گنج بخش فیضِ عالم مظہر نورِ خْدا ناقصاں راپیرِ کامل، کاملاں را
رہنما
امیر اہلسنت مولانا محمد الیاس عطار قادری
حضرت داتا علی ہجویری جن کی کنیت ابو الحسن نام علی اور لقب داتا گنج بخش
ہے۔ برصغیر پاک و ہند کی وہ عظیم ہستی ہیں جنہوں نے برصغیر پر اسلام کا
پرچم لہرایا اور لوگوں کے دلوں کو نور اسلام سے منورکیا۔ ان کے درس و تدریس
اور ذاتی کوششوں کے اسلام تیزی سے پھیلنے لگااور لوگ جو ق در جوق دائرہ
اسلام میں داخل ہونا شروع ہوئے۔ ان کی ولادت و سلسلہ نسب کچھ یوں ہے کہ وہ
کم و بیش 400ھ میں افغانستان کے شہر غزنی میں پیدا ہوئے۔ ولادت کے کچھ عرصہ
بعد ہی ان کا خاندان ہجویر منتقل ہو گیا۔آپ کا شجر ہ نصب سید علی بن سید
عثمان بن سید علی بن عبدالرحمن سے حضرت سیدنا علی کرم اﷲ وجہ تک جا ملتا ہے۔
آپ کا وصال 20صفر المظفر کو ہوا ۔ آپ کا مزار چونکہ لاہور میں ہے لہٰذا اسی
مناسب سے اس شہر کو مرکز الاولیاء یا داتا نگر سے یاد کیا جاتا ہے۔آپ اوائل
زندگی سے ہی حصول علم دین میں مشغول رہے۔ جس دور میں داتا علی ہجویری پیدا
ہوئے اس زمانے میں غزنی فضا میں علم و فکر اور معرفت موجود تھی اور کئی
عالم ، فاضل اور اہل دانش موجود تھے جن کی صحت علی ہجویری ؓ کو میسر آئی ۔قرآن
کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد دیگر علوم و فنون جن میں فارسی ، عربی شامل تھے
میں تفسیر ، فلسفہ اور دیگر علوم حاصل کئے۔حصول علم کے شوق میں متعدد سفر
بھی کئے جس میں انہیں بے شمار صعوبیں و مصائب کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ا ن
ممالک میں شام، عراق، بغداد، مدائن ، فارس، قہستان، آذربائیجان ، خراسان ،
ترکستان شامل تھے اور آخر میں لاہور میں ایسا اسلام کام جھنڈا گاڑا جو
قیامت تک قائم و دائم رہیگا۔ علوم کے سے فارغ ہونے کے بعد پیر کامل کی تلاش
میں بہت جگہ گئے بالآخر اﷲ تعالیٰ نے ان کی رہنمائی کیلئے انہیں ابوالفضل
محمد بن حسن ختلی جنیدی ؓ جو سلسلہ جنیدیہ سے تعلق رکھتے تھے کی خدمت میں
پہنچا دیا ۔یہ وہ سلسلہ ہے جس میں حضرت غوث الاعظم ابو محمد عبدالقادر
جیلانی ؓ وابستہ تھے ۔ حضرت داتا گنج بخش ؓ کا سلسلہ چند واسطوں سے سیدنا
حضرت حسن بصری ؓ تک جا پہنچتا ہے۔ حسن بصری ؓ جلیل القدر ہستی ہیں جو براہ
راست سیدنا علی المرتضیٰ شیر خدا کرم اﷲ وجہ سے شرف بیعت تھے۔ پیرو مرشد ؒ
کی نظر ولایت نے دیکھا کہ داتا گنج بخش رحمۃ اﷲ علیہ کے علم ظاہری و باطی
سے مخلوق خدا کے فائدہ اٹھانے کا وقت آ گیا تو حکم دیا کہ آپ لاہو ر جا کر
رشد و ہدایت کا فریضہ سرانجام دو جس پر داتا علی ہجویری ؓ نے کہاکہ لاہور
میں پہلے ہی میرے بھائی حضرت شاہ میراں سید حسین بخاری زنجانی رحمۃ اﷲ
موجود ہیں تو پھر مجھے وہاں جانے کی کیا حکمت ہے؟ پیرسید ابوالفضل رحمۃ اﷲ
نے کہاکہ اس حکمت کو رہنے د و۔
آپ اپنے مرشد کے حکم سے اﷲ کے دین کی تبلیغ و اشاعت کے لیے سلطان محمود
غزنوی کے بیٹے ناصر الدین کے زمانے ء1030تا1040ء میں لاہور تشریف لائے۔
چنانچہ جب آپ رحمۃاﷲ لاہور پہنچے تو دیکھاکہ ایک جنازہ جا رہا ہے پوچھنے پر
پتہ چلا کہ یہ حضرت شاہ میراں سید حسین بخاری زنجانی رحمۃ اﷲ کا جنازہ ہے
لہذا آپ کو مرشد کے حکم کی حکمت کا پتہ چل گیا۔ حضرت سید داتا گنج بخش علی
ہجویری نے اپنی ساری زندگی اتباع شریعت اﷲ میں گزار دی ، بہت سی ریاضتیں
مجاہدے کئے ، کئی ممالک کے سفر کئے لیکن اس کے باوجود نماز باجماعت ترک
نہیں کی ۔ جب جمۃ المبارک کا دن آتا آپ کسی نہ کسی شہر میں چلے جاتے اور
نماز جمعہ ادا فرماتے۔ حضرت داتا علی ہجویری رحمۃ اﷲ کی مہما ن نوازی بہت
مشہور تھی ۔ لنگر عام ہر وقت چلتا رہتا تھا جس میں ہزاروں غریب مسکین اور
مہمان کھاناکھاتے ۔ خادموں کو کبھی یہ شکایت نہیں ہوتی کہ کھانا کم ہو گیا
ہے۔ آپ خود بھی وہی تناول فرماتے جو لنگر میں عام لوگ کھاتے۔ حضرت داتا گنج
بخش رحمۃ اﷲ علیہ سے کئی کرامات کا ظہور ہوا ۔ ان کی کرامت کا ایک مشہور
واقعہ کچھ یوں ہے کہ جب آپ ؒ لاہور تشریف لائے تو رہائش کے ساتھ ہی ایک
چھوٹی سی مسجد تعمیرکرائی جس کا محراب دیگر مساجد کی بہ نسبت جنوب کی طرف
زیادہ مائل تھی لہٰذا لاہور کے علماء کو اس مسجد کی سمت کے معاملے میں
تشویش لاحق ہوئی اور اس حوالے سے اصرار کرنے لگے ۔ چنانچہ ایک روز داتا گنج
بخش رحمۃ اﷲ علیہ نے تمام علماء کو مسجد میں جمع کیا اور خود امامت کے
فرائض انجام دیئے۔ نماز کی ادائیگی کے بعد حاضرین سے فرمایا : ’’دیکھئے کہ
کعبہ شریف کس سمت ہے؟ یہ کہنا تھاکہ مسجد و کعبہ شریف کے درمیان جتنے
حجابات تھے سب کے سب اٹھ گئے اور دیکھنے والوں نے دیکھا کہ کعبہ شریف محراب
مسجد کے عین سامنے نظر آ رہا ہے۔ اسی طرح آپ رحمۃ اﷲ کی کرامت سن کر اسلا م
قبول کیا ۔
اپنے استاد ابو عبداﷲ محمد بن علی المعروف داستانی بسطامی کے متعلق فرماتے
ہیں کہ آپ تمام علوم کے عالم اور درگاہ حق کے اہل حشمت میں سے تھے۔ بہت نیک
خْلق تھے۔ آپ کا کلام مہذب اور اشارات لطیف ہیں۔ میں نے ان کی کتاب۔معانی
انفاس۔ کی چند جزیں ان سے سْنی ہیں۔ شیخ سہلکی بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ
بسطام میں ٹڈی دل آیا۔ تمام درخت اور کھیت اس کے بیٹھنے کی وجہ سے سیاہ ہو
گئے۔ لوگوں نے بہت شور مچایا۔ شیخ نے پوچھا، یہ لوگ کیا کر رہے ہیں۔ میں نے
عرض کیا کہ ٹڈی دل آئی ہے اور لوگ سخت غمزدہ ہیں۔ شیخ اْٹھے اور کوٹھے پر
تشریف لے گئے اور منہ آسمان کی طرف کیا۔ اْسی وقت ٹڈی اْڑ گئی اور عصر کی
نماز تک ایک ٹڈی بھی کہیں نظر نہیں آتی تھی، اور کسی کھیتی کا ایک پتہ تک
بھی ضائع نہ ہوا۔ آپ کے وصال شریف کے بارے میں مورخین میں اختلاف پایا جاتا
ہے۔ایک روایت کے مطابق وصال 454ھ یا464ھ ذکر کیا۔ جبکہ دوسری روایت میں میں
تاریخ وصال 464ھ یا 466ہے۔اے ،آر نکلس مترجم کشف المحجوب کے نزدیک وصال465ھ
یا469کو ہوا۔آپ کا روضہ ناصر الدین مسعود کے بیٹے ظہیر الدین الدولہ نے
تعمیر کروایا۔ اور خانقاہ کا فرش اور ڈیوڑھی جلال الدین اکبر بادشاہ 1555ء
تا 1605 ء کی تعمیر ہیں۔ خواجہ معین الدین اجمیری 1639ء اور بابا فرید
الدین گنج شکر نے کسب فیض کے لیے آپ کے مزار پر چلہ کشی کی، اور معین الدین
اجمیری نے چلہ کے بعد رخصت ہوتے وقت یہ شعر کہا؛۔ گنج بخش فیضِ عالم مظہر
نورِ خْدا ناقصاں راپیرِ کامل، کاملاں را رہنما اسی سے آپ کی۔ گنج بخش۔ کے
نام سے شہرت ہوئی۔ |