کراچی: بلدیاتی انتخابات کا تیسرا مرحلہ....سیاسی گہما گہمی عروج پر

کراچی ان دنوں ملکی سیاست کا گڑھ بنا ہوا ہے۔ مختلف جماعتوں کے ”سیاسی پہلوان“ انتخابی اکھاڑے میں اتر چکے ہیں، جن کا مقابلہ اور فیصلہ 5دسمبر کو ہوگا۔ تیسرے مرحلے میں کراچی کے چھ اضلاع میں پولنگ پانچ دسمبر کو ہوگی۔ سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے دومراحل کی تکمیل کے بعد تیسرے اورآخری مرحلے میں کراچی سیاسی سرگرمیوں کا محور بن گیا ہے۔ ایم کیو ایم، پیپلزپارٹی، جماعت اسلامی، تحریک انصاف، جمعیت علمائے اسلام، مہاجر قومی موومنٹ اور اے این پی سمیت 15سیاسی جماعتوں میں مقابلہ ہے۔ دو سے اڑھائی کروڑ آبادی کے شہر کراچی میں قومی اسمبلی کی 20 اور سندھ اسمبلی کی 42 جنرل نشستیں ہیں، بلدیاتی حکومتوں کے شہر کے 6 اضلاع میں 209 یونین کمیٹیاںبنائی گئی ہیں ۔غربی میں 46، شرقی 31، جنوبی 31، سنٹرل 51، ملیر13 اور کورنگی 37 یونین کمیٹیوں پر ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشن، جبکہ ملیر اور غربی اضلاع کے دیہی علاقوں کی 38 یونین کونسل پر مشتمل ضلع کونسل تشکیل دی جائے گی۔ کراچی میں پولنگ انتظامات کو حتمی شکل دی گئی ہے۔ 74 لاکھ 68 ہزار 576 مرد خواتین ووٹرز اپنا حق استعمال کریں گے۔ 6 اضلاع میں 988 کونسلر، چیئرمین وائس چیئرمین کے پینل پر247 اور ممبر ضلع کونسل کی 38 نشستوں پر امیدواروں کا انتخاب کیا جائے گا۔ 5486 امیدوار ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں، جبکہ 48 امیدوار پہلے ہی بلا مقابلہ منتخب ہو گئے ہیں۔ 4505 پولنگ اسٹیشن پر 17 ہزار سے زاید پولنگ بوتھ بنائے جائیں گے۔ کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن کے قیام کے لیے 209 یونین کمیٹیوں کے چیئرمین اس کے رکن، جبکہ پینل سے منتخب وائس چیئرمین اپنی ضلع میونسپل کارپوریشن کے رکن ہوں گے۔ ہر یونین کمیٹی اور کونسل میں 4 وارڈ بنائے گئے ہیں، ہر وارڈ سے ایک کونسلر کا انتخاب عمل میں لایا جائے گا۔ یونین کمیٹی سطح پر ایک ووٹر اپنے علاقے سے کونسلر اور چیئرمین وائس چیئرمین کا انتخاب کرے گا۔ ملیر کی 32 اور ضلع غربی کی 6 یونین کونسل کی سطح پر ووٹر 3 ووٹ کاسٹ کرے گا۔ ایک پر کونسلر، دوسرا چیئرمین وائس چیئرمین اور تیسرا ووٹ ممبر ڈسٹرکٹ کونسل کے لیے کاسٹ کرے گا۔ سندھ کے چھ اضلاع کراچی ویسٹ، کراچی ایسٹ، کراچی ساﺅتھ، کراچی سینٹرل، کورنگی اور ملیر میں ووٹنگ کے لیے مجموعی طور پر ایک کروڑ 57 لاکھ 67 ہزار 674 بیلٹ پیپرز چھاپے جارہے ہیں۔ بیلٹ پیپرز کی چھپائی کا عمل فوج کی نگرانی میں جاری ہے۔ 70لاکھ سے زاید ووٹر حق رائے دہی استعمال کریں گے۔مجموعی طور پر 7ریٹرننگ، 115اسسٹنٹ ریٹرننگ افسران اور 42465 پریذائیڈنگ، اسسٹنٹ پریذائیڈنگ اور پولنگ افسران انتخابی عمل کی نگرانی کریں گے۔ آزاد امیداواروں کی تعداد بھی ایک ہزار سے زاید ہے۔

صوبہ سندھ کا دارالحکومت، ملک کا سب سے بڑا شہر اور اقتصادی و تجارتی مرکز کراچی بین الاقوامی اہمیت کا حامل ہے، جو پچھلے تین عشروں کے دوران بدترین لاقانونیت، لسانی و نسلی اور فرقہ وارانہ قتل و غارت گری، دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، سڑکوں پر لوٹ مار اور گاڑیاں چھینے جانے کی وارداتوں سمیت ہر قسم کی بدامنی کا شکار رہا ہے۔ تاہم ستمبر 2013ءسے شروع ہونے والے آپریشن کے نتیجے میں شہر کی حالت کافی بہتر ہوئی ہے، لیکن تاحال کراچی بدامنی کی گرفت سے چھٹکارہ حاصل نہیں کر سکا ہے۔ کراچی میں بلدیاتی انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن نے فوج سے مدد طلب کی ہے۔ سیکرٹری الیکشن کمیشن بابر یعقوب کے مطابق کراچی کے93 فی صد سے زاید پولنگ اسٹیشنوں کو حساس یا انتہائی حساس ہیں۔ مجموعی طور پر کراچی میں 4141 پولنگ اسٹیشنز ہیں، جن میں سے 1791 انتہائی حساس، 2116 حساس اور صرف 234 نارمل قرار دیے گئے ہیں۔ سیکرٹری الیکشن کمیشن نے کہا کہ حکومت سندھ کے نمائندوں نے بعض علاقوں کی نشاندہی کی ہے جو انتہائی حساس ہیں، ان میں لائنز ایریا، لانڈھی، شاہ فیصل کالونی، لیاری، گھاس منڈی، کھوکھراپار، نارتھ ناظم آباد، ابراہیم حیدری اور دیگر شامل ہیں۔ کراچی میں رینجرز کی 28 موبائلیں اور 180 موٹر سائیکل سوار اہلکار گشت پر مامور ہوں گے۔ ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے گا۔ بلدیاتی انتخابات کو پرامن طور پر کامیاب بنانے کے لیے رینجرز اور فوج کے 9400 سے زاید اہلکار، جبکہ 25 ہزار سے زاید پولیس اہلکار تعینات ہوں گے۔ انتہائی حساس اور حساس پولنگ اسٹیشنز میں رینجرز تعینات کرکے مجسٹریٹ کا اختیار دینے کی تجویز پر غور کیا جا رہا ہے۔ مختلف حکام اور اداروں کی جانب سے کراچی کے انتہائی حساس اور حساس پولنگ اسٹیشنز کے اندر اور باہر رینجرز تعینات کرنے کی تجویز بھی دی گئی ہے۔
کراچی کے چھ اضلاع میں بلدیاتی انتخابات 5 دسمبر کو ہونے جارہے ہیں۔ اس سے قبل بلدیاتی انتخابات کے تیسرے اور آخری مرحلے کے سلسلے میں کراچی میں انتخابی سرگرمیاں تیز ہوگئی ہیں۔ انتخابی دفاتر میں بھی گہما گہمی بڑھ گئی ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ، جماعت اسلامی، تحریک انصاف، پیپلز پارٹی، جے یو آئی، مہاجر قومی موومنٹ، عوامی نیشنل پارٹی اور مسلم لیگ (ن) سمیت دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں کے زیر اہتمام انتخابی ریلیوں اور جلسے جلوسوں کا انعقاد کیا جارہا ہے، جس میں شہریوں کی دلچسپی بڑھ گئی ہے۔ بلدیاتی انتخابات کے سلسلے میں سیاسی و مذہبی جماعتوں سمیت آزاد امیدواروں نے بھی اپنی انتخابی مہم تیز کردی ہے۔ شہر بھر میں جگہ جگہ سائن بورڈز پر اپنی اپنی جماعتوں کے اشتہار آویزاں کردیے گئے ہیں۔ رکشا، ٹیکسی سمیت دیگر ٹرانسپورٹ پر بھی اپنے من پسند جماعتوں کے امیدواروں کی حمایت میں جھنڈے اور اسٹیکرز چسپاں کردیے گئے ہیں۔ گلی محلے کی سطح پر ہر علاقے میں روزانہ کی بنیاد پر ریلیاں اور کارنرز میٹنگز کا انعقاد ہو رہاہے۔ شہر کے تقریباً تمام علاقوں میں امیدوار ووٹ حاصل کرنے کے لیے شہریوں سے رابطہ کر رہے ہیں۔ جبکہ مختلف جماعتوں کی مرکزی قیادت بھی بلدیاتی انتخابات کے سلسلے میں بذات خود کراچی میں متحرک نظر آرہی ہے۔ کئی برس بعد مختلف سیاسی جماعتیں کھل کر انتخابی مہم چلا رہی ہیں، خوشی کی بات ہے کہ اس دوران کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا، جو یہ ثابت کرتا ہے کہ آپریشن کی وجہ سے کراچی میں امن کافی حد تک لوٹ آیا ہے۔

ہفتہ کے روز پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق نے کراچی میں بلدیاتی الیکشن سے قبل مشترکہ ریلی نکال کر اپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ کیا۔ ریلی میں دونوں جماعتوں کے کارکنان کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ دونوں رہنماﺅں نے عوام سے اپیل کی کہ دہ اپنا ووٹ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کو دیں۔ ترازو اور بلا تبدیلی کا مشترکہ نشان ہے۔ 5دسمبر کو الیکشن کی جگہ سلیکشن ہوئی تو عوام کے ہاتھ حکمرانوں کے گریبانوں پر ہوں گے۔ برسراقتدار آکر کراچی کا تمام مافیاﺅں سے نجات دلائیں گے۔ اتوار کے روز بھی عمران خان نے شہر میں مختلف مقامات پر کارنر میٹنگز کیں۔ گزشتہ روز تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے پانچ دسمبر کے بلدیاتی انتخابات سے قبل اتوار کے روز کراچی میں ریلی نکالی اور پارٹی چیئرمین عمران خان سے متعدد حلقوں کا دورہ کیا۔ لیاری میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ وہ ”نیا کراچی“ اور ”نیا لیاری“ بنانے عوام کے پاس آئے ہیں۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ کراچی کے لوگوں کو تقسیم کیا گیا، جبکہ لیاری میں اپنے مفاد کے لیے نفرتیں پھیلائی گئیں۔ نفرتیں پھیلا کر کسی اور نے فائدہ اٹھالیا، لیاری میں بلوچ اور کچھی برادری کو تقسیم کیا گیا، تاہم لیاری کی عوام ڈرنے والے نہیں۔ انہوں نے کہا کہ میئر صرف تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کا ہی بنے گا۔ اتوار کے روز پیپلزپارٹی نے بھی ایک ریلی نکالی، جس سے خطاب کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کی رہنما شیری رحمن نے کہا کہ اس وقت سارا پاکستان ہمارے ساتھ کھڑا ہے۔ 5 دسمبر کو بلدیاتی الیکشن ہیں، ہمیں پی پی کو ووٹ دینا ہے۔ کامیابی ہمیں ہی ملے گی۔ جبکہ گزشتہ روز بھی پیپلزپارٹی نے ایک بڑا جلسہ کیا، جس میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹوزرداری نے کہا ہے کہ ملیرذوالفقارعلی بھٹو اور بے نظیربھٹو کے چاہنے والوں کا ضلع ہے۔ جب کوئی قوم اپنے اصول سے ہٹ جاتی ہے تو قوم نہیں رہتی ہے۔غریب مزدوروں اٹھو اور ایک دوسرے کا ہاتھ تھامو۔ جبکہ اتوار کے روز مہاجر قومی موومنٹ کے زیراہتمام چیئرمین آفاق احمد کی قیادت میں انتخابی ریلی ڈیفنس سے لانڈھی تک نکالی گئی۔ آفاق احمد نے سنگر چورنگی، کورنگی پانچ، جی ایریا، کورنگی چھ، لانڈھی چھ، لانڈھی ساڑھے پانچ، چراغ ہوٹل، بابر مارکیٹ، عارضی بیت الحمزہ و دیگر مقامات پر شرکا سے خطاب کیا۔ آفاق احمد نے کہا عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ اپنے حقوق کے حصول کے لیے 5 دسمبر کو موم بتی پر نشان لگائیں۔ ایم کیو ایم بھی بڑھ چڑھ کر انتخابی مہم میں شریک ہے جس کے تحت اتوار کے روز کراچی کے علاقوں کورنگی، بیت المکرم گلشن اقبال، سرجانی اور رنچھوڑ لائن میں کارنر میٹنگزکا انعقاد کیا گیا۔حیدر عباس رضوی نے حیدری میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کراچی میں مخالفین کی ریلی گاڑیوں کی قطارپر مشتمل تھی۔ کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں بھی ایم کیو ایم کی ہی جیت ہوگی۔ اسی طرح اتوار کے روز عوامی نیشنل پارٹی نے بھی شاہی سید کی قیادت میں اپنی ریلی نکالی۔

کراچی میں بلدیاتی انتخابات میں کامیابی کا سہرا سجانے کے لیے تمام جماعتیں سرتوڑ کوشش کر رہی ہیں ۔ کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں متحدہ قومی موومنٹ آزادانہ طور پر انتخابات میں حصہ لے رہی ہے، جس کی کسی جماعت سے کوئی سیٹ ایڈجسٹمنٹ نہیں ہوئی ہے۔ جبکہ کراچی میں جماعت اسلامی اور تحریک انصاف نے آپس میں اتحاد کر کے بلدیاتی انتخابات لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کراچی کے ضلع غربی اور ضلع شرقی میں دونوں جماعتوں کے درمیان 50 - 50 فی صد نشستوں کے فارمولے پر اتفاق ہوا ہے، جبکہ ضلع وسطی، جنوبی اور ضلع ملیر میں مختلف جماعتوں کے ساتھ سیٹ ایڈ جسٹمنٹ کی گئی ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کی بظاہر کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں کوئی خاص دلچسپی نظر نہیں آرہی ہے، کیونکہ اب پیپلزپارٹی ماضی کی طرح کراچی میں مضبوط نہیں ہے۔ ماضی میں لیاری کو پیپلز پارٹی کا گڑھ مانا جاتا ہے، لیکن اس بار یہاں پیپلزپارٹی کا مقابلہ خود اپنے ہی جیالوں سے ہے۔ بہت سے جیالے آزاد حیثیت سے جبکہ ماضی کے بعض جیالے اب نئے پاکستان کی امید لیے تحریک انصاف میں شامل ہو گئے ہیں۔ انہیں میں سے ایک سابق جیالا حبیب اللہ خان ہے، جس نے پیپلز پارٹی سے مایوس ہو کر تحریک انصاف کو جوائن کر لیا۔ لیاری کے رہائشیوں کے مطابق انہوں نے لیاری کی سربراہی کے لیے متبادل پارٹی کا انتخاب کر لیا ہے۔ ان حالات میں پیپلزپارٹی کے لےے شدید مشکلات پیدا ہو گئی ہیں۔ کراچی میں مذہبی ووٹ بینک بھی کافی مضبوط ہے، لیکن مذہبی سیاسی جماعتوں کے متحد ہوکر الیکشن نہ لڑنے کی وجہ سے زیادہ بہتر نتائج دینا کافی مشکل ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے مختلف جماعتوں سے اتحاد کیا ہے، لیکن تقریباً ہر جگہ دھڑے بندی کا شکار ہے۔ جبکہ پیپلزپارٹی نے ضلع غربی میں جمعیت علمائے اسلام سے اتحاد کیا ہے، تاہم دیگر جماعتوں کے ساتھ بھی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی گئی ہے۔ اے این پی بھی اگرچہ بلدیاتی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کی کافی کوشش کررہی ہے لیکن اے این پی کو پہلے جیسے کامیابی ملنا ممکن نہیں ہے۔ تمام جماعتیں اپنے تئیں کراچی میں کامیابی کے حصول میں مگن ہیں لیکن یہ وقت ہی بتائے گا کہ کون سی جماعت کتنی زیادہ نشستیں حاصل کرتی ہے۔

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 677259 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.