فتح مکہ میں تاریخ کے اولوالعزم شمشیرآزماجرنیل کی
کارکردگی
وہ مقدس گھرجس کی تعمیرکاشرف امام الموحدین جدالانبیاء والمرسلین
سیدناابراہیم علی نبیناوعلیہ السلام کومرحمت فرمایاگیااورجس کی تعمیر
کامقصدسیدناخلیل اﷲ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بصد عجز و نیاز بارگاہِ
خداوندی میں بایں الفاظ عرض کیاتھا:’’اے میرے رب!میں نے اپنی کچھ اولادایک
نالے میں بسائی جس میں کھیتی نہیں ہوتی تیرے حرمت والے گھر کے پاس۔اے ہمارے
رب اس لئے کہ وہ نماز قائم رکھیں ‘‘۔(سورۂ ابراہیم،پ۱۳،۳۷،کنزالایمان)
صدحیف وہ گھرصدہاسالوں سے صنم کدہ بناہواتھا،وہاں اﷲ وحدہ لاشریک لہ کی
عبادت کی بجائے پتھر سے گھڑے ہوئے سینکڑوں اندھے،بہرے،گونگے اور بے جان
بتوں کی پوجاپاٹ بڑی دھوم دھام سے ہورہی تھی۔اس مقدس گھر کوکفروشرک کی
آلودگیوں سے پاک کرنے کے لئے اﷲ تعالی نے اپنے محبوب شاہکارِ دستِ قدرت
مصطفی جانِ رحمتﷺکومبعوث فرمایا۔روزِ بعثت سے لے کر۸؍ہجری تک یہ اکیس سالہ
عرصہ پیغمبر اسلام اور دین اسلام کے لئے بڑاصبرآزماتھا۔صلح حدیبیہ کی خلاف
ورزی کرنے کے سبب پیغمبراسلامﷺ نے مکہ کی طرف کوچ فرمایا۔نبی کریم علیہ
الصلوٰۃ ولتسلیم نے حکم دیاکہ منادی کرنے والے لشکراسلام کی اقامت گاہوں
میں جاکریہ اعلان عام کریں کہ صبح سویرے ہر قبیلہ کے جوان اپنی سواریوں
پرزینیں اور کجاویں کس لیں اور ہر قبیلہ اپنے قائد کے ساتھ اپنے جھنڈے کے
پاس کھڑاہوجائے اور اپنے اسلحہ اور سامان جنگ کی پوری طرح نمائش کرے۔حضورﷺکے
حکم کے مطابق لشکر اسلام کو یوں ترتیب دیا گیا،حضرت ابوعبیدہ بن جراح مقدمۃ
الجیش کے قائد مقرر ہوئے،حضرت خالد بن ولید کومیمنہ پرمتعین کیاگیا،حضرت
زبیر بن عوام میسرہ کے قائد بنائے گئے اور قلب لشکر میں خود حضوررحمت عالم
ﷺ تشریف فرماہوئے۔حضرت خالد بن ولید،بنی سلیم کے سالار مقرر ہوئے تھے،بنی
سلیم کی تعداد ایک ہزار تھی،ان کے پاس دوجھنڈے اورایک پرچم تھا،ایک
جھنڈاعباس بن مرداوردوسراخفاف بن ندبہ کے پاس تھاجبکہ اس قبیلہ کاپرچم حجاج
بن علاط نے تھاماہواتھا۔حضرت خالد بن ولیدکایہ چاق وچوبنددستہ ابوسفیان کے
پاس سے گزراتوانہوں نے تین باربلندآواز سے نعرۂ تکبیرلگایااور آگے بڑھ
گئے۔ابوسفیان نے حضرت عباس سے پوچھایہ کون لوگ ہیں؟آپ نے اسے بتایاکہ یہ
خالد ہے۔ابوسفیان نے ازراہِ حیرت پوچھا:الغلام؟یعنی وہ نوجوان
خالد۔فرمایاوہی نوجوان خالد۔پھر اس نے پوچھا،اس کے ساتھ کون لوگ
ہیں؟بتایا،بنوسلیم۔ہادیٔ برحقﷺنے جب اپنے سپہ سالاروں کومختلف اطراف سے مکہ
میں داخل ہونے کاحکم دیاتوساتھ ہی یہ تاکید بھی فرمائی کہ وہ اپنی تلواروں
کوبے نیام نہ کریں۔جب تک کفار اِن پرحملہ کرنے میں پہل نہ کریں یاکسی
پرحملہ نہ کریں۔چنانچہ حضرت خالد بن ولید کے علاوہ جتنے سپہ سالارمکہ میں
اسلامی مجاہدوں کے ساتھ داخل ہوئے کسی نے ان پرحملہ کرنے کی جسارت نہ
کی۔البتہ حضرت خالد بن ولید جب مکہ کے جنوبی حصہ سے شہر میں داخل ہونے لگے
تووہاں چندقریشیوں نے ان کاراستہ روکنے کی کوشش کی اور اپنی تلواریں بے
نیام کرلیں۔ حضرت خالد بن ولید نے بلند آوازسے انہیں نصیحت کی کہ بلاوجہ
اپنے خون مت بہاؤ۔تمہاری ان گیدڑ بھبکیوں سے لشکرِ اسلام کی پیش قدمی نہیں
رکے گی۔ہمیں اﷲ کے پیارے رسول نے حکم دیاہے کہ ہم آج مکہ کوفتح کرکے یہاں
اسلام کاپرچم لہرادیں اوراﷲ تعالیٰ کی مددسے ہم یقیناآج اس شہرکوفتح کریں
گے۔ لیکن کفارقریش نے حضرت خالد بن ولید کی اس نصیحت پرعمل کرنے سے انکار
کردیااورمسلمانوں پرحملہ کردیا۔ حضرت خالد بن ولید نے جوابی کارروائی کرنے
کی اپنے مجاہدین کواجازت دی۔چشمِ زدن میں کفارکے پندرہ آدمیوں کی لاشیں خاک
وخون میں لوٹنے لگیں۔اس جھڑپ میں مسلمانوں کے صرف دوآدمی شہید ہوئے۔(ضیاء
النبیﷺ،ج۴،ص،۴۳۹)
٭٭٭ |