سینیٹ میں اٹھارہویں ترمیم کی
متفقہ طور پر منظوری کے بعد تحریک صوبہ ہزارہ نے جمعہ کو ہزارہ ڈویژن میں
بھوک ہڑتال کا اعلان کیا تھا جو ن لیگ کے رکن قومی اسمبلی کے استعفیٰ ،اے
این پی کی جانب سے وضاحتوں، وفاقی حکومت کی سرد مہری، سرحد حکومت کی جانب
سے طاقت کے استعمال کی پالیسی اور ٹی وی شوز سمیت احتجاجی جلسوں میں نئے
نام کی مخالفت کے دعوے کرنے والوں کے اپنے اعلانات سے دستبرداری کے بعد ایک
بار پھر شدید احتجاج کا روپ دھارتے نظر آ رہی ہے۔
ہزارہ ڈویژن کے علاوہ احتجاج کا دائرہ بڑھ کر ملک اور صوبے کے دیگر علاقوں
تک پھیل چکا ہے۔ ہفتہ کو کراچی سمیت پشاور، اسلام آباد اور متعدد دیگر
شہروں میں احتجاجی مظاہرے کئے گئے۔ اس کے ساتھ ساتھ عوامی نیشنل پارٹی کی
جانب سے صوبہ سرحد اور کراچی میں جشن خیبر پختونخواہ منانے کا سلسلہ بھی
عروج پر ہے۔ دوسری جانب 14 روزہ مسلسل ہنگاموں اور10سے زائد انسانی جانوں
کا خراج لینے کے بعد ہزارہ ڈویژن میں روزمرہ امور کچھ معمول پر آئے ہیں۔
شاہراہ ریشم سمیت تمام سڑکیں کھول دی گئی ہیں۔ ایبٹ آباد میں تحریک صوبہ
ہزارہ کے قائد بابا حیدر زمان نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ
جمعہ کو ہزارہ ڈویژن کے تمام اضلاع میں بھوک ہڑتالی کیمپ لگائے جائیں گے
اور یوم سیاہ منایا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ سرحد کے نئے نام
خیبرپختونخوا کی سینیٹ سے منظوری کے بعد نام کی تبدیلی کا باب بند ہوگیا ہے،
لہٰذا اب یہ تحریک ہزارہ صوبے کے قیام تک جاری رہے گی۔ بابا حیدر زمان نے
کہا کہ صوبائی حکومت نے ان کا کوئی مطالبہ پورا نہیں کیا۔ ایک سوال کے جواب
میں ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن صوبہ ہزارہ کی تحریک میں شامل ہوگی تو
خوش آمدید کہا جائے گا۔
بابا حیدر زمان نے کہا کہ ان کے مطالبات تسلیم نہ کیے گئے تو دوبارہ مظاہرے
کیے جائیں گے۔ بابا حیدر زمان نے کہا کہ انکوائری کمیٹی ان کے لیے ناقابل
قبول ہے اور مطالبہ کیا کہ سپریم کورٹ کے جج کے تحت جوڈیشل انکوائری کرائی
جائے کیونکہ ہزارہ ایکشن کمیٹی موجودہ انکوائری کمیٹی کو مسترد کرچکی ہے۔
اگرچہ ہزارہ ڈویژن میں معمولات زندگی بحال ہو چکے ہیں ٹریفک رواں دواں ہے
دکانیں کھل چکی ہیں اور لوگ خوش ہیں کہ کاروبار بحال ہو چکا ہے مگر لوگوں
کا مطالبہ اب بھی اپنی جگہ پر موجود ہے کہ ان کا صوبہ ہزارہ کا مطالبہ
تسلیم نہ ہونے تک وہ اپنا احتجاج ریکارڈ کراتے رہیں گے۔ ادھر جوڈیشل کے
انکوائری کے لیے جاری احکامات کی تعمیل کے لیے اہلکار ایبٹ آباد پہنچ گئے
ہیں اور انکوائری کا جلد آغاز شروع کردیا جائے گا۔
ادھر ہری پور میں پختونخوا کے خلاف وکلا نے عدالتوں کا بائیکاٹ اور احتجاجی
مظاہرہ کیا٬ وکلا نے جی ٹی روڈ بلاک کر کے زبردست نعرہ بازی کی۔ جب کہ جمعہ
کے روز تمام ضلعہ صدر مقامات پر بھوک ہڑتالی کیمپ لگائے گئے۔ ایبٹ آباد کے
احتجاجی کیمپ میں مختلف سیاسی و سماجی تنظیموں کے رہنماﺅں نے شرکت کی اور
وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا کہ نئے صوبے کے قیام کے لئے دس جانوں کی قربانی
دینے والے اب اس سے کم کسی بات پر رضامند نہیں ہوں گے۔
اسلام آباد میں ہونے والے احتجاج کے دوران شرکاء نے اے این پی کے خلاف نعرے
بازی کی اور اسے پاکستان کو دل سے نہ تسلیم کرنے والوں کا گروہ قرار دیتے
ہوئے بھارتی اشاروں پر چلنے والا گروہ قرار دیا۔ سابق صوبائی وزیر سردار
ادریس کا مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ایبٹ آباد میں مظاہرین پر
فائرنگ کر کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی گئی ہے، جس کے ذمہ داران کے خلاف
قتل کا مقدمہ درج کر کے انہیں پھانسی دی جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ عوامی
نیشنل پارٹی نے کبھی پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا، قیام پاکستان کی
تحریک کے دوران نئے ملک کی مخالفت کرنے والے آج بھی بھارتی ایجنڈے پر چلتے
ہوئے گریٹر پختونستان بنانا چاہتے ہیں۔ ن لیگ سمیت ہزارہ ڈویژن سے منتخب
ہونے والے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کو ہدف تنقید بناتے ہوئے مظاہرین کا
کہنا تھا کہ ہزارہ کے لوگوں کے ووٹ سے منتخب ہو کر اسمبلیوں میں پہنچنے
والوں نے تمام تر دعوؤں کے باوجود یہاں کی عوام سے غداری کی ہے۔
پشاور میں بھی جمعہ کو احتجاجی ریلی منعقد کی گئی۔ گنج گیٹ سے گھنٹہ گھر
چوک تک نکالی جانے والی ریلی کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے سید سبطین گیلانی
کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخواہ کے نام کا مقصد لوگوں کو تسلیم کرنا ہے جو
کسی صورت قبول نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ غم کی اس گھڑی میں اہلیان پشاور
ہزارہ والوں کے ساتھ ہیں۔ خیبر پختونخواہ کے نام کے متعلق انہوں نے کہا کہ
پشاور والوں کو بھی یہ نام منظور نہیں ہے۔ صوبے بھر میں نئے نام کے خلاف
احتجاج یہ ثابت کر رہا ہے کہ یہاں صرف پختون نہیں بلکہ ہندکو، چترالی،
سرائیکی، کوہستانی، گوجری بولنے والوں سمیت متعدد اقوام رہتی ہیں۔ جو یہ
سمجھتے ہیں کہ صوبے کا نیا نام محض ایک قوم کی نمائندگی کر کے ان کا
استحصال کرنے کا سبب بن رہا ہے۔
کراچی میں ایبٹ آباد کے شہداء کی غائبانہ نماز جنازہ کے تین روز تک جاری
رہنے والے اجتماعات کے بعد بھی احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ ہفتہ کو انجمن
اتحاد ہزارہ کے زیر اہتمام کراچی میں بسنے والے ہزارے وال افراد اور
جماعتوں پر مشتمل گول میز کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ اس موقع پر شرکاء نے
21رکنی رابطہ کمیٹی مقرر کی جو رابطہ کمیٹی کے کنوینئر اور ڈپٹی کنوینر کا
تقرر کرنے کے بعد آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کرے گی۔ کراچی ہی میں جاری
احتجاج کے تحت اتوار کو لانڈھی ٹاﺅن کے علاقے قائد آباد پل پر احتجاجی جلسہ
منعقد کیا گیا۔ جس سے خطاب کرتے ہوئے صوبہ ہزارہ ایکشن کمیٹی کے رہنماﺅں کا
کہنا تھا کہ وہ کسی بھی صورت نئے صوبے سے کم کسی بات پر رضامند نہیں ہو
سکتے۔ مقررین نے یہ بھی کہا کہ ایک ایسے وقت میں جب ایبٹ آباد میں لاشیں
گری ہوئی تھیں اور پورا ڈویژن سوگ کے عالم میں تھا صوبائی حکومت اور اے این
پی کی جانب سے جشن منانے نے غم زدہ خاندانوں کے زخموں کو کرید کر گہرا کرنے
میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ قائد آباد پل کے قریب مین شاہراہ پر ہونے والے
جلسے کی خاص بات یہ تھی کہ اس کے لئے منتظمین نے انتہائی محدود پیمانے پر
انتطام کیا تھا۔ کرسیاں اور ٹینٹ لگا کر تین سو کے قریب لوگوں کے بیٹھنے کا
انتطام کیا گیا تھا مگر جلسہ شروع ہونے سے قبل ہی وہاں موجود افراد کی
تعداد ہزاروں میں پہنچ گئی تھی جس کی وجہ سے منتظمین کو جلسہ گاہ کے طور پر
شاہراہ فیصل ہی کو استعمال کرنا پڑا۔ اس سے اگرچہ جلسہ ختم ہونے تک شاہراہ
فیصل تو بند رہی لیکن یہ اس بات کا اظہار کر گیا کہ صوبے کے نئے نام کی
مخالفت سے شروع ہونے والی جدوجہد کا صوبہ ہزارہ کے قیام کا نیا رخ اختیار
کر جانے کے بعد موجودہ تحریک کو نظر انداز کرنا اور اس سے پہلو تہی کرنا
حکومت کے ساتھ ساتھ سیاسی رہنماﺅں کے لئے بھی مشکل ہوگا۔ خاص طور پر ایک
ایسے وقت میں جب دانستہ یا نادانستہ عوامی نیشنل پارٹی کی صوبائی حکومت جشن
منا کر ڈویژن کی عوام کو یہ احساس دلا چکی ہے کہ جس چیز کے لئے تم احتجاج
کر رہے ہو وہ ہمارے لئے جشن کا موقع ہے۔
صوبہ ہزارہ کے قیام اور سرحد کے نام کی تبدیلی کے لئے جاری تحریک کے نتیجے
میں سیاسی داﺅ پیچ کھیلنے کا سلسلہ عروج پر ہے، تاہم نئے نام کی محرک عوامی
نیشنل پارٹی میں بھی اس حوالے سے اختلاف پائے جاتے ہیں جس کا ثبوت ہزارہ
ڈویژن کے صدر مقام ضلع ایبٹ آباد سے اے این پی کے ضلعی نائب صدر شیخ لطیف
کا پارٹی قیادت سے استعفیٰ دینا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ نام کی تبدیلی
بلاشبہ ان کا مطالبہ تھا لیکن جس طرح اس نے تقسیم پیدا کی ہے اور دس
انسانوں کو ایک ہی دن لاشوں میں تبدیل کیا ہے، اس کے بعد وہ مزید کسی ایسے
گروہ کا حصہ نہیں رہ سکتے جو اس ظلم کا سبب بنا ہو۔
دریں اثناء ایبٹ آباد سے ن لیگ کے رکن قومی اسمبلی، سابق وزیر اعلیٰ سرحد
اور پارٹی کے چیف آرگنائزر سردار مہتاب عباسی کا اسمبلی رکنیت سے استعفیٰ
بھی گزشتہ چند روز کی اہم پیشرفت قرار دیا گیا تاہم اسے اسمبلی سیکرٹریٹ کو
بھجوانے کے بجائے پارٹی قائد نواز شریف کے حوالے کرنے نے اس سوال کو جنم
دیا ہے کہ کیا یہ کوئی پوائنٹ اسکورنگ گیم تھا یا وہ حقیقت میں نئے صوبے کے
قیام اور نام کو تبدیل نہ کرنے کے حق میں تھے۔ ایبٹ آباد کے سابق ضلعی ناظم
اور صوبہ ہزارہ تحریک کے سربراہ سردار حیدر زمان کا اس حوالے سے کہنا تھا
کہ سردار مہتاب کا استعفیٰ ٹوپی ڈرامہ اور سازش تھا۔ وہ عوامی ردعمل پر
اپنے آپ کو معصوم اور گرتی ساکھ کو بچانے کے لئے یہ کوشش کر رہے تھے لیکن
انہیں اس میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ سردار حیدر زمان نے مہتاب عباسی
کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اٹھارہویں ترمیم پر دستخط کرتے
وقت ان کی یہ ہمدردی کہاں کھو گئی تھی، اس وقت انہیں عوامی جذبات کا خیال
کیوں نہ آیا، ان کا کہنا تھا کہ سردار مہتاب ہزارہ کی عوام کا مجرم ہے جس
نے اہلیان ہزارہ کی پیٹھ میں چھرا گھونپتے ہوئے ترمیم پر دستخط کئے، سردار
مہتاب استعفیٰ دینے میں اتنے ہی مخلص تھے تو انہیں یہ استعفیٰ نواز شریف کو
نہیں بلکہ قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کو بھیجنا چاہئے تھا۔ استعفیٰ کے دیگر
اسباب کے متعلق ان کا کہنا تھا کہ اس نازک موقع پر استعفیٰ کا ڈرامہ رچا کر
ن لیگ نے پانی خفت مٹانے کے ساتھ ساتھ وفاقی و صوبائی حکومت کی ایماء پر
صوبہ ہزارہ کی تحریک کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی ہے۔ سردار مہتاب کو یہ قدم
اس وقت اٹھانا چاہئے تھا جب وہ اس آئینی کمیٹی کے سربراہ تھے جس نے
پختونخواہ کے نام کی تبدیلی تجویز کی۔ وہاں دستخط کر دینے کے بعد سانپ کے
نکل جانے کو دنیا دیکھ چکی لیکن وہ اپنے آپ کو معصوم ثابت کرنا چاہتے ہیں
تو ان کا قلم ترمیم پر دستخط کرتے وقت رک کیوں نہ گیا تھا۔ سردار حیدر زمان
کا یہ بھی کہنا تھا کہ اٹھارہویں ترمیم کا مقصد نواز شریف کو تیسری بار
وزیراعظم بننے کی آزادی دلانا اور اسی طرح کے چند دیگر مفادات حاصل کرنا
تھا جس کا ثبوت اس ترمیم کے بعد بھی عوامی مسائل کی موجودگی بلکہ ان کا
پہلے سے زیادہ سنگین رخ اختیا رکر لینا ہے۔ قبل ازیں سردار مہتاب احمد خان
کی جانب سے ہزارہ ڈویژن میں صوبے کے نئے نام کے خلاف جاری تحریک اور صوبہ
ہزارہ کے قیام کے مطالبے کے باوجود سینیٹ سے اٹھارہویں ترمیم کے پاس ہو
جانے پر اسمبلی رکنیت سے دئے جانے والے استعفیٰ میں کہا گیا تھا کہ وہ
مقامی آبادی کے مطالبے کی حمایت کرتے ہوئے یہ فیصلہ کر رہے ہیں۔
ن لیگ کے رکن اسمبلی کی جانب سے دیا گیا استعفیٰ، صوبے کے نام کی تبدیلی پر
ضلعی قیادتوں کے مستعفی ہونے کے بعد اے این پی کے اندرونی اختلافات، ہزارہ
ایکشن کمیٹی کی جانب سے بھوک ہڑتال کے اعلان کے ساتھ ہی حکومت کو دی گئی
ڈیڈ لائن، اے این پی، ن لیگ کے علاوہ تمام ہی سیاسی جماعتوں کی حمایت کے
بعد مزید استحکام پا جانے والی احتجاجی تحریک، سینیٹ میں نئے نام کی مخالفت
میں ووٹ دینے کے باوجود سینیٹر طلحہ محمود اور سینیٹر و وفاقی وزیر اعظم
سواتی کی جانب سے رائے شماری کے وقت غائب رہنے کے پس پردہ مقاصد کیا ہیں؟
ہر ایک کا اب تک جو کردار سامنے آیا ہے اس میں کون کس کے پیادے کا کردار
ادا کر رہا ہے اور کس نے شاہ کے طور ذمہ داریاں نبھانی ہیں؟ یہ طے ہونا اب
دور کی بات نہیں، صوبہ سرحد کے نام کی تبدیلی کے بعد جاری احتجاج میں گرنے
والی دس سے زائد لاشوں کا ذمہ دار کون ہوگا؟ کسی سے ان کی جواب دہی ہونی ہے
یا جشن کے شور میں غریب کا لہو بھی دفن ہو جائے گا، نیا صوبہ کب تک اور
کیسے بن پائے گا، قوم یہ جاننا چاہتی ہے، مگر جواب کب ملتا ہے۔ یہ ہم بھی
دیکھتے ہیں، آپ بھی دیکھیں، مگر تبدیلی کے لئے عمل شرط ہے۔ |