیر حضرت شاہ
محمد غوث قادری لاہوریؒ نے آپ کے مزار مبارک پر معتکف رہ کر فیض پایا اور
منازل سلوک و معرفت طے کیے۔درار شکوہ شہزادے نے اپنی مشہو رتصنیف سفین?
الاولیا ئمیں یہ تصریح کی ہے کہ جو شخص چالیس دن تک بلا نا غہ مزار ِ داتا
پر حاضری دے، اﷲ تعالیٰ اس کی ہر حاجت پوری فرمادیتا ہے۔وصال کے بعد
اولیائے کرام کے فیوض و برکات کا جاری رہنا کتاب وسنت سے واضح اور ثابت
ہے۔حضرت داتا گنج بخش ؒ کی اسی فیض رسانی خلق سے متا ثر ہو کر علامہ ڈاکٹر
محمد اقبا ل مرحوم بارگاہِ گنج بخش میں عرض کرتے ہیں -
سید ہجویر مخدوم ِ اُمم ،مرقد ِ اُو پیر سنجررا حرم ۔حضرت داتا گنج بخش ؒ
کی اس فیض رسانی نے عوام و خواص کے دل موہ لیے لوگوں نے جو چاہا سو پایا۔اس
فیض سے گرویدہ ہو کر لوگوں نے آپ کو گنج بخش کہنا شروع کر دیا مزید برآں یہ
بھی وجہ ہے کہ آپ کی ذات سے ظاہری و باطنی فیض حاصل ہوا۔آپ سے علم و دانش
کے چشمے پھوٹے۔آپ نے لوگوں کو ان کے مقصد حیات سے روشن کروایا آپ نے زندگی
کے راز کھول کر لوگوں کے سامنے رکھ دیے۔لوگوں کو روحانی زندگی سے متعارف
کروایا۔لاکھوں انسانوں نے آپ کے ہاتھوں اسلام قبول کیا۔آپ کے ۳۴ سالہ قیام
لاہور کے دوران تبلیغ اور فروغ اسلام کا فریضہ آپ کے ہاتھوں بامِ عروج پر
پہنچ گیا۔یہی وجہ تھی کہ خاص و عام نے آپ کو گنج بخش کہنا شروع کردیا۔گنج
بخش کا لفظ جو آپ کے نام سے پہلے لکھا پڑھااور بولا جاتا ہے اس کی یہ بھی
ایک وجہ ہے کہ جب حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ نے آپ کے مزار پر چلہ کشی
کے بعد روانگی کے لیے آپ سے اجازت طلب کی تو ایک دم آپ کی زبان پر یہ شعر
آگیا اورا سی وقت سے گنج بخش کا لفظ مقبولِ عام ہوگیا ۔گنج بخش فیض عالم
مظہر نور خدا ،ناقصاں را پیرکا مل، کاملا ں را راہ نما ۔سوانح حیا ت حضرت
داتا گنج بخش ؒ از محمد دین فوق میں لکھا ہے کہ جب حضرت کی اپنی تحریر شدہ
کتا ب کشف الاسرار دیکھی جاتی وہ کتا ب بتاتی ہے کہ حضرت کی زندگی میں ہی
آپ کا نام حضرت داتا گنج بخش مشہور ہوگیا تھا جیسا کہ کشف الااسرار میں
لکھا ہے۔
’’اے علی!لوگ تجھے گنج بخش داتا کے لقب سے پکارتے ہیں (حالانکہ) تیرے پاس
کچھ بھی نہیں ہے تو اس قسم کے خیا لات کو اپنے دل میں جگہ مت دے یہ سخت
تکبر کی بات ہے۔گنج بخش ہو یا رنج بخش،یہ سب صفات ذات حق کے لیے مخصوص
ہیں۔‘‘حضرت سیدعلی ہجویریؒ کی تحریر کے اس اقتباس سے یہ بات واضح ہوتی ہے
کہ گنج بخش داتا کا لقب حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ کے چلہ کش ہونے سے
بہت پہلے خود حضرت علی ہجویریؒ کی زندگی میں مشہور ہو چکا تھا مگر خواجہ
معین الدین چشتی ؒ کے شعر کہنے سے یہ شہرت پہلے سے زیادہ دو بالا
ہوگئی۔دوسر ے یہ کہ حضرت علی ہجویری ؒ نے خود اس لقب کو پسند نہیں کیا اور
یہ مشورہ دیا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے لیے اس لفظ کا استعمال بہت زیادہ بہتر
ہے۔’’سید ہجویر میں لکھا ہے کہ گنج بخش کا لقب آپ کو سجتا ہے آپ نے پوری
زندگی معرفت کا خزانہ ہی تقسیم کیا ہے آپ نے کشف المحجوب جیسا علمی خزانہ
اپنے بعد چھوڑا ہے جسے بجا طور پر تصوف کادستور العمل کہا جاسکتا ہے اہل
باطن اس سے سب کچھ پالیتے ہیں۔الغرض علم و عرفان کا خزانہ لٹانے کے معنوں
میں گنج بخش کا لفظ استعمال کیا جا سکتا ہے۔شادی کرنا حضور صلی اﷲ علیہ
وسلم کی سنت ہے۔اس لیے ہر باشرع بزرگ نے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی اتبا ع
میں نکاح کیا۔آپ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آپ نے سنت مصطفی کے مطابق شادی
کی مگر اﷲ تعالیٰ نے زیادہ عرصہ اس میں مشغول نہ رہنے دیا۔کشف المحجوب کے
مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علی ہجویر ی نے دو نکاح کیے۔پہلی شادی
ابتدائجوانی میں ہوئی مگر وہ عفیفہ جلد ہی وفات پا گئیں۔پہلی بیوی کے انتقا
ل کے بعد تجرد اختیا ر کر لیا۔یہ سلسلہ تقریبا ً گیا رہ سا ل قائم رہا۔حتٰی
کے دوسرے نکاح کا موقعہ خود بخود فراہم ہو گیا جس کے بارے میں آپ اس طرح
فرماتے ہیں۔حضرت سیدعلی ہجویری ؒ حنفی مسلک کے پیرو کا ر تھے۔اسلامی شریعت
کے ترجمان مختلف مسالک فقہ ہیں۔فقہ ان مسالک میں فقہ حنفی کو ایک ممتاز
حیثیت حاصل ہے۔بیشتر اولیائاور صوفیائکاتعلق حنفی مشرب ہی سے ہے۔کیونکہ فقہ
کا یہ مسلک بڑا مقبول ہے۔کشف المحجوب کے مطالعہ سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ
حضرت سید علی ہجویر یؒ مسلک اہل سنت وجماعت سے تعلق رکھتے تھے۔اس مسلک کے
تر جمان حضرت امام ابو حنیفہ ؒ ہیں اور آپ کو ان کی ذات گرامی سے بڑی عقیدت
تھی۔اسی وجہ سے آپ نے اپنی کتا ب میں متعدد مقامات پر ان کا ذکر بڑے احترا
م سے کیا ہے آپ نے ان کی شان میں فرمایا ہے کہ اماموں کے امام اہل سنت و
الجماعت کے مقتدا،فقہار کے سرتاج،علمائکا طرۂ امتیازحضرت ابو حنیفہ نعمان
بن ثابت الخراز ؒہیں- |
|