"قوم یا قائدیین-- قربانیاں کس نے دیں ؟ "
(Dr.Showkat Ul Islam , Srinagar)
حریت کانفرنس(گ)گروپ کے چیئرمن ستاسی سالہ
بزرگ کشمیری رہنما سید علی شاہ گیلانی نے گزشتہ دنوں رائزنگ کشمیر کو ایک
تفصیلی انٹریو دیا –اگر اس انٹریو کا خلاصہ مجھ سے صرف ایک جملے میں پوچھا
جائے تو میں صرف یہ لکھ سکتا ہوں-کہ قبلہ گیلانی صاحب کی نظر میں کشمیری
قوم ایک ہاری ہوئی جنگ لڑ رہے ہیں –اس جنگ کو ہارنے کی ذمہ داری قبلہ
گیلانی صاحب نے کشمیرعوام پر ڈال دی اورگیلانی صاحب نے کشمیری آزادی پسند
قیادت کو بری ذمہ قرار دیا – میں حیران ہوں کیا یہ واقعی سیدعلی شاہ گیلانی
صاحب کا بیان ہے –کیا گیلانی صاحب واقعی سمجھتے ہیں-کہ کشمیری عوام اس کے
لئے ذمہ دار ہیں ؟ کیا واقعی قوم نے نیک صالح اور زیرک قیادت کو ناکام
کردیا –میں یہ بھی سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ایسے میں نیک صالح اور زیرک کے
کیا معنی ہیں - تحریک آزادی کشمیر کی جدوجہد میں کشمیری قوم نے بیش بہا
قربانیاں پیش کی –میں وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ان قربانیوں کی مثال
تاریخ میں ملنا مشکل ہے –کشمیری عوام کی قربانیوں کی کہانی ١٣ جولائی ١٩٣١
سے بہت پہلے شروع ہوئی – ١٣ جولائی کا واقعہ کسی جادو کی چھڑی کا نتیجہ یا
کسی حریت کانفرنسی لیڈر کی کرامت نہیں ہے بلکہ اس دن کا پس منظر اور پیش
منظرصرف اور صرف کشمیر عوام کی آزادی کی تعیں لگن ،ایمان کامل اور قربانیوں
کے ساتھ جڑا ہوا ہے – یہ واقعہ نا صرف تاریخ آزادی کشمیر بلکہ تاریخ اسلام
کا ایک ایسا ورق ہے – جس پر کشمیری قوم کی آنے والی نسلیں ناز کریں
گیں-کشمیری قوم میں کہیں کمزوریاں ہیں –ہم لیڈر شناس قوم نہیں ہیں - کشمیری
قوم نے شیخ عبدللہ کو زمین سے آسماں تک پہنچا دیا –لیکن بدلے میں اس نے قوم
کو پاتال میں دفن کیا-١٩٧١ کے ہند پاک جنگ میں پاکستان کو بد ترین شکست
ہوئی – پاکستانی فوج نے جنرل امیر عبدللہ خان نیازی کی قیادت میں بھارتی
فوج کے سامنے سرنڈر کیا ٩٠ ہزار پاکستانی فوجیوں کو گرفتار کیا گیا –اور ان
فوجیوں کو آزاد کرانے کے لئے پاکستان نے شملہ سمجھوتہ کیا –جس سمجھوتے کے
تحت انڈیا اور پاکستان نے تمام آپسی معاملات باہمی طور حل کرنے کے پابند
ہوئے –بالفاظ دیگر اقوام متحدہ کی مداخت اور قراددادوں سے پاکستان نے
دستبرداری کا اعلان کیا ( حالانکہ کشمیری عوام اور لیڈر شپ کسی بھی ایسے
معاہدے کے پابند نہیں تھے اور نا ہونگے ) شاید اسی شکست خوردہ معاہدے اور
دغا بازی سے دل برداشت ہوکر شیخ عبدللہ نے ٢٥فروری١٩٧٥ ء کی محاذ رائے
شماری کے پلیٹ فارم سے آزادی کی جدوجہد کو ترک کرکے بھارت کے ساتھ معاہدہ
کرلیا ، شیخ محمد عبدللہ نے اس وقت جدجہد آزادی کو سیاسی آورگردی کا نام
دیا تھا - اس معاہدے کو اندرا عبداﷲ اکارڈ کے نام سے جانا جاتا ہے، اس وقت
بھی کشمیری عوام نے اپنے نام نہاد لیڈروں کو نہیں بلکہ ان نام نہاد لیڈروں
نے کشمیری عوام کو دھوکہ دیا – عوام کی آزادی کے تعیں لگن اور چاہت اس وقت
بھی برقرار تھی جس وقت اندرا گاندھی اور شیخ محمدعبداﷲ کے درمیان یہ معاہدہ
ہوا اسوقت وزیرِاعظم پاکستان ذوالفقارعلی بھٹو نے اس کے خلاف ہڑتال کی کال
دی-اور ٢٨ فروری ١٩٧٥ کو کشمیری عوام نے بے مثال ہڑتال کی اور دنیا پر واضح
کردیا کہ اگرچہ ہمارے لیڈر نے ہم کو دھوکہ دیا لیکن ہم پھر بھی آزادی کے
اپنے پیدائشی حق سے دستبردار نہیں ہوئے – انتخابی سیاست اور آزادی کی جدجہد
ایک سواری کے دو پہیے ہیں کے فلسفے کے ساتھ حریت قیادت نے آیین ہند کے تحت
انتخابی میدان میں قدم رکھا – جن میں قبلہ گیلانی صاحب پیش پیش تھے ٢٣ مارچ
١٩٨٧ء کو ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں مسلم متحدہ محاذ کو کشمیری عوام نے
اپنا بھرپور تعاون دیا –لیکن فاروق عبدللہ نے دلی کے ساتھ ملکر بدترین
انتخابی دھاندھلی کی – اس وقت بھی کشمیری لیڈران میں سیاسی بلوغیت کا فقدان
تھا –کہ یہ لوگ نہ اس دھاندلی کو روکنے کا ادارک کرسکے اور نا ہی انکا
سیاسی ویژن ان کو کام آیا – اور ایک مرتبہ پھر عوام کی کوششوں پر پانی پھر
گیا – یہ وہی دور ہے جب کشمیر میں مسلح جدوجہد کا آغاز ہوا – کشمیر کے ان
لیڈران نے کسی منظم عسکری تحریک شروع کرنے کے بجائے چھوٹے چھوٹے گروپ تشکیل
دیئے یہ بھی لیڈری کا ہی شوق تھا حالانکہ بعد میں ان میں سے اکثریت نے شیخ
عبدللہ کے نقش قدم پر چل کر اس کو عسکری آوارہ گردی کا نام دیا - جب میں
حریت کانفرنس کی مجلس عاملہ پر نظر دوڑاتا ہوں – تو مجھے وہی لوگ نظر آتے
ہیں جواس عسکری آوارہ گردی کو خیر باد کرچکے ہیں –جہاد اورجدوجہد تو دور
کنا یہ لوگ صرف عسکری اور سیاسی بالا دستی کیلئے ایک دوسرے کی گردنیں
اتارنے اور مال بنانے میں لگے ہوئے تھے – اور اسی سیاسی بالادستی کا شکار
کشمیر کے کچھ نہایت ہی اہم شخصیات ہوئیں –جن میں ڈاکٹر گورو شہید .خواجہ
عبدلغنی لون شہید ،مولنا فاروق صاحب (میروائظ کشمیر ) شہید ،ڈاکڑ قاضی نثار
شہید اور جماعت اسلامی کے سیکنڈوں کارکنان بشمول ڈاکٹر غلام قادر وانی شہید
شامل ہیں بقول پروفیسر غنی ان سب کو کسی انڈیا نے نہیں شہید کیا بلکہ یہ
ہماری باہمی رنجشوں کا شکار ہوئے – اس کے ساتھ ساتھ تقریبا سوا لاکھ لوگوں
نے اپنے جانوں کا نذرانہ پیش کیا جن میں میرے والد محترم شہید محی الدین
صاحب بھی شامل ہیں –یہ سوا لاکھ لوگ جنہونے نے قربانیاں دی کشمیری عوام کے
ہی بچے ہیں جن کو مورد الزام ٹھہرایا جارہا ہے –کسی حریت کانفرنسی نے
قربانی کے لئے اپنا بچہ پیش نہیں کیا –ہزاروں افراد کو زیر حراست شہید کیا
گیا اور یہ ہزاروں افراد بھی یہی عام کشمیری ہیں جن کو مورد الزام ٹھرایا
گیا ہے –لاکھوں مکانات اور دکانات کو خاکستر کر دیا گیا-جس میں میرا ذاتی
مکان بھی شامل ہے جسے گن پوڈر چھڑک کر خاکستر کیا گیا – کشمیر کی معشیت
برباد ہوچکی ہے اور آئے روز ہڑتالوں سے یہ مزید مفلوج ہوگئی ہے –ہر دوسرے
تیسرے دن ہڑتالوں کی کال دی جاتی ہے –جن ہڑتالوں سے آج تک کوئی فائدہ نہیں
ہوا –جس کشمیری عوام کو مورد الزام ٹھرایا جارہا ہے یہ ان کا ہی احسان ہے
کہ لیڈرشپ کا بھرم بنا ہوا ہے ورنہ وہ ہڑتال کو مسترد بھی کرسکتے تھے –پر
نہیں آزادی کے ساتھ ان کی کمنٹمنٹ پکی ہے –اور الفت حریت کی وجہ سے ہی وہ
حریت کانفرنس کے ان ناز نخروں کو برداشت کئے ہوئیے ہیں - ١٩٨٩ سے آج تک
تقریبا ٢٥٠٠٠ خواتین نے اپنے سہاگ کی قربانیاں پیش کیں –اور بہت سے ایسے
خواتین ہیں جنہونے اپنی عصمتیں کھودیں –یہ قربانیوں کی آخری حد ہے-لگ بھگ
١٠٠٠٠ لوگ ایسے ہیں جن کے بارے میں کوئی پتہ نہیں کہ آیا وہ شہید ہوئے ہیں
یا کسی تنگ اورتاریک زیرزمین عقوبت خانے میں قید ہیں – یہ ایک نہایت ہی
تکلیف دہ اور دردناک حالت ہے – اس کے تکلیف اور درد کے بارے میں اندازہ بھی
نہیں کیا جاسکتا ہے – میں یہ درد سمجھتا ہوں کیونکہ میرے ماموں مشتاق احمد
خان ساکن سوپور بھی ان دس ہزار افراد میں سے ایک ہیں – ان گم شدہ افراد کے
لواحقین ہر مہینے کی دس تاریخ کو سرینگر میں ایک خاموش احتجاج کرتے ہیں-اس
احتجاج میں بھی آپ کسی حریتی کو نہیں دیکھیں گے کیونکہ کسی حریت کانفرنسی
کے بچے کو آج تک غائب نہیں کیا گیا – یہ گمشدہ افراد بھی وہی عام کشمیری
ہیں جن پر یہ الزام تراشیاں ہورہی ہیں - یہ قربانیوں کی چند مثالیں ہیں
ورنہ ان کی لسٹ بہت لمبی ہے -اکتوبر ٢٠٠٣ ء میں ریاست جموں و کشمیر میں
کنٹرول لائن پرپاکستان نے یکطرفہ فائر بندی کرکے ہندوستان کو یہ موقع فراہم
کیا کہ وہ 700 کلومیٹر سے زائد کنٹرول لائن پر برقی تار نصب کرکے متنازعہ
علاقہ میں کشمیریوں کی آمد ورفت کو روکنے کا باعث بنا – میرے جذبات اور
احساسات کے مطابق یہ باڈ کنٹرول لائن پر نہیں بلکہ کشمیریوں کے سینے پر
لگائی گئی ہے –اس وقت بھی یہ حریت کانفرنس کی یہ ناکام لیڈرشپ پاکستان کو
قائل کرنے میں ناکام ہوئی –اس ناکامی کا سہرا کسی بھی طور عوام کے سر نہیں
بھاندھا جاسکتا ہے - جنوری ٢٠٠٤ ء میں سارک کانفرنس میں اس وقت کے وزیراعظم
اٹل بہاری واجپائی کے ساتھ ” اعلان اسلام آباد“ کی صورت میں ایک ایسا
متنازعہ معاہدہ کیا گیا جس میں دہلی سرکار کو یہ یقین دلایا گیا کہ آزاد
کشمیر کی سرزمین تحریک آزادی کے لئے استعمال نہیں ہونے دی جائے گی۔ یہ ان
حریت کانفرنسیوں کی سب سے بڑی ناکامی تھی –جو پاکستان کو اس بات کے لئے
قائل کرنے میں ناکام ہوئے کہ بھیا ہماری تو کشتی ڈوبی ہی ہوئی ہے آپ بھی
غرق ہونے والے ہو – بھلا ان کو اتنی سوچ ہے ہی کہاں -ان کی ساری توجہ
وازوان کے ان رستوں اور گوشتابوں پر ہوتی ہے جو ہر بار پاکستانی سفارت خانے
میں ان کی تواضح کیلئے بنتے ہیں – یہ لوگ اپنی نجی محفلوں میں اکثر او آئی
سی اور عرب لیگ کو کوستے رہتے ہیں –ان سے کوئی پوچھے کیا سفارتی سطح پران
لوگوں یا ان کے نمائندوں نے ریال اور ڈالر کے سوا کچھ اور بھی مانگا ہے –
بھارتی ایجنسی ریسرچ اینڈ اینلائنسز ونگ (را) کے سابق سربراہ امرجیت سنگھ
دلت نے ایک بار کہا کہ بھارتی خفیہ ایجنسیاں کشمیر میں سیاسی جماعتوں سمیت
عسکریت پسندوں اور حریت پسندوں کو کئی برسوں سے ادائیگی کر رہی ہیں۔ بھارتی
ایجنسیوں کا اس اقدام کا مقصد پاکستان کی انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس
آئی) کے اثرورسوخ کا مقابلہ کرنا ہے ۔ میں کیا کوئی بھی سیاسی تجزیہ نگار
اس بات پر متفق نہیں ہوسکتا کہ شری دلت نے کلی طور سب کچھ سچ کہا ہوگا ضرور
کچھ نا کچھ ملاوٹ اس میں ہوگی – مگر ایسا بھی کوئی امکان نہیں ہے کہ اس نے
یہ کہانی کھڑی کی ہو کہیں نا کہیں اور کسی نا کسی سطح پر حریتیوں میں کچھ
لوگ ایسے ہیں جو دونوں طرف سے مال بٹورتے ہیں – یہاں بھی یہ الزام کسی عام
کشمیری پر نہیں بلکہ حریتیوں اور دوسرے مین سٹریم سیاستدانوں پر لگا -خلیل
جبران نے ’’ہوسِ اقتدار‘‘ کے عنوان سے ایک افسانہ لکھا۔ اس کا مرکزی کردار
ایک ایسا دیوقامت لیڈر تھا جس کا سر انسان کا اور پائوں لوہے کے بنے ہوئے
تھے۔ اس کی خوراک یہ تھی کہ یہ مسلسل دھرتی اور دھرتی پر رہنے والوں کو
کھاتا چباتا چلا جارہا تھا۔ پیاس بجھانے کے لیے یہ سمندر کے پانیوں کو پیتا
جاتا تھا۔ یہ جتنی زیادہ زمین کھاتا اتنی ہی اس کی بھوک بڑھتی جاتی تھی ۔
یہ جتنا زیادہ سمندر کو پیتا، اُتنی ہی اس کی پیاس میں اضافہ ہوتا چلا جاتا
تھا ۔ اس نے شہر، گاوں، عمارتیں چرند و پرند سب کچھ ڈھکارلیا ، پھر بھی یہ
بھوکا اور پیاسا ہوتا جارہا تھا۔ سمندر میں پانی کم ہوتا جاتا تھا، مگر اس
کی پیاس نہیں بجھ رہی تھی۔ اس کے دل میں صرف ایک ہی بات کا ڈر تھا کہ اگر
زمین ختم ہوگئی یا سمندر خشک ہوگیا تو وہ کیا کھائے پیئے گا---جب میں یہ
افسانہ پھڑ رہا تھا - مجھے ایسے لگا کہ خلیل جبران نے یہ افسانہ ان جیسے
لوگوں کو دیکھ کر لکھا ہوگا- جن کا روزگار مسلہ کشمیر اور کشمیر میں جاری
خون ریزی کے ساتھ جڑا ہوا ہے – اگر مسلہ کشمیر حل ہوا بالفاظ دیگر اگر
کشمیر آزاد ہوا تو سب سے بڑا مسلہ اسی قبیلے کو ہوگا –لہذا ان مٹھی بھر
رہبر نما رہزنوں کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ مسلہ کشمیر زیادہ سے زیادہ
الجھ جائے-
میری حریت کانفرنس کے سب دھڑوں سے اپیل ہے ایک دوسرے کے ساتھ تو آپ دست
گریبان تو تھے ہی –اب عوام کے ساتھ بھی یہی سب کچھ نا دہرایا جائے –کیونکہ
عوام پانی کی ماند ہیں اور آپ سیاست دان مچھلیاں. اگر پانی خشک ہوگیا تو
مچھلیاں فدک فدک اور تڑپ تڑپ کر مرجاتی ہیں –میں ابھی ابھی گریٹر کشمیر پر
ایک خبر دیکھ رہا تھا یہ خبر ونہ گام بانڈی پورا کی ایک دکھیاری ماں ہاجرہ
بیگم کی ہے – بارہ سال قبل جس کے دو بچے شہید ہوئے ہیں اور مزید دو بچوں کو
لاپتہ کردیا گیا تھا –اسی غم میں اس عظیم ماں کا سہارا اس کا شوہر بھی فوت
ہوا – میڈیا رپورٹس کے مطابق آج تک اس دکھی اور لاچار ماں کے پاس نا کوئی
حریت کانفرنسی گیا اور نا ہی کسی اور طرف سے سہارا ملا – اس کے دو گم شدہ
بچوں کا کیس بھی کشمیر کی آہنی عورت( جو بہت مردوں سے اعلی ظرف ہے ) پروینہ
آہنگر بہن لڑ رہی ہیں ، بہن پروینہ آہنگر ہی اس ماں کو کچھ مالی معانت ،
کپڑے ادویات وغیرہ فراہم کرتی ہے –الله پروینہ آہنگر کو جزاۓ خیردے – صاحب
ثروت افراد سے میری اپیل ہے کہ ایسے لوگوں پر اپنے آس پاس اڑوس پڑوس میں
نظر رکھیں –اور ایسے مجبور لاچار لوگوں کی مدد کریں - |
|