سپریم کورٹ نے اپنے حالیہ ریمارکس میں کہا ہے کہ اتنا بڑا
ملک قرض لے کر چلایا جا رہا ہے، کب تک بھیک سے منصوبے چلاتے رہیں گے، عوام
کو خراب طرز حکمرانی کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑ سکتے۔سپریم کورٹ کے ریمارکس
کا جواب تو اسحاق ڈار یا نواز شریف ہی دے سکتے ہیں۔ دونوں اصحاب قرضوں کے
رموز سے بخوبی آشنا ہیں۔ انہیں ذاتی اور ملکی سطح پر قرضوں کا خاصا تجربہ
ہے۔ تازہ ترین تو 40ارب روپے کا شارٹ فال ہے جس کیلئے منی بجٹ پیش کر دیا
گیا ہے۔ آئی ایم ایف سے 50کروڑ ڈالر سے زائد مالیت کی اگلی قسط کے حصول
کیلئے اس کی تعمیل ارشاد کی گئی ہے۔ 313ایسی درآمدی اشیاء پر ریگولیٹری
ڈیوٹی عائد کی گئی ہے جو عمومی ضروریات کا حصہ ہیں۔ اکنامک منیجرز کو داد
دینی چاہئے جنہوں نے آلو، ٹماٹر جیسی سبزیوں، کھجور، انار، امرود، آم سیب
جیسے پھلوں کو بھی نہیں بخشا۔ سبزیوں اور پھلوں پر سبسڈی دینے کے بجائے
ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کرنے کی قطعاً سمجھ نہیں آئی۔ بڑی بڑی زمینوں اور
عمارتوں کے مالکوں کی طرف کوئی نظر اٹھا کر نہیں دیکھتا اس وقت حکومت پر
قرضہ 18097.3ارب روپے ہے۔ کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا۔ اول الذکر اخراجات
پر خط تنسیخ پھیرنا ممکن ہی نہیں البتہ جاری اخراجات کے بال کاٹے جا سکتے
ہیں وہ بھی تب جب ارادہ ہو۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے اور کرنٹ اکاؤنٹ
کے خسارے میں کمی کے باوجود روپے کے پَر پھڑ پھڑا رہے ہیں۔ تیل کی
ادائیگیوں کیلئے ڈالر کی ضرورت ہوتی ہے چنانچہ ڈالر کی مانگ میں اضافہ روپے
کو پسپائی پر مجبور کرتا ہے۔ حکومت کو برآمدی تاجروں اور آئی ایم ایف کے
سامنے گھٹنے ٹیکنا پڑتے ہیں۔
پچھلے دنوں روپے کی قدر میں ڈالر کے مقابلے میں صرف ایک فیصد کمی سے قرضوں
کے حجم میں 70ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ غیر ملکی قرضہ 70ارب ڈالر ہے قرضوں
کی سروس پر حکومتی ریونیو کا 50فیصد خرچ ہو رہا ہے۔ 2014ء کے اختتام پر
بیرونی قرضوں کا حجم 63.96ارب ڈالر تھا۔ حکومت اب تک 52ارب ڈالر کے قرضوں
کی دستاویزات پر دستخط کر چکی ہے جو آئندہ 5سے 10سال کے دوران دستیاب
ہونگے۔ جسے چکانے کیلئے حکومت کے پاس سرکاری اداروں کی نجکاری کے سوا کوئی
آپشن نہیں 18ارب ڈالر کے قرضے تو موجودہ شریف حکومت نے لئے ہیں کوئی ایک
پاکستانی بڑا ہو یا چھوٹا یہ نہیں جانتا کہ 18ارب ڈالر کس مقصد کیلئے لئے
گئے اور کہاں کہاں خرچ ہوئے 18097.3 ارب روپے کے مجموعی قرضوں کا حساب تو
کوئی نہیں جانتا ہو گا۔ سیلاب اور زلزلوں کے نام پر ملنے والی رقوم کے
استعمال کے بارے میں بھی کوئی نہیں جانتا۔ قرضے اتنے زیادہ ہیں کہ سارا ملک
بھی بیچنا پڑے تب بھی ادا نہیں ہونگے۔ بجلی اور گیس کی کمپنیاں، ریلوے، پی
آئی اے، سٹیل مل بک جائیں تب بھی قرضوں کی صحت پر معمولی اثر پڑیگا۔ حکومت
نے قومی اسمبلی میں اعتراف کیا ہے کہ مالی سال 2015-16ء کی پہلی سہ ماہی
میں ٹیکس وصولیاں ہدف سے 1040ارب روپے کم رہیں۔
ہدف مقرر کرنیوالے سیکرٹری کو پوچھا جائے جس نے آمدنی کا وہ ہدف مقرر کیوں
کیا جسے پورا کرنا ممکن نہ تھا۔ پچھلے سال کے مقابلے آمدنی کے ہدف میں
19فیصد اضافہ حقیقت پسندی پر مبنی نہیں۔ ڈیوٹیاں ریگولیٹری ہوں یا ایکسائز
صارفین کے کندھوں پر ڈالی جاتی ہیں۔ اکنامک منیجرز نے عوام کو گدھا سمجھ
لیا ہے جس پر جتنا بوجھ ڈالتے جاؤ وہ بولتا نہیں۔ اس وقت کوئی سیاسی رہنما
اور جماعت بھی ایسی نہیں جو مالیاتی امور کا تجزیہ کرے اور حکومت کو للکار
سکے۔ عمران خان تو للکارتا رہتا ہے پر اسکی کون سنتا ہے؟ وہ کہتا ہے بڑے
ڈاکو اسمبلیوں میں ہیں چور کا احتساب چور نہیں کر سکتا لیکن شاید وہ وقت
قریب آرہا ہے جب سچ مچ احتساب ہو گا یہ کم بات نہیں کہ زرداری کا دستِ راست
ڈاکٹر عاصم ہتھکڑی پہنے پابند سلاسل ہے بھلا کوئی شریف آدمی انسداد
دہشتگردی کی عدالت میں پیش کیا جاتا ہے؟
آئی ایم ایف کا دباؤ اتنا بڑھتا جا رہا ہے کہ کاروباری لاگت بڑھتی جا رہی
ہے گردشی قرضہ بڑھتا جا رہا ہے۔ کسانوں کیلئے ریلیف یا حکومت کے ووٹ پیکیج
نے خزانے پر 100سے 120ارب کا بوجھ ڈال دیا ہے۔ رئیل اسٹیٹ ہر کیپیٹل گین
ٹیکس سے آزاد کیوں ہے؟ زراعت اور گلوبل انوسٹمنٹ سے آمدنی بھی ٹیکس کا مزہ
نہیں چکھ پا رہی۔ آئی ایم ایف پاکستان کی کوئی سیاسی جماعت نہیں جو
پاکستانی عوام کیلئے ریلیف کو اپنے منشور کا حصہ بنائے گی۔
آئی ایم ایف کو اپنے ڈالروں کی معہ سُود واپسی کی فکر ہوتی ہے۔ اسحاق ڈار
اب تک تو پروگروتھ اور پرو انوسٹمنٹ پالیسیاں سامنے نہیں لا سکے۔ الٹا
حکومت نے ترقیاتی اخراجات میں 25فیصد کمی کا حکم سرِتسلیم خم کیا ہے 2011ء
سے 2015ء تک قرضوں کی واپسی اور دفاع کی مد میں کُل حکومتی آمدنی کا 90سے
110فیصد خرچ ہوتا رہا ہے جاری اور ترقیاتی اخراجات کیلئے خسارے کی سرمایہ
کاری کے سوا زیادہ تر قرضے 29ملکوں کا کنسورشیم فراہم کریگا۔ اسحاق ڈار
کہتے ہیں کہ ملک ڈیفالٹ سے بچ گیا ہے بلکہ انہوں نے اپنی عقل، دانش سے اسے
ڈیفالٹ سے بچا لیا ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ 3.5ارب ڈالر کے انٹرنیشنل
بانڈز کے اجراء کے بعد قرضوں کا مزید بوجھ اٹھانے کی سکت نہیں رہی۔ ایک
رپورٹ حکومت کی رپورٹ آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے عوام کا دل بہلانے کو
میٹرو بسیں، اورنج لائن ٹرینیں، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام نئے سے نئے
پاور پراجیکٹس کا سنگ بنیاد ہی کافی ہیں۔ عوام بیچاروں کو قرضوں کی
باریکیوں کا کیا پتہ؟
250ارب کا گردشی قرضہ موجودہ حکومت کا کارنامہ ہے کہ سندھی وڈیروں کی
زمینوں پر لگے سرکاری ٹیوب ویلوں کی بجلی کاٹ دی ہے ۔ 2014-15ء کی سالانہ
رپورٹ میں نیپرا نے حقائق سے پردہ اٹھایا ہے جنریشن اور ڈسٹری بیوشن کے
حوالے سے ساری پاور کمپنیوں کی کارکردگی مایوس کن رہی ہے جس طرح ریل کے
ناکارہ ڈپو کا ڈھیر لگا ہے اسی طرح ہر شہر میں سینکڑوں ٹرانسفارمر بے کار
پڑے ہیں سرکاری اثاثوں کی پروا کسی کو بھی نہیں ہوتی اووربلنگ کا رونا اب
نیا نہیں رہا اووربلنگ ہو گی تو صارفین بجلی کے دفاتر کا طواف کرینگے۔
نیپرا اور حکومت کی پاور پالیسی ایک پیج پر دکھائی نہیں دیتی وزارت پانی و
بجلی کو نیپرا پر بالادستی حاصل ہے جیسے وزارت خزانہ کو سٹیٹ بنک کی سچی
باتیں کڑوی لگتی ہیں سٹیٹ بنک ہو یا نیپرا ریگولیٹری ادارے ہیں۔ قانون ان
اداروں کی آزادی میں مداخلت کی اجازت نہیں دیتا سارے سرکاری ادارے اصلاحات
کے طلب گار ہیں ہمارے بارے میں دنیا والے پیش گوئی کر رہے ہیں کہ 2050تک ہم
18ویں بڑی اکانومی بن جائینگے جبکہ اسحاق ڈار کے نزدیک نواز شریف کے ویژن
کی بدولت پاکستان کو یہ معراج 2025ء میں ہی نصیب ہو جائیگی۔ 18ویں بڑی
اکانومی بننے کیلئے گروتھ ریٹ ہی نہیں فی کس آمدنی میں اضافہ بھی ضروری ہے۔
تیل اور گیس کمپنی کی نجکاری کے بجائے پی آئی اے، ریلوے اور سٹیل مل کے
خساروں سے جان چھڑائی جائے۔ |