محمد سجاد ساجد مرحوم ۔پاکستان لائبریرین شپ کی محترم شخصیت
(Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
|
سجاد ساجد کی پیشہ ورانہ خدمات نصف صدی سے
زیادہ عرصہ پر محیط ہیں
سابق لائبریری پرفیشنل/ لائبریرین : اسٹیٹ بینک آف پاکستان لائبریرین‘ ،
ٹیچرسز اسپیشلائزڈ لائبریری(اسکولز)،
گورنمنٹ کالج برائے طلباء ، ناظم آباد، آفیسر آن اسپیشل ڈیوٹی، ڈائریکٹریٹ
آف کالجز، بیت الحکمہ (ہمدرد یونیورسٹی لائبریری)
محمد سجاد ساجد 19نومبر 2015ء کو طویل علالت کے بعد خالق حقیقی سے جاملے۔
وہ کالج لائبریرین تھے اور مختلف کالجوں اور اداروں میں خدمات انجام دے چکے
تھے، ان کی پیشہ ورانہ خدمات نصف صدی پر محیط ہیں۔ کالج ڈائیریکٹریٹ میں
آفیسر آن اسپیشل ڈیوٹی (OSD) لائبریریز بھی رہے ۔ لائبریری پروفیشن کے لیے
سجاد صاحب کی خدمات کا دائرہ وسیع اور مختلف جہت پر مشتمل ہے۔ سجاد ساجد
مروحوم سے میرے مراسم اس وقت سے تھے جب سے میں نے اس پروفیشن میں قدم رکھا
تھا۔ میں 35سال خدمات انجام دے کر 2009ء میں ریٹائر ہوا ، سجاد ساجد صاحب
مجھ سے قبل 1991 ء میں ریٹائر ہوچکے تھے ۔وہ ان گنے چنے لوگوں میں سے تھے
کہ جنہوں نے اپنے پیشے کے لیے جو خدمات انجام دیں وہ تاریخ میں ہمیشہ یاد
رکھی جائیں گی۔حقیقت یہ ہے کہ سجاد ساجد ایک فرد کا نام نہیں بلکہ ایک عہد
ساز شخصیت کا نام ہے۔ ان کی رہنمائی میں کالج لائبریرینز کی ایک گریڈ سے
دوسرے گریڈ میں ترقی ، نان گزیٹیڈ سے گزیٹیڈ اسٹاف میں شامل کیا جانا، انٹر
اور بے کی سطح پر لائبریری سائنس کا بطور اختیاری مضمون کے متعارف ہونا
تاریخی کارنامے ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ہم ایک دوسرے سے دو رضرور ہوگئے تھے
لیکن پیشہ ورانہ تعلق نے ہمیں ایک دوسرے سے جوڑے رکھا۔ سجاد صاحب سے میر ے
مراسم کا آغاز 1971ء ہی میں ہوگیا تھا۔ میں نے شعبہ لائبریری و انفارمیشن
سائنس ، جامعہ کراچی سے اپنی پیشہ ورانہ تعلیم کا آغاز کیا تھا ، سجاد
ساجد، ڈاکٹر انیس خورشید کے کلاس فیلوز میں سے تھے، وہ سندھ کے محکمہ تعلیم
میں ملازم ہوچکے تھے اور اسکول ڈائریکٹریٹ کی لائبریری میں خدمات سر انجام
دیا کرتے تھے۔ دو سال بعد ہم ڈگری لے کر ملازمت میں آئے تو قسمت سے ہمارا
تقرر بھی کالج میں ہی ہوگیا۔ یہ بات ہے 1973ء کے آخر کی۔ سجاد ساجد صاحب
مختلف جگہ سے ہوتے ہوئے اس وقت کالج ڈائیریکٹریٹ میں آفیسر آن اسپیشل
ڈیوٹی( لائبریریز ) تھے۔کراچی کے کالج لائبریرنز ان ہی سے رہنمائی کے لیے
ان کے دفتر میں دوڑے دوڑے چلے آیا کرتے تھے۔ان کے ساتھیوں میں سمیع اﷲ
مرحوم، سید ناظر علی، محمد عثمان، محمد یوسف، صابرہ سلطانہ مرحومہ، صالحہ
زبیری شامل تھے جو ہمیں ان کے دفتر میں زیادہ دکھائی دیا کرتے تھے ہوسکتا
ہے کہ اور لوگ بھی ہوں لیکن میں نے ان حضرات کوہی سجاد ساجد کے دفترمیں
زیادہ دیکھابعد میں یہ سب ہی ہمارے بھی حلقۂ دوستی میں آگئے۔سجاد صاحب کالج
کے حوالے سے بہت مشہور اور لوگوں کی مدد کرنے کے حوالے سے جانے جاتے تھے۔
چنانچہ ہم کالج جوائن کرنے سے قبل سجاد صاحب کی خدمات میں حاضر ہوئے اور
کراچی کے ایک کالج میں اپنی تعیناتی کی اطلاع دی۔ وہ بہت خوش ہوئے اور ہمیں
جوائنگ رپورٹ جمع کرانے کے گر بتائے۔ سجاد صاحب سے یہ ہمارا پہلا باضابطہ
انٹر ایکشن اور تعلقات کا آغازتھا، یہ تعلقات پیشہ ورانہ بھی تھے اور ذاتی
نوعیت کے بھی۔ ان سے تعلقات کا دورانیہ تقریبا ً 40سال پر محیط ہے۔ ہم ان
سے بہت جونیئر تھے لیکن انہوں نے کبھی اپنے سینئر ہونے کا روب نہیں جھاڑا ،
ہمارے درمیان برابری کی سطح کے تعلقات رہے،ہم جونیئر ہوکر بھی ان کے ایسے
ہی دوست تھے جیسے ان کے ساتھ کے لوگ تھے۔ خیال کرنے والوں میں سے تھے، ہنس
مکھ ، سیدھے سادھے ، پیشہ ورانہ معاملات میں فنا فل تھے۔جس کام پر لگے اسے
کامیابی کی سطح پر پہنچا کر دم لیا۔ اصولوں پر سودا کرنا نہیں جانتے تھے ۔
سجاد ساجدصاحب نے 1955 نے کراچی لائبریری ایسو سی ایشن کے سر ٹیفیکیٹ کورس
سے پیشہ ورانہ تعلیم کا آغا ز کیا۔جامعہ کرا چی میں شعبہ لائبریری سائنس کا
آغاز 1956 میں ہوا سجاد صاحب پہلے سیشن کے طلبہ میں شامل تھے، اسی طرح جب
ایم اے 1962ء میں شروع ہوا تو آپ پہلے سیشن کے طلبہ میں شامل تھے۔سجاد صاحب
کی پیشہ ورانہ زندگی 53برس (1952ء۔2005ء) پر محیط ہے ۔ خدمات کا یہ سلسلہ
تاحال جاری ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے کتب خانے سے چھ برس (
1952ء۔1957ء) وابستہ رہے، گورنمنٹ کالج برائے طلبہ، ناظم آباد ، ٹیچرسز
اسپیشلائزڈ لائبریری، ڈائریکٹریٹ آف کالج ایجو کیشن میں لائبریری خدمات
انجام دیں ، 1992ء میں سر کاری ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد بیت الحکمہ
(ہمدرد یونیورسٹی لائبریری) میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔سجاد صاحب پیشہ
ورانہ سرگرمیوں میں بھی ہمیشہ سرگرم رہے ، ’’کونسل آف اسکول اینڈ کالج
لائبریرینز‘‘ کے تاسیسی صدر ہیں اور کالج لائبریرینز کے مسائل اور انٹر و
بی اے میں لائبریری سائنس بطور اختیاری مضمون کے اجراء میں آپ کی خدمات
قابل قدر یں۔
سجاد ساجد مرحوم 1931ء میں ہندوستان کے ضلع بہار کے ایک قصبے ’بنکا‘Banka
میں پیدا ہوئے۔ میٹرک1946 میں بنکا سے ہی کیا،قیام پاکستان کے بعد کراچی
میں ہجرت کی ۔ جامعہ کراچی سے معاشیات اور لائبریری سائنس میں ایم کیا، وہ
ہومیوڈاکٹر بھی تھے۔ پیشہ ورانہ حیثیت سے اپنی عملی زندگی کا آغاز اسٹیٹ
بنک آف پاکستان کی لائبریری سے 1952ء میں کیا یہاں وہ چھ سال کام کرتے
رہے۔اسی سال یعنی1956ء میں جامعہ کراچی میں شعبہ لائبریری سائنس کی بنیاد
پڑی اور پوسٹ گریجویٹ کورس کا آغاز ہوا ، محمد سجاد ساجدپہلے سیشن 57ء
۔1956ء کے طالب علم تھے۔اس کلا س کے بعض طالب علموں میں ڈاکٹر انیس خورشید،
محمد عادل عثمانی، عبد اﷲ خان، صادق علی خان، سید افتخار حسین سبزواری،
محمد عبید اﷲ سیفی، محمد اظہار الحق ضیاء شامل تھے۔بعد ازاں جامعہ کراچی کے
شعبہ لائبریری سائنس نے ایم اے کا آغاز کیا تو سجاد ساجد 1962ء کی ایم اے
کی پہلی کلاس کے طالب علم تھے۔ اس اعتبار سے سجاد ساجد پاکستان لائبریرین
شپ کے اساسی پروفیشنلز میں اوراس پیشے کے اولین ہراول دستہ کا حصہ تھے۔ ان
کی عملی زندگی کا آغاز 1952ء میں شروع ہوا تھا اس کا پہلا دور 1992ء میں
سرکاری ملازمت کے اختتام پر ختم ہوا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی انہوں نے سلسلہ
ملازمت ختم نہیں کیا اور جامعہ ہمدرد کے کتب خانے سے وابستہ ہو گئے۔ سید
اختر علی جو بیت الحکمہ کے چیف لائبریرین تھے انہوں نے بتا یا کہ سجاد
صاحب۲۰۱۱ء تک جامعہ ہمدرد کے کتب خانے سے منسلک رہے ۔ اس وقت ان کی عمر79
سال ہوچکی تھی اور وہ اکثر بھولنے کے مرض میں مبتلا ہوگئے تھے۔ جس کے با عث
مسائل پیدا ہوررہے تھے۔ ان کے لیے ہمدرد کا طویل سفر مشکل ہوگیا تھا۔
چنانچہ انہوں نے از خود ملازمت کا سلسلہ ترک کردیا۔ اس طرح ان کی ملازمت کا
سلسلہ جو 1952ء سے شروع ہوا تھا2011ء کو 59سال تک جاری رہنے کے بعد ختم
ہوگیا۔ گویا لائبریری پروفیشن کے لیے ان کی خدمات نصف سینچری سے زیادہ عرصہ
پر محیط ہیں۔ ایسی مثالیں بہت کم ملتی ہیں۔
پیشہ ورانہ خدمات کے علاوہ لائبریرینز کی فلاح و بہبود، ان کے اسٹیٹس کی
بلند ی کے لیے، ملازمت میں ترقی اور نئے گریڈ میں ترقی کے لیے ساتھ ہی
لائبریری سائنس کو انٹر و بی اے میں بطور اختیاری مضمون متعارف کرانے میں
سجاد ساجد کااہم کردار ہے۔ کراچی کے بعد سندھ کے دیگر شہروں میں اس کی
تقلید کی گئی ۔ اس جدوجہد میں سرحد ، پنجاب اور بلوچستان کے لائبریرینز کی
خدمات بھی قابل ذکر ہیں۔ جو نام اس وقت ذہن میں آرہے ہیں ان میں محترمہ
فرخندہ لودھی مرحومہ اور را نا جماعت علی خان کا ہے کہ جنہوں نے پنجاب میں
لائبریری سائنس کے اجراء میں بڑی جدوجہد کی۔اس حوالے سے پی ایل اے کی
کوششیں بھی اہم ہیں۔
1970ء کی دھائی میں لا ئبریری سائنس کی تعلیم وتر بیت میں ایک منفرد اور
خوشگوار تبدیلی رونما ہو ئی۔ انٹر میڈیٹ بعد ازاں بی اے میں اس مضمون کو
بحیثیت اختیاری مضمون کے نصاب میں شامل کیا گیا۔ اس اقدام سے لا ئبریری
سائنس کی تعلیم وتربیت کا دائرہ لا ئبریری انجمنوں اور جامعات سے بڑھ کر کا
لجوں تک وسیع ہوگیاجس سے اس مضمون کی اہمیت اور شہرت میں اضافہ ہوا ساتھ ہی
لا ئبریری پروفیشن کواورزیادہ قدر و منزلت حا صل ہو ئی اورعوام الناس میں
اس پیشہ کو قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا۔کالجوں میں لائبریری سائنس کے لیکچرر
کی اسامیوں سے مختلف جامعات سے فارغ التحصیل ہونے والے پروفیشنلز کے لیے
جاذب نظر ملازمت کے زیادہ مواقع سامنے آئے۔ اس منفرد انداز فکر کو عملی
جامہ پہنا نے کی عملی جدو جہد مختلف اداروں، انجمنوں اورپروفیشنلز کی جا نب
سے کی گئی۔ اس خیال کو عملی جا مہ پہنا تے ہو ئے سب سے پہلے پنجا ب یو
نیورسٹی کے شعبہ لا ئبریری سا ئنس کے بورڈ آف اسٹڈیزنے اپنی میٹنگ منعقدہ
28 فروری1974ء کو انٹرمیڈیٹ اوربی اے کی سطح پر لا ئبریری سا ئنس کوبطور
اختیاری مضمون متعارف کرانے کی سفارش کی۔ اس سے قبل یہ فکر مختلف لوگوں کے
ذہنوں میں تھی بعض نے اپنی تحریروں میں اس جانب اشارہ بھی کیا تھا۔لیکن کسی
بھی قابل اعتماد ادارے کی جانب سے یہ اولین کوشش تھی۔جامعہ پنجاب کی فیکلٹی
آف ٓرٹس نے اس سفارش کو30 اپریل 1947ء کو منظور کیا ‘ اکیڈمک کو نسل نے
جنوری ۱۹۷۵ء میں اس کی منظوری دی۔لا ہور کے سیکنڈری و انٹر میڈیٹ تعلیمی
بورڈ نے دسمبر1974ء کو اس تجویز کو منظور کیا۔ اس فیصلے کی اطلاع پا کستان
لا ئبریری ایسو سی ایشن نے 21 جنوری1957ء کو جا ری کی۔ لا ہور بورڈ نے
’کمیٹی بر ائے نصاب‘ تشکیل دی جس کے کنوینر ڈا کٹر ممتاز انور تھے۔کمیٹی نے
فیصلہ کیا کہ جب تک کالجوں میں لا ئبریری سائنس کے لیکچررکا تقرر نہ ہو
جائے اور نصاب کے مطابق خصو صی نصا بی کتاب شائع نہ ہو جا ئے اس وقت تک کسی
کا لج کو اس مضمو ن کو شروع کر نے کی اجازت نہ دی جا ئے۔ نصاب کمیٹی کے اس
فیصلے کے بعد پنجا ب کے کا لجوں میں لا ئبریری سا ئنس کے مضمون کااجراء
التواء کا شکار ہو گیا تا ہم کا لجوں سے تعلق رکھنے والے پیشہ وروں نے اپنی
جدو جہد جا ری رکھی۔
پنجا ب کے علاوہ صو بہ سندھ میں عملی جدوجہد کا آغاز 1976ء میں ہوا۔سندھ کو
نسل آف اسکول و کا لج لا ئبریرینز جس کے صدر محمد سجاد ساجد تھے نے اپنے
ایک مکتوب مو ر خہ ۲۰ اپریل 1976ء بنا م چیرٔ مین بورڈ آف انٹر میڈیٹ
ایجوکیشن کر اچی سے درخواست کی کہ کرا چی کے کا لجوں میں لا ئبریری سا ئنس
بطوراختیاری مضمون انٹر میڈیٹ کے نصا ب میں شا مل کیا جا ئے ۔ بور ڈ کی
اکیڈمک کمیٹی کی میٹنگ منعقدہ10 مئی 1976ء کو منقد ہوئی کمیٹی نے قرارداد
نمبر ۱ کے تحت کو نسل کی درخواست اصو لی طور پر منظور کر تے ہو ئے نصا ب کی
تیا ری کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی کمیٹی نے انٹر میڈیٹ لا ئبریری سائنس کے
نصاب کا مسودہ تیار کیا جسے بورڈ نے منظور کر تے ہو ئے ۱۶ اگست ۱۹۷۶ء کولا
ئبریری سا ئنس کو بطور اختیاری مضمون کے انٹر میڈیٹ نصا ب میں شا مل کر
لیا۔ حیدر آباد اور سکھر کے تعلیمی بورڈ وں نے بھی ۱۹۷۷ء میں اس مضمون کو
اپنے نصاب میں شا مل کر لیا۔ اسی سا ل اسلا م آباد کے فیڈرل بورڈ آف انٹر
میڈیٹ نے بھی اس مضمو ن کو انٹر کی سطح پر نصا ب میں شا مل کر لیا اس طرح
فیڈرل بورڈ کے تحت فیڈرل کا لج برا ئے خواتین اسلام آباد میں بھی انٹر کی
سطح پر لا ئبریری سا ئنس کی تدریس کا آغاز ہو ا۔ اس تمام تر جدوجہد میں
سجاد ساجد پیش پیش نظر آتے ہیں۔
انٹر میڈیٹ کی سطح پر لا ئبریری سا ئنس کے بطور اختیاری مضمون کے متعارف ہو
جا نے کے بعد نصا ب کے مطا بق تصانیف طلباء کی اولین ضرورت تھیں ۔راقم
الحروف کو یہ اعزازحا صل ہو ا کہ منظور شدہ نصاب کے مطا بق اولین نصابی
تصنیف انٹر میڈیٹ سا ل اول کے لیے1980ء میں ’’ ابتدائی لا ئبریری سا ئنس ‘‘
کے عنوان سے جبکہ سا ل دوم کے لیے ’’ مبا دیا ت لا ئبریری سا ئنس ‘‘ کے
عنوان سے ۱۹۸۵ء میں شائع ہوئی ۔ صو بہ سندھ اور فیڈرل بورڈ میں لا ئبریری
سا ئنس کے بطور اختیا ری مضمون متعارف ہو جا نے کے بعددیگر صوبوں کے نصاب
میں شا مل کر نے کی جدوجہد شروع کی گئی۔1977ء میں پا کستان کے تما م انٹر
میڈیٹ بورڈوں کے سربراہان (چیٗر مین ) نے اپنے اجلاس منعقدہ لوئر ٹوپہ میں
اصو لی طور پر لا ئبریری سا ئنس کو بحیثیت اختیا ری مضمو ن انٹر میڈیٹ میں
شا مل کر نا منظور کر لیا۔1989ء میں حکو مت پا کستان کی وزارت تعلیم نے اس
مضمو ن کو ’’ نیشنل اسکیم آف اسٹڈیز ‘‘ میں شامل کر تے ہو ئے انٹر میڈیٹ کی
سطح پر اس مضمو ن کو پڑھا نے کی اجازت دی۔ انٹر بورڈز چیرٔ مین کمیٹی کی
منظوری کے بعدمر کزی وزارت تعلیم کے مراسلہ مورخہ 26 نومبر 1990ء کی روشنی
میں پنجاب کے تقریباً تمام بورڈآف انٹر میڈیٹ ایجو کیشن نے انٹر میڈیٹ کی
سطح پر لا ئبریری سا ئنس کے بطور اختیاری مضمون کے اجراء اور امتحان لینے
کا نو ٹیفیکیشن جا ری کیاجس کا اطلاق انٹر میڈیٹ امتحان (گیارہویں جما
عت)1991ء سے کیا گیا۔پنجاب میں مضمون کی تدریس کا مسئلہ تعطل کا شکار رہا۔
بور ڈ آف انٹر میڈیٹ ایند سیکنڈری ایجوکیشن لا ہور نے حکو مت پا کستان ‘
وزارت تعلیم (کریکلم ونگ) کے حوا لہ سے نو ٹیفیکیشن مو رخہ یکم جنوری1991ء
کے تحت لا ئبریری سا ئنس کو بطور اختیا ری مضمون اجراء کے احکا ت جا ری کیے
۔ 1993ء میں وزارت تعلیم کریکلم ونگ نے اپنے سر کلر مو رخہ ۷جنوری 1993ء کے
تحت لا ئبریری سا ئنس کو قو می اسکیم آف اسٹڈیز کے ہیومانیٹیز گروپ میں شا
مل کیا۔ طویل جدوجہد کے بعدفرخندہ لودھی کی جدوجہد کامیاب ہوئی اور پنجاب
کے تقریباً تما م ہی انٹر میڈیٹ بورڈوں کے تحت لا ئبریری سا ئنس اب بے شمار
کا لجوں میں پڑھا یا جانے لگا ۔ یہ با ت اپنی جگہ اہم ہے کہ کا لج لا
ئبریرینز لا ئبریری کے انتظامی امور کے سا تھ ساتھ تدریس کے فرا ئض بھی خوش
اسلو بی کے ساتھ انجام دے رہے ہیں ۔
انٹر میڈیٹ میں لا ئبریری سا ئنس کے بطور اختیا ری مضمون متعارف ہو جا نے
کے بعد انٹر اور ایم اے کے درمیا ن کے خلا کو پر کر نا ہر اعتبا ر سے ضروری
تھا۔ اس مر حلہ پر بھی کرا چی نے پہل کی ۔ سندھ کو نسل آف اسکول و کا لج لا
ئبریرینز جس کے صدر محمد سجاد ساجد ہی تھے نے تحریری طور پر اپنے مکتوب
بنام شیخ الجا معہ کرا چی 29 نو مبر1978ء درخواست کی کہ لا ئبریری سا ئنس
کو بطور اختیا ری مضمون بی اے کے نصاب میں شا مل کیا جا ئے۔ اپنے اس مطا
لبہ کے حق میں کو نسل نے کئی دلا ئل بھی دئے۔ درخواست شعبہ لا ئبریری و
انفارمیشن سا ئنس ، جا معہ کرا چی کو بھیج دی گئی۔ چیٗر مین شعبہ لا ئبریری
و انفارمیشن سا ئنس نے اپنے خط مورخہ ۲۴ جنوری ۱۹۷۹ء سندھ کو نسل آف اسکول
و کا لج لا ئبریریز کے صدرکواپنے فیصلہ سے آگاہ کر تے ہو ئے لکھا کہ ’’ لا
ئبریری سا ئنس ایک پوسٹ گریجویٹ کورس ہے ا ور یہ انڈر گریجویٹ سطح پر شروع
نہیں کیا جا سکتا ۔یہ عمل بی اے میں لائبریری سائنس کے اجراء میں رکاوٹ
ڈالنے کے مترادف تھا۔سندھ کو نسل آف اسکول و کا لج لا ئبریریزنے اپنے صدر
محمد سجاد ساجدکی رہنمائی میں اپنے مقا صد کے حصول کے لیے جدوجہد کا آغاز
کیا۔ مختلف سیاسی ‘ سما جی ‘ تعلیمی ‘ جا معہ کرا چی کی اکیڈمک کو نسل و
سینٹ کے اراکین ‘ منتخب نما ئندوں اور لا ئبریرین شپ سے تعلق رکھنے وا لی
اہم شخصیات کو مسئلہ کی اہمیت سے آگاہ کیا گیا۔ اس سلسلے میں انجمن فروغ و
تر قی کتب خانہ جا ت کے صدر حکیم محمد سعید سے درخواست کی گئی کہ وہ اس
التواء شدہ مسئلہ کو حل کرا نے میں کر دار ادا کریں۔آپ نے اُس وقت کے وائس
چا نسلر ‘ کر اچی یو نیورسٹی کے نا م اپنے خط مورخہ12 مارچ1979ء میں اس اہم
مسئلہ کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور اس مضمو ن کو بی اے کے نصا ب میں شامل کر
نے کی سفارش کی۔ حکو مت نے کورس کی تشکیل کے لیے ایک قو می کمیٹی بھی بنا
ئی ۔پا کستان لا ئبریری ایسو سی یشن کی کوششوں سے یہ نصاب 1988 ء میں منظور
ہو گیا۔ جا معہ کرا چی کے بورڈ آف اسٹڈیزنے قومی نصاب کمیٹی کے نصاب کو
اپنے اجلا س مورخہ12 دسمبر 1979ء کو منظور کر تے ہو ئے فیکلٹی آف آرٹس کو
منظوری کے لئے بھیج دیا جسے جا معہ کر ا چی کی اکیڈمک کو نسل نے اپنے اجلاس
مو ر خہ 23 جنوری 1980ء کو اس کی منظوری دی ۔ ایک سال بعد نصاب پر عمل در
آمد کے لیے اسے کرا چی کے کا لجوں میں بھیجاگیا ۔ اس اقدام کے فوری بعد کرا
چی کے کالجوں میں یہ مضمو ن پڑھا یا جا نے لگا۔ اب یہ مضمون پاکستان کی
تمام جامعات میں بی اے کی سطح پر بطور اختیاری مضمون کے رائج ہے۔
کالجوں میں خدمات انجام دینے والے لائبریریز کو نان گزیٹڈ سے گزیٹڈ اسٹاف
میں شامل کیا جانا اور پھر ان انہیں 17 سے 18 اور پھر19 گریڈ میں ترقی کے
لیے کامیاب جدوجہد میں سجاد ساجد کی خدمات قابل تحسین ہیں۔ سجاد ساجد نے
ریٹائر ہونے کے بعد ایک لائبریر اسکول بھی قائم کیا اور اس کورس کو سندھ
بورڈ آف ٹیکنیکل ایجو یشن سے منظور کرایا۔ سجاد ساجد کی مکمل عملی جدوجہد
سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایک کمیٹڈ انسان تھے جس چیز کو اصولی طور پر درست
سمجھتے اس کی کامیابی پر عمل شروع کردیتے اور اپنے مقصد کے حصول تک کام
کرتے رہتے۔ سجاد ساجد بے بہاخوبیوں کے مالک تھے۔ مجلسی مزاج رکھتے تھے۔ ان
کے آفس میں دوستوں کا ہجوم رہا کرتا۔ ملنسار اور مل کر خوش ہونے والوں میں
سے تھے۔84سال عمر پائی 19دسمبر2015ء کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اﷲ کا پیارے
ہوئے۔ دو بیٹے اور دوبیٹیاں ہیں، ﷲ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔ آمین۔(یکم
دسمبر2015ء) |
|