ابن انشاپرایک نظر

انشا کا مزاج تخیلاتی ہے وہ اپنے گردوپیش میں ہونے والے واقعات اور حوادث کو محسوس کرتے ہیں مگر ان کی نظموں میں جذباتی ردعمل ملتا ہے جہاں وہ عقل سے گریزکرتے ہوئے جذبے کی شدت سے پُرنظر آتے ہیں۔

ابن انشا

ابن انشا نے شعرگوئی کا آغاز باقاعدہ اسکول کے زمانے ہی سے شروع کردیا تھا۔وہ اپنے تخلص سے متعلق بتاتے ہیں کہ سب سے پہلا تخلص اصغرتھا، پھر مایوس، عدم آبادی پسند آیا۔ مزید بتاتے ہیں کہ ہائی اسکول کے ایک استاد مولوی برکت علی لائق نے جو فارسی پڑھاتے تھے فرمایا کہ مایوس اچھا تخلص نہیں توقیصر کا دم چھلالگالیا۔ قیصر یا قیصرصحرائی بھی رہے لیکن چھپے تو ابن انشاکے نام سے۔ابن انشا اپنے اسکول کے ذہین ترین طلبا میں شمار ہوتے تھے، کیوں کہ اس وقت ہندواور سکھ طلبہ کے مقابل کسی مسلمان طالب علم کا آنا قابلِ فخر بات سمجھی جاتی تھی۔

ابن انشا کے ہاں چاند اپنے مجرو روپ میں موقع بہ موقع نظر آتا ہے۔ ’’چاند نگر‘‘ کے اس شاعر نے اپنی شاعری میں چاند کی باتیں کرتے ہوئے اپنے وقت کے اہم سماجی مسائل کو بھی اپنی شاعری میں جگہ دی۔ صبح وشام ترقی پسندوں کے درمیان رہنے اور اپنی تمام ترقی پسندی کے باوجود رومانوی رجحانات سے بھرپور کامیاب نظمیں بھی کہیں اور اپنے مخصوص انداز سے اپنے عہد کی تلخ وسنگین حقیقتوں کو اپنی داخلیت کی آنچ دے کر وہ شاعرانہ روپ دیا جو اُنھی سے مخصوص تھا۔اردو غزل کے خلاف اُٹھنے والی بے رحم موجوں میں انھوں نے اپنی غزلوں میں نہ صرف غزل کی شعری روایتوں کو جذب کیا بلکہ وہ روایتیں ان میں اس طرح بس گئیں کہ انھیں باغی شاعروں کے برعکس روایت کا نقیب کہنے میں کوئی عار نہیں ہونی چاہیے۔ نہ صرف یہی بلکہ انھوں نے اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی تخلیقی عکاسی اس طرح کی کہ ان کی انفرادیت ان کے ہم عصروں میں سب سے الگ ہوگئی۔ابن انشا کاپہلا فنی سفر ’’چاند نگر‘‘ ان کی اندرونی اور بیرونی چاندنی کی عکاسی کرتا ہے اور اس میں ان کے معاشرتی اور سماجی شعور کی نمائندگی ہوتی ہے۔ اولین مجموعے کے ساتھ ہی ان کی مقبولیت ان شاعروں میں ہونے لگی جن کی شاعری تنقیدی مباحث کی وجہ سے زندہ نہیں رہتی بلکہ یہ لوگوں کے دلوں میں جگہ بناتی ہے، ابن انشا کی یہ غزلیں آج بھی پہلے دن کی طرح مقبول ہیں۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں:
ساون بھادوں ساٹھ ہی دن ہیں پھر وہ رُت کی بات کہاں
اپنے اشک مسلسل برسیں، اپنی سی برسات کہاں!
چاند نے کیا کیا منزل کرلی، نکلا، چمکا، ڈوب گیا
ہم جو آنکھ جھپک لیں سولیں، اے دل ہم کو رات کہاں
پیت کا کاروبار بہت ہے، اب تو اور بھی پھیل چلا
اور جو کام جہاں کے دیکھیں فرصت دیں حالات کہاں!
قیس کا نام سنا ہی ہوگا ہم سے بھی ملاقات کرو
عشق و جنوں کی منزل مشکل سب کی یہ اوقات کہاں
…………
اردو شاعری میں ان کی مقبولیت زندگی کے آخری برسوں تک ان کی رفیق رہی، وفات سے لگ بھگ دو سال قبل ان کی ایک غزل نے توفی الواقعہ ایک طوفان کھڑا کردیا:
انشاجی اٹھو اب کوچ کرو اس شہر میں جی کا لگانا کیا
وحشی کو سکوں سے کیا مطلب، جوگی کا نگر میں ٹھکانا کیا
اس دل کے دریدہ دامن کو، دیکھو تو سہی، سوچوتو سہی
جس جھولی میں سوچھید ہوئے، اس جھولی کا پھیلانا کیا

ابن انشا کی غزلوں میں بظاہر تو کوئی گہری، معنویت یا فکری گہرائی نہیں، نہ ہی کوئی نفسیاتی باریکیاں ہیں، لیکن ان کی شاعری میں موجود معصومیت اور بھولپن کی کیفیت نے ادبی دنیا میں ایک مقام حاصل کرلیا۔ابن انشا کا مزاج تخیلاتی ہے وہ اپنے گردوپیش میں ہونے والے واقعات اور حوادث کو محسوس کرتے ہیں مگر ان کی نظموں میں جذباتی ردعمل ملتا ہے جہاں وہ عقل سے گریزکرتے ہوئے جذبے کی شدت سے پُرنظر آتے ہیں۔ابن انشا کی غزلوں میں قدیم فارسی غزل گوشعرا میردرد، میرتقی میر وغیرہ کی پوری رمزیہ اشارے اور بندشوں کی شکلیں نظر آتی ہیں، جب کہ ان کی نظموں پر مغربی اور چینی اشتراکیت کا فلسفہ غالبہے۔ انشاجی اپنی غزلوں میں اپنی نظموں سے بالکل مختلف نظر آتے ہیں۔ ان کی نظموں کے اسلوب اور طرزِ نگارش پر اردو شعرا میں دوشاعروں مولوی خوشی محمدناظر اور مولانا اسمٰعیل میرٹھی کا اثر نظر آتا ہے۔

اپنے پہلے شعری مجموعے کی پذیرائی کے بعد انشا مزاح نگاری، سفرناموں اور کالم نویسی کی طرف راغب ہوگئے اور اپنی شاعری کو یکسر نظرانداز کردیا مگرپھرشاعرانہ طبیعت نے ایک دفعہ انشاجی کو ان کے تخلیقی فن کی طرف راغب کیا اور انھوں نے ’’اس بستی کے اک کوچے میں‘‘تحریرکیا۔ ابن انشا نے ’’چاندنگر‘‘ اس وقت تحریر کیا،جب چاند پر انسان نے قدم بھی نہیں رکھا تھا۔ جب کہ انھوں نے ’’اس بستی کے اک کوچے میں‘‘ لکھا تو زمین پر ہونے والے معاشرتی، سماجی، سیاسی مسائل اُن کے سامنے تھے۔ انھوں نے جنگ وامن، امارات و احتیاج، استعمار و حکومت ،اسباب دنیا کی فروانی، غلے گوداموں اور دودھ کی نہروں پر لکھا۔ اس کے علاوہ انھوں نے حبشہ، چاڈاور اریٹیریاکی جھلسی ہوئی ویرانی میں انسان کے دانے دانے کو محتاج ہونے اور جانوروں کا سوکھا گوبرکریدنے پرلکھا۔انھوں نے اس مجموعے میں شاعروں اور ادیبوں کی طرف بھی اشارہ کیا ہیجو اپنے ضمیرکی آواز دبائے بیٹھے ہیں، احتجاج کی ہلکی سی صدا بھی نہیں اُبھر رہی:
اس بستی کے اک کوچے میں، اک انشا نام کا دیوانا
اک نار پہ جان کو ہار گیا مشہور ہے اس کا افسانا
……
ہاں عمر کا ساتھ نبھانے کے تھے عہد بہت پیمان بہت
وہ جن پہ بھروسہ کرنے میں کچھ سود نہیں، نقصان بہت
وہ نار یہ کہہ کر دور ہوئی، مجبوری ساجن مجبوری
یہ وحشت سے رنجور ہوئے اور رنجوری سی رنجوری؟
اس روز ہمیں معلوم ہوا، اس شخص کا مشکل سمجھانا

بلاشبہ انشا جی نے اپنے اردگرد ہونے والی ان تمام پہلووں کو اُجاگر کیا جو اُن کی زندگی میں بالواسطہ یا بلاوسطہ وقوع پذیر ہورہے تھے۔ وہ اردو ادب میں نمائندہ حیثیت کے حامل تھے۔ وہ شاعری کے علاوہ نثرمیں بھی بلند مقام پر فائز تھے، بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ جتنی اچھی شاعری تھی اُسی درجے کی نثرنگاری بھی اُن کے کریڈیٹ پر آتی ہے۔
(اردوکی آخری کتاب سے انتخاب)
’’جوتے والے کے ہاں‘‘
’’میاں جوتے والے۔ تم نے دکان تو خوب سجائی ہے‘‘
’’جی ہاں! آج کل ہماری بھی بن آئی ہے۔ اچھی کمائی ہے۔‘‘
’’بھلا یہ جوتا کس بھاؤ کا ہے؟‘‘
’’جی یہ بے بھاؤ کا ہے۔ دُوں؟‘‘
’’ہاں دے دو ایک جوڑا دس نمبر کا۔‘‘
’’جی آپ کے تو نونمبر آئے گا۔ دس نمبر تو میرا ہے‘‘
’’ہاں تمھاری باتوں سے تو یہی پتہ چلتا ہے۔ نونمبر ہی دے دو۔‘‘
’’دال بھی چاہیے؟‘‘
’’وہ کاہے کو؟‘‘
’’آج کل اس کی بڑی مانگ ہے۔ جو جوتے لے جاتا ہے۔ دال بھی لے جاتا ہے۔‘‘
’’اسے لوگ آپس میں بانٹتے ہیں۔‘‘
’’بھئی پہلی تاریخ کے بعد لیں گے۔‘‘
’’پہلی تاریخ کے بعد؟ جناب پہلی کے بعد نہ جوتا ملے گا، نہ دال ملے گی۔ آرڈر بک ہیں۔‘‘
(۳۰دسمبر۱۹۶۹ء)

’’کرسی‘‘

یہ کیا ہے؟ یہ کرسی ہے۔ اس کے کیا فائدے ہیں؟ اس کے بڑے فائدے ہیں۔ اس پر بیٹھ کر قوم کی بے لوث خدمت بہت اچھی طرح کی جاسکتی ہے۔ اس کے بغیر نہیں کی جاسکتی۔ اسی لیے تو جب لوگوں میں قومی خدمت کا جذبہ زور مارتا ہے تو وہ کرسی کے لیے لڑتے ہیں بلکہ کرسیوں سے لڑتے ہیں۔ ایک دوسرے پر کرسیاں اُٹھا کر پھینکتے ہیں۔

کرسی بظاہرلکڑی کی معمولی چیز ہے لیکن لوگوں میں اخلاق حسنہ یعنی عاجزی فروتنی اور خاکساری پیدا کرتی ہے۔ بڑے بڑے پاٹے خاں کرسی کے سامنے آتے ہیں تو خودی کو بلند کرنا بھول جاتے ہیں۔ اُسے جھک جھک کر سلام کرتے ہیں۔ اگر کرسی پر نہ بیٹھا ہو تب بھی کرتے ہیں۔

اردو میں ایک محاورہ ہے کرسی کا احمق۔ خاک نشین لوگ کرسی پر بیٹھنے والوں کو احمق گردانتے ہیں۔ انھیں کرسی کا احمق کہتے ہیں۔ اُدھرکرسی والے بغیر کرسی والوں کو احمق جانتے ہیں، ہماری رائے میں دونوں اپنی اپنی جگہ درست ہیں لیکن بڑا احمق ان میں سے کون ہے؟ یہ ہم نہیں کہہ سکتے۔

کرسی والے کو کرسی کبھی خالی نہیں چھوڑنی چاہیے دوسرے لوگ فوراً اس پر بیٹھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کرسی فولڈنگ اچھی ہے، آدمی جہاں جائے اپنے ساتھ لیتا جائے۔
(یکم دسمبر۱۹۷۰ء)

)ابن انشا ایک نظر میں
ابن انشا کا نام شیر محمدخاں تھا۔ ۱۹۲۷ء میں ضلع جالندھر کے ایک گاؤں پھلور میں پیدا ہوئے اور ۱۱جنوری ۱۹۷۸ء کو انتقال ہوا۔لاہور سے ۱۹۴۴ء میں گریجویشن کیا۔کراچی یونی ورسٹی سے۱۹۵۲ء میں اردو ادب میں ایم۔اے کیا۔ تقسیم سے قبل ہی عملی زندگی کا آغاز ایک زراعتی پرچے میں معاون مدیر کی حیثیت سے کیا۔بعد میں بحیثیت مترجم آل انڈیا ریڈیو سے منسلک ہوئے۔ آزادی کے بعدابن انشا لاہور آگئے۔ یہاں بھی ریڈیوپاکستان میں مترجم کی حیثیت سے کام کیا۔ ۱۹۴۹ء میں ریڈیوپاکستان کراچی کے نیوزسیکشن میں آگئے۔ ۱۹۵۰ء میں پاکستان کی دستورساز اسمبلی میں مترجم کے فرائض انجام دیئے۔ نیشنل بک کونسل کے قیام کے بعد پہلے سیکریٹری مقرر ہوئے اور پھر یہاں کے ڈائریکٹرجنرل مقرر ہوئے۔ ۱۹۷۷ء میں سرکاری حیثیت میں لندن گئے۔ ابن انشا نے دنیا کے متعدد ممالک کا دورہ کیا۔

ابن انشا کی تصنیفات
۱۔’’چاند نگر‘‘( شعری مجموعہ) ۲۔’’اس بستی کے اک کوچے میں‘‘( شعری مجموعہ)۳۔ دلِ وحشی(شعری مجموعہ)،۴۔اردو کی آخری کتاب (طنز ومزاح) ۵۔خمارِگندم (طنزومزاح)، ۶۔’’اندھا کنواں اور دیگرپراسرار کہانیاں‘‘(ترجمہ) ۷۔’’مجبور‘‘(یوجین چرخوف کے ناول کا ترجمہ) دوسری دفعہ یہ ناول ’’سحرہونے تک‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ ۸۔’’لاکھوں کا شہر‘‘ (اوہنری کے افسانوں کا ترجمہ)، ۹۔’’شہرپناہ‘‘ (جان سٹین بک کے ناول This Mooon is Down کا ترجمہ) ۱۰۔’’سانس کی پھانس‘‘ (ایڈگرایلن پو کے شاہکار افسانوں کا سلسلہ نمبر۱) ۱۱۔ ’’وہ بیضوی تصویر‘‘ (ایڈگرایلن پو کے شاہکار افسانوں کا سلسلہ نمبر۲) ۱۲۔’’چہ دلاور است وزدے‘‘ (ایڈگرایلن پو کے افسانوں کا سلسلہ نمبر۳) ۱۳۔’’عطرفروش دوشیزہ کے قتل کا معمہ‘‘ (یو کے افسانوں کا سلسلہ نمبر۴) ۱۴۔’’قصہ ایک کنوارے کا‘‘ (ولہلم بش کے جرمن قصے کا منظوم اردو ترجمہ) ۱۵۔’’کارنامے نواب تیس مارخاں کے‘‘ (بیرنن منش ہاؤزن، جرمن گپ باز کے کارناموں کا اردو رنگ) ۱۶۔’’چلتے ہو توچین کو چلیے‘‘ (سفرنامہ چین) ۱۷۔’’آوارہ گرد کی ڈائری‘‘ (سفرنامہ) ۱۸۔’’دنیا گول ہے‘‘ (سفرنامہ) ۱۹۔’’ابن بطوطہ کے تعاقب میں‘‘ (سفرنامہ) ۲۰۔’’چینی نظمیں‘‘ (قدیم وجدیدچینی شاعروں کی نظمیں)۲۱۔’’تارو اور تارو کے دوست‘‘ (بچوں کی جاپانی کہانی کا اردو ترجمہ از کیکو مورایا) ۲۲۔شلجم کیسے اکھڑا (بچوں کے لیے ایک پرانی روسی کہانی جو جاپانی زبان میں رسالکو اوچیدا نے لکھی اور ابن انشا نے اس کو اردو میں ترجمہ کیا) ۲۳۔’’یہ بچہ کس کا بچہ ہے؟‘‘ (بچوں کے عالمی دن پر ایک طویل نظم) ۲۴۔Look at this child (یہ بچہ کس کا ہے؟ کا انگریزی ترجمہ) ۲۵۔’’قصہ دم کٹے چوہے کا‘‘ (بچوں کے لیے منظوم کہانی) ۲۶۔’’میں دوڑتا ہی دوڑتا‘‘ (بچوں کے لیے منظوم کہانی) ۲۷۔’’بلوکا بستہ اوردوسری نظمیں‘‘ (بچوں کے لیے نظمیں)۲۸۔’’برف کی پوٹلی‘‘ (۱۹۶۵ء کی پاک بھارت جنگ سے متعلق انشاجی کے آٹھ صحافیانہ مضامین کا مجموعہ) ۲۹۔’’اخترکی یاد میں‘‘ (معروف صحافی محمداختر کی وفات پر مختلف مضامین اور تعزیت ناموں کا مجموعہ مرتبہ ابن انشا) ۳۰۔خط انشا جی کے (خطوط)۔

’’غزل‘‘
ہم ان سے اگر مل بیٹھتے ہیں، کیا دوش ہمارا ہوتا ہے
کچھ اپنی جسارت ہوتی ہے، کچھ ان کا اشارا ہوتا ہے
کٹنے لگیں راتیں آنکھوں میں دیکھا نہیں پلکوں پہ اکثر
یا شامِ غریباں کا جنگو، یا صبح کا تارا ہوتا ہے
ہم دل کو لیے ہر دیس پھرے اس جنس کے گاہک مل نہ سکے
اے بنجارو ہم لوگ چلے، ہم کو تو خارا ہوتا ہے
دفتر سے اٹھے، کیفے میں گئے، کچھ شعر کہے کچھ کافی پی
پوچھو جو معاش کا انشا جی یوں اپنا گزارا ہوتا ہے
٭٭٭٭٭

’’اب کوچ کرو‘‘
انشا جی اٹھو اب کوچ کرو اس شہر میں جی کا لگانا کیا
وحشی کو سکوں سے کیا مطلب جوگی کا نگر میں ٹھکانا کیا
اس دل کے دریدہ امن کو دیکھو تو سہی، سوچوتوسہی
جس جھولی میں سو چھید ہوئے اس جھولی کا پھیلانا کیا
شب بیتی چاند بھی ڈوب چلا زنجیر پڑی دروازے میں
کیوں دیر گئے گھر آئے ہو سجنی سے کرو گے بہانا کیا
پھر ہجر کی لمبی رات میاں، سنجوگ کی تو بس ایک گھڑی
جو دل میں ہے لب پر آنے دو، شرمانا کیا گھبرانا کیا
اس روز جو ان کو دیکھا ہے، اب خواب کا عالم لگتا ہے
اس روز جو ان سے بات ہوئی وہ بات بھی تھی افسانہ کیا
اس حسن کے سچّے موتی کو، ہم دیکھ سکیں پر چھو نہ سکیں
جسے ہم دیکھ سکیں، وہ دولت کیا وہ خزانہ کیا
جب شہر کے لوگ نہ رستہ دیں کیوں بن میں نہ جا بسرام کرے
دیوانوں کی سی نہ بات کرے تو اور کرے دیوانہ کیا
٭٭٭٭٭٭
ایک دعا
یااﷲ
کھانے کو روٹی دے!
پہننے کو کپڑا دے!
رہنے کو مکان دے
عزّت اور آسودگی کی زندگی دے!!

میاں یہ بھی کوئی مانگنے کی چیزیں ہیں؟
کچھ اور مانگا کر‘‘
باباجی! آپ کیا مانگتے ہیں؟
’’میں
میں یہ چیزیں نہیں مانگتا
میں تو کہتا ہوں
اﷲ میاں—مجھے ایمان دے!
نیک عمل کی توفیق دے
’’باباجی، آپ ٹھیک دعا مانگتے ہیں۔
انسان وہی چیز تو مانگتا ہے
جو اس کے پاس نہیں ہوتی۔‘‘
٭٭٭٭٭٭

’’دیوارگریہ‘‘
ایک دیوار گریہ بناؤ کہیں
یا وہ دیوار گریہ ہی لاؤ کہیں
اب جو اس پار بیت المقدس میں ہے
تاکہ اس سے لپٹ
اردن و مصر کے، شام کے
ان شہیدوں کو یکبار روئیں
ان کے زخموں کو اشکوں سے دھوئیں
وہ جو غازہ میں لڑکر
وہ جو سینائی کے دشت میں بے اماں
وحشی دشمن کی توپوں کا ایندھن بنے

جن پہ گدھوں کے لشکر جھپٹتے رہے
وہ جو مرتے رہے وہ جو کٹتے رہے
نعرہ تکبیر کا اپنے لب پر لیے
کلمہ توحید کو وظیفہ کیے

آج جب چار دن چار راتوں کے بعد
ایک خونخوار سورج
صبح فردا کا سورج لب بام آیا
تو یہ آنکھوں نے دیکھا……
وہ جو آنکھوں نے دیکھا
بھول جاؤ اسے بھول جاؤ کہیں
ایک دیوار گریہ بناؤ کہیں

وہ یہودی کہ مقہورو مغضوب ہوکر
اتنی صدیوں سے آوارہ و بے وطن تھا
رونے آتا تھا دیوار گریہ کے نیچے
دھونے آتا تھا اشکوں سے دامان ماضی
آج اس کی قلمرو
شہر حیفہ سے تار اس تیران ہے
اس کی افواج تیز
صورت رست خیز
خیمہ زن بر سویز

……اور اہل عرب
جن کے اجداد نے
شرق سے غرب تک
شہسواری بھی کی، تاجداری بھی کی
شہر و صحرا میں آوارہ و بے وطن ہیں
حیفہ وجافہ و ناصرہ کے مکیں
سالہا سال سے بے مکاں سرفشاں
دشت بھی غیرکا، شہر بھی غیرکا
بحر بھی غیرکا
اے خداوند افلاکیاں خاکیاں
کیا عرب کو بھی آوارہ ہونا پڑے گا
یعنی صدیوں تلک
یونہی دیوار گریہ پہ رونا پڑے گا؟

’’ڈرتے ڈرتے آج کسی کو‘‘
ڈرتے ڈرتے آج کسی کو دل کا بھید بتایا ہے
اتنے دنوں کے بعد لبوں پر نام کسی کا آیا ہے

اب یہ داغ بھی سورج بن کر انبر انبر چمکے گا
جس کو ہم نے دامن دل میں اتنی عمر چھپایا ہے

کون کہے وہ کان ملاحت چارۂ درد محبت ہے
چارہ گری کی آڑ میں جس نے خود کو روگ لگایا ہے

ٹوٹ گیا جب دل کا رشتہ اب کیوں ریزے چنتی ہو
ریزوں سے بھی کبھی کسی نے شیشہ پھر سے بنایا ہے


’’میں ہوں انشا، انشا، انشا‘‘
کیوں جانی پہچان گئی ہو؟
انشاجی کو جان گئی ہو؟
جن سے شام سویرے آکر
فون کی گھنٹی پر بلوا کر
کیا کیا بات کیا کرتی تھیں
کیا کیا عہد لیا کرتی تھیں
دیکھو پیت نبھانا ہوگا
دیکھو چھوڑ نہ جانا ہوگا
پیت لگائی ریت نبھائی
ہم لوگوں کی ریت پرائی
میں ہوں انشا، انشا، انشا
صابر عدنانی
About the Author: صابر عدنانی Read More Articles by صابر عدنانی: 34 Articles with 86749 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.