بلدیاتی نظام۔۔۔ خوبیاں و خامیاں
(Shahzad Hussain Bhatti, )
بلدیاتی نظام ہونا چاہیے یا نہیں ؟ ہمارے ملک میں یہ قابل ِ عمل ہے یا
نہیں ؟اس کے فوائد زیادہ ہیں یا نقصانات ؟ یہ وہ سوالات ہیں جو آج کل زبان
ِ زدِ عام ہیں ۔ ان سوالات کے جوابات جاننے کے لیے پہلے ہمیں یہ جاننا ہو
گا کہ بلدیاتی نظام ہے کیا ؟
بلدیاتی نظام دراصل وہ نظام ہے جس میں بنیادی سطح یا ضلع کی سطح پر عوامی
مسائل کے حل کے لیے عوامی نمائندوں کو چنا جاتا ہے ۔ ان کو مسائل کے حل کے
لیے رقوم فراہم کی جاتی ہیں ۔ ان عوامی نمائندوں کا انتخاب بھی سیاسی
بنیادوں پر ہی اکثر و بیشتر کیا جاتا ہے۔ بسا اوقات ان نمائندوں کا انتخاب
غیر جماعتی بنیادوں پر کیا جاتا ہے اور کبھی پارٹی بنیادوں پر الیکشن کے
ذریعے کیا جاتا ہے ۔ عوام کے ووٹ سے منتخب ہونے والے یہ نمائندے پچھلے
ادوار میں اگر ناظمین اور نائب ناظمین کہلوائے تو موجودہ دور میں انہیں
چیئرمین ، وائس چئیرمین کا نام دے دیا گیا۔ ان چیئرمین اور وائس چیئرمین کی
معاونت کے لیے نچلی سطح پر مزید نمائندے منتخب کے جائیں گے جنہیں کونسلرز
کا نام دیا گیا ہے۔ اور ان کی ذمہ داری یہ ہے کہ عوامی سطح پر جلد از جلد
مسائل کو حل کیا جائے ۔ یہ نظام پاکستان میں ہمیشہ اس وقت لایا گیا جبکہ
ملکی حکومت آمریت یا فوج کے ہاتھ میں ہوئی ۔ہرآمر ، فوجی حکمران نے اس نظام
کو قابل ِ عمل بنانے کی جدوجہد کی ، الیکشن بھی کروائے لیکن چونکہ وہ
الیکشن سیاسی بنیادوں پر نہیں ہوئے اور کرپشن اس دور میں بھی موجود رہی اس
لیے اس نظام کے فوائد عوام تک نہیں پہنچ سکے اور نہ ہی یہ نظام عوام میں
مقبولیت پا سکا ْ ۔ جمہوریت کے زمانہ میں یہ نظام زیادہ ترنافذ نہیں کیا
گیا بلکہ اکثر و بیشتر اس نظام کو مارشل لا ء کی پیداوار سمجھ کر رد کر دیا
گیا ۔
درحقیقت یہ ایک اچھا نظام ہے اگر اس میں کرپشن نہ ہو اور منتخب نمائندگان
اس نظام کو احسن طریقے سے چلائیں کیونکہ اگر عوامی مسائل عوامی سطح پر حل
ہونے لگیں تو ملکی مسائل میں پچاس فی صد کمی کی جا سکتی ہے ۔ اگر عوامی سطح
پر منتخب یہ نمائندے ، فراہم کی گئی رقوم کو احسن طریقے سے استعمال کریں تو
کسی گلی محلے کی گلیاں کچی نہ ہوں اور نہ ہی کہیں نالیوں اور اس نوعیت کے
دیگر مسائل ہوں۔
حالیہ دور میں یہ نظام لانے کے لیے جمہوری حکومت نے سپریم کورٹ کے
دباوپرانتخابات کا انعقاد شروع کروایا۔ لیکن مسئلہ وہی کہ انتخابات شفاف
ہیں یا نہیں ؟ ۔ منتخب نمائندے عوامی ہیں یا نہیں ؟ کوئی بھی منتخب ہواس کا
مقصد سیاست برائے سیاست نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس کا مقصد عوام کے مسائل کا
حل اور عوام کی خدمت ہونا چاہیے ۔
حالیہ بلدیاتی انتخابات میں ایک بات واضح طور پر سامنے آئی کہ کسی بھی صوبے
میں کوئی بڑی تبدیلی نہ آسکی۔ جن امیدواروں کو ماضی میں رد کیا گیا یا جن
کو منتخب ہونے کے بعد ان پہ الزامات کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوا
انہی کی نئی نسل کے نمائندے آج کی نسل سے ووٹ مانگ رہے ہیں۔ مزید برآں
جماعتی بنیادوں پہ ہونے کے باوجود سیاسی جماعتیں نہ تو انتخابی مہم میں اس
طرح سے شامل نظر آتی ہیں نہ ہی وہ اس نظام سے مطمئن نظر آتی ہے۔
اس کے علاوہ افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ماضی میں جب تیسری سیاسی قوت کا راگ
الاپا گیا تو یہ تاثر لے لیا گیا کہ شاید ملک کی تقدیر سنورنے کی طرف ا ٓ
رہی ہے۔ لیکن ان حالیہ بلدیاتی انتخابات میں ایک مرتبہ پھر پرانے چہرے نئے
ناموں کے ساتھ اقتدار کی بندر بانٹ کرتے نظر آ رہے ہیں۔ سونے پہ سہاگہ یہ
ہوا کہ تبدیلی کے دعوے کرنے والوں نے بھی بہتی گنگا میں حصہ بقدرے جثہ کے
مصداق ہاتھ دھونے کو ہی غنیمت سمجھتے ہوئے حالات سے سمجھوتہ کر لیا ہے اور
عام عوام کے مسائل جوں کے توں ہے۔افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ پرویز مشرف جسے
عام طور پر آمر کہا جاتا ہے، نے موجودہ جمہوریت سے بہت بہتر انداز میں
اقتدار نچلی سطح پر نہ صرف منتقل کیا بلکہ اس نظام کو با اخیتار بھی بنایا
جس سے عوام نے سکھ کا سانس لیا تھا۔ لیکن جمہوری ادوار شروع ہوتے ہی آمرانہ
دور کے اچھے اقدامات کو بھی تبدیل کرنا ضروری خیال کر لیا گیا۔ یہی وجہ ہے
کہ موجودہ بلدیاتی نظام کو ایک نئی شکل دے دی گئی ۔ اس نئی شکل پر بہت سے
خدشات ظاہر کیے جاتے رہے ہیں اور اب بھی کم و بیش تمام سیاسی جماعتیں اس
بات پہ متفق نظر آتی ہیں کہ اس نظام سے عوام کے مسائل اس طرح سے حل نہیں ہو
پائیں گے جس طرح عوام توقع کیے بیٹھے ہیں۔ بلدیاتی نمائندے ہر وقت عوام میں
موجود رہتے ہیں۔ اور جب ان کے پاس مکمل اختیارات نہیں ہوں گے تو نہ صرف وہ
عوام کے بنیادی مسائل بروقت حل نہیں کر پائیں گے ۔ بلکہ وہ اپنی قدرو قیمت
بھی کھو دیں گے۔
یہاں یہ بات واضع ہونی چاہیے کہ جو بھی رقوم ان نمائندوں کو دی جائیں ان کا
احتساب ہونا نہایت ضروری ہے تاکہ کرپشن کی گنجائش نہ رہے ۔ نظام کوئی بھی
ہو کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو عوام کو اس کے فوائد تب تک حاصل نہیں ہو سکتے
جب تک کہ اس نظام میں موجود کرپشن کو ختم نہ کیا جائے ۔ عوام کی خدمت کو
اپنا شعار بنایا جائے ۔اگر وہ رقوم جو مسائل کے حل کے لیے فراہم کی جا رہی
ہوں ان کا احتساب ہو گا اور ان کی خرد برد کی پکڑ ہوگی تو اس نظام کی بہتری
عوام کونظر آئے گی۔ |
|