اسحاق ڈار صاحب ابھی سانس باقی ہے․․․․․

غضب خدا کا ہمارے امیر ترین وزیرِ خزانہ نے نے غریبوں کا جینا دوبھر کرنے کا مکمل بندو بست کر لیا ہے۔لے دے کر اب عوام کے پاس گھُٹی ہوئی سانسیں باقی ہیں ۔اگر ممکن ہوا تو وزیر خزانہ کی دست برد سے وہ بھی سلامتی کی متمنی رہیں گی۔دنیاکے ممالک میں حکومتیں اپنے شہریوں کو سکون فراہم کرتی ہیں اور انہیں ضروریاتِ زندگی سستی ترین فراہم کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ مگر ہمارے موصوف وزیرِخزانہ عوام کے لئے بے سکونی اور مہنگائی کے پروانے بانٹ رہے ہیں۔تنخوہیں اور پینشن بڑھانے میں تو ان کی روح فرار مانگتی ہے۔مگر عوام پر بے جا بوجھ ڈال کر موصوف خوشی سے پھولے نہیں سماتے ہیں۔انتہائی تکلیف دہ امریہ ہے کہ عام استعمال کی تقریباََ ہر چیز پرجے ایس ٹی کی شکل میں پہلے ہی ٹیکس لاگوکیا جاچکا ہے۔وزیر خزانہ یہ بتائیں کہ دس بارہ ہزار روپے تنخواہ لینے والا کوئی صرف چار افراد کا خاندن جو نہ تو بچوں کو اسکول بھیج سکتا ہے اور نہ ہی وہ اپنی صرف خوراک کی ضروریات پوری کرسکتاہے۔جبکہ شہروں میں رہنے والے مزدور پیشہ افراد گھر کے تصور سے تو ویسے ہی لابلدہیں۔تووہ کیسے زندہ رہیں؟؟؟کیا انہیں سر چھپانے کے لئے گھر کی ضرورت نہیں ہے؟؟؟کیا انہیں بچوں کی اسکولنگ کی ضرورت نہیں ہے؟؟؟کیا تن ڈھانپنے اور موسم کی سختیوں سے بچنے کی ا نہیں ضرورت نہیں ہے ؟؟؟ کولڈ اور ہیٹ پروف گھروں اور گاڑیوں کے استعمال کرنے والوں کو کسی غریب کی ضرورتوں کا کبھی بھی اندازہ ہوا ہے؟؟؟یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے غریبوں کے خون پسینے کے ایک ایک قطرے سے اپنے محلات کی اونچی اونچی عمارتیں بنوائی ہیں ۔مگر ان سفاکوں کا غریبوں کی بے بسی پر کبھی بھی دل نہیں پسیجتا ہے۔ان کا اگر بس چلے تو یہ اپنی مہمات میں ایک مہم ’’غریب مٹاؤ سرمایہ داری بڑھاؤ ‘‘ کو کبھی ختم نہ ہونے دیں۔

وزیر خزانہ نے اپنا مہنگائی کا ایٹمی دھماکہ 27 نومبر 2015کو پاکستان کی قومی اسمبلی میں کیا ۔جس کا جواز موصوف نے یہ پیش کیا کہ ملک کے قرضوں کی ادائیگی کی صلاحیت (جو غا لباََ ختم ہوچکی ہے)کو بہتر بنانے کے لئے حکومت مجموعی داخلی ٹیکسوں کا تناسب بڑھا کر 13فیصد تک لیجائے گی۔جس کے تحت عام کے استعمال کی ہر ہر چیز پر نامناسب انداز میں ٹیکس لگا کر عوام کی کمر دہری کر کے رکھ دی ہے۔دنیا میں پیٹرول اپنی سستی ترین سطح کو چھو رہا ہے۔اور دن بدن اس میں کمی کا رجحان ہے مگر مجال ہے حکومت تیل کی قیمتیں کم کرے۔اس پرجنرل سیلز ٹیکس کی شرح 18فیصد کرنے کے ساتھ ہی ہائی اسپیڈ ڈیزل پر سیلزٹیکس کی شرح 45 فیصد اور پیٹرول پر 24 فیصد کردی گئی ہے۔جو مزید عوم کی کمر میں بے دھار کا خنجر پیوست کردینے کے مترادف ہے۔

کھانے پینے کی ا شیااور خاص طور پر(پاکستانی برانڈکی ملاوٹی اشیاکے نیم البدل کے طور پر عوام) جو کھانے پینے کی چیزیں استعمال کرتے ہیں اُن سمیت 350 چیزیں مہنگی ترین سطح پر پہنچا دی گئی ہیں۔جن پر پانچ سے دس (جو خود بخود پچاس سے سوفیصد تک پہنچ جائیگا)فیصد مہنگی کر دی گئی ہیں۔ان میں مکھن ،بسکٹ،شہید،ٹوتھ پیسٹ کے ساتھ چاکلیٹ،اورشیمپو شامل ہیں اور ان میں کئی نصف تعیشاتی اشیابھی شامل ہیں۔حکومت نے 40،ارب روپے کے زائد اور اضافی ٹیکسز عائد کر کے عوام کا سانس لینا محال کر دیا ہے۔حد تو یہ ہے کہ بینکوں سے 50،ہزار روپے تک کے لیں دین پر 6 فیصد ود ہولڈنگ ٹیکس لگاکر ’’امبر پر ٹھیکڑی‘‘ (آسمان پر پیوند)لگادی ہے۔

آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن پر عوام کے ساتھ یہ بھیانک کھیل کھیلا جارہا ہے۔289،اشیاء میں عوام کے عام استعمال کی بھی بعض چیزیں ہیں جنکو لگژری آئٹم میں شمار کر کے ان پر ڈیوٹی لگادی گئی ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ61 اشیاء ایسی ہیں جن پر پہلے ڈیوٹی نہیں تھی اُن پر 5 ، سے 10 فیصد ڈیوٹی لگا دی گئی ہے۔جن اشیاء پر پہلے5 فیصدڈیوٹی تھی اُن پر بڑھا کر دس فیصد ڈیوٹی کردی گئی ہے اور جن پر 10فیصد ڈیوٹی تھی ا ُ ن پر ڈیوٹی کی شرح بڑھا کر 15فیصد کردی گئی ہے۔پولٹری مصنوعات سمیت دیگر کئی درآمدی اشیاء پر بھی ایڈیبل کسٹم ڈیوٹی لگا دی گئی ہے۔اس طرح منی منی بجٹ عوام کی کمر پر لاد دیا گیا ہے۔جس سے عوام بے حال ہوجائیں گے۔مگر اونچے ایوانوں پر اس کا کوئی اثر نہ ہوگا۔ان کی بالا سے عوام بد حال ہوں یا خود کشیاں کریں۔

ود ہولڈنگ ٹیکس کے خلاف لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد اُٹھ کھڑی ہوئی ہے۔جس کی وجہ سے کہ سندھ ہائی کورٹ میں ان ٹیکسز کے خلاف 282درخواستیں دائر کی گئیں ،مگرتمام درخواستیں سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے مسترد کردی گئیں۔بدھ کو ہائی کورٹ کے چیف جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں قائم دو رکنی بینچ نے دائر درخواستوں کی سماعت کی۔ود ہولڈنگ ٹیکس کے سلسلے میں دونوں فریقین کے دلائل سُننے کے بعد عدالت نے درخوستیں مسترد کر دیں۔عدالت نے قرار دیا کہ درخواست گذار فیصلے کے خلاف دو ہفتوں میں سُپریم کورٹ سے رجوع کر سکتے ہیں اس دوران فیصلے کا اطلاق نہیں ہوگا۔

اس مہنگائی پر قائد حزبِ اختلاف سید خورشید شاہ کا اسمبلی کے فلور پر کہنا تھا کہ ہم 40 ، ارب کے ٹیکسوں کو ہم یکسر مسترد کرتے ہیں۔ان کاکہناتھا کہ حکومت نے ہر چیز مہنگی کردی ہے۔عوام کو صرف لالی پاپ دیا جا رہا ہے۔حکومت کی اقتصادی پالیسی ناکام ہوچکی ہے۔ایک جانب ملک قرضوں کے بوجھ تلے دبا جا رہا ہے۔تو دوسری جانب عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ ڈالا جا رہا ہے۔ان کا کہنا تھاحکومت کی طرف سے آئے دن نئے ٹیکسوں کا نفاذ اس بات کا ثبوت ہے کہ کہ حکومت کی اقتصادی پالیسی ناکام ہوچکی ہے۔اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ روز روز نئے نئے ٹیکسوں کا جواز نہیں ہے۔مہنگائی بے روزگاری اور افراطِ زر میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔عوام کے لئے حکومت کا یہ طرزِ عمل ظالمانہ ہے۔ھکومت کو غریب آدمی کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔حکومت کہتی ہے کہ معیشت اچھی جا رہی ہے۔ تو پھر قرضے کیوں لئے جا رہے ہیں؟اچھی معیشت کے ثمرات سے عوام کو کیوں محروم رکھا جا رہا ہے؟

ہم کہتے ہیں کہ اسحاق ڈار صاحب !آپ کا بس چلے تو آپ عوام کے سانس لینے پر بھی ٹیکس لگا دیں۔کیونکہ اب صرف یہ ہی عوام کے پاس رک رک کر چلتا باقی ہے۔پاکستان کے 20 کروڑ عوام آپ سے دست بستہ کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف کا ڈکٹیشن لینا چھوڑیں۔ پاکستان کے عوام کی بد حالی پر ترس کھائیں اور ان سے زندہ رہنے کا حق نہ چھینیں-

Prof Dr Shabbir Khursheed
About the Author: Prof Dr Shabbir Khursheed Read More Articles by Prof Dr Shabbir Khursheed: 285 Articles with 189683 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.