ترکی نے روس کے جیٹ طیارے کو کیوں نشانہ بنایا ؟

دنیا بھر میں دہشتگردی کی وباء اس قدر عام ہوچکی ہے کہ یہ ایک ڈراؤنے خواب کی طرح ہوچکی ہے۔روس اس خوفناک خواب کو تعبیر کو غلط قرار دینے پر تلا ہوا تھا کہ ترکی نے دہشتگردوں کے خلاف مشن انجام دینے والے روسی جیٹ طیارے کو نشانہ بنا ڈالا اور دہشتگردی کیخلاف جنگ کا نقشہ بدل دیا ترجیحات تبدیل ہوگئیں۔
شام کی جنگ میں روس کی شمولیت کے بعدآشکار ہونے والی چشم کشا حقیقت یہ تھی کہ امریکی جنگی طیارے داعش کی تیل کی تنصیبات اور سپلائی نیٹ ورک سے اغماض برت رہے تھے۔ انداز ہ ہے کہ داعش یومیہ ایک ملین ڈالر کا تیل فروخت کرتی ہے اور یہ بھی ایک کھلاراز ہے کہ یہ تیل ٹرکوں کے ذریعے ترکی پہنچتا ہے۔اسکا خریدار ترک صدر کا بیٹا ہے۔ کچھ عرصے سے یہ خبر بھی تھی کہ ترکی کے تاجر، جو داعش کو اشیا کی فراہمی اور سستے تیل کی تجارت سے بھاری نفع کمارہے ہیں، اُن کا تعلق مبینہ طور پر موجودہ ترک صدر، طیب اردوان کی حکومت سے ہے۔ حقیقت سامنے دکھائی دیتی ہے کہ داعش سے سستا تیل خرید کر اور اُسے اشیا کی فراہمی سے ترکی کو بھاری فائدہ پہنچ رہا تھا، چنانچہ وہ ہر گز نہیں چاہتا تھا کہ روسی طیارے اس سپلائی لائن کو تباہ کریں۔پیرس حملوں سے پہلے تک امریکی اور فرانسیسی طیارے داعش کی تیل کی تنصیبات کو نشانہ نہیں بنارہے تھے۔

اس دوران اہم پیش رفت دو مشہور ترک صحافیوں کی گرفتاری بھی ہے ۔ اُنھوں نے انکشاف کیا تھا کہ ترکی کے خفیہ ادارے شام میں ترکمان باغیوں کو ہتھیار فراہم کررہے ہیں۔ان دونوں نے ان ٹرکوں کی ویڈیو بنا کر صحافتی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے منتشر کردی۔انہیں گرفتار کرکے انکے خلاف غداری کا مقدمہ چلایا جارہا ہے۔ اگرچہ مغربی دنیا اور غیر ملکی صحافی اس بات سے کافی عرصہ سے باخبر تھے لیکن داخلی طور پر یہ بات طیب اردوان کے لیے شرمندگی کاباعث بنی اور پھر اس نے دہشت گردوں پر بمباری کرنے والے طیارے کو گرا کر ، بقول صدر پیوٹن، ''روس کی پشت میں خنجر گھونپا ہے‘‘۔ترکی کا موقف امریکہ نے بھی غلط قرار دیا ہے کہ طیارے کی پرواز کا دورانیہ سترہ سیکنڈ کے بجائے صرف پانچ سیکنڈ تھا۔ جبکہ ایک بات طے ہے کہ گرایا جانے والے طیارہ صرف اسد حکومت کے خلاف لڑنے والے ترکمان باغیوں کو ہدف بنارہا تھا، اس سے ترکی کو کوئی خطرہ لاحق نہ تھا۔ روس کے ریسکیو ہیلی کاپٹر پر فائرکیے جانے والا TOW میزائل امریکی ساختہ تھا اور اس کو خریدنے کے لیے رقم کی ادائیگی سعودی عرب نے کی تھی۔

پیرس حملوں کے بعد فرانسیسی صدر داعش مخالف اتحاد بنانے کی کوشش کررہے تھے، روسی طیارہ گرانے کے واقعے نے مسائل کی پیچیدگی بڑھا دی۔ اس پس ِ منظر میں یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ترکی نے روسی طیارہ کیوں گرایا ؟ شاید کسی کو یا د ہو کہ 2012ء میں شام نے بھی ترکی کا ایک طیارہ ایسی ہی فضائی حدود کی خلاف ورزی کو جواز بنا کر مارگرایا تھا۔ اُس وقت مسٹر اردوغان کا کہنا تھا ۔۔۔''فضائی حدود کی ہلکی سی خلاف ورزی پر حملہ کرنے کا کوئی جواز نہ تھا۔‘‘ نیٹو کے سیکرٹری جنرل نے بھی اس واقعے کو ''شام کی طرف سے عالمی اصولوں کی خلاف ورزی‘‘ کی ایک اور مثال قرار دیا تھا۔ درحقیقت ترک فضائیہ نے گزشتہ چند ایک عشروں کے دوران یونا ن کی فضائی حدود کی سینکڑوں مرتبہ خلاف ورزی کی ہے لیکن دوسری طرف سے کسی رد ِعمل کا اظہار نہیں کیا گیا۔

ترکی کے ایکشن پر زیادہ مغربی ریاستیں ناخوش ہیں۔ کچھ میں غصہ ہے۔انہوں نے ترکی کیلئے یورپی یونین کے دروازے ہمیشہ کیلئے بند کردیئے ہیں۔یہاں تک کہ بعض نے نیٹو رکنیت پر بھی سوالات اٹھا دیئے ہیں۔ کچھ تو داعش کی تباہی سے پہلے بشارالاسد کو وقت دینے کے لیے تیار تھے۔ تاہم اب صدر پیوٹن ترکی پر غصے میں ہیں ، چنانچہ داعش کو شکست دینے کے لیے کسی اتحاد کے وجود میں آنے کے امکانات دم توڑتے دکھائی دیتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ترکی نے روسی طیارے کو گرا کر اتنا بڑا رسک کیوں لیا؟یقینا اسد مخالف قوتوں کے خلاف روسی مہم بہت موثر ثابت ہورہی تھی۔اس پر انقرہ اور سعودی عرب دونوں کو تشویش تھی۔ سعودی عرب داعش کا حامی ہے اسے امداد اور اسلحہ دیتا ہے۔اس کے علاوہ شام کے ترکمان جنگجو ، جو روسی طیاروں کا نشانہ تھے، انکے نسلی تعلقات ترکی سے ہیں۔ یہ شام کی خانہ جنگی میں فرقہ وارانہ کشیدگی اور نسلی رقابت کی صرف ایک مثال ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ترکی، یواے ای ، امریکہ اور قطر جو ہتھیار اسد حکومت کے باغیوں کو فراہم کررہے ہیں، وہ آخر کار داعش کے جنگجووں کے پاس پہنچ جاتے ہیں۔ سعودی فنڈنگ اسکے علاوہ ہے۔

حالیہ دنوں ترک معیشت پہلے ہی دباؤ کا شکار ہے، روسی اقدامات سے اسے مزید صدمہ پہنچے گا۔مگر فائدہ صرف سعودی عرب کا ہوگا جس کی شہہ پر روس کے ساتھ ترکی نے تعلقات خراب کرلیے ہیں کیونکہ ان ممالک کی باہمی چپقلش سے دہشتگرد تکفیری گروہ داعش محفوظ ہوجائے گا۔
 
zahra batool
About the Author: zahra batool Read More Articles by zahra batool: 2 Articles with 1043 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.