چند روز قبل کراچی میں ایک اور میڈیا ہاؤس کی ڈی ایس این
جی (ڈائیریکٹ سیٹیلائٹ نیوز گیدرنگ) وین پر حملہ کیا گیا جس میں حسن متین
نامی انجینئر زخمی ہوا۔ مذکورہ حملہ کراچی کے علاقے عیسیٰ نگری میں ہوا۔ یہ
عزیز بھٹی تھانے کی حدود ہے۔ ڈی ایس این جی پر پانچ فائر مارے گئے جس میں
سے ایک گولی حسن متین کو لگی تاہم اﷲ کے فضل و کرم سے حسن متین جسے بازو پر
گولی لگی، اب بہترحالت میں ہے اور تیزی سے صحت یاب ہو رہا ہے۔ گزشتہ پانچ
ماہ میں کراچی میں صحافیوں یا میڈیا ہاؤس یا ڈی ایس این جی وین پر ہونے
والا یہ پانچواں حملہ تھا۔ ایک طرف کراچی میں آپریشن جاری ہے اور دوسری طرف
دہشتگرد بھی ابھی تک اپنے موجود ہونے کا ثبوت دیتے رہتے ہیں۔پولیس اہلکاروں
سمیت دیگر سیکورٹی اہلکاروں پر بھی حملے جاری ہیں جبکہ گزشتہ دنوں کراچی
میں دہشتگردی کی ایک کارروائی میں چار رینجرز کے اہلکاروں کو بھی شہید کیا
گیا۔ اگربات صحافیوں اور میڈیا ہاؤسز پر حملے کی جائے تو یہ ایک انٹرنیشنل
’’فینومینا‘‘ کا حصہ لگتا ہے۔ دنیا میں جہاں جہاں بھی سیاسی ومذہبی جماعتیں،
لسانی گروپ، فرقہ وارانہ جماعتیں اور دیگر پریشر گروپس یا ریاستی خفیہ
ادارے میڈیاپر اپنی مرضی کا موقف پیش کرنے کے لئے دباؤ ڈالتے ہیں تو وہ
صحافیوں پر تشدد کا راستہ اپناتے ہیں یا اخباری مالکان اور میڈیا ہاؤسز کے
سربراہوں کے دھمکاتے ہیں۔ بد قسمتی سے ہمارے ملک میں کبھی صحافی کو قتل کر
کے یہ ہدف حاص کیا جاتا ہے تو کبھی کسی میڈیا ہاؤس پر کریکر پھینک کر یہ
بتانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اگر ہماری بات نہ مانی گئی یا ہماری مرضی کے
موقف سے انحراف کیا گیا تو بات کریکر حملے سے آگے بھی بڑھ سکتی ہے۔ ہمارے
ملک میں محض خوف ہراس پھیلانے یا میڈیا پر ایک بڑی خبر بنوانے کے لئے بھی
اس قسم کا طرز عمل عام ہے کہ صحافیوں ، میڈیا ہاؤسز اور اخبارات کے مالکان
کوہراساں کیا جائے لیکن اس کے برعکس دنیا میں صحافیوں یا میڈیا ہاؤسز یا
اخبارات کو اس وقت نشانہ بنایا جاتا ہے کہ جب کوئی سیاسی، سماجی یا مذہبی
حوالے سے خاص ہدف حاصل کرنا ہو یا میڈیا کوکسی خبر سے روکنا ہو۔ گویا ہماری
یہاں بلا وجہ بھی صرف خوف و ہراس پھیلانے (دل پشوری )کے لئے بھی ایسا کیا
جاتا ہے۔اگر میں رواں سال اب تک کے عالمی سطح پر ہونے والے واقعات آپ کے
سامنے پیش کروں تو اس سال اب تک دنیا کے مختلف ممالک میں 73 صحافیوں کو قتل
کیا جا چکا ہے۔ ان میں افریقی ملک صومالیہ سب سے آگے ہے جہاں مجموعی طور پر
16صحافیوں کو قتل کیا گیا ہے جبکہ دنیا میں صحافیوں کو قتل کئے جانے کے
حوالے سے دوسرا نمبر پاکستان کا ہے کہ جہاں اب تک 9صحافیوں یا سپورٹنگ
اسٹاف (میڈیا ہاؤسز کا ٹیکنیکل اسٹاف) کو قتل کیا گیا ہے۔ فرانس میں رواں
سال کے دوران 8صحافیوں کو قتل کیا گیا، شام میں 7 صحافیوں کو موت کے گھاٹ
اتارا گیا، ساؤتھ سوڈان میں 5 صحافیوں کو مارا گیا، بنگلہ دیش، برازیل اور
میکسیکو میں 2015 کے دوان اب تک 4،4 صحافیوں کو قتل کیا گیا جبکہ ترکی اور
عراق میں 2 ،2 صحافیوں کو موت کی نیند سلایا گیا۔ اس کے علاوہ گویٹے مالا،
کانگو اور انڈیا میں 1، 1 صحافی کو موت کے اندھیر وادیوں میں دھکیل دیا
گیا۔اسی طرح اگر 2014 کے اعداد شمار کا جائزہ لیا جائے تو اس سال کے دوران
دنیا بھر میں قتل کئے جانے والے صحافیوں کی تعداد 135 ہے اس حوالے سے چند
ممالک کی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ پاکستان میں 2014 کے دوارن مجموعی طور پر
14صحافیوں یا سپورٹنگ اسٹاف ( ٹیکنیکل اسٹاف) کو قتل کیا گیا۔اس اعتبار سے
افغانستان دوسرے نمبر پر رہا جہاں10 صحافیوں کو مارا گیا۔ اسی سال کے دوران
ہنڈراس میں7 عراق میں 7 میکسیکو میں5 لیبیا میں3موت کے گھاٹ اتارا گیا جبکہ
انڈیا اور بنگلہ دیش میں 2,2صحافیوں کو تاریک راہوں کا مسافر بنا دیا
گیا۔2014 میں پاکستان میں جو صحافی یا سپورٹنگ اسٹاف قتل کیا گیا اس کی
تفصیل کچھ اس طرح ہے۔سال 2014 کی ابتدا ہی صحافی کے قتل سے ہوئی یکم جنوری
کو شان ڈار کو قتل کر دیا گیا۔ شان ڈار کا تعلق اب تک ٹی وی سے تھا۔اس کے
بعد 17 جنوری2014 کو کراچی میں ایکسپریس کی ڈی ایس این جی وین پر حملہ ہوا
جس میں ایک ڈرائیور سمیت ٹیکنیکل ٹیم کے دو افراد جاں بحق ہوئے ، قتل ہونے
والوں میں وقاص عزیزخان، خالد خان اور اشرف آرائیں شامل ہیں۔ 2 فروری2014
کوڈیلی زمانہ کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے صحافی کی ٹارگیٹڈکلنگ کی گئی۔ 3مارچ
2014کو ارباب تنولی کو قتل کیا گیا جو برطانوی نیوز ایجنسی رائٹرز کا فوٹو
گرافر تھا جبکہ ارباب ایک مقامی اخبار کے لئے رپورٹنگ بھی کرتا تھا ۔
28مارچ2014 کومعروف صحافی اورٹی وی پروگرام اینکر رضا رومی کی گاڑی پر حملہ
ہواس حملے میں رضا رومی کا ڈرائیور جاں بحق ہو گیا تاہم رضا رومی محفوظ
رہے۔19اپریل 2014 کو کراچی میں ملک کے نامور صحافی اور بین الاقوامی شہرت
کے حامل صحافی حامدمیر پر حملہ کیا گیا تاہم وہ اس حملے میں بچ گئے انھیں
متعدد گولیاں لگی تھیں لیکن قدرت نے انھیں نئی زندگی دی۔ 23 اپریل 2014
کواقبال شہزاد نامی صحافی کو قتل کیا گیا اس کا تعلق سماء نیوز سے تھا۔28
اگست2014 اے آر وائی نیوز کے ارشاد مستوئی، محمد عبدالرسول اور محمدیونس کو
قتل کر دیا گیا۔ 3 اکتوبر2014 کو ندیم حیدر کو قتل کیا گیا اس کا تعلق دنیا
نیوز سے تھا۔15 اکتوبر2014 کویعقوب شہزاد کی ٹارگیٹڈ کلنگ کی گئی اس کا
تعلق ایکسپریس نیوز سے تھا، 6 نومبر2014 کوجیون آرائیں کو مارا گیا اس کا
تعلق دھرتی ٹی وی سے تھا۔پاکستان کا منظر نامہ اس اعتبار سے تھوڑا سا مختلف
ہے کہ یہاں صحافت سے متعلق ایسے افراد کو بھی نشانہ بنایا جاتا ہے کہ جس کا
قصور صرف اتنا ہوتا ہے کہ وہ ایک میڈیا ہاؤس میں کام کرتا ہے اور صحافت کے
پیشے سے وابستہ ہے اس کا کسی قسم کی خبر یا نیوز اسٹوری سے تعلق نہیں ہوتا
کہ جس پر مخالفین کو اعتراض ہو جبکہ دنیا بھر میں وہ صحافی نشانہ بنتے ہیں
جو کسی نیوز اسٹوری پر کام کر رہے ہوتے ہیں یا انھوں نے کوئی ایسی نیوز
بریک کی ہوتی ہے کہ جس سے کسی ادارے، طبقے یا سیاسی و مذہبی جماعت کے
مفادات کو نقصان پہنچ رہا ہوتا ہے۔اگر ہم 1992 سے 2015 تک کا جائزہ لیں تو
اب تک دنیا بھر میں 1153صحافیوں کو قتل کیا گیا۔ جبکہ اگر گزشتہ صرف چار
برسوں کے اعداد شمار کو سامنے رکھا جائے تو دنیا بھر میں 2011سے2015 تک
مجموعی طور پر 514 صحافیوں کو قتل کیا گیا۔ یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ دنیا
بھر میں صرف صحافت ایسا پیشہ ہے کہ جس سے تعلق رکھنے والے افراد کی اتنی
بڑی تعداد کو بڑی بے دردی سے قتل کیا جاتا ہے ۔ کسی اور شعبے سے تعلق رکھنے
والے افراد کو نہ تو اتنی بڑی تعداد میں مارا جاتا ہے اور نہ ڈرایا دھمکایا
جاتا ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ کوئی حکومت یا سیکورٹی ایجنسی صحافیوں یا
صحافتی اداروں پر حملے روک سکتی ہے یا صحافیوں کا قتل عام رکوایا جا سکتا
ہے تو اس کا جواب نفی میں ہے۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ سڑکوں پر کوریج کے لئے
گھومتے پھرتے صحافیوں یا صحافتی اداروں کی ڈی ایس این جی وینوں کو تحفظ
فراہم کیا جائے ۔ نہ تو ہر ڈی ایس این جی وین اور نہ ہی ہر صحافی کی
سیکورٹی کے لئے ایک پولیس موبائل فراہم کی سکتی ہے نہ اتنی بڑی تعداد میں
سیکیورٹی اہلکاروں کی ڈیوٹی لگائی جا سکتی ہے۔ہاں یہ ضرور ممکن ہے کہ صحافی
اپنا تحفظ خود کریں اور اس حوالے سے ضروری تربیت اور ساز و سامان(بلٹ پروف
جیکٹ وغیرہ) اپنے ساتھ رکھیں۔ لیکن دوسری طرف حکومت کی بھی ذمہ داری ہے کہ
شہر اور ملک کی سیکیورٹی کے حوالے سے مجموعی صورت حال کو بہتر بنائے اور
اگر صحافیوں یا صحافتی ادارے کے کے ساتھ دہشتگردی کا کوئی واقعہ ہو ہی جائے
تو حکومت زبانی جمع خرچ کے بجائے دامے ،درھمے ، سخنے اور قدمے ان کے ساتھ
کھڑی ہو۔ |