گولڈن ہینڈ شیک کے بعد۔۔۔

" گولڈن ہینڈ شیک" سے لیکر " رضاکارانہ روانگی" تک کی اصطلاحوں کو مینجمنٹ اپنی ڈائریوں سے مٹا دے ۔لغت میں یہ ماضی کی بات بن جائے اور وہی ادارہ ایک "برانڈ" بن جائے ۔

" گولڈن ہینڈشیک " کی پالیسی

محمود احمد خان ایک بینک کے" کنٹری منیجر" کے عہدے پر اپنی بھر پور ذمہداریاں نبھا رہے تھے کہ ایک دن اُنکو بینک کی اعلیٰ ترین انتظامیہ نے اچانک مرکزی دفتر بُلالیا ۔اُنھوں نے حسبِ معمول اپنے کام سے متعلقہ تازہ ترین معلومات اکٹھی کیں اور بڑے خوشگوار موڈ میں مرکزی دفتر پہنچ گئے۔چند لمحے انتظار کرنے کے بعد اُنھوں نے خاتون سیکرٹری سے پو چھا کہ کیا بات ہے ابھی تک اُنھیں اندر نہیں بُلایا گیا ۔ایسا تو پہلے کبھی نہیں ہوا۔سیکرٹری روایتی انداز میں مُسکرائی اور بولی! ڈائریکٹرزمیٹنگ میں مصروف ہیں ابھی آپ کو بھی بُلا لیں گے۔کچھ دیر بعد سیکرٹری کو ایک فون آیا جس کو سننے کے بعد وہ بولی کہ آپ جنرل منیجر کے دفتر میں جا کر اُن سے ملاقات کر لیجئے۔

اخراجات بہت بڑھ گئے
محمود احمد خان نے اچھا کہا اور اس سش وپنج میں کہ یہ آج اُنکے ساتھ کیا ہو رہا ہے جنرل منیجر کے کمرے میں داخل ہو کر اُنھیں سلام کیا اور حسبِ روایت اُنکے سامنے والی کرسی پر اجازت لیکر بیٹھ گئے۔جی !محمود خان !بینک کے اخراجات بہت بڑھ گئے ہیں انکو کم کرنے کیلئے کیا کوئی حل نکلا ہے؟وہ بولے ! یہ 20ایسے افسروں کی لسٹ ہے جنکو فی الحال کمپنی کی" گولڈن ہینڈشیک " پالیسی کی تحت نکال کر اپنے اخراجات پر قابو پا سکتی ہے ۔

گولڈن ہینڈ شیک کی اصطلاح
جنرل منیجر لسٹ دیکھتے ہوئے مسکرائے اور بولے کیا تم جانتے ہو کہ "گولڈن ہینڈ شیک" اور " گولڈن پیراشوٹ" کی اصطلاحیں 1960ء کی دہائی میں یورپ میں اپنائی گئیں۔فرق صرف یہ تھا کہ اول الذکر میں کچھ علیحدگی کی مراعات زیادہ رکھی گئی تھیں۔ لہذا 90ء کی دہائی میں اسکی گونج زیادہ سُنائی دینے لگی اور" دُنیا" بھر کی بے شمار کمپنیوں و کارپوریشنوں نے اسکو اَپنا کر ملازمین کے مستقبل کے فیصلے کرنے شروع کر دیئے ۔فرق صرف یہ ہے کہ ریٹائر کی عمر کے قریب ملازمین کو زیادہ فائدہ ملتا نظر آرہا ہے لہذا وہ اداروں کی بات مان رہے ہیں لیکن جوان اور 40 سال کی عمر سے زائد ملازمین جو ابھی تک سہانے مستقبل کے خواب دیکھ رہے ہیں وہ بھی اس زد میں آنا شروع ہوگئے ہیں اور اُنکو کوئی اتنی خاص رقم بھی نہیں مل رہی جتنا اس اصطلاح کا شور ہے ۔ بلکہ مستقبل میں یہ اصطلاح " ڈاؤن سائزنگ " کے نام پر کوئی اور ہی رنگ اختیار نہ کر لے۔

آمدن تو کم نہیں ہوئی
محمود خان اپنے جنرل منیجر کی بات کی تائید میں سر ہلا رہے تھے کہ اس ہی دوران جنرل منیجر نے اُنھیں کہا کہ مجھے افسوس ہے کہ آپ سے بھی" بینک "کے ڈائریکٹرز نے استعفیٰ مانگ لیا ہے۔ محمود خان اپنے دلائل میں بولے! بینک کے اخراجات بڑھے ہیں ،آمدن تو کم نہیں ہوئی ۔جنرل منیجر بولے!آپکااستعفیٰ سیکرٹری نے تیار کر دیا ہو ا ہے دستخط کر دیں۔شُکریہ!

ملازمت سے فارغ
محمود خان بوجھل قدموں سے دفتر کی بلڈنگ سے باہر آرہے تھے اور وہ 20افسران جنکو میٹنگ کے بہانے محمود خان نے مرکزی دفتر آنے کیلئے کہا تھا۔دفتر کے اند ر جارہے تھے۔ اُن میں سے ایک نے کہا کہ سر!اطلاع آئی ہے کہ ہمیں ملازمت سے فارغ کر دیا گیا ہے۔اوہ!سر ہم اب کیا کریں گے؟ ہم سے کسی کے بچے چھوٹے ہیں۔کسی نے اپنی بہن کی شادی کرنی ہے۔ کسی کی بیٹی کی شادی کی عمر ہے۔ کسی کے والدین بوڑھے اور بیمار ہیں۔ایک دو نوجوان ہیں جو ابھی اپنے خواب ہی سجا رہے ہیں۔ایک تو کرائے کے گھر میں رہتا ہے۔سر ! یہ ایسا کیوں کر رہے ہیں؟حکومتِ وقت نے تو فلاحی روزگار کا بندوبست بھی کوئی نہیں کیا ہوا۔

محمود خان جو چند گھنٹے پہلے بحیثیت کنٹری منیجر20افراد کی لسٹ بناتے ہوئے اُنکے مسائل پر کوئی نظر نہ رکھے ہوئے تھے۔ اب اُنکی باتیں سن کر اپنے آپ کو بھی اُس ہی گرداب میں پھنسا ہو اپا رہے تھے۔کیونکہ اُنکا تعلق بھی متوسط گھرانے سے تھا اور علمی و عملی صلاحیت کی بنا پر اُس مقام تک پہنچے تھے جو اب اُنکے پاس نہ رہا تھا۔بیوی جوان ، بیٹا "او لیول" اور بیٹی ابھی 9ویں میں ۔ اپنے والدین کے ساتھ رہائش اور بامشکل ایک 10مرلے کا پلاٹ خریدا۔ سب کی خواہش تھی ایک اپنا گھر بنائیں گے۔اُف!!!

وولینٹری ڈی پارچر یعنی رضاکارانہ روانگی
15 سال گزر گئے اور آج جب محمود خان نے اخبار میں ایک خبر پڑی کہ" ائیر فرانس" نے 2016ء میں ادارے کے ہزارملازمین کو " وولینٹری ڈی پارچر یعنی رضاکارانہ روانگی" کے تحت فارغ کرنے کا منصوبہ بنایا ہے اور2017ء میں مزید1900ملازمین کا ۔ اُسکے ردِ عمل میں وہاں پر مظاہرے بھی ہوئے ہیں تو اُنکو اپنا ماضی یا د آگیا کہ بینک والوں نے اُنکے ساتھ کیا کیااور پھر اُنھوں نے کس مشکل میں بے کاری کے وہ دن گزارے جس میں نہ کوئی دوست کام آرہا تھا اور نہ ہی رشتے دار۔ماں باپ سب کچھ اپنے بیٹے پر لُٹانے کیلئے تیار تھے لیکن انگریزی میڈیم اسکول کی فیس اور ایک ملنے ملانے والوں کے ساتھ سٹینڈرڈ کا چکر بھوت بن کر اُنکو چمٹ گیا تھا۔

رقم ڈوب گئی
محمود خان کواخراجات پورا کرنے کیلئے کچھ رقم اسٹاک ایکس چینج میں بھی لگائی تھی جو ڈوب گئی تھی۔ایک دو دوستوں کو ررقم دی تو منافع تو نہ ملا بڑی مشکل سے ٹوٹ پھوٹ کے ساتھ رقم مل گئی جو ٹوٹ پھوٹ کے حساب میں ہی خرچ ہو گئی۔ 10مرلے کے پلاٹ بیچنے کی نوبت آچکی تھی کہ ایک کمپنی سے معیاری ملازمت کی پیشکش آگئی۔ اُس وقت نخرہ ناممکن نظر آیااور کمپنی سے منسلک ہو کر اس محنت و لگن سے کا م کیا کہ ادارے نے بھی ترقی کی اور اُنھوں نے بھی۔

عہدے و روپے کی ضرورت
محمود خان بدل چکے تھے۔ وہ جان گئے تھے کہ دُنیا کو اُنکی ضرورت نہیں صرف اُنکے عہدے و روپے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ بے کاری کے دور میں جو بھی اُن سے ملتا تھا وہ یہ ضرور پوچھتا تھا کہ " گولڈن ہینڈ شیک " میں کتنی رقم ملی ہے؟ اچھا اس سے یہ کاروبار کر لو ،اس سے وہ کاروبار کر لو، اتنی رقم مجھے دے دو ۔میں مہینے کے اتنے دوں گا، فلاں بچت اسکیم میں لگا دو،انشورنس پالیسی لے لو، ایک پلاٹ یا دوکان وغیرہ اور خرید لو۔

آمدن کی ناقدری
اُس دوران "گولڈن ہینڈ شیک " کی پالسی عام ہو چکی تھی۔ لہذا استعفیٰ لیکر یا اور کچھ اُس "رقم" کو بڑا سمجھ کو بذات خود استعفیٰ دے کر"گولڈن ہینڈ شیک " کے اُس شکنجے میں جکڑتے جارہے تھے جو بچت اسکیموں کی وجہ سے دینی بحث کا حصہ بھی بن رہا تھا اور دُنیاوی طور پر حسین خواب دکھانے والوں کے ساتھ اپنی رقم لگا کر ڈوبنے کا رونا بھی۔ پھر اگلے چند سالوں کے اندرمہنگائی کا زور اور مادی اشیاء کے استعمال میں اضافہ آمدن کی ناقدری کا باعث بننا شروع ہوا تو " گولڈن ہینڈ شیک " کی رقوم بھی اپنی قدر کھونا شروع ہو گئیں اور اُس پر گزارہ کرنے والے ایک بار پھر ملازمت کی تلاش میں نکل پڑے۔

کمپنی کی ری سٹرکچرنگ
محمود خان کی یادوں کا تسلسل باہر کسی کار کے ہارن کی وجہ سے ٹوٹا اور اُنھوں نے" رضاکارانہ روانگی" کی اصطلاح و خبرکو پھر غور سے پڑا اور سمجھنے کی کوشش کی۔ جس کی تفصیل میں یہ لکھا تھا کہ "کمپنی کو ری سٹرکچرنگ کی اس مد میں2ارب ڈالر کی بچت ہو گی"۔لیکن سوال یہ تھا کہ اس طریقے میں کتنی رقم فارغ ہونے والے ملازمین کو ملے ۔یا ملے گی بھی نہیں؟

نوجوان نسل میں بد دلی
بہرحال اُنھیں خبر پڑھ کر یہ ضرور یاد آیا کہ" جنرل منیجر" نے ٹھیک اندازہ لگایا تھا کہ مستقبل میں " گولڈ ن ہینڈ شیک" کی اصطلاح سے نئی اصطلاح منسلک کر کے ادارے ملازمین کا استحصال شروع کردیں گے ۔یعنی ریٹائر کی عمر تک پہنچنے والے تو کم ہی ہوں گے لہذا ایک بڑی تعداد جوان مینجمنٹ کی بھی آئے دن اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھوتی رہے گی۔جو نوجوان نسل میں بد دلی کا سبب بنے گی۔

مکمل روزگار
محمود خان سوچ رہے تھے کہ ملازمت کا تحفظ نہ ہونا جدیدمعاشرے کا ایک بہت بڑا ناسور ثابت ہو گا اور ماضی کے تمام معیشت دان "مکمل روزگار"کے توازن کا جو طریقہ واضح کرچکے ہیں پسِ پُشت چلا جائے گا۔محمود خان آج دُکھی تھے کہ ایک دن وہ بذاتِ خود " کنٹری منیجر" کے عہدے پر بیٹھ کر اپنے ساتھیوں کی خلاف کیا فیصلہ کر رہے تھے اور پھر اُنکے ساتھ کیا ہو گیا۔ نہ وہ عہدہ رہا نہ وہ رقم ۔یہ تو قدرت نے ماں باپ کی دُعا قبول کر لی اور سب سے بڑی چیز عزت بچ گئی۔بلکہ نتائج میں اپنی نئی ذمہداری کے تحت ملازمین بھرتی کیئے جو ادارے کی ترقی کا باعث بنے۔

انٹرن شپ کے بہانے
محمود خان کو دُکھ ہوتا جب اور اداروں کے جوان ملازمین اُن سے ملتے اور وہ یہی کہتے معلوم نہیں کب فارغ کر دیا جائے۔بلکہ وہ یہ بھی کہتے کہ کئی اداروں نے انٹرن شپ کے بہانے کئی پڑھے لکھے نوجوان ملازم رکھے ہوئے ہیں اور اُنھیں کہتے ہیں کہ جو آپ میں بہتر ہو گا اُس کو ادارے میں ملازمت مل جائے گی۔اسطرح وہ اُن سے انتہائی کم تنخواہ پر بہت زیادہ کا م کروا رہے ہیں۔

ادارہ ایک "برانڈ" بن جائے گا
کاش !اداروں کو سمجھ آجائے کے بڑی عمارتوں کی تعمیر و لاکھوں میں کرائے ،پھر اُنکی آرائش و زیبائش میں کثیر رقم خرچ کرنے سے بہتر ہے کہ وہ رقم ملازمین کیلئے رکھ کر اُن سے بہتر کام لینے کی کوشش کی جائے اور روز مرہ جو اُن کو یہ کہہ کر "ڈریا" جاتا ہے کہ کمپنی کو آپ سے کوئی فائدہ نہیں ہو رہا آپکو جلد فارغ کر دیا جائے گانہ کہنا پڑے۔ کیونکہ ملازمین کی ذہنی آسودگی ادارے کی ترقی کا باعث بنے گی تو گاہک ادارے کا ہی بڑے گا اور وہی ادارہ ایک "برانڈ" بن جائے گا۔

دِن دوگنی رات چُوگنی ترقی
آج ہمیں ایسے ادارے بھی نظر آرہے ہیں جو اپنے مالکان کی بہترین پالیسی کے مطابق دِن دوگنی رات چُوگنی ترقی کر رہے ہیں اور نئے سے نئے ادارے کھولنے کا باعث بن رہے ہیں۔جس میں پہلے ملازمین کو ہی بھرتی کیا جاتا ہے۔اب یہ مینجمنٹ اور ملازمین کی ذمہداری ہے کہ وہ اپنے مالکان کے اعتمادپر بھی پورا اُتریں۔

محمود خان کے مطابق! بس یہ خیال رکھیں کہ " گولڈن ہینڈ شیک" سے لیکر " رضاکارانہ روانگی" تک کی اصطلاحوں کو مینجمنٹ اپنی ڈائریوں سے مٹا دے اور لغت میں یہ ماضی کی بات بن جائے ۔کیونکہ دُنیا بھر میں بہت کم مالکان ہوتے ہیں جو ملازمین کو نکالنے کی خواہش رکھتے ہیں ۔

حکومتوں کو بھی یہی روش اَپنانا پڑی گی۔تاکہ ایک "ایگزیکٹیو" اعلیٰ عہدے پر فائز ہوتے ہی ادارے کو فعال بنانے کیلئے صرف اُن ملازمین کے خلاف کاروائی کرے جو ادارے کو نقصان پہچانے کا باعث بن رہے ہوتے ہیں ۔نہ کہ مظلوم بھی کہیں اُنکی قلم کا نشانہ بن جائیں۔
Arif Jameel
About the Author: Arif Jameel Read More Articles by Arif Jameel: 205 Articles with 341745 views Post Graduation in Economics and Islamic St. from University of Punjab. Diploma in American History and Education Training.Job in past on good positio.. View More