باتیں تو بہت فکر انگیز تھیں، مگر مسئلہ یہ آن پڑا
ہے کہ ہم اپنی عادات تبدیل کرنے کے موڈ میں نہیں ہیں، ہم ہر قیمت پر اس
محاورے پر عمل پیرا رہنا چاہتے ہیں ، جس میں کہا گیا ہے کہ ’’عادتیں سر کے
ساتھ جاتی ہیں‘‘۔ چیف جسٹس آف پاکستان انور ظہیر جمالی نے ایک تقریب سے
خطاب کرتے ہوئے ایسی باتیں کیں، جنہیں سن کر انسان کچھ دیر کے لئے سوچنے پر
مجبور ہوجاتا ہے، مگر کیا کریں کہ ایسی باتوں پر عمل کرنے کے لئے ضروری
ماحول دستیاب نہیں ہوتا۔ باتیں سنیں، ہال سے باہر نکلے اور باتوں کے اثرات
ہال میں ہی چھوڑ آئے۔ انہوں نے کہا ’’․․․ ہم بحیثیت قوم بے حسی اور بے
یقینی کا شکار ہیں، اگر ہم باہمی اختلافات ختم کردیں تو دنیا کی بہترین قوم
بن سکتے ہیں، ہم بدانتظامی اور کرپشن کی وجہ سے تباہی کے دہانے تک پہنچ چکے
ہیں، سرکاری وسائل کو بے دردی سے استعمال کرتے ہیں، یہ سب کچھ ہمارے برے
اعمال کا نتیجہ ہے، ہمیں سوچنا چاہیے کہ کیا ہم وہی قوم ہیں جس کا خواب
اقبال اور قائد نے دیکھا تھا، ہمارے مسائل حل کروانے کوئی مسیحا آسمان سے
نہیں اترے گا، نہ کوئی باہر سے آئے گا، مجھے افسوس ہے کہ ہم منزل سے کوسوں
دور ہیں، ہمیں منزل پانے اور ترقی کرنے کے لئے آئین اور قانون کو مقدم
رکھنا ہوگا․․․‘‘۔
یہ ہمارا اجتماعی رویہ ہے، اس میں حکومت اور عوام برابر کے ذمہ دار ہیں،
مگر اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ تبدیلی اوپر سے شروع ہوتی ہے، اگر
حکمران عوام کو دیانتداری، محنت وغیرہ جیسے اوصاف کا درس دیتے رہیں اور خود
اپنی مالی حالت بہتر کرتے رہیں، دوسروں کو سادگی کا سبق سکھائیں اور خود
پروٹوکول اور مراعات کی آڑ میں عیاشیوں کے سمندر میں غوطہ زن رہیں، عوام کو
قانون پر عمل کرنے کی ہدایت کریں اور خود قانون کی دھجیاں بکھیرنے میں سب
سے آگے ہوں۔ یہ تبدیلیاں تو اسی وقت آسکتی ہیں جب انسان خود کسی کام پر عمل
کرے اور اس کے بعد دوسروں کو ایسا کرنے کے لئے کہے۔ حکومت عوام سے ٹیکس
نچوڑتی ہے، کہ قرض بہت زیادہ ہیں، ضرورتیں پوری نہیں ہوتیں، مگر اپنی اربوں
کروڑوں روپے کی عیاشیوں میں ایک روپے کی کمی کرنے کے لئے تیار نہیں، سیر
سپاٹے اور پروٹوکول کو کوئی بھی کرپشن نہیں کہہ سکتا، قانون اور آئین کے
دائرے میں رہ کر لوٹ مار کا بازار گرم ہے۔ چیف جسٹس نے بقول ہم سرکاری نل
بند کرنا بھول جاتے ہیں، یعنی سرکاری وسائل کا بے دردی سے استعمال کرتے
ہیں۔جب اس حکومتی رویے میں تبدیلی نہیں آئے گی، قوم کو بچت ، سادگی اور اسی
قسم کی دیگر باتوں کا درس مناسب نہیں لگتا۔
چیف جسٹس آف پاکستان کا یہ کہنا اب بہت پرانی اور روایتی بات لگتی ہے، کہ
کیا ہم وہی قوم ہیں جس کا خواب اقبال نے دیکھا تھا اور جس کے لئے قائد نے
پاکستان بنایا تھا؟ اگر ہم صدر اور وزیراعظم سے لے کر عوام تک دیکھیں تو
معلوم ہوگا کہ یہ قطعاً وہ پاکستان نہیں، یہ بالکل مختلف پاکستان ہے، جہاں
نہ اصول ہیں، نہ اخلاق، نہ سوچ ہے اور نہ ہی احساس۔ ہر کوئی اپنی دھن میں
مگن ہے، ہر کوئی نہایت یکسوئی کے ساتھ لوٹ مار اور ماردھاڑ میں مصروف ہے۔
جو لوگ کرپشن نہیں کرتے، ان کی تعداد بہت زیادہ نہیں، کسی دفتر میں سائل کو
چکر لگوانا، اسے مشکل میں ڈالنا، ہوتے ہوئے کام میں بھی رکاوٹیں کھڑی کرنا
دفاتر کی عام کاروائیاں ہیں، ظاہر ہے یہ باتیں کرپشن تو نہیں کہلواتیں، مگر
عوام کا خیال ہوتا ہے کہ اگر کچھ ’خدمت‘ کردی جائے تو ساری مشکلیں پلک
جھپکنے میں ہی آسان ہوجاتی ہیں۔
سوچنے والی بات یہ ہے کہ آخر بہتری کی جانب سفر کب شروع ہوگا، کون اس کا
آغاز کرے گا، بارش کا پہلا قطرہ کون بنے گا؟ یقینا ذمہ دار تو حکومت ہے،
مگر اساتذہ کے بھی فرائض ہیں، کہ وہ نئی نسل تیار کرتے وقت ان باتوں کا
خیال رکھیں کہ انہی بچوں نے آگے جاکر ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہے، ان کو کس
طرح بہتر شہری اور اچھا مسلمان بنایا جاسکتا ہے۔ یہ علما کا فرض بھی ہے کہ
وہ محراب ومنبر پر عوام کو مخاطب کرتے ہوئے قوم کو اتحادِ امت کا درس دیں،
انہیں انتشار پھیلانے کے طریقوں پر لگانے کی بجائے انہیں اخوت سکھا ئیں،
ایک دوسرے کا غم بانٹنے والا بنائیں۔ افسوس کہ یہ دونوں طبقے اپنے فرائض
احسن طریقے سے ادانہیں کررہے۔ مگر سب سے زیادہ رکاوٹ خود حکومت ہے، کہ جس
کا کوئی مطمع نظر ہی نہیں، جس کی کوئی منزل ہی نہیں، جس کی بہتری کی کوئی
منصوبہ بندی ہی نہیں۔ دورے، بیانات اور اپنی مرضی کے چند میگا پراجیکٹس سے
عوام کو قوم کی شکل نہیں دی جاسکتی، اس کے لئے قیادت کی ضرورت ہے، مگر وہی
افسوس کہ موجودہ قیادتوں میں وہ دم خم نہیں۔ |